(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۶؍فروری ۲۰۰۷ء) اللہ تعالیٰ کے اپنے بندے پر اپنی رحیمیت کے جلوے دکھانے کے مختلف طریقے ہیں۔ کبھی بخشش طلب کرنے والوں کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولتے ہوئے ان کی بخشش کے سامان قائم فرماتا ہے، انہیں نیکیوں کی توفیق دیتا ہے۔ کبھی اپنے بندے کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہارا میرے سے، میری رحمت کی طلب بھی، میری مہربانی سے ہے۔ اگر میرا فضل نہ ہوتا تو میری رحمت کی طلب کا تمہیں خیال نہ آتا۔ میری صفت رحمانیت کا تمہارے دل میں احساس بڑھنے سے تم میری طرف جھکے ہو اور کیونکہ یہ ایمان والوں کا شیوہ ہے کہ انہیں یہ احساس کرتے ہوئے جھکنا چاہئے کہ کتنے انعامات اور احسانات سے اللہ تعالیٰ ہمیں نواز رہا ہے۔ اس احساس کے زیر اثر تم جھکے ہو اور میری رحیمیت سے حصہ پایا ہے۔ پس اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھو کہ میرے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے مجھے پکارتے رہو، کیونکہ یہی چیز ہے جو تمہیں نیکیاں کرنے کی طرف مائل رکھے گی۔ کبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت کو حاصل کرنے کے لئے میرے راستے میں جہاد کرنا اور میری خاطر ہجرت کرنا ضروری ہے جس سے میری رحمت کے دروازے تم پر واہوں گے، کھلیں گے۔ کبھی فرماتا ہے کہ نماز پڑھنے والے، صدقہ دینے والے میری رحیمیت کے نظارے اس دنیا میں بھی دیکھیں گے اور اگلے جہان میں بھی۔ پھر مومنوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو صالح اعمال تم بجالاتے ہو اس کے نیک نتائج تم اس جہان میں بھی دیکھو گے اور آئندہ کی زندگی میں بھی۔ غرض بے شمار ایسی باتیں ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے ایک مومن حصہ پاتا ہے۔ اور ایک مومن کی نشانی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے زیادہ سے زیادہ حصہ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہی ہے جو مومن اور غیر مومن میں فرق کرنے والی ہے۔ ایک مومن ہی کی یہ شان ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو اس سے روحانی اور مادی انعاموں اور اس کی رضا کا طلب گار ہوتا ہے اور پھر وہ اس کو ملتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’دوسری قسم رحمت کی وہ ہے جو انسان کے اعمال حسنہ پر مترتب ہوتی ہے کہ جب وہ تضرّع سے دعا کرتا ہے تو قبول کی جاتی ہے اور جب وہ محنت سے تخمریزی کرتا ہے تو رحمت الٰہی اس تخم کو بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ایک بڑا ذخیرہ اناج کا اس سے پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر غور سے دیکھو تو ہمارے ہر یک عمل صالح کے ساتھ خواہ وہ دین سے متعلق ہے یا دنیا سے، رحمت الٰہی لگی ہوئی ہے اور جب ہم ان قوانین کے لحاظ سے جو الٰہی سنتوں میں داخل ہیں کوئی محنت دنیا یا دین کے متعلق کرتے ہیں تو فی الفور رحمت الٰہی ہمارے شامل حال ہوجاتی ہے اور ہماری محنتوں کو سرسبز کر دیتی ہے۔ ‘‘(منن الرحمٰن، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ148 حاشیہ) پس یہ امتیاز ہے ایک مومن اور غیر مومن میں کہ مومن دین اور دنیا کے انعامات کے لئے اللہ تعالیٰ کو اس کی رحیمیت کا واسطہ دیتے ہوئے اس کے آگے جھکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ قوانین الٰہی کے مطابق انعاموں کو حاصل کرنے کے لئے اور رحیمیت سے حصہ پانے کے لئے دعا کے ساتھ اُن اسباب اور قویٰ کو بھی کام میں لانا ہو گا جو کسی کام کے لئے ضروری ہیں۔ پھر نماز، روزہ، زکوٰۃ صدقہ وغیرہ ہیں۔ یہ اُس وقت اللہ کے حضور قبولیت کا درجہ رکھنے والے اور اس کی رحیمیت کے معجزات دکھانے والے ہوں گے جب دوسرے اعمال صالحہ کی بجا آوری کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ اور یہی ایک مومن کا خاصہ ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے صدقہ اس کے انعاموں کا طلبگار ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’فیض رحیمیت اُسی شخص پر نازل ہوتا ہے جو فیوض مترقبہ کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے۔‘‘ ایسے فیض اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جن کی اس کو خواہش اور انتظار ہو۔ ’’اسی لئے یہ ان لوگوں سے خاص ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ربّ کریم کی اطاعت کی۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے اس قول وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب:44) میں تصریح کی گئی ہے۔