(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۲۰۲۳ء) آجکل کے دنیا کے حالات جو ہیں اُن کے بارے میں اس وقت میں ایک دعا کے لیے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ گذشتہ چند دنوں سے حماس اور اسرائیل کی جنگ چل رہی ہے جس کی وجہ سے اب دونوں طرف کے شہری عورتیں، بچے، بوڑھے بلا امتیاز مارے جا رہے ہیں یا مارے گئے ہیں۔ اسلام تو جنگی حالات میں بھی عورتوں بچوں اور کسی طرح بھی جنگ میں حصّہ نہ لینے والوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا اور اس بات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے ہدایت بھی فرمائی ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین حدیث 2614) دنیا یہ کہہ رہی ہے اور حقائق بھی کچھ ایسے ہیں کہ اس جنگ میں پہل حماس نے کی اور اسرائیلی شہریوں کے بلا امتیاز قتل کے مرتکب ہوئے۔قطع نظر اس کے کہ اسرائیلی فوج پہلے اس طرح کتنے معصوموں کو فلسطینیوں کو قتل کرتی رہی ہے مسلمانوں کو بہرحال اسلامی تعلیم کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ اسرائیلی فوجوں نے جو کیا، وہ ان کا فعل ہے اور اس کےحل کرنے کے اَور طریقے تھے۔اگر کوئی جائز لڑائی ہے تو فوج سے تو ہو سکتی ہے، عورتوں بچوں اور بےضرر لوگوں سے نہیں۔ بہرحال اس لحاظ سے حماس نے جو غلط قدم اٹھایا وہ غلط تھا۔ اس کا نقصان زیادہ ہوا فائدہ کم۔یہ جو بھی تھا اس کی سزا یا اس سے جنگ حماس تک ہی محدود رہنی چاہیے تھی۔ اصل جرأت اور بہادری تو یہ ہے کہ یہ ردّ عمل ہوتا لیکن اب جو اسرائیل کی حکومت کر رہی ہے وہ بھی بہت خطرناک ہے اور یہ معاملہ اب لگتا ہے کہ رکے گانہیں۔ کتنی بے حساب جانیں معصوم لوگوں اور عورتوں اور بچوں کی ضائع ہوں گی اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیلی حکومت کا تو یہ اعلان تھا کہ ہم غزہ کو بالکل مٹا دیں گے اور اس کے لیے بےشمار، بے تحاشا بمبارمنٹ (bombardment)انہوں نے کی۔ شہر راکھ کا ڈھیر ہی کر دیا۔ اب نئی صورت یہ پیدا ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایک ملین سے زیادہ لوگ غزہ سے نکل جائیں۔ کچھ اس میں سے نکلنے بھی شروع ہو گئے ہیں۔ اس پرشکر ہے کہ مری مری آواز سے ہی سہی لیکن کچھ آواز تو یواین (UN)والوں کی طرف سے نکلی ہے کہ یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے اور یہ غلط ہو گااور اس سے بہت مشکلات پیدا ہوں گی اور اسرائیل کو اپنے اس حکم پہ سوچنا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ سختی سے اس کو کہیں کہ یہ غلط ہے۔ ابھی بھی درخواست ہی کررہے ہیں۔ بہرحال ان معصوموں کا کوئی قصور نہیں جو جنگ نہیں کررہے۔اگر دنیا اسرائیلی عورتوں بچوں اور عام شہری کو معصوم سمجھتی ہے تو یہ فلسطینی بھی معصوم ہیں۔ ان اہل کتاب کی تو اپنی تعلیم بھی یہ کہتی ہے کہ اس طرح قتل و غارت جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں پر اگر الزام ہے کہ انہوں نے غلط کیا تو یہ لوگ اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ بہرحال ہمیں بہت دعا کی ضرورت ہے۔ فلسطین کے سفیر نے یہاں ٹی وی میں غالباً بی بی سی کو انٹرویو دیا اور سوال کرنے والے کے جواب میں کہا کہ حماس ایک militantگروپ ہے، حکومت نہیں ہے اور فلسطین کی حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھایا اور ان کی یہ بات درست ہے کہ اگر حقیقی انصاف قائم کیا جاتا تو یہ باتیں نہ ہوتیں۔ اگر بڑی طاقتیں اپنے دوہرے معیار نہ رکھتیںیا نہ رکھیں تو اس قسم کی بدامنی اور جنگیں دنیا میں ہو ہی نہیں سکتیں۔ پس ان دوہرے معیاروں کو ختم کرو تو جنگیں خودبخود ختم ہو جائیں گی۔یہی باتیں میں اسلام کی تعلیم کی روشنی میں ایک عرصےسے کہہ رہا ہوں لیکن سامنے تو یہ کہتے ہیں ٹھیک ہے ٹھیک ہے لیکن عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب تمام بڑی طاقتیں یا مغربی طاقتیں انصاف کو ایک طرف کر کے فلسطینیوں پر سختی کے لیے اکٹھی ہو رہی ہیں اور ہر طرف سے فوجوں کے بھجوانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور مظلوموں کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں کہ اس طرح ظلم ہو رہا ہے۔ غلط سلط رپورٹیں میڈیا میں دکھائی جاتی ہیں اور آجاتی ہیں، ایک دن یہ خبر آتی ہے کہ اسرائیلی عورتوں اور بچوں کا یہ حشر ہو رہاہے، ان کی یہ بُری حالت ہو رہی ہے۔ اگلے دن پتہ چلتا ہے کہ وہ اسرائیلی نہیں تھے وہ تو فلسطینی تھے لیکن اس کی میڈیا میں کوئی معذرت نہیں ہوتی اور کوئی ہمدردی کا لفظ ان کے لیے نہیں کہا جاتا۔