https://youtu.be/qghDcE3PzSQ ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ ٔ نبوّت میں سےا علیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اورخدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفےٰ واحمد مجتبےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جس کے زیر ِسایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی‘‘(حضرت مسیح موعودؑ) (تقریر برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ ۲۰۲۵ء) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (آل عمران :۳۲) وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا۔ (النساء :۷۰-۷۱) ترجمہ ان آیا تِ کریمہ کا یہ ہے :اللہ فرماتا ہے ،اے محمد مصطفےٰ ؐ!لوگوں میں یہ اعلان کردوکہ اگر تم اللہ کی محبّت حاصل کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو،اللہ تم سےمحبت کرے گا اورتمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور باربار رحم کرنے والا ہے۔ اورجو بھی اللہ کی اوراِس رسول صلّی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت وفرمانبرداری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو اُن لوگوں میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے (یعنی )نبیوں میں سے ،صدّیقوں میں سے ، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔اور یہ بہت ہی اچھے ساتھی ہیں۔یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے اورا للہ صاحبِ علم ہونے کے لحاظ سے بہت کافی ہے۔ ان آیات میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اگر اللہ کی محبت حاصل کرنا چاہتےہو تو حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت لازمی ہے۔اور پھر اللہ کی محبت کے حاصل ہوجانے کی علامات کیا ہوں گی،فرمایا ایسے لوگوں میں صالحین کا مرتبہ پانے والے نکلیں گے،شہداء کا مرتبہ پانے والے ظاہر ہوں گے، صدّیقوں کا مرتبہ پانےو الے ظاہر ہوں گے اور پھر وہ صاحبِ کمال بھی ظاہر ہوں گے جنہیں نبوّت کے انعام سے بھی نوازا جائے گا اورنبوّت کے کمالات سے وہ حصّہ پانے والے ہوں گے۔ اس مختصر تمہید کے بعد آئیے اب دیکھیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام نے اپنے آقا ومطاع حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلّی اللہ علیہ وسلم سےمثالی محبت اور کامل اطاعت کااپنے قولی ،فعلی اور حالی کردار سے کیا نمونہ دکھایا ہے۔ جہاں تک حضورعلیہ السلام کے کلام ،نظم ونثر کے ذریعہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم سے عشق ومحبت کے تئیں آپ کے دلی جذبات کا اظہار ہوتاہے وہ آپ علیہ السلام کی ۸۰سے زائد تصانیف پرپھیلے ہوئےہیں۔مَیں وقت کی رعایت سے صرف چند نمونے پیش کرتاہوں: اپنے فارسی اشعار میں آپ علیہ السلام فرماتےہیں ؎ عجب نوریست در جانِ محمدؐ عجب لعلیست در کانِ محمدؐ اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمدؐ ہست برہانِ محمدؐ سرے دارم فدائے خاکِ احمدؐ دلم ہر وقت قربانِ محمدؐ دِگر اُستاد را نامے ندانم کہ خواندم در دَبستانِ محمدؐ ترجمہ :یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں خدا نے عجب نُورودیعت کررکھا ہے اورآپؐ کی مقدّس کان عجیب وغریب جواہرات سے بھری پڑی ہے۔سواگر اے منکرو! تم محمدؐ کی صداقت کی دلیل چاہتےہو تو دلیلیں تو بے شمار ہیں مگر مختصر رستہ یہ ہے کہ اُس کے عاشقوں میں داخل ہوجاؤ کیونکہ محمدؐ کا وجود اس کی صداقت کی سب سےبڑی دلیل ہے۔میرا سراحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خاکِ پاپر نثار ہے اور میرا دل ہر وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان رہتا ہے۔میں اَورکسی اُستاد کا نام نہیں جانتا مَیں تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےمدرسہ کا پڑھا ہوا ہوں۔ اسی طرح ایک اَور فارسی شعر میں فرماتےہیں: بعد از خُدا بعشقِ محمدؐ مخمّرم گر کفر ایں بَوَد بخُدا سخت کافرم یعنی کہ خُدا کے بعد مَیں محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار ہوں۔اگر یہ عشق کُفر ہے تو خدا کی قسم! مَیں سب سے بڑا کافر ہوں۔ پھر اپنے عربی قصیدہ میں فرماتےہیں: اُنْظُرْ اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَّ تَحَنُّنٍ یَا سَیِّدِیْ اَنَا اَحْقَرُ الْغِلْمَانِیْ یَا حِبِّ اِنَّکَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّۃً فِیْ مُھْجَتِیْ وَ مَدَارِکِیْ وَ جَنَانٖ مِنْ ذِکْرِ وَجْھِکَ یَا حَدِیْقَۃَ بَھْجَتِیْ لَمْ اَخْلُ فِیْ لَحْظٍ وَلَا فِیْ آنٖ ترجمہ :’’تُو مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر۔اے میرے آقؐا!میں ایک حقیر ترین غلام ہوں۔اےمیرے محبوب! توازراہِ محبت میری جان،میرے حواس اور میرے دل میں داخل ہوگیاہے۔اے میری خوشی کےباغ!تیرے چہرے کی یادسے میں ایک لحظہ اورآن کےلیے بھی خالی نہیں رہا۔‘‘ پھر اپنے اُردو اشعار میں اپنے عشق اور فدائیت کےجذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں: وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا نام اُس کا ہے محمد ؐ دلبر میرا یہی ہے اُس نورپر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ایک اَور شعر میں فرماتےہیں ؎ برتر گمان و وہم سے احمدؐ کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزّمان ہے (دُرّثمین اردو) اب حضورعلیہ السلام کے کلام نثر سےکچھ اقتباسات پیش کرتاہوں۔ فرماتےہیں :’’وہ اعلیٰ درجہ کا نُور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو۔وہ ملائک میں نہیں تھا۔نجوم میں نہیں تھا۔قمر میں نہیں تھا۔ آفتا ب میں بھی نہیں تھا۔وہ زمین کے سمندروں اوردریاؤں میں بھی نہیں تھا۔وہ لعل اور یاقوت اور زمرّد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔غرض وہ کسی چیز ارضی وسماوی میں نہیں تھا۔صرف انسان میں تھا۔یعنی انسانِ کامل میں ،جس کا اتمّ اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد ومولیٰ سیّدالانبیاء سیّدُالاَحیاءمحمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ ۱۶۰-۱۶۱) اسی طرح فرماتےہیں : ’’ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ ٔ نبوّت میں سےا علیٰ درجہ کا جوانمرد نبیؐ اور زندہ نبیؐ اورخدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبیؐ صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔یعنی وہی نبیوں کا سردار ،رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفےٰ واحمد مجتبےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جس کے زیر ِسایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی۔‘‘(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲صفحہ۸۲) اب خاکسار بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام ، جو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی غلام اور عاشقِ صادق ہیں کے افعال وکردار کے حوالے سے چند نمونے پیش کرتاہے: آپؑ کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے حضورعلیہ السلام کے عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ۱۹۶۰ء کے جلسہ سالانہ ربوہ میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ ’’یہ خاکسار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں پیدا ہوا اوریہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے۔ مَیں اُسی آسمانی آقا کو حاضر وناظر جان کر کہتاہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینےپر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جِھلّی نہ آگئی ہو۔آپؑ کے دل ودماغ، بلکہ سارے جسم کا رُؤاں رُؤاں اپنے آقا حضرت سرورِ کائنات فخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کےعشق سے معمور تھا۔