‘‘ یعنی وہ مومنوں کے حق میں بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (اعجازالمسیح، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 140-141 اردو ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 3صفحہ 727) پس ایک تو یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ اطاعت شرط ہے، اور اطاعت اس وقت حقیقی اطاعت ہو گی جب یہ مومن ہر قسم کے اعمال صالحہ بجا لانے والا ہو گا اور پھر ایمان میں مضبوط ہوتا چلاجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ایک دفعہ جب تمہیں اللہ نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرما دی تو پھر اس ایمان کی حفاظت بھی تم نے کرنی ہے۔ اپنی عبادتوں کو بھی زندہ کرو، تمام حقوق اللہ بجا لاؤ اور دوسرے نیک اعمال بجا لاتے ہوئے حقوق العباد کی طرف بھی توجہ رکھو اور یہ ہر دو قسم کے اعمال تم اس وقت بجا لانے والے ہو سکتے ہو جب اللہ تعالیٰ کا خوف تمہارے دل میں ہوگا۔ ایک فکر ہو گی کہ مَیں نے عبادت کی طرف بھی توجہ دینی ہے اور ہر دو حقوق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد حاصل کرنی ہے۔ کیونکہ اگر اس کی مدد شامل حال نہیں ہو گی تو نیک کاموں اور صالح اعمال کی انجام دہی نہیں ہو سکتی اور جب یہ صورت حال ہو گی تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بہت قریب ہوتا ہے، ان پر رحمت سے توجہ فرماتا ہے، ان کو نیکیوں پر قائم رکھتا ہے اور ہر قسم کے فتنہ و فساد سے بچاتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف: 57) اور زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلاؤ اور اسے خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے رہو یقیناً اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے۔ تو یہ ہے مومن کی نشانی کہ قومی طور پر بھی اور ذاتی طور پر بھی ایسی کوئی بات نہ کرو جس سے معاشرے میں فساد پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ اگر ایسے حالات دیکھو جو پریشان کن ہوں اور تمہارے اختیارات سے باہر ہوں تو دعاؤں میں لگ جاؤ۔ اور جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے رحم کی امید رکھتے ہوئے اور فتنہ و فساد سے بچتے ہوئے اُس کو پکارے گا بشرطیکہ وہ خود بھی، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ تمام شرائط اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل کرنے کی پوری کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر توجہ کرتے ہوئے ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ایسے ذرائع سے اس کی رحمت نازل ہوتی ہے کہ حیرانی ہوتی ہے، ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔ محسنین وہ لوگ ہیں جو حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں اور حقوق اللہ بھی ادا کرنے والے ہیں اور اس طرف پوری توجہ دینے والے ہیں۔ اس فساد کے زمانے میں جس میں سے آج دنیا گزر رہی ہے اللہ تعالیٰ کا ہم احمدیوں پر یہ کس قدر احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے اس احسان اور انعام کا کبھی بھی بدلہ نہیں اتارا جاسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے، احسانوں پر احسان کرتا چلاجاتا ہے کہ فساد نہ کرنے والوں اور اس کی عبادت کرنے والوں کو محسنین میں شمار فرما رہاہے اور ان کی دعائیں سننے کی تسلی فرما رہا ہے۔ پس یہ جو اتنا بڑا اعزاز ہمیں مل رہا ہے، یہ کوئی عام محسنین والا اعزاز نہیں ہے بلکہ وہ لوگ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے اس کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اسی طرح اس کی بجا آوری کرتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں یا کم از کم خداتعالیٰ انہیں دیکھ رہاہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی حالت میں بھی تمہاری یہ حالت ہونی چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے اسے دیکھ رہے ہو یا کم از کم یہ احساس ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پس جب یہ حالت ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی ہر قسم کی رحمت کے دروازے ایک مومن پر کھلیں گے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: آنحضرتؐ کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی غیرت ایمانی کے بعض واقعات