یہ لوگ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل کرتے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں دنیا کی معیشت ہے ان کے آگے ہی انہوں نے جھکنا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جنگ بھڑکانے پر تُلی ہوئی ہیں بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کے۔ یہ لوگ جنگ ختم کرنا نہیں چاہتے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جنگوں کے خاتمے کے لیے بڑی طاقتوں نے لیگ آف نیشنز بنائی لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اپنی برتری قائم رکھنے کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی اور دوسری جنگ عظیم ہوئی اور کہتے ہیں سات کروڑ سے زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ اب یہی حال یواین (UN)کا ہو رہا ہے۔ بنائی تو اس لیے گئی تھی کہ دنیا میں انصاف قائم کیا جائے گا اور مظلوم کا ساتھ دیا جائے گا۔ جنگوں کے خاتمے کی کوشش کی جائے گی لیکن ان باتوں کا دُور دُور تک پتہ نہیں۔اپنے مفادات کو ہی ہر کوئی دیکھ رہا ہے۔ اب جو اس بے انصافی کی وجہ سے جنگ ہو گی اس کے نقصان کا تصور ہی عام آدمی نہیں کر سکتا اور یہ سب بڑی طاقتوں کو پتہ ہے کہ کتنا شدید نقصان ہو گا لیکن پھر بھی انصاف قائم کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے اور توجہ دینے پر کوئی تیار بھی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں مسلمان ملکوں کو کم از کم ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اپنے اختلافات مٹا کر اپنی وحدت کو قائم کرنا چاہیے۔اگر مسلمانوںکو یہ ہدایت اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے دی ہے کہ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (آل عمران:65) اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو مسلمان جن کا کلمہ مکمل طور پر ایک ہے کیوں اختلافات ختم کرکے اکٹھے نہیں ہو سکتے؟ پس سوچیں اور اپنی وحدت کو قائم کریں اور یہی دنیا سے فساد دُور کرنے کا ذریعہ ہو سکتا ہے اور پھر ایک ہو کر انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر جگہ مظلوم کے حقوق قائم کرنے کے لیے بھرپور آواز اٹھائیں۔ایک ہوں گے، وحدت ہو گی تو آواز میں بھی طاقت ہو گی ورنہ معصوم مسلمانوں کی جانوں کے ضائع ہونے کے یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے، مسلمان حکومتیں ذمہ دار ہوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے اور یہ ان طاقتوں کا کام ہے رکھیں کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔(صحیح البخاری کتاب المظالم بَابُ اَعِنْ اَخَاکَ ظَالِمًا اَوْ مَظْلُوْمًا حدیث 2443) پس اس اہم بات کو سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان حکومتوں کو بھی عقل اور سمجھ دے اور وہ ایک ہو کر انصاف قائم کرنے والے بنیں اور دنیا کی طاقتوں کو بھی عقل اور سمجھ دے کہ دنیا کو تباہی میں ڈالنے کی بجائے دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کریں اور اپنی اناؤں کی تسکین کو اپنا مقصد نہ بنائیں۔ہمیشہ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب تباہی ہو گی تو یہ طاقتیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ بہرحال ہمارے پاس تو دعا ہی کا ہتھیار ہے اسے ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ غزہ میں بعض احمدی گھرانے بھی گھرے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی محفوظ رکھے اور سب معصوموں مظلوموں کو وہ جہاں بھی ہیں محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ حماس کو بھی عقل دے اور یہ لوگ خود اپنے لوگوں پر ظلم کرنے کے ذمہ دار نہ بنیں اور نہ کسی پر ظلم کریں۔ اسلامی تعلیم کے مطابق جو حکم ہے اس کے مطابق اگر جنگیں کرنی بھی ہیں تو اس طرح کریں۔کسی قوم کی دشمنی بھی ہمیں انصاف سے دُور کرنے والی نہ ہو یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی یہ توفیق دے کہ وہ دونوں طرف انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امن قائم کرنے والی بنیں۔ یہ نہیں کہ ایک طرف جھکاؤ ہو جائے اور دوسری طرف کا حق مارا جائے۔ ظلم و زیادتی میں بڑھنے والی نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم دنیا میں امن و سلامتی دیکھنے والے ہوں۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: وقف جدید کے تناظر میں مالی قربانی کے بعض واقعات