‘‘ اسی تسلسل میں داستانِ عشق کاایک اَورواقعہ سنیے:دُنیا میں پیارے سےپیارے وجود فوت ہوتے رہتے ہیں جن کے عزیز واقارب چند دن یا چند ماہ تک انہیں یاد کرکے اپنے دلوں میں کَسَک محسوس کرتےہیں۔لیکن یہ کیسا محبوب اور معشوق ہے کہ جس کے وصال پر چودہ صدیوں کا طویل عرصہ گزرچکا ،مگر آج بھی اُس کاایک عاشقِ صادق اُس جانگداز واقعہ کے تصوّر سے بے چین ہوکر آنسوؤں سے روتا جاتا اورتنہائی میں اپنے محبوب کے ایک اَور عاشق حضرت حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر گنگناتا ہے۔ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ یعنی اَے میرے محبوب!تُو میری آنکھ کی پُتلی تھا جو آج تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہے۔اب تیرے بعد جو چاہے مَرے،مجھے تو صرف تیری موت کا ڈرتھا جو واقع ہوگئی۔ راوی (حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانی ؓ)کا بیان ہے کہ جب مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجدمبارک میں اکیلے ٹہلتے اورآنسوؤں سے روتے دیکھا تو گھبراکر عرض کیا کہ حضرت! یہ کیا معاملہ ہے اورحضورکو کون سا صدمہ پہنچا ہے ؟ حضورعلیہ السلام نے فرمایا :’’مَیں اِس وقت حسّان بن ثابتؓ کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اورمیرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ ’’کاش!یہ شعر میری زبان سے نکلتا۔‘‘ پس دیکھیے اورسوچیے یہ کیسا پاکیزہ عشق ہے کہ اپنے محبوب ؐکی یاد نے اُس کے ایک ایسے عاشق کے ذکر کو بھی زندہ کردیا جو چودہ سوسال پہلے گزر چکا۔ بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتاہے کہ آپؑ نے حج نہیں کیا۔اوّل تو ارکانِ اسلام میں سے کلمہ ،نماز ،روزہ اورزکوٰ ۃ کےبعد پانچواں رکن حج کی عبادت کا ہے اور اس کے لیے بہت سی شرائط ہیں کہ اس سفر کے اختیار کرنے کی استطاعت ہو اور راستے کا امن ہو وغیرہ اورجب تک یہ شرائط پوری نہ ہوں حج فرض ہی نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے ایک تو راستہ کا امن مفقود تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے ایسے عظیم الشان کام آپ کےسپرد فرمائے تھے جو حج سے بھی زیادہ مقدّم تھے۔اصل تو دل کی حالت کو دیکھنا چاہیے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےدل کی حالت تو یہ تھی جو آپؑ نے اپنے ایک شعر میں بیان فرمادی کہ جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا یَا لَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیَرَانٖ کہ اے میرے محبوب !میرا جسم تو عشق کے غلبہ سے تیری طرف اُڑنا چاہتا ہے۔اَے کاش !کہ مجھے اُڑنے کی طاقت ہوتی۔ اسی تعلق میں حضورعلیہ السلام کے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیر احمد ؓکی ایک روایت پیش کرتا ہوں۔آپؓ فرماتےہیں: ’’ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طبیعت کچھ ناسازتھی اورآپ گھر میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جانؓ اورہمارے ناناجان حضرت میر ناصر نواب صاحب ؓ مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہوگیا۔حضرت ناناجان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کےلیے سفر اورراستے وغیرہ کی سہولت پیداہورہی ہے ،حج کو چلنا چاہیے۔ اُس وقت زیارت حرمَین شریفَین کے تصوّر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپؑ اپنے ہاتھ کی اُنگلی سے اپنے آنسوپونچھتے جاتے تھے۔حضرت ناناجان کی بات سُن کر فرمایا :’’یہ تو ٹھیک ہے اورہماری بھی دلی خواہش ہے۔مگر مَیں سوچا کرتا ہوں کہ کیا مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےمزار کو دیکھ بھی سکوں گا۔‘‘ یہ ایک خالصۃً گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غورکیا جائے تو اِس میں اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیںجو عشقِ رسولؐ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلبِ صافی میں موجزن تھیں۔