یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رکے۔اُس وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے۔دیکھو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہوگئے مگر آپؐ نے ایک دم بھر کے لئے کبھی کسی کی پروا نہ کی۔یہاں تک کہ جب ابوطالب آپ کے چچا نے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا۔اُس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رک سکتا۔آپ کا اختیار ہے میرا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ پس زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے۔اُسی قدر اَمرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی اَمر ہے۔يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (اٰل عمران:۱۱۵) مومنوں کی شان ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور اندازِ بیان ایسا ہونا چاہیے جو نرم اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے۔ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ۳۸۲، ۳۸۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: مومن اپنے دل کو… لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے