انسان کی پیدائش کا اوّلین مقصد عبادت الٰہی قرارد یا گیا ہے۔عبادت صرف نمازو روزہ اور حج و زکوٰۃ کا نام نہیں بلکہ مخلوق خدا کی خدمت اور اُس سے حسن سلوک عبادت میں شامل ہیں۔قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانا اور اُن کے مطابق عمل کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب اور پسندیدہ عمل ہے۔ جیسا کہ اُس نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ: صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (البقرۃ:۱۳۹) اللہ کا رنگ پکڑو۔ اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہوسکتا ہے۔یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے ساتھ معاملات کرتا ہے اور اس دنیا میں کارفرما اپنی صفات کا جلوہ دکھاتا ہے۔ اُس کے بندوں کو چاہیے کہ وہ بھی اُس کی صفات کو اپنائیں اور اُن کے رنگ میں رنگین ہوکر اُس کی مخلوق کے ساتھ معاملات کیا کریں۔ پس جس انسان پر ان صفات کا جس قدر رنگ چڑھتا جائے گا وہ اُسی قدر اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوکراُس کے قریب ہوتا چلاجائے گا۔عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی معاف کرنے، بخش دینے، بدلہ نہ لینے اور درگزر کرنے کے ہیں۔ گویا عفو انسانی اوصاف میں سے نہایت عمدہ وصف اور اعلیٰ خلق ہے۔ یہ خلق اپنانے سے بغض وعداوت اور کدورت دور ہوتی ہے۔دل کینہ اور حسد سے پاک ہوتے اور باہمی محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنہ میں ایک صفت ”الْعَفُوٌ“ہے یعنی وہ بہت معاف کرنے والا، گناہوں سے درگزر کرنے والااور اُن کے بد اثرات کو زائل کرنے والا ہے۔قرآن شریف کے متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی تعلیم دی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (آل عمران:۱۳۵) (یعنی) وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا (النساء:۱۵۰) اگر تم کوئی نیکی ظاہر کرو یا اسے چھپائے رکھو یا کسی بُرائی سے چشم پوشی کرو تو یقیناً اللہ بہت در گزر کرنے والا (اور) دائمی قدرت رکھنے والا ہے۔ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا ہے:خُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف:۲۰۰) عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔عَنْ عائشۃ فی قول اللّٰہ (خُذِالْعَفْوَ) قَالَ: ماعفی لک من مکارم الاخلاق (الدرالمنثور فی التفسیر الماثور الجزء الثالث سورۃ الاعراف آیت:۲۰۰ صفحہ۶۲۹، دارالفکر بیروت۲۰۱۱ء) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خُذِالْعَفْوَکے ضمن میں فرمایا: معاف کرنا اور درگزر کرنا آپ ﷺ کے مکارم اخلاق میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے:وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ (الشوریٰ:۳۸) اور جب وہ غضبناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے: وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا (النور:۲۳) پس چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ ان آیات سے واضح ہے کہ عفوو درگزر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کس قدر محبوب اور پسندیدہ عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں میں شمار ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی مخلوق کے ساتھ نرمی اورشفقت کا سلوک کیا جائے اور جہاں تک بس چل سکے اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنا چاہیے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: الا ادلکم علی اشرف اخلاق الدنیا والآخرۃ؟کیا میں دنیا اور آخرت کے اعلیٰ ترین اخلاق پر تمہاری راہنمائی نہ کروں؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا۔ یارسول اللہﷺ وہ کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا:تعفو عمن ظلمک، وتعطی من حرمک، وتصل من قطعک (الدرالمنثور فی التفسیر الماثور الجزء الثالث سورۃ الاعراف آیت:۲۰۰ صفحہ۶۲۸،دارالفکر بیروت۲۰۱۱ء) اُس سے در گزر کرجو تیرے ساتھ ظلم کرے، اُسے عطا کر جو تجھے محروم رکھے اور اُس سے صلہ رحمی کر جو تیرے ساتھ قطع تعلقی کرلے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور عفو کرنے سے اللہ بندہ کو عزت میں ہی بڑھاتا ہے اور کوئی بھی اللہ کی خاطر انکساری نہیں کرتا ہے مگر اللہ اس کا درجہ بڑھاتاہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ بَاب اسْتِحْبَابِ الْعَفْوِ وَالتَّوَاضُعِ حدیث:۴۶۷۵) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عفو کے بارےمیں فرماتے ہیں:”دوسری قسم ان اخلاق کی جوایصال خیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلا خلق ان میں سے عفو ہے۔ یعنی کسی کے گناہ کو بخش دینا۔ اس میں ایصال خیر یہ ہے کہ جو گناہ کرتا ہے وہ ایک ضرر پہنچاتا ہے اور اس لائق ہوتا ہے کہ اس کو بھی ضرر پہنچایاجائے۔ سزادلائی جائے۔ قید کرایا جائے۔ جرمانہ کرایا جائے یا آپ ہی اس پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ پس اس کو بخش دینا اگر بخش دینامناسب ہوتو اس کے حق میں ایصال خیر ہے۔ اس میں قرآن شریف کی تعلیم یہ ہے۔وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ۔ جَزٰٓوُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ یعنی نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں۔ بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہولیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقع پر بخشے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو۔ کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو۔ یعنی عین عفو کے محل پر ہونہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا۔“ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ۳۵۱)حضور علیہ السلام نے عفو کی ایک مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:کہتے ہیں کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک نوکر چاءکی پیالی لایا جب قریب آیا تو غفلت سے وہ پیالی آپ کے سر پر گر پڑی آپ نے تکلیف محسوس کرکے ذرا تیز نظر سے غلام کی طرف دیکھا غلام نے آہستہ سے پڑھا اَلْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ یہ سن کر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کَظَمْتُ۔ غلام نے پھر کہا: وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ۔ کَظْم میں انسان غصہ دبا لیتا ہے اور اظہار نہیں کرتا مگر اندر سے پوری رضامندی نہیں ہوتی اس لیے عفو کی شرط لگا دی ہے آپ نے کہامیں نے عفو کیا۔ پھر پڑھاوَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ محبوبِ الٰہی وہی ہوتے ہیں کہ جو کَظْم اور عفو کے بعد نیکی بھی کرتے ہیں، آپ نے فرمایاجا آزاد بھی کیا۔ راستبازوں کے نمونے ایسے ہیں کہ چاء کی پیالی گرا کر آزاد ہوا۔ اب بتاؤ کہ یہ نمونہ اصول کی عمدگی ہی سے پیدا ہوا۔ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام،سورۃ اٰل عمران،جلد۳ صفحہ ۲۰۶۔ کمپوزڈ ایڈیشن)اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دی ہے۔کسی نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے رسول اللہ ﷺ کی توریت میں بیان فرمودہ علامات پوچھیں تو آپؓ نے جن صفات کا ذکر کیا اُس میں یہ صفات بھی شامل تھیں کہ وہ بدخلق درشت کلام نہیں اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں شور مچانے والا اور نہ بدی کا بدلہ بدی سے دیتا ہے بلکہ معاف کرتا اور پردہ پوشی کرتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب البیوع بَاب کَرَاھِیَۃُ السَّخَبِ فِی الْأَسْوَاقِ حدیث:۲۱۲۵) حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ذاتِ بابرکات کے ذریعہ عفو وکرم کے بے شمار نمونے دوستوں اور دشمنوں کے لیے ظاہر ہوئے۔ان بے نظیر نمونوں سے ثابت ہے کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کی صفت ”عفو“ کے بہترین مظہر ہیں۔حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرب کے ایک آدمی نے اُن سے بیان کیا کہ جنگ حنین کے دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو زحمت دی۔ میرے پاؤں میں بہت بھاری جوتا تھا۔ مجھ سے رسول اللہﷺ کا پاؤں کچلا گیا۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں کوڑا تھاآپؐ نے مجھے ہلکا سا لگایا اور فرمایا: بسم اللہ، تُونے مجھے تکلیف دی ہے۔ اس آدمی نے کہا: میں نے اس حالت میں رات گزاری کہ میں اپنے نفس کو ملامت کرتا رہا اور میں کہتا رہا کہ تُونے رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دی ہے۔ جس طرح میں نے رات گزاری اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ جب صبح ہوئی تو ایک آدمی کہہ رہا تھا: فلاں کہاں ہے؟ میں نے دل میں کہا: اللہ کی قسم! یہ جو مجھ سے کل ہوا ہے اُسی کے متعلق بات ہوگی۔ کہنے لگا: میں ڈرتے ڈرتے آپﷺ کے پاس گیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: تُونے کل اپنے جوتے سے میرے پاؤں کو روند دیا اور مجھے تکلیف پہنچائی۔ اس پر میں نے تجھے ایک کوڑا لگایا۔ اس کے بدلہ میں 80دنبیاں لے لو۔ (سُنَنْ دَارمی، الْمُقَدِّمَۃُ، بَاب فِی سَخَاءِ النَّبِیِ ﷺ حدیث:۷۳) اللہ اللہ! یہ ہے عفو ودرگزر کا اعلیٰ معیار اور جودو سخا کا نرالا اندازا۔رسول اللہﷺ کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع آئے جب آپؐ نے انتہا درجہ اذیتیں اورتکلیفیں دینے والوں نیزاپنے جانی دشمنوں تک کو معاف کردیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہِ (صحیح مسلم کتاب الفضائل بَاب:مُبَاعَدَتُہُ ﷺ لِلْآثَامِ وَاخْتِیَارُہُ مِنَ الْمُبَاحِ اَسْھَلَہُ … حدیث:۴۲۸۰) رسول اللہ ﷺنے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بھی عفو درگزرکرنا سیکھیں اور اپنے نبی ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے صفات ِ باری کے رنگوں سے اپنے آپ کو رنگین کرلیں۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نویں شرط بیعت یہ مقرر فرمائی ہے کہ ”نہم یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔“ (اشتہار تکمیل تبلیغ ۱۲/جنوری۱۸۸۹ء۔مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ ۲۰۷نظارت نشرواشاعت قادیان مارچ ۲۰۱۹ء)اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارےہر کام میں اُس کی محبت اور خوشنودی شامل ہو۔ آمین مزید پڑھیں:عفو و در گزر…آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اُسوۂ حسنہ کی روشنی میں