حج کی کس سچے مسلمان کو خواہش نہیں مگر ذرا اِس وجود کی بےپایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح ،حج کے تصوّر میں پروانہ وار رسولِ پاکؐ کےمزارپر پہنچ جاتی ہے اوروہاں اُس کی آنکھیں اِس نظارہ کی تاب نہ لاکر بند ہونی شروع ہوجاتی ہیں۔(تقریر جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۰ء) جواپنے سینوں میں ایک حسّاس دل رکھتےہیں وہ خوب سمجھ سکتےہیں کہ اِس عاشقِ رسولؐ کے پاکیزہ دلی جذبات کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیا قدروقیمت ہے اور اسی حقیقت کی آئینہ دار یہ حدیثِ نبوی ؐہے جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:نِیَّتُ الْمُوْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖکہ بعض اوقات ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے کہ ایک مومن کی نیک نیّت اورپاکیزہ دلی جذبات اُس کےعمل پر سبقت لےجاتے اور عمل سے زیادہ قبولیت کا درجہ اورشرف پاجاتے ہیں۔ محبت ،اطاعت کا تقاضا کرتی ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آقا ومطاع حضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں اطاعت کا یہ عالم تھا کہ ہر چھوٹا بڑا کام کرنے سے قبل یہ دیکھتے تھے کہ یہ فعل قال اللہ اور قال الرّسولؐ کے تابع آتا ہے یا نہیں۔اورہر کام میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کوپیش نظر رکھتے۔حتّٰی کہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اپنے آقا کی اِتّباع میں لذّت پاتے اور اس کا غیرمعمولی خیال رکھتے۔چنانچہ اِس وقت مَیں بظاہر دوبہت معمولی واقعات بیان کرتاہوں۔کیونکہ انسان کا کردار زیاہ تر چھوٹی باتوں سے بھی ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ آپؑ مولوی کرم دین والے تکلیف دہ فوجداری مقدمہ کے تعلق میں گورداسپور تشریف لے گئے تھے۔وہ سخت گرمی کا موسم تھا اوررات کا وقت تھا۔آپ کے آرام کے لیے مکان کی کُھلی چھت پر چارپائی بچھا دی گئی تھی۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےیہ دیکھا کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے تو آپ نے ناراضگی کےلہجہ میں خدام سے فرمایا :’’کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نےبےپردہ اور بے منڈیر کی چھت پر سونے سےمنع فرمایا ہے۔‘‘ پھر چونکہ اس مکان میںکوئی اَور مناسب صحن نہیں تھا آپؑ نے شدّت کی گرمی کے باوجود بند کمرے میں رات گزاردی مگر اُس بےمنڈیر کی چھت پر نہیں سوئے۔ ایک اَور موقع پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنےکمرے میں تشریف رکھتے تھے اوراُس وقت باہر سے آئے ہوئے کچھ مہمان بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کسی شخص نے دروازے پر دستک دی۔ اس پر حاضرُ الوقت لوگوں میں سے ایک شخص نے اُٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان صاحب کواُٹھتے دیکھا تو جلدی سے اُٹھے اورفرمایا: ’’ٹھیریں ٹھیریں۔مَیں خود دروازہ کھولوں گا۔آپ مہمان ہیں اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔‘‘ سامعین کرام ! ایک عاشقِ صادق کے سوا کہ جس کی نظر ہر حرکت وسکون کے وقت اپنےمحبوب کی اَداؤں پر رہتی ہو،کوئی دوسرا بظاہر ایسی معمولی معمولی ہدایتوں کو ملحوظ نہیں رکھ سکتا۔ پھر عشق اورمحبت ،غیرت کا بھی تقاضا کرتی ہے اس سلسلہ میں صرف ایک واقعہ پیش کرتاہوں۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتےہیں : ’’پنڈت لیکھرام کو کون نہیں جانتا وہ آریہ سماج کے بہت بڑے مذہبی لیڈر تھے۔اوراس کے ساتھ اسلام کے بدترین دشمن بھی تھے جن کی زبان اسلام اورمقدّس بانی اسلام کی مخالفت میں قینچی کی طرح چلتی اورچھری کی طرح کاٹتی تھی۔انہوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر کھڑے ہوکر اسلام اورمقدس بانی اسلام پر گندے سے گندے اعتراض کئے اورہر دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو ایسے دندان شکن جواب دئیے کہ کوئی کیا دے گا۔مگر یہ صاحب رُکنے والے نہیں تھے۔آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام کا یہ مقابلہ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مباہلہ پر ختم ہوا جس کے نتیجہ میں پنڈت جی حضرت مسیح موعود ؑکی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھتے ہوئے اور ہزاروں حسرتیں اپنے سینے میں لیے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہی پنڈت لیکھرام کا یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں ایک سٹیشن پر گاڑی کا انتظارکررہے تھے کہ پنڈت لیکھرام کا بھی اُدھر گزر ہوگیا اور یہ معلوم کرکے کہ حضرت مسیح موعودؑ اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں پنڈت جی دنیاداروں کے رنگ میں اپنے دل کے اندر آگ کا شعلہ دبائے ہوئے آپ کے سامنے آئے۔آپؑ اس وقت نماز کی تیاری میں وضو فرمارہے تھے۔پنڈت لیکھرام نے آپؑ کے سامنے آکر ہندووانہ طریق پر سلام کیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔گویا کہ دیکھا ہی نہیں۔اس پر پنڈت جی نے دوسرے رخ سےہوکر پھر دوسری دفعہ سلام کیا اور حضرت مسیح موعودؑ پھر خاموش رہے۔جب پنڈت جی مایوس ہوکر لوٹ گئے توکسی نے یہ خیال کرکے کہ شاید حضرت مسیح موعودؑ نےپنڈت لیکھرام کا سلام سنا نہیں ہوگا حضور سے عرض کیا کہ پنڈت لیکھرام آئے تھے اورسلام کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیر ت کے ساتھ فرمایا کہ ’’ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اورہمیں سلام کرتاہے!!!‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ ۲۵۴وسیرت مسیح موعودؑ مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ ) یہ اس شخص کاکلام ہے جوہر طبقہ کےلوگوں کے لیے مجسم رحمت تھا ہندوؤں میں اس کے روز کے ملنےو الے دوست تھے اور اس نےہر قوم کے ساتھ انتہائی شفقت اور انتہائی ہمدردی کا سلوک کیا مگر جب اس کے آقا اور اسکےمحبوب صلی اللہ علیہ وسلم کیلیے غیر ت کا سوال آیا تو اس سے بڑھ کر ننگی تلوار دنیا میں کوئی نہیں تھی۔‘‘(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ صفحہ ۲۵-۲۶) اب دیکھنا یہ ہے کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو،جو چودھویں صدی کےمجدّد اور اس زمانہ کے دجّالی فتنوں کے انسداد اوراحیائے اسلام کی غرض سے مسیح موعود اور مہدی ٔ معہود کےمنصب پر فائز کرکے مبعوث فرمایا گیا ہے اُس کی حقیقت کیا ہے اورآپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مثالی عشق ومحبت اور کامل اطاعت کےنتیجہ میں ،بمطابق آیت سورۂ النساء جس کی خاکسار نے ابتدا میں تلاوت کی تھی آپؑ کوخدا کی محبت اور قربِ الٰہی کے چار مراتب میں سے بالخصوص کون سا مرتبہ عالیہ عطاہوا ہے۔تو اس سلسلہ میں بنیادی امر جو سمجھنے اورذہن نشین کرنے کے لیے ضروری ہے ،وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اوراحادیث صحیحہ اور اقوالِ بزرگانِ اُمت کی روشنی میں مسیح موعود اورامام مہدی علیہ السلام کامنصب اورمرتبہ کیا بیان ہواہے اوروہ یہی ہے کہ اُس امام الزمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی والہام اوربکثرت مکالمہ ومخاطبہ کا شرف عطا ہوگا اور اسی شرف کو اصطلاحِ شریعت میں نبوت کے مقام سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ سب انعام واکرام حضرت نبی ٔکریم محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم سےمثالی محبت اور کامل اطاعت کے نتیجہ میں عطاہوا ہے۔ اس عارفانہ نکتہ کو سمجھنے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات پیش کرتاہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں : ’’میں اسی ( خدا )کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ مخاطبہ کیا اورپھر اسحٰقؑ سے اوراسماعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اورموسیٰؑ سے اورمسیحؑ ابن مریم سے اورسب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپؐ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایساہی اُس نےمجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھےمحض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔اگرمَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپؐ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کےبرابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگزنہ پاتا۔‘‘(تجلّیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۴۱۱-۴۱۲ ) نیز فرماتےہیں : ’’اللہ جلّ شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحبِ خاتَم بنایا۔یعنی آپؐ کو افاضہ کمال کے لیے مہر دی جوکسی اَور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی اِسی وجہ سے آپؐ کا نام خاتَم النبیّین ٹھیرا۔یعنی آپؐ کی پیروی کمالاتِ نبوت بخشتی ہے اورآپؐ کی توجۂ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوتِ قدسیہ کسی اَور نبی کو نہیں ملی۔‘‘(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ ۱۰۰حاشیہ ) اسی طرح فرمایا : ’’میں بڑے یقین اور دعویٰ سے کہتاہوں کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم پر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے وہ شخص جھوٹا اور مفتری ہے جو آپ کے خلاف کسی سلسلہ کو قائم کرتاہے اورآپ کی نبوت سے الگ ہوکر کوئی صداقت پیش کرتا اور چشمہ ٔ نبوت کو چھوڑتا ہے۔مَیں کھول کر کہتاہوں کہ وہ شخص لعنتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سواآپ کے بعد کسی اور کو نبی یقین کرتاہے اورآپ کی ختم نبوت کو توڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کوئی ایسا نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد نہیں آسکتا جس کےپاس وہی مہر نبوت محمدیؐ نہ ہو۔ہمارے مخالف الرائے مسلمانوں نےیہی غلطی کھائی ہے کہ وہ ختم نبوت کی مہر کو توڑ کر اسرائیلی نبی کو آسمان سے اُتارتے ہیں۔اورمَیں کہتاہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اورآپ کی ابدی نبوت کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے کہ تیرہ سوسال کےبعد بھی آپ ہی کی تربیت اور تعلیم سے مسیح موعود آپ کی اُمت میں وہی مہرِ نبوت لےکر آتا ہے۔اگر یہ عقیدہ کفر ہے توپھر میں اس کفر کو عزیز رکھتا ہوں لیکن یہ لوگ جن کی عقلیں تاریک ہوگئی ہیں جن کو نورِ نبوت سے حصہ نہیں دیا گیا اس کو سمجھ نہیں سکتے۔اور اس کو کفر قرار دیتےہیں۔حالانکہ یہ وہ بات ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال اور آپ کی زندگی کاثبوت ہوتا ہے۔‘‘(الحکم ۱۰؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ ۲کالم ۲) نیز ایک اَورجگہ فرماتےہیں :’’اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے دونام مَیں نے پائے۔ایک میرا نام اُمّتی رکھا گیا جیسا کہ میرے نام غلام احمدسے ظاہر ہے۔دوسرے میرا نام ظلّی طور پر نبی رکھا گیا۔جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حصصِ سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا۔اور اسی نام سے باربار مجھ کو پکارا اوریہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں ظلّی طور پر نبی ہوں۔پس میں اُمّتی بھی ہوں اور ظلّی طور پرنبی بھی ہوں۔اسی کی طرف وہ وحی الٰہی بھی اشارہ کرتی ہے جو حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہے۔کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ۔یعنی ہر ایک برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔پس بہت برکت والا وہ انسان ہے جس نے تعلیم کی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔اور پھر بعد اس کے بہت برکت والا وہ ہے جس نے تعلیم پائی یعنی یہ عاجز۔ پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام اُمتی ہوا۔اورپورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہوگیا۔ پس اس طرح پر مجھے دونام حاصل ہوئے۔‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۳۶۰) شرائط بیعت جن پر عمل کرنے کا عہد کرکے ایک شخص جماعت احمدیہ میں داخل ہوتا ہے اُس میں ایک شرط یہ رکھی گئی ہے کہ ’’بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکمِ خُدا اور رسولؐ کےاداکرتا رہے گااور حتّی الوسع نماز تہجد کےپڑھنے اور اپنے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہرروز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گااوردلی محبت سے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے اُس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہرروزہ وِرد بنائے گا۔‘‘(اشتہار ۱۲؍جولائی ۱۸۸۹ء) ایک شخص نے بیعت کے بعد عرض کیا کہ حضورمجھےکوئی وظیفہ بتائیں ،فرمایا ’’نمازوں کو سنوار کر پڑھو۔کیونکہ ساری مشکلات کی یہی کُنجی ہے۔اور اِس میں ساری لذت اور خزانے بھرے ہوئے ہیں۔صدقِ دل سے روزے رکھو۔صدقہ و خیرات کرو۔ درود واستغفار پڑھا کرو۔‘‘ (الحکم جلد ۷پرچہ ۲۸؍فروری۱۹۰۳ء) حضرت مولوی غلام حسین صاحب ڈنگویؓ نے بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے والد صاحب چشتیائی طریق سے تعلق رکھتے ہیں۔اس لیے احمدیت سے قبل میرا بھی اس طریق کے وظائف کی طرف میلان تھا بلکہ ایک حد تک اب بھی ہے۔پس حضورمجھے کوئی وظیفہ بتائیں جو مَیں پڑھا کروں۔فرمایا ’’ہمارے ہاں تو کوئی ایسا وظیفہ نہیں ہے۔ہاں استغفار بہت کیا کریں۔اورحضرت نبی ٔ کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کو بہت یادکرکے آپؐ پر کثرت سے درود بھیجا کریں۔بس یہی وظیفہ ہے۔‘‘(بحوالہ محامد خاتم النبیین ؐ مرتّبہ مولانا محمد اسماعیل صاحب مرحوم ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ایمان اور یقین تھا کہ محبوبِ الٰہی بننے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی کامل اِتّباع کی جائے۔نہ یہ کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کوچھوڑ کر اپنے طور پر نئے نئے طریقے قُربِ الٰہی کے تلاش کرنے کے لیے ایجاد کرلیے جائیں۔اِس تعلق میں آپؑ فرماتےہیں : ’’اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندرپیدا نہیں کرسکتا جب تک نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرزِ عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بناوے۔… محبوبِ الٰہی بننے کےلیے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی اِتباع کی جاوے۔سچّی اِتباع آپؐ کے اخلاقِ فاضلہ کا رنگ اپنےا ندر پیدا کرنا ہوتاہے۔مگر افسوس ہے کہ آجکل لوگوں نے اِتباع سے مراد صرف رفع یَدَین ،آمین بالجہر اور رفع سَبابہ ہی لےلیا ہے۔باقی امور کو جو اخلاق فاضلہ آپؐ کے تھے اُن کو چھوڑ دیا۔‘‘(الحکم جلد ۶نمبر ۲۷صفحہ ۵-۸مورخہ ۳۱؍جولائی۱۹۰۲ء) نیز فرماتےہیں :’’اپنی شامتِ اعمال کو نہیں سوچا۔اُن اعمالِ خیر کو جو پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم سےملے تھے ترک کردیا اوراُن کی بجائے خُود تراشیدہ درودوظائف داخل کرلیے۔اورچند کافیوں کا حفظ کرلینا کافی سمجھا گیا۔ بُلہے شاہ کی کافیوں پر وجد میں آجاتے ہیں۔ …دیکھا گیا ہے کہ بعض اِن رقص وسرود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاں اُتارلیتے ہیں اور کہہ دیتےہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھتے ہی وجد ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیدا ہوگئےہیں۔…مَیں ان مخالفوں سے جو بڑے بڑے مشائخ اور گدّی نشین اور صاحبِ سلسلہ ہیں ،پوچھتا ہوں کہ کیا پیغمبرِ خُدا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم تمہارے درود ووظائف اورچِلّہ کشیاں ،اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے تھے اگر معرفت اور حقیقت شناسی کایہی ذریعہ اصل تھے۔