اطاعت ایک ایسی چیزہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تودل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی ا س قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے۔ اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتاہے۔بدوں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیزہے جو بڑے بڑے موَحّدوں کے قلب میں بھی بُت بن سکتی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پرکیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی۔یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملّیّت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے۔ اوراگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں۔ مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اوراندرونی تنازعات بھی ہیں ۔ پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اورایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے۔ اس میں یہی تو سرّہے۔ اللہ تعالیٰ توحید کو پسند فرماتاہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جائے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں صحابہؓ بڑے بڑے اہل الرائے تھے۔خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی۔ وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرامؓ خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالاہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتاہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی مگر رسول کریم ﷺکے حضور ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپؐ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اُس کے سامنے حقیر سمجھا اور جو کچھ پیغمبر خدا ﷺ نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا۔ ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے اور آپ کے لَب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے۔ اگر ان میں یہ اطاعت یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتااورپھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے …غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعو دؑ کے ہاتھ سے طیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ ﷺنے طیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلاکر صحابہؓ کی جماعت سے ملنے کی آرزو رکھتے ہو اپنے اندر صحابہؓ کا رنگ پیدا کرو۔ اطاعت ہو تو ویسی ہو۔باہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو۔ غرض ہر رنگ میں ،ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہؓ کی تھی۔ (ملفوظات جلد۲ صفحہ۳۴تا۳۶۔ ایڈیشن۲۰۲۲ء) کیا اطاعت ایک سہل امر ہے جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔ حکم ایک نہیں ہوتابلکہ حکم تو بہت ہیں۔ جس طرح بہشت کے کئی دروازے ہیں کہ کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے اور کوئی کسی سے داخل ہوتا ہے، اسی طرح دوزخ کے کئی دروازے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم ایک دروازہ تو دوزخ کا بند کرو اور دوسرا کھلا رکھو۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ۴۱۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء) مزید پڑھیں: نیک صحبت کا اثر اور اخلاقی بلندی