https://youtu.be/yIkN-Y8b3WU?si=qWnWIMcS0P6p-8_p تیز رفتار انٹرنیٹ، سمارٹ فون، سوشل میڈیا، اور گیمنگ انڈسٹری کی کیمسٹری نے مجازی بچپن (Digital Childhood) تخلیق کیا، اور یہی مجازی بچپن مرگِ بچپن کا موجب بنا (مضمون ’’شہر آسیب میں ایک شام‘‘کی تیسری کڑی ہے ) بسا اوقات گھر کے سٹور روم میں گہری نیند سوتے، گرد آلود کباڑ جھنجھوڑتے ہوئے ہمارے ہاتھ بھولی بسری یاد کا کوئی ٹکڑا لگ جاتا ہے۔ پھر یہ ننھا سا ٹکڑا یادوں کے سلسلے کو بیدار کر دیتا ہے، جیسے ایک چھوٹی سی دیا سلائی سے ایک شمع روشن ہوتی ہے، اور پھر وہ شمع کمرے میں سجی دیگر شمع دانوں کو جلا بخشتی ہے، اور یوں سارا کمرہ جگمگا اٹھتا ہے۔ بیتے وقت کے کباڑ میں یہ یاد کا ٹکڑا گم گشتہ کتاب کے اوراق میں چھپی سنگل لینز کیمرے سے اتاری گئی فوٹو بھی ہو سکتی ہے، کسی پیارے کا الفت بھرا خط بھی ہو سکتا ہے، اسرارِ ماضی سے بھرپور ڈائری بھی ہو سکتی ہے، یا ان گنت خوشی کے قدیم لمحوں کو سموئے ایک کھلونا بھی ہو سکتا ہے۔ پلاسٹک، لکڑی اور ڈائی کاسٹ کی دھات سے بنے کھلونے عہدِ بچپن میں سب سے پہلے دوست بنتے ہیں، پھر یہ باوفا اور بے لوث دوست کباڑ میں گم ہو جاتے ہیں۔ ایک دن وقت کی گرد سے اٹے ہوئے ان کا بےجان، برفیلا جسم ہاتھ لگتا ہے تو بچپن کی انمول یادوں کی جھڑی لگ جاتی ہے، جیسے گذشتہ آنگن کے سناٹے میں شور و غل اور ہنگامہ مچاتی فاتح سپاہیوں کی بدمست ٹولی نمودار ہو جائے۔ بچپن۔ جس میں ہر شے جاننے اور جیتنے کا جنون ہوتا ہے، آنکھیں ہر دم متجسس رہتی ہیں اور قدم نئے تجربوں کی طرف اٹھنے کو مستعد رہتے ہیں۔ درختوں پر چڑھنا گویا دشمن کی راجدھانی کو زیر و زبر کرنے جیسا لطف دیتا ہے، اور اس معرکے میں کھائی گئی چوٹیں تمغۂ شجاعت سے کم نہیں ہوتیں۔ ریت کے ٹیلوں کو سر کرنا، شام کے دھندلکے میں سبزہ زاروں سے گزرتے ہوئے جگنوؤں سے ملاقات کرنا، کیکر کی سوٹیوں کو ہتھیار سمجھ کر چور سپاہی کھیلنا، گرمیوں کی طویل خاموش دوپہروں میں کچے صحن کے وسط کو گھیرے ہوئے بوڑھے پیڑ تلے بانس کے تنکے سے مٹی پر نقش نگاری کرنا، کاغذوں کا پل تعمیر کرنا، اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر کوکلا چھپاکی، چھپن چھپائی، رسہ کشی اور سات پتھر کھیلنا۔ یہ سب بچپن کے خوش نما، رنگین اور پھڑکتے لمحے ہیں۔ عہدِ بچپن میں چھوٹی چھوٹی سی عام سرگرمیاں خوشی سے لبریز ہوتی ہیں، کیونکہ بچپن کی سوغات تعجب اور تجسس کے مصالحے سے تیار ہوتی ہے۔ کیفیتِ متجسس اور کیفیتِ متعجب کا فعال رہنا ہی بچپن کہلاتا ہے۔ جب بالغ انسان زندگی کے بکھیڑوں میں پھنستا ہے تو وہ تعجب اور ہیبت زدہ ہونے کے تجربوں سے دُور چلا جاتا ہے۔ اسی طرح تجسس اس کی مصروف زندگی سے غائب ہو جاتا ہے۔ بالغ انسان کے مشینی روز و شب Mute کا بٹن آن کر دیتے ہیں۔ پرندوں کے سریلے گیت اس کے کانوں میں رس نہیں گھولتے، تند و تیز ہواؤں کا بلوط کے درختوں میں چند ساعت ٹھہر کر دھن بجانا اسے سنائی نہیں دیتا۔ فکرِ معاش مصروف انسان کی قوتِ بینائی کو بلیک اینڈ وائٹ کر دیتی ہے، منظر سے رنگ غائب ہو جاتے ہیں۔ نیلگوں آسمان پھیکا پڑ جاتا ہے، گلاب سیاہی مائل لگتے ہیں۔ لیکن بچپن تعجب و تجسس کے گھوڑے پر سوار عجائباتِ قدرت کی سیر کرتا ہے۔ متجسس و متعجب ہونے کی کیفیات عہدِ بچپن میں جوبن پر ہوتی ہیں۔ بچہ کھلونے کی ہیئت جاننے کے لیے اسے توڑ دیتا ہے۔ اس کے لیے آسمان پر کالی گھٹاؤں کا چھا جانا ایک غیرمعمولی منظر ہوتا ہے، موسلادھار بارش کا شور اسے نئے تجربے سے آشنا کرتا ہے۔ بچپن کی کتاب کا ہر صفحہ رنگ و بو اور خوشی و حیرت میں ڈوبے نئے جہانوں کا پیامبر ہے۔ بچپن کا مصالحہ (تعجب و تجسس) ایک پکوان تیار کرتا ہے جسے بچپن کے کھیل کہتے ہیں۔ بچپن کی کیتلی میں ابلتا تعجب و تجسس کی بھاپ کھیل کود کے سوراخوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کھیل کود کے ذریعے بچے نت نئے تجربات سے گزرتے ہیں، وہ جیت کا مزہ چکھتے ہیں اور شکست کی تلخی برداشت کرتے ہیں۔ کبھی خفا ہوجاتے ہیں، کبھی ساتھیوں کو مناتے ہیں، کبھی لڑتے ہیں، کبھی ہنستے ہیں۔ دوستوں کے چہروں کو پڑھنا سیکھتے ہیں، اپنے تاثرات چھپانا چانتے ہیں، دوسروں کی مہارتوں کی نقل اتارتے ہیں۔ دراصل کھیل کود بالغوں کی سرگرمیوں، مہارتوں اور تجربات کو بچگانہ انداز میں دہرانے کا عمل ہے۔ گھر سے باہر کھیل کود سے بچوں میں درپیش مسائل کو جانچنے اور انہیں خود سے حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ درخت سے جامن اتارنے کے لیے بچے سوچ و فکر کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مشورے دیتے ہیں، اس مقصد میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں۔ سائیکل ریس کے دوران جب خرابی پیدا ہوجائے تو سائیکل کی خرابی کو خود دُور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پیاسی چڑیا کو پانی پلانے کی خاطر مکمل لائحہ عمل طے کرتے ہیں۔ پرانے ویران مکانوں کی زیارت کے لیے محاذِ جنگ پر تعینات فوجی جوانوں کی طرح خفیہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ غرض، گھر سے باہر بچپن کے کھیل کود سماجی مہارتوں کو سیکھنے کا موثر ذریعہ ہیں۔ کھیل کے میدان سے اڑتی خاک جو سر کے بالوں اور چہرے پر آ جمتی ہے، وہ بڑی انمول شے ہے۔ کپڑوں پر لگے داغ کسی نئے تجربے کی یادگار ہوتے ہیں، اور کہنیوں، بازوؤں اور ہاتھوں پر چوٹوں کے نشانات طلائی تمغے سے کم نہیں ہوتے۔ انسانوں کے حصے میں سب سے طویل بچپن کا دورانیہ آیا ہے۔ انسانی بچپن کا عرصہ پیدائش سے لے کر پندرہ سے اٹھارہ سال تک پھیلا ہوا ہے، اور اس عرصے کو عموماً چھ ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے: نوزائیدہ، شیر خوارگی، ابتدائی بچپن،بچپن، درمیانہ بچپن، اور نوعمری۔ ان منازل سے گزر کر انسان سنِ بلوغت میں قدم رکھتا ہے۔ انسانی بچپن کا طویل عرصہ سماجی تربیت، مشاہدہ، اور سماجی تجربات کے لیے ضروری ہے۔ سماجی علم، تربیت، اور معاشرتی مہارتیں اس لیے اہم ہیں کہ انسان نے تنہا جنگلوں میں زندگی نہیں گزارنی، بلکہ اسے سماج میں رہنا ہوتا ہے، ثقافت و مذہب کی روایات، اقدار، اور اخلاقیات کو اپنانا ہوتا ہے، خاندان اور دیگر سماجی ممبروں کے ساتھ تعلقات بنانے اور قائم رکھنے ہوتے ہیں، تہذیب و تمدن میں ڈھلنا ہوتا ہے۔ ان مقاصد کی خاطر بچپن کا دورانیہ طویل تر ہے۔ اب لنگر اٹھانے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس مضمون کی کشتی گہرے پانیوں میں سفر کے لیے تیار ہے، لیکن افسوس کہ آگے بحرالم و غم منتظر ہے۔ مذکورہ بالا سطور میں ہم نے بچپن کی قصیدہ گوئی اور مدح سرائی خوب کی۔ ہائے افسوس کہ اب مرگِ بچپن کا سوگ منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ اب نوحہ و گریہ زاری کی گھڑی ہے، اب ملامت و تاسف کے کڑوے گھونٹ پینے ہیں۔ اب دو گھڑی کلیجہ سنبھال لیں کہ قلم آشوبِ چشم ہونے کو ہے۔ وہ بچپن جو چاندنی راتوں میں تاروں کی کہانیاں سناتا تھا، جو بارش کی رِم جھم کے ساتھ تھرکتا تھا، جو مٹی کے گھروندوں کے بکھرنے پر اداس ہو جاتا تھا، جو تتلیوں کو ہتھیلیوں میں قید کر لیتا تھا، جو بچوں کو جسمانی، ذہنی، سماجی، اور جذباتی لحاظ سے مضبوط و توانا بناتا تھا، ہاں! وہی بچپن تاریک رات کے پچھلے پہر مر گیا۔ اسے کس نے اور کیسے قتل کیا؟ سراغ رسانی کے لیے ہمیں سرزمینِ امریکہ کا رخ کرنا پڑے گا۔ ڈیجیٹل انقلاب کا جنم سرزمینِ امریکہ میں ہوا۔ آئی فون کی پیدائش بھی یہیں ہوئی، اور فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر کا جنم ستھان بھی امریکہ ہی ہے۔ سال ۲۰۱۰ء میں سمارٹ فون اور سوشل میڈیا صارفین کی کثیر تعداد امریکی بچوں اور نوعمروں پر مشتمل تھی۔ اس طرح سب سے پہلے امریکی بچوں اور ٹین ایجرز کا انسانی بچپن موبائل سکرین میں سکڑ کر ختم ہو گیا۔ ان کا بچپن سوشل میڈیا کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ اس وجہ سے جوناتھن ہائیٹ جیسے نامور محققین نے امریکہ میں انسانی بچپن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ انسانی بچپن سے مراد گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ کھیلنا کودنا اور دیگر ذہنی اور جسمانی سرگرمیاں ہیں۔ امریکہ سے نکل کر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بڑی تیزی سے دیگر ممالک میں پھیلنے لگی۔ آسٹریلیا، کینیڈا، یو کے میں بھی سکرین انسانی بچپن کو نوچنے لگی۔ دراصل تیز رفتار انٹرنیٹ، سمارٹ فون، سوشل میڈیا، اور گیمنگ انڈسٹری کی کیمسٹری نے مجازی بچپن (Digital Childhood) تخلیق کیا، اور یہی مجازی بچپن مرگِ بچپن کا موجب بنا۔ اس ضمن میں ایک اور پہلو قابلِ غور ہے۔ نیوز چینلز کی بھرمار کے ساتھ ریٹنگ کے لیے جرائم کی خبروں کو بارہ مصالحے لگا کر ہیبت ناک سرخیوں کے ساتھ بار بار نشر کرنے کے دھندے نے والدین کو خوف زدہ کر دیا۔ انہیں دھڑکا لگا رہتا کہ اگر بچہ باہر کھیلنے جائے گا تو سیریل کلر کے ہتھے نہ چڑھ جائے یا کوئی ناگہانی آفت اس پر نہ ٹوٹ پڑے۔ یہ بات درست ہے کہ گذشتہ دہائیوں میں جرائم بڑھے ہیں اور بچوں کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے، لیکن نیوز چینلز کا کردار شرمناک ہے۔ ریٹنگ کے لیے یہ تاثر پیدا کرنا کہ جنونی قاتل کھلے پھر رہے ہیں، گھر سے باہر آپ کو مجرم ہی ملیں گے، وغیرہ۔ منفی خبروں کے طوفان نے والدین کو حفاظت کے خبط میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے بچوں کو چوزے سمجھ کر ڈربے میں بند کر دیا اور انہیں حقیقی دنیا کے عوض سمارٹ فون دے دیا۔ والدین سے دو غلطیاں سرزد ہوئیں۔ اول یہ کہ وہ حفاظتی جنون کا شکار ہوئے اور بچوں کو گھروں تک محدود کر دیا۔ دوسرایہ کہ بچوں کو سمارٹ فون اور دیگر انٹرنیٹ سے منسلک ڈیوائسز دے کر حفاظتی تمام معیارات بھول گئے۔ یعنی حقیقی دنیا میں تو والدین نے آنکھیں ضرورت سے زیادہ کھول لیں، لیکن جہاں سائبر ورلڈ کی بات آئی، وہاں آنکھیں موند لیں اور سو گئے۔ والدین یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ دورِ حاضر میں انٹرنیٹ جرائم کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ آج سیریل کلر، جنسی جنونی، معاشی دھوکے باز، ڈرگ ڈیلر، بہروپیے، بلیک میلر، کرائے کے قاتل، دہشت گرد وغیرہ سب سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا کے توسط سے اپنی پہچان اور لوکیشن ظاہر کیے بغیر بڑی آسانی سے لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون کے ذریعے شکار کو پھنسایا جا سکتا ہے۔ دہشت گرد تنظیم داعش (ISIS) نے جس طرح سوشل میڈیا کو استعمال کر کے ہزاروں یورپی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے جال میں بھرتی کیا، یہ سب والدین کی لاپرواہی اور مجرمانہ غفلت سے ممکن ہوا۔ بہرحال والدین کے حفاظتی خبط اور دوسری طرف سائبر سپیس کے حوالے سے حفاظتی تدابیر کو فراموش کر دینا، ان دونوں عوامل نے انسانی بچپن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب ہم جین زی کی دوستیوں اور تعلقات کی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ انسانی بچپن میں جو تعلقات بنتے ہیںوہ جسمانی نوعیت رکھتے ہیں۔ ایک جسم دوسرے جسم کے ساتھ تعامل کرتا ہے۔ بچے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پگڈنڈیوں پر چلتے ہیں، ایک دوسرے کے کندھے پکڑ کر ریل گاڑی بنا لیتے ہیں، چہروں کے تاثرات پڑھنا سیکھتے ہیں، مل کر ہنستے ہیں، دھکے دیتے ہیں، لڑتے جھگڑتے ہیں، گلے ملتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی آوازوں اور لہجوں کو پہچانتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بننے والے تعلقات کی نوعیت جسمانی نہیں ہوتی۔ جسم دوسرے جسم کے ساتھ رابطہ نہیں رکھتے، بلکہ ٹیکسٹ، پوسٹ، ایموجیز، اور آڈیو کال کے ذریعے تعلق بنتا ہے (ویڈیو کال جسمانی نوعیت کے قریب ہے، لیکن مکمل رنگوں سے عاری ہے)۔ انسانی دماغ تعلقات کی جسمانی شکل پا کر مطمئن ہوتا ہے۔ ٹیکسٹ، پوسٹ، آڈیو میسجز اور کالز انسانی بچپن کی جسمانی دوستیوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ انسانی بچپن میں دوست بنانے کے لیے جذباتی سرمایہ کاری کرنی پڑتی تھی۔ ایک دوسرے کا اعتماد جیتنا ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ وابستگی گہری ہو جاتی اور دوستی پائیدار بنتی۔ پھر ان دوستیوں کو توڑنا آسان نہیں ہوتا تھا۔ دوسری طرف، مجازی بچپن کی دنیا میں بغیر جذباتی سرمایہ کاری اور انتہائی کم وقت میں بڑی سہولت کے ساتھ جتنی چاہیں فرینڈ لسٹ کو طویل کیا جا سکتا ہے۔ سینکڑوں دوست بنائے جا سکتے ہیں، لیکن یہ کھوکھلی دوستیاں پلاسٹک کے پھولوں سے بھی کم وقعت رکھتی ہیں۔ انسانی بچپن میں دوست خفا ہو جائے تو لقمہ گلے سے نیچے نہیں اترتا تھا، گویا غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے۔ دوست روٹھ جاتے تو انہیں منایا جاتا تھا۔ سوشل میڈیا کی دنیا میں ذرا سی بات طبیعت پر گراں گزری تو فوراً بلاک یا ان فالو کر دیا، اور پھر ’’تُو کون اور میں کون‘‘۔ دراصل، مجازی بچپن کی دوستیاں حقیقی بچپن میں پروان چڑھنے والی محبتوں کی راکھ کی مانند ہیں، جسے جین زی تھوڑی دیر کے لیے اپنی ہتھیلی پر رکھتے ہیں، لیکن پھر وہ راکھ بھی ہوا لے اڑتی ہے، اور ہتھیلی خالی کی خالی رہ جاتی ہے۔ جین زی گھنٹوں موبائل سکرین پر وقت گزارنے کے بعد اندر سے تنہا، بے چین اور اجنبیت کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی چالاکیاں انسانی دماغ کو مطمئن نہیں رکھ سکتیں۔ سمارٹ فون نے انسانی بچپن کی سب سے پہلی شے جو ہڑپ کی، وہ سچی گہری، معصوم دوستی ہے۔ موبائل فون سکرینوں پر انگلیاں چلاتی یہ نسلیں سچی و گہری دوستی کے ذائقے سے محروم ہیں۔ ان کی وابستگیاں ’’ایڈ فرینڈ‘‘ سے شروع ہوتی ہیں اور ’’اَن فرینڈ‘‘پر ختم ہوجاتی ہیں۔ ان کی چاہتیں ’’فالو‘‘سے گزر کر ’’اَن فالو‘‘ پر ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ اور یہ سب کرنا بہت آسان ہے۔ اپنے کمرے میں بستر پر لیٹے لیٹے بٹن دبایا، لو جناب! دوستی شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر لطف اٹھایا، بیزار ہوئے، پھر بٹن دبایا، اور دوستی ٹائیں ٹائیں فش۔ گھر سے نکل کر کھیلنا تعلقات کی سائنس سکھاتا ہے۔ دوستوں کا انتظار کیا جاتا ہے، انتظار سے مزید چاہت پیدا ہوتی ہے۔ انتظار کی گھڑیوں کے بعد جب دوست کا چہرہ نظر آتا ہے تو دل جھوم اٹھتا ہے۔ دوست مشکل میں ہو تو اس کی مدد کے لیے تدبیریں سوچی جاتی ہیں، اس سے دوسروں کے لیے ہمدردی اور ایثار کا جذبہ مزید پھلتا پھولتا ہے۔ کھیل کے میدان میں جب ٹیم بنتی ہے تو ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے گُر سیکھے جاتے ہیں۔ خفا ہونا، پھر مان جانا تعلق میں لچک پیدا کرتا ہے۔ طویل بچپن تعلقات کو منظم کرنا سکھاتا ہے۔ افسوس، سمارٹ فون والا بچپن ڈسپوزایبل تعلقات کا موجب بنتا ہے، یعنی استعمال کرو اور پھینک دو۔ تعلق اور دوستی کی قدر انسانی بچپن سکھاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی یاریاں سینما گھر کے ٹکٹ کی طرح ہوتی ہیں؛ فلم ختم، تو ٹکٹ بیکار۔ جین زی کا فوکس دوستی کے معیار پر نہیں، بلکہ دوستوں کی تعداد پر ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نے دوستی کے معیار کا ستیاناس کر دیا۔ جس طرح بیٹھک میں لوگ شوکیس کو ڈیکوریشن اشیاء سے سجا کر رکھتے ہیں، اسی طرح جین زی اپنی فرینڈ لسٹ کو بھوسہ بھری کھالوں سے سجا کر رکھتے ہیں۔ ڈسپوزایبل تعلقات کا کلچر خودغرضی، اناپرستی، مفاد پرستی، اور بے حسی پیدا کرتا ہے۔ جین زی کے لیے دوستی دکان کا نام ہے، جہاں سے وہ جب چاہیں مفت میں شاپنگ کر سکتے ہیں۔ دوستی کے لیے قربانیاں دینا پرانی کہانیوں میں کہیں مدفون ہو گیا ہے۔ اگر کوئی پوسٹ پر لائیک نہ کرے، اچھا کمنٹ نہ دے، تو ایک دوسرے سے خفا ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کمنٹ کا جواب نہ دینے پر تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ واٹس ایپ سٹیٹس کے ویوز کو بار بار چیک کیا جاتا ہے کہ کس دوست نے دیکھا اور کس نے نہیں۔ جس نے نہیں دیکھا، اس کا پتہ کٹ گیا۔ اتنی جلدی تو انڈا بھی نہیں ابلتا، جتنی جلدی سوشل میڈیا کے دوست ناراض ہو جاتے ہیں۔ سکرین پر زندہ الفتیں اندر سے مردہ ہوتی ہیں۔ روز ایک دوسرے کی پوسٹ پر کمنٹ کرنے سے تعلق گہرا نہیں ہوتا، نہ اس میں وسعت و گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ کیا جین زی آن لائن دوستیوں سے خوش ہیں؟ اس کا جواب ایک فرضی صورتحال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ فرض کریں آپ کو شدید بھوک لگی ہے۔ آپ کے سامنے بیٹھا شخص کہتا ہے، ’’چلو آلو گوشت تناول کرتے ہیں۔‘‘ پھر وہ کاغذ پر روٹی اور آلو گوشت کا عکس بنا کر آپ کو دکھاتا ہے اور کہتا ہے، ’’لو! پیٹ بھر لو۔‘‘ جین زی کے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ان کے ہر سوشل میڈیا ایپ پر بہت سے دوست ہیں، ان باکس میسجز سے بھرے رہتے ہیں، لیکن پیٹ خالی کے خالی ہیں، کیونکہ تصویری آلو گوشت سے بھوک نہیں مٹتی۔ انسان کا لاکھوں سال پر محیط ارتقا تعلقات کی جسمانی نوعیت کو پہچانتا ہے۔ پوسٹ، کمنٹ، ایموجیز، اور ٹیکسٹ پر قائم تعلقات انسان کو سکون نہیں دے سکتے۔ آن لائن دوستیاں جین زی کو تعلقات میں منافقت کا چیمپئن بنا دیتی ہیں۔ اصلی بچپن کی سچی دوستی کھلی کتاب کی طرح ہوتی ہے، دوست جس طرح کے ہوتے ہیں، اسی طرح خود کو پیش کرتے ہیں۔ کوئی بناوٹ اور ناٹک بازی نہیں ہوتی۔ آپ بچپن کے دوست کو یاد کریں تو اس کی شخصیت کا پورا نقشہ آپ کے ذہن میں گھوم جائے گا۔ اس کی عادات و خصلتیں ایک ایک کر کے آپ کو یاد آنے لگیں گی۔ بچپن کے دوست آمنے سامنے کھڑے پیڑوں کی مانند ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے سامنے بالکل عیاں، ظاہر، اور اصلی۔ بیچ میں کوئی فیک پروفائل کی دیوار نہیں، کوئی انسٹاگرام کا جادوئی فلٹر نہیں۔ مجازی بچپن میں جین زی اپنی ذات کی فیک برانڈنگ کرتے ہیں۔ جس نے کبھی اٹھ کر کسی کو پانی کا گلاس تک نہیں پلایا، وہ سوشل میڈیا پر خدمتِ انسانیت کا علمبردار بنا پھرتا ہے۔ معمولی باتوں پر دوسروں کا گریبان چاک کرنے والے فیس بک پر نیلسن منڈیلا کے بہروپ میں پائے جاتے ہیں۔ پاپا کی گڑیا گھر میں باپ کے گلے پر نافرمانی کی چھریاں چلاتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر فرشتہ بنی پھرتی ہے۔ جس طرح جھوٹ بولنا آسان ہوتا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پر جعلی شخصیت پیش کرنا آسان ہے، لیکن گھر میں، خاندان میں، اور قریبی عزیزوں کے سامنے اپنی خصلتیں، کرتوت اور عادات چھپانا بہت کٹھن ہے۔ اس لیے جین زی اصلی تعلقات پر سوشل میڈیا کے دوستوں کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ انہیں فیک برانڈنگ کا چسکا لگ جاتا ہے۔ ایک اور اثر یہ پڑتا ہے کہ مجازی بچپن میں رچائے گئے دوستی کے ناٹک تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیتے ہیں۔ اب پاپا کی گڑیا کو اگر کوئی فیس بک پر تنقید کی جسارت کرے گا تو گڑیا اس نامعقول کو فوراً بلاک کردے گی۔ اصلی دنیا میں تعلقات اتنی سہولت سے بلاک نہیں ہوتے۔ والدین، قریبی عزیز جب تنقید کرتے ہیں تو وہ برے لگتے ہیں، رشتوں میں تلخیاں بڑھتی ہیں۔ جین زی تو انسٹاگرام پر شاہی خاندان کے چشم و چراغ بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کا لباس، طرزِ بیان، طرز زندگی ہر شے کمال ہوتی ہے۔ جب شاہی خاندان کے سپوت اور شہزادیاں گھنٹوں بعد سکرین سے باہر اپنے نازک اندام قدم رنجہ فرماتے ہیں اور پھر کسی بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو ان کی شاہی طبیعت پر بڑا گراں گزرتا ہے۔ گھنٹوں، سارا دن سکرین بینی کرنے کے بعد جو کچھ جین زی کو ملتا ہے، وہ اضطراب و افسردگی ہے۔ سوشل میڈیا نو بالغ کے دفاعی الارمنگ سسٹم کو بلا ضرورت فعال رکھتا ہے۔ آن لائن ڈھیر سارے دوستوں کے باوجود جین زی تنہائی، اجنبیت اور افسردگی کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ جعلی شے جعلی ہی ہوتی ہے۔ اصلی بچپن کی سچی دوستی انور شعورؔ کے اس شعر کی طرح ہوتی ہے بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں اب ہم مجازی بچپن کے ایک اور ڈاکے کی بات کرتے ہیں جو اس نے بچپن پر ڈالا ہے۔ اس کے لیے سماجی نفسیات کا ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے۔ فرض کریں ایک نو بالغ کالج جانا شروع کرتا ہے۔ وہاں وہ دیکھتا ہے کہ سارے طلبہ جینز اور شرٹ میں کالج آتے ہیں، تو وہ ان سے ہم آہنگ ہونے کے لیے جینز اور شرٹ پہننا شروع کر دیتا ہے۔ اسے سماجی مطابقت یا سماجی ہم آہنگی کا دباؤ (conformity) کہتے ہیں۔ دوسری مثال سے سمجھیں: فرض کریں ایک طالب علم کلاس میں جاتا ہے تو سارے طلبہ ایک فلم کی تعریف کر رہے ہوتے ہیں۔ اسے وہ فلم پسند نہیں، لیکن وہ باقی کلاس فیلوز کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے فلم کی تعریفیں شروع کر دیتا ہے تاکہ وہ دوسروں سے الگ نہ ہو، تنہا نہ رہے۔ مزید مثال یہ ہے کہ اگر آپ کسی دعوت میں جائیں اور وہاں تمام مہمان چمچوں کی بجائے ہاتھوں سے چاول کھا رہے ہوں، تو آپ بھی بادل ناخواستہ چمچ چھوڑ کر ہاتھ سے چاول کھانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ دوسروں سے الگ نہ لگیں۔ اسے سماجی ہم آہنگی کا دباؤ کہتے ہیں، اور بچوں اور نو بالغوں کی سماجی تربیت میں یہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے سماجی دباؤ کے ذریعے روایات، مذہبی و اخلاقی اقدار اپناتے ہیں۔ گھر میں سب افراد کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے ہیں، تو بچہ بھی یہ عادت اپنا لیتا ہے۔ اگر گھر کے سب افراد صبح جلدی بیدار ہوتے ہیں، تو بچہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنے لگتا ہے۔ سماجی ہم آہنگی کا دباؤ مثبت رویوں اور اچھی عادتوں کے فروغ کے لیے ایک موثر طریق ہے، لیکن یاد رکھیں کہ conformity دو دھاری تلوار ہے۔ اس سے لغو اور بری عادتیں بھی اپنائی جا سکتی ہیں۔ گروپ میں شامل ہونے والا نیا طالب علم گروپ ممبران کو سگریٹ پیتے دیکھ کر یہ عادت اپنا سکتا ہے۔ آج conformity کی تکنیک سوشل میڈیا نے ہائی جیک کر لی ہے۔ حقیقی بچپن میں سماجی مطابقت کے ساتھ ساتھ بچے کی انفرادیت اور الگ شناخت بھی پھلتی پھولتی ہے۔ سماجی ہم آہنگی کا پریشر بچے کی انفرادیت اور شناخت کو مٹاتا نہیں۔ بچے اپنی پسند کے کھلونے خریدتے ہیں، اپنا کمرہ خود سجاتے ہیں، مرضی کے کھیل کھیلتے ہیں۔ بازار جاتے ہیں تو بڑے پوچھتے ہیں کہ فلاں چیز پسند ہے؟ انسانی بچپن میں بچوں کو سپیس دی جاتی ہے کہ وہ انفرادیت قائم رکھیں اور اپنی الگ شناخت دریافت کریں۔ اس کے بغیر بچہ خود اعتمادی سے بھرپور بالغ نہیں بن سکتا۔ وہ خود اعتمادی کے فقدان، احساسِ کمتری، اور انتہائی کم درجے کی عزت نفس کے ساتھ سنِ بلوغت میں داخل ہوتا ہے۔ جین زی کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ خود اعتمادی پارہ پارہ ہے، احساسِ کمتری بلند تر، عزتِ نفس غائب، اور انفرادی شناخت کھوئی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا ٹرینڈنگ مار مار کر انفرادیت اور شناخت کا جنازہ نکال دیتی ہے۔ سوشل میڈیا سماجی ہم آہنگی کے دباؤ کی طاقت کو ہزار گنا بڑھا دیتا ہے۔ ہزار گنا طاقت کے دباؤ میں نو بالغ جس پوسٹ کو پسند نہیں کرتا، اس پر بھی پسندیدگی بھرے کمنٹ کرتا ہے، پوسٹ کو لائیک کرتا ہے، شیئر کرتا ہے، کیونکہ پوسٹ ٹرینڈنگ میں ہے، کیونکہ اسے ہزاروں لوگ پسند کر رہے ہیں۔ نو بالغ سوشل میڈیا کمیونٹی میں خود کو فٹ کرنا چاہتا ہے، اس لیے وہ ناپسندیدہ ویڈیوز، پوسٹوں کو بھی پسند کرنے لگتا ہے۔ ایک نو بالغ لڑکی ٹک ٹاک پر اوٹ پٹانگ، فضول ڈانس کی ویڈیو دیکھتی ہے۔ یہ ویڈیو ٹک ٹاک پر وائرل ہے، اسے لاکھوں لائیک مل رہے ہیں، لوگ اسے دھڑا دھڑ شیئر کر رہے ہیں۔ لڑکی کو یہ ڈانس سٹائل پسند نہیں، لیکن وہ دیکھتی ہے کہ اس کے سارے کلاس فیلوز اس بیہودہ سٹائل میں ناچ کر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کہ لڑکی کو ڈانس سٹائل پسند نہیں، وہ پھر بھی اپنے گروپ سے ہم آہنگ ہونے، گروپ میں فٹ ہونے کے لیے فضول سٹائل میں ڈانس کرتی ہے اور ویڈیو اپ لوڈ کر دیتی ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا کی دنیا میں بچوں اور نو بالغوں کی انفرادیت اور شناخت کی موت ہو جاتی ہے۔ سکرین میں غرق، ہر دم سوشل میڈیا کے ساتھ ہم آہنگ و وابستہ رہنے کے دباؤ نے جین زی کو اپنی ذات کے سفر سے محروم کر دیا ہے۔ مجھ میں کون سی ایسی خصوصیات ہیں جو دوسروں سے مجھے الگ کرتی ہیں؟میں کن صلاحیتوں کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر انداز میں استعمال کر سکتا ہوں؟کن مہارتوں کو سیکھ کر میں اپنے اندر چھپی مخفی قوتوں کا اظہار کر سکتا ہوں؟ارد گرد جو کچھ برپا ہے، اس کے بارے میں میرے نظریات کیا ہیں؟مجھے کیا اچھا لگتا ہے، کیا برا لگتا ہے؟کون سے نقائص اور کمزوریاں مجھے آگے بڑھنے سے روک رہی ہیں؟ اس قسم کے سوالات پر جین زی غور ہی نہیں کرتے، کیونکہ یہ بچارے سوشل میڈیا ٹرینڈنگ سسٹم کے پنجرے میں قید ہیں۔ ٹرینڈ انہیں جس طرف لے جائے، یہ چل پڑتے ہیں، سدھائے ہوئے جانور کی طرح۔ بیس پچیس سال کی عمر تک دماغی نشوونما جاری رہتی ہے۔ ٹین ایج میں ان کے دماغ کا وہ حصہ زیادہ فعال ہوتا ہے جو جذبات اور حساسیت کا مرکز ہے۔ اس لیے اس عہد میں نو بالغ جسمانی موت سے زیادہ سماجی موت سے ڈرتے ہیں۔ جین زی کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں وہ سوشل میڈیا کمیونٹی میں الگ تھلگ نہ لگنے لگیں، تنہا نہ رہ جائیں، عجیب نہ لگیں، لوگ انہیں مسترد نہ کر دیں، دھتکار نہ دیں، اپنے گروپ سے، کمیونٹی سے نکال باہر نہ کریں۔ خود کو سوشل میڈیا کمیونٹی میں فٹ کرنے کے لیے، ان کے رنگ میں رنگین ہونے کے لیے، ان کے ڈھنگ، چال چلن کی نقل کرنے کے لیے، بے معنی و لغو وائرل ویڈیوز پر قبولیت کے اسٹیکر لگاتے رہتے ہیں۔ واہیات لباس، فحش گوئی، گرل فرینڈ کلچر، گالی گلوچ، جارحیت سب ان کے لیے قابلِ ستائش بنتا جاتا ہے۔ سچ گوئی، ایمانداری، ادب و تمیز، حیا، پردہ پوشی، قناعت، سادگی انہیں گزرے وقتوں کی بیکار روایات لگتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر زندگی گزارتے ہوئے ٹرینڈنگ کا طوق اپنے گلے میں ڈال کر جین زی کو سکون نہیں ملتا۔ ان کا دماغ مسلسل دفاعی حالت میں رہتا ہے، الارمنگ سسٹم بجتا رہتا ہے۔ ایک خوف ہر وقت دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں ان کی سماجی موت نہ واقع ہو جائے، وہ فیس بک گروپ میں عجیب نہ لگیں، ٹک ٹاک کی کوئی ویڈیو مس نہ کر دیں، انسٹاگرام کی کوئی پوسٹ ان کی نظروں سے اوجھل نہ رہ جائے، ایکس پر ان سے کچھ چھوٹ نہ جائے، کمنٹ کا جواب دینے میں دیر نہ ہو جائے، سوشل میڈیا کمیونٹی میں وہ تنہا نہ رہ جائیں۔ اس طرح مسلسل بڑھتا سوشل میڈیا کا سماجی دباؤ انہیں اضطراب (Anxiety) کا مریض بنا دیتا ہے، پھر یہ اضطراب افسردگی (Depression) میں ڈھلنے لگتا ہے۔ اس کڑی کی آخری سطورقلم بند کرتے ہوئےایک کہانی یاد آ رہی ہے۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک لڑکا جنگل سے ایک خوبصورت پرندے کو پکڑ کر اسے پنجرے میں قید کردیتا ہے۔ پرندے کے ساتھ وہ ایک پھول بھی رکھ دیتا ہے اور پرندے سے کہتا ہے کہ میں نے تمہیں آزاد دنیا سے اٹھایا، جہاں تم کھیت کھلیانوں، سبزہ زاروں پر محوِ پرواز رہتے تھے، گھنے جنگلوں میں پڑاؤ ڈالتے، جھیل کے شفاف پانی میں اپنا عکس دیکھتے اور بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کو چھو کر خوش ہوتے تھے۔ اے پرندے! تمہیں معلوم ہے، میں نے یہ پھول تمہارے ساتھ کیوں رکھا؟ یہ پھول اس آزاد دنیا کے بدلے میں رکھا تاکہ جب تمہیں آزاد دنیا کی یاد ستائے، تم پھول کو دیکھ کر خوش ہو جاؤ۔ ہم نے بچوں کو گھروں کے پنجروں میں قید کر دیا اور سمارٹ فون ان کے ہاتھوں میں دے کر کہا، لو، یہ اصلی، حقیقی انسانی بچپن کے عوض ہم تمہیں دے رہے ہیں۔ لیکن ہم شاید کہانی والے لڑکے سے زیادہ ظالم ہیں، کیونکہ لڑکے نے تو ایک اصلی پھول پنجرے میں رکھا تھا، جو تھوڑی دیر کے لیے پرندے کو خوشبو سے مہکاتا تھا، جس کی اصلی، ملائم، خوش نما پنکھڑیاں دیکھ کر کچھ دیر کے لیے ہی سہی، پرندہ خوش تو ہوا تھا۔ ہم نے بچوں سے رنگ و خوشبو و ساز کے فسانوں اور کھیل کود کے معرکوں سے بھرا بچپن چھین کر انہیں کچھ اصلی تو دیا ہی نہیں۔ ہم نے انہیں لکڑی کی کٹھ پتلیاں بنا دیا، جن کی ڈوریں اجنبیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ مرگِ بچپن پر گریہ و زاری کا تذکرہ اس سلسلے کی چوتھی کڑی میں جاری رہے گا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: ربوہ بھر میں۷۸واں یوم آزادی، ملّی جوش و جذبے سے منایا گیا