سلیشیا Silicea (Silica-Pure Flint) گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنس جائے یا بندوق کے چھرے جسم کے اندر رہ جائیں تو سلیشیا اس قسم کی چیزوں کو جسم سے باہر نکالنے میں عجیب کام دکھاتی ہے۔ (صفحہ۷۵۰) بعض اوقات مچھلی کا ٹیڑھا کانٹا گلے میں پھنس جاتا ہے جو نکلتا ہی نہیں۔ ایک دفعہ مجھے بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جب باوجود کوشش کے کانٹا نہ نکل سکا تو میں نے سلیشیا 6X کھا لی۔ چند گھنٹوں کے بعد ہلکی سی کھانسی کے ساتھ کانٹا خودبخود باہر آگیا۔ بعض بچوں پر بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے۔ الّاماشاءاللہ، سلیشیا ہمیشہ کار آمد ثابت ہوتی ہے۔ (صفحہ۷۵۲) سلیشیا پلسٹیلا کی مزمّن (Chronic) دوا ہے۔کئی دفعہ مریض بخار میں جل رہے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ پاؤں بھی گرم ہوتے ہیں لیکن انہیں پلسٹیلا کی بجائے سلیشیا کی ضرورت ہوتی ہے اور سلیشیا ہی فائدہ دیتی ہے۔ عموماً ٹانسلز کی انفیکشن میں ایسا ہو تا ہے اور بعض بچے ایسے ڈاکٹروں کے ہاتھوں چند دن کے اندر مر جاتے ہیں کیونکہ دراصل وہ سلیشیا کا تقاضا کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں مسلسل پلسٹیلا ہی دی جاتی ہے یہاں تک کہ بیماری قابو سے نکل جاتی ہے۔ (صفحہ۷۵۳۔۷۵۴) سلیشیا گلینڈ ز کی زیادہ خطرناک اور گہری بیماریوں میں کام آتی ہے۔ سخت غدودوں کو چھوٹا اور نرم کرنے میں سلیشیا ایک اہم دوا ہے۔ کلکیریا فلور، برا ئیٹا کارب فائیٹولا کا اور کاسٹیکم بھی مفید ہیں۔ لیکن اگر جبڑوں، گردن اور بغلوں کے غدود تیزی سے سخت اور بہت بڑے ہونے شروع ہو جائیں اور مریض ٹھنڈا ہو تو سلیشیا استعمال کرنی چاہیے لیکن اگر اس کے باوجود افاقہ نہ ہو تو احتمال ہے کہ وہ کینسر ہو۔ اس صورت میں اکیلی سلیشیا فائدہ نہیں دے گی بلکہ سلفر CM دینی چاہیے۔ جب اس کے استعمال سے مریض ٹھنڈ محسوس کرنے لگے تو پھر سلیشیا CM ایک خوراک دینی پڑے گی۔ جب تک سردی گرمی کی علامتیں تبدیل نہ ہوں اس وقت تک ان کو ادل بدل کر دینا مناسب نہیں۔(صفحہ۷۵۶) اکثر ہو میو پیتھک کتابوں میں گلے کی اچانک خرابی کے علاج کے سلسلہ میں سلیشیا کا ذکر نہیں ملتا بلکہ یہ گلے کی مستقل اور مزمن بیماریوں میں مفید بتلائی جاتی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ گلے کے غدود میں تعفن کی وجہ سے بخار ہو تو صرف سلیشیا دینے سے ہی فوری آرام آ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ کالی میور، فیرم فاس اور کلکیریا فلور 6X دیں تو بخار اللہ کے فضل سے بہت جلد ٹوٹ جاتا ہے۔ بعض ایسے مریضوں کا اس علاج سے اگر پہلے دن ہی بخار نہ ٹوٹے تو دو تین دن کے اندر رفتہ رفتہ ختم ہو جا تا ہے۔(صفحہ۷۵۷) سپونجیا ٹوسٹا Spongia tosta (Roasted Sponge) سپونجیا گلہڑ یعنی تھائی رائیڈ گلینڈ کے بڑھنے میں مفید دوا ہے۔ اس کی گلٹیاں پتھر کی طرح سخت نہیں ہوتیں بلکہ اسفنج کی طرح نرم نرم اور انگلی کے دباؤ سے دبنے والی ہوتی ہیں۔ سپونجیا میں رحم کے غدود بھی بڑھ جاتے ہیں۔ وہ بھی اسفنج کی طرح پھپھلے ہوتے ہیں۔(صفحہ ۷۶۷) سپونجیا کی ایک دلچسپ علامت یہ ہے کہ میٹھا کھانے سے گلا خراب ہو جاتا ہے۔ ۳۰ کی طاقت میں سپونجیا فائدہ دیتی ہے۔ اس دوران میٹھی چیزوں سے پر ہیز کریں۔ چند دنوں کے بعد میٹھا کھا کر دیکھنا چاہیے کہ فرق پڑا ہے یا نہیں۔ اگر فرق نہ پڑے تو پھر ۲۰۰ طاقت استعمال کرنی چاہیے۔