ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ حق کے اظہار کے لئے کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا کیونکہ جرأت سے نیکیوں کو پھیلانا، ان کے کرنے کاحکم دینا اور برائیوں سے روکنا ہی ایک معیار ہے جس سے مومن ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن مومن کا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہئے۔ جب اپنا عمل بھی ہو گا تب ہی اثر بھی قائم ہو گا۔ اور جب عمل ہو گا تو پھر سختی کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایسے آدمی کی تلقین کا بھی لوگ نیک اثر لیں گے جن کے اپنے عمل بھی اچھے ہوں گے۔ آپ نے یہی تلقین فرمائی ہے کہ اگر سمجھانے والے کے دل میں تقویٰ ہے، سمجھانے والے کے دل میں نیکی ہے، سمجھانے والے کے دل میں خداتعالیٰ کا خوف ہے تو موقع کے مطابق اگر بات کرو گے تو نیک بات کا اثر ہو گا۔ لیکن موقع محل کے حساب سے تلقین کرنا ضروری ہے۔ اگر کسی کی برائی دیکھ کر لوگوں کے سامنے ہی اس کو سمجھانے لگ جاؤ گے اور زبان میں تیزی پیدا کرو گے تو پھر دوسرا شخص جس کو تم سمجھا رہے ہو گے نیک اثر نہیں لے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر ضد میں آ کر برائی کرے۔ پس سمجھانے کے لئے بھی موقع اور وقت اور عمل اور تقویٰ ضروری ہے۔ اگر اس طرح عمل ہوں گے تو خداتعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اس کے رحم کے بھی یقیناً حقدار ہوں گے۔ کیونکہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو یہ نیک عمل کر رہے ہوں گے میں ان پر ضرور رحم کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍مئی۲۰۰۵ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۰؍مئی ۲۰۰۵ء) اللہ تعالیٰ تو ایک مومن سے ایمان لانے کے بعد عمل صالح کرنے کی توقع رکھتا ہے اور اسے عمل صالح کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ایک مسلمان پر کچھ ذمہ داریاں عائد فرماتا ہے۔ اس آیت کے اس حصّہ میں خداتعالیٰ نے انہی ذمہ داریوں کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا کہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی وجہ سے تم خیراُمّت ہو۔ بغیر دلیل کے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیر اُمّت کے خطاب سے نہیں نوازا۔ بلکہ وجہ اور دلیل بیان کی ہے کہ ان وجوہات سے تم خیر امت ہو۔ یہ چیزیں تمہارے اندر ہوں گی تو تم خیراُمّت کہلاؤ گے۔ ایک یہ کہ تم اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہو، تمہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تمہیں کسی خاص قوم یا لوگوں کی بھلائی کے لئے نہیں پیدا کیا گیا بلکہ انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ تم تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کرنے والے ہو۔ تم اچھی اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہو۔ یہ پوری اُمّت کی ذمہ داری ہے کہ نیکی کی اور اچھی باتوں کی طرف توجہ دلائیں، اس کا حکم دیں۔ اور خد اتعالیٰ فرماتا ہے وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ خیر اُمّت اس لئے ہو کہ بُرائی سے روکتے ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍نومبر ۲۰۰۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍نومبر ۲۰۰۹ء) مزید پڑھیں: ہر اس چیز سے بچیں جو دین میں بدعت پیدا کرنے والی ہے