… ایک طرف تو یہ ظالم طبع لوگ مجھ پر افتراء کرتےہیں کہ گویا مَیں ایسی مستقل نبوّت کا دعویٰ کرتاہو ں جو صاحبِ شریعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا الگ نبوّت ہے مگر دوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے کہ جھوٹی نبوّت کا دعویٰ تو خود کررہےہیں جبکہ خلافِ رسول اور خلافِ قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتےہیں۔اب اگر کسی کے دل میں انصاف اور خُدا کا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیاہم رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کرتےہیں۔جبکہ اسی قرآن شریف کےبموجب ہم تعلیم دیتےہیں اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا امام اورحَکَم مانتےہیں۔کیا اَرّہ کا ذِکر مَیں نے بتایا ہے اور پاسِ انفاس اور نفی واثبات کے ذکر اورکیا کیا مَیں سکھاتا ہوں۔پھر جھوٹی اورمستقل نبوت کا دعویٰ تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں۔ یقیناً یادرکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہوسکتا اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کا متّبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کو خاتَم النّبیّین یقین نہ کرے۔جب تک ان محدثات سےالگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتَم النّبیّین نہیں مانتا کچھ نہیں۔…ہمارا مدّعا جس کے لیے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف اورصرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت قائم کی جائے جو ابد الآباد کے لیے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کردیا جائے جو ان لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۴۲۸۔ ۴۲۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اَب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےایسےدواشعار پیش کرتاہوں جوحضرت اقدس محمد مصطفےٰ صلّی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ اورآپؐ کی روحانی زندگی اور اس حقیقی عاشق اورغلامِ صادق کےمرتبہ ومقام کے گویا خلاصہ کا رنگ رکھتے ہیں۔چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں : اِنِّیْ لَقَدْ اُحْیِیْتُ مِنْ اِحْیَائِہٖ وَاھًا لِاِعْجَازٍ فَمَا اَحْیَانِیْ یعنی بے شک میں آپؐ کے زندہ کرنے سے ہی زندہ ہوا ہوں۔سبحان اللہ !کیا اعجاز ہے اورمجھے کیا خوب زندہ کیا ہے۔یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اعلیٰ وارفع مقام ومرتبہ اورآپؐ کی ابدی روحانی زندگی کےجو ثبوت مَیں پیش کرتا ہوں اورجو حقیّت اور صداقتِ اسلام اورثمراتِ حسنہ سے مَیں دنیا کو روشناس کرارہا ہوں اور قرآن کریم کےجو حقائق ومعارف دنیا کے سامنے پیش کرکے اس آخری شریعت کو کامل ومکمل اور دائمی نجات کا ذریعہ قراردے رہا ہوں یہ سب کمالات دراصل اُسی زندہ نبی کی نقد برکات ہیں۔چنانچہ فرماتےہیں: ایں چشمۂ رواں کہ بخلقِ خدا دہم یک قطرۂ ز بحرِ کمالِ محمدؐ است ترجمہ :معارف کا یہ دریائے رواں جو میں مخلوقِ خُدا کو دے رہا ہوں یہ محمدؐ کےکمالات کے سمندر میں سے ایک قطرہ ہے۔ اورحرفِ آخرجس پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں وہ حضورعلیہ السلام کاایک عربی شعر ہے جس میں آپؑ فرماتےہیں: اِنِّیْ اَمُوْتُ وَ لَا تَمُوْتُ مَحَبَّتِیْ یُدْرٰی بِذِکْرِکَ فِی التُّرَابِ نِدَائِیْ ترجمہ :میں تو مرجاؤں گالیکن میری محبت نہیں مرے گی۔(قبر کی)مٹی میں بھی تیرےذکر کے ساتھ ہی میری آواز جانی جائے گی۔ یَا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَبَعْثٍ ثَانِیْ وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: عفو و در گزر کی اہمیت و افادیت