(صفحہ۷۶۷) خشک نزلہ جس میں ناک بند رہتا ہے، منہ میں آبلے بنتے ہیں، حلق میں چبھن اور خشکی، دکھن اور درد کا احساس ہوتا ہے اور گلے میں سرسراہٹ کے ساتھ کھانسی اٹھتی ہے۔(صفحہ۷۶۷) سٹرونشیم کاربونیکم Strontium carbonicum سٹرونشیم کارب گردن کے پٹھوں کے درد میں بھی مفید ہے لیکن اس عارضہ کے لیے اسے عموماً ۳۰ طاقت میں استعمال کرنا چاہیے۔ یہ دوا دائیں کندھے میں درد کے لیے بھی مفید بتائی گئی ہے۔(صفحہ۷۷۸) سلفر Sulphur (Sublimated Sulphur) سر کی چوٹی، آنکھوں، چھاتی اور دونوں کندھوں کے درمیان جلن ہوتی ہے۔ بعض اوقات جسم سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ بواسیر کے مسوں چھالوں، معدہ اور گلے میں بھی جلن کا احساس ہوتا ہے۔ پیشاب بھی جلتا ہوا آتا ہے۔ بعد میں دیر تک جلن محسوس ہوتی رہتی ہے۔ مریض کے پاؤں رات کو جلتے ہیں اور وہ انہیں بستر سے باہر نکال کر ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے۔ اس پہلو سے یہ پلسٹیلا کے مشابہ ہے۔ (صفحہ۷۸۱) غدودوں میں سوزش پیدا ہو جو مستقل ہو جائے اور گلے میں سلسلہ وار دائیں بائیں گلٹیاں بننے لگیں تو سلفر بھی دوا ہو سکتی ہے۔ (صفحہ۷۸۵) سلفیوریکم ایسیڈم Sulphuricum acidum (Sulphuric Acid) بعض اوقات ناک کی رطوبت کان کی طرف منتقل ہونے سے قوت شامہ میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اگر دیگر علامتیں ملتی ہوں تو یہ تکلیف بھی سلفیورک ایسڈ کے دائرہ کار میں ہے۔ اس میں دانتوں کا درد آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور بہت شدید ہو جاتا ہے لیکن ایک دم ختم بھی ہو جا تا ہے اور لمبا گہرا بداثر پیچھے نہیں چھوڑتا۔ منہ اور گلے میں زخم بن جاتے ہیں۔ سلفیورک ایسڈ ایسے مریضوں کے لیے بہت مفید ہے اور ان بچوں کی بھی بہترین دوا ہے جو منہ کے زخموں کی وجہ سے دودھ نہیں پی سکتے۔ (صفحہ۷۸۹) ٹیرینٹولا ہسپانیہ Tarentula hispania (Spanish Spider) آنکھ کی بیماریوں کا اثر دائیں طرف زیادہ ہو تا ہے۔ دائیں آنکھ میں دھند اور نظر کی کمزوری کے علاوہ دائیں آنکھ سے مواد نکالتا ہے۔ دائیں کان میں شدید درد ہوتا ہے۔ ناک کے دائیں نتھنے میں ایک نزلاتی مرکز بن جاتا ہے جہاں سے نزلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ گلے میں بھی دائیں طرف تکلیف نمایاں ہوتی ہے۔ خوراک سے نفرت اور بے دلی، ٹھنڈے پانی کی پیاس اور متلی بھی خصوصیت سے ٹیرینٹولا کی علامتیں ہیں۔ گلے کی خرابی کی وجہ سے باہر بھی سوزش نمایاں ہو جاتی ہے۔ (صفحہ۷۹۴) ٹیرینٹولا کے تشنجات کا سانس کی نالی سے گہرا تعلق ہے۔ آواز بیٹھ جاتی ہے۔ گلے میں مسلسل چبھن کا احساس اور آواز کا بو جھل پن ٹیرینٹولا کا مزاج ہیں۔(صفحہ۷۹۵) زنکم Zincum metallicum (Zinc) جن بچوں کے اعصاب کمزور ہوں ان کے لیے دانت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے اور خاص علامت یہ ہے کہ دونوں پاؤں بے چینی کی وجہ سے ہلتے رہیں گے یا آپس میں رگڑتے رہیں گے۔ اگلتے وقت گلے کے عضلات میں کچھ تھوڑی سی درد ہوتی ہے اور معدے میں میٹھی چیزوں سے جلن پیدا ہو جاتی ہے نیز متلی، ہچکی اور قے کا رجحان ہو جاتا ہے۔ زنکم کے مریض بہت جلدی جلدی کھاتے ہیں اور کھانا کھاتے وقت ان کی بے صبری نمایاں ہوتی ہے۔ پیٹ اکثر گیس سے تنا ہوا ہوتا ہے۔ (صفحہ۸۱۰) (نوٹ ان مضامین میں ہو میو پیتھی کے حوالے سے عمومی معلومات دی جاتی ہیں۔قارئین اپنے مخصوص حالات کے پیش نظر کوئی دوائی لینے سے قبل اپنے معالج سے ضرورمشورہ کرلیں۔) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(گلے کے متعلق نمبر ۸)(قسط ۱۲۴)