٭… آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے خالد کو اُنہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، مَیں نے تو صرف اُنہیں اسلام کی طرف دعوت دینے کا کہا تھا اور پھر آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دو مرتبہ خدا کے حضور عرض کی کہ اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَبْرَاُ اِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ کہ اَے الله! خالد نے جو کچھ کیا ہے، مَیں تیرے حضور اِس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں ٭…آنحضرتؐ کی سیرت کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ کہیں بھی آپؐ نے سختی نہیں کی اور یہ الزام بھی جو دشمنانِ اسلام لگاتے ہیں، غلط ہے کہ جنگوں میں آپؐ نے قتل کروایا۔ جہاںغلطی سے بھی کچھ ہو اتوآپؐ نے بڑی ناراضگیوں کا اظہار فرمایا خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍اگست ۲۰۲۵ء بمطابق ۱۵؍ظہور۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۵؍اگست۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: گذشتہ جمعے مَیں نے تین بڑے بتوں کو مسمار کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کی مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے کہ ایک سریّہ حضرت سَعْدبن زید اشہلی رضی الله عنہ کا تھا،جو مناۃ کی طرف رمضان ۸؍ہجری میں بھیجا گیا۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ۲۴؍رمضان کو حضرت سَعْد بن زید رضی الله عنہ کو مناۃ بت کے انہدام کے لیے بھیجا تھا۔ اُسے بحیرۂ احمر کے ساحل پر قدید کے قریب مُشَلَّل کے مقام پر نصب کیا گیا تھا۔اِسی وجہ سے اِس کو سریّہ مُشَلَّل بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت سَعْدبن زید اشہلی رضی الله عنہ بیس سواروں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب آپؓ وہاں پہنچے تو وہاں ایک مجاور بھی تھا۔ مجاور نے آپؓ سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ مناۃ کا گرانا۔ اُس نے کہا کہ تم اور یہ کام؟ یعنی یہ ناممکن ہے کہ یہ کام تم سے ہو سکے۔ آپؓ اِس بت کی طرف بڑھے۔ راوی نے بیان کیا ہے پتا نہیں حقیقت ہے یابعض اوقات رنگ دینے کے لیے بیان کر دیتے ہیں کہ اُس وقت ایک برہنہ، سیاہ رنگ اور پراگندہ بالوں والی عورت کمرے سے باہر نکلی اور مجاور نے اپنے بت کو کہا کہ اَے مناۃ! اپنا غضب بھیج۔حضرت سَعْدبن زید اشہلی رضی الله عنہ نے اُس مجاور کو قتل کر دیا۔ حضور انور نےتصریح فرمائی کہ اگر یہ قتل کی روایت صحیح ہے، تو ممکن ہے کہ مجاور نے مقابلہ کی کوشش کی ہو، اور مقابلہ میں مارا گیا۔ صرف بددعا دینے پر قتل کرنا، یہ تو اسلامی تعلیم ہی نہیں ہے، صحیح بھی نہیں لگتا۔ آنحضرتؐ کی عمومی ہدایات کے بھی خلاف ہے۔ سریّہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ بطرف نخلہ، یہ ۲۵؍رمضان، ۸؍ہجری بمطابق جنوری؍ ۶۲۹ء میں ہوا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے تیس افراد پر مشتمل ایک دستہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کی قیادت میں نخلے کی طرف روانہ فرمایا تاکہ وہاں قریش کا معروف بت جس کا نام عُزىٰ تھا، اِس کو گرا دیا جائے۔نخلہ ایک وادی ہے، جو مکّے کے مشرقی جانب ایک دن کی مسافت پر مکّہ اور طائف کے درمیان واقع ہے، یہ نخلہ کے مقام پر ایک گھر تھا۔ جس کے نگران و نگہبان بنو شیبان تھے۔ یہ بنو ہاشم کے حلیف تھے۔ یہاں عُزىٰ قریش کا سب سے بڑا بت تھا۔ ابنِ اسحٰق رحمہ الله کہتے ہیں کہ جب عُزیٰ کے مجاور کو حضرت خالد رضی الله عنہ کی آمد کا علم ہوا تو بت پر تلوار لٹکا کر خود پہاڑ پر چڑ ھ گیا اور یہ شعر پڑھنے لگا کہ اَے عُزیٰ! خالد پر ایسا شدید حملہ کر کہ جو کچھ بھی باقی نہ چھوڑے۔ جنگی نقاب پہن اور آستین چڑھا۔ اَے عُزیٰ! اگر تم اِس شخص خالد کو قتل نہ بھی کرو تو اُسے جلد واقع ہونے والے گناہ کا مستحق بناؤ یا اِس سے اِس کا انتقام لو۔ حضرت خالدؓ نے نخلہ پہنچتے ہی کیکر کے درختوں کو کاٹا اور اُس گھر کو مسمار کیا، جس میں عُزیٰ بت تھا، پھر واپس مکّے آکر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رپورٹ پیش کی۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم نے وہاں کوئی خاص چیز دیکھی تھی؟ حضرت خالدؓ نے نفی میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر تو تم نے عُزیٰ کو ختم نہیں کیا، واپس جاؤ اور اِس کا قلع قمع کر کے آؤ۔ اِس حکم کے سنتے ہی حضرت خالد رضی الله عنہ تعمیلِ حکم کے لیے فوراًپلٹے، جب نگرانوں نے دوبارہ آپؓ کو دیکھا، تو وہ پہاڑ پر چڑھ گئے۔ تو وہ کہہ رہے تھے کہ اَے عُزیٰ!انہیں ہلاک کر دو۔ اِس بت خانے میں سے ایک بکھرے بالوں والی، سیاہ رنگ کی عورت نکلی۔ حضرت خالد رضی الله عنہ اِس وقت یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ اَے عُزیٰ! مَیں تیرا انکار کرتا ہوں، تیری پاکیزگی بیان نہیں کرتا، مَیں نے دیکھا ہے کہ الله نے تجھے رسوا کر دیا ہے۔ اِس کے بعد آپؓ نے واپس پہنچ کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں یہ روئیداد پیش کی تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ہاں!یہ وہ عُزیٰ ہے، وہ مایوس ہو گئی ہے کہ تمہارے شہروں میں اس کی اب کوئی بھی پرستش نہ ہو گی۔ پھر سریّہ حضرت عَمرو بن العاصؓ بطرف سُواع، اِس کا ذکر ہے، یہ بھی رمضان ۸؍ہجری میں ہوا۔ عُزیٰ بت کے انہدام کی مہم کے ساتھ ہی رسول اللهؐ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو سُواع بت کے قلع قمع کی خاطر بھجوایا، آپؓ کے ساتھ کچھ ساتھی بھی تھے، مگر اُن کی تعداد مذکور نہیں۔ سُواع مدینے سے مغربی جانب ساحلِ سمندر پر رہاط میں بنی ہُذیل کا بت تھا اور یہ جگہ مکّے سے تین میل کی مسافت پر تھی۔ اِس بت کی شکل ایک عورت کی تھی اور لوگ اُس کی تعظیم کے ساتھ ساتھ اُس کا طواف بھی کرتے تھے۔ اُس کے مجاور بنو لہیان تھے، جو ہُذیل ہی کی ایک شاخ ہے۔ قرآنِ کریم میں کچھ بتوں کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے، اِس میں اِس بت کا بھی ذکر ہے، چنانچہ سورۂ نوح میں آتا ہے کہ اور اُنہوں نے کہا ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو اور نہ وَدّ کو چھوڑو اور نہ سُواع کو اور نہ ہی یَغوث اور یَعوق اور نسر کو۔دراصل یہ سب اُن چند نیک آدمیوں کے نام ہیں، جو حضرت نوحؑ کی قوم میں سے تھے، جب وہ مر گئے تو شیطان نے اُن کی قوم کے دل میں یہ ڈالا کہ اِن جگہوں میں، جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے، بت کھڑے کر دو۔ اور اُن کے ناموں پر اِن کے نام رکھو۔ چنانچہ اُنہوں نے ایسا ہی کیا اور اُنہیں پوجا جاتا تھا۔ ان آدمیوں کو نہیں پوجا جاتا تھامگر جب وہ ہلاک ہو گئے اور اصل معلومات نہ رہیں تو بتوں کو پوجنا شروع کر دیا یا اُن کے نمونے بناکے اُنہیں پوجنا شروع کر دیا۔ حضرت عَمرو بن العاصؓ جب رہاط کےمقام پر سُواع کے پاس پہنچے ، تو وہاں اُنہیں اُس کا مجاور ملا، آپؓ نے اُسے کہا کہ وہ رسول اللهؐ کے حکم سے اِس بت کو توڑنے کے لیے آئے ہیں۔اُس نے جواب دیا کہ تم اِسے توڑنے پر ہرگز قادر نہیں ہو گے۔ آپؓ نے وجہ پوچھی تو اُس نے جواب دیا کہ تم بہرحال روک دیے جاؤ گے۔ آپؓ نے کہا کہ تم پر افسوس!کیا یہ سن سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے؟پھر آپؓ نے آگے بڑھ کر اُسے توڑ دیا۔ اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ اُس کوٹھڑی کو بھی مسمار کر دیں، جو اِس کے ساتھ بنی ہوئی تھی، اُنہوں نے اُسے مسمار کر دیا۔پھر آپؓ نے اُس مجاور سے پوچھا کہ اب بتاؤ!اُس نے اپنے معبود کا یہ حال دیکھا تو فوراً بول اُٹھا کہ مَیں الله کی اطاعت کرتا ہوں اور اسلام قبول کرتا ہوں۔ حضور انور نے فرمایا کہ اِس حوالے سے بھی اِس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پہلے جو مجاور کو یا کسی کو قتل کرنے کا جو قصّہ بیان ہوا ہے، وہ بہرحال محلِّ نظر ہے۔ سریّہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ بطرف بنو جذیمہ، یہ بھی شوال، ۸؍ہجری کا ہے۔ فتح مکّہ کے بعد جب حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ عُزیٰ بت کو گرا کر واپس تشریف لائے، تو آنحضرتؐ نے اُنہیں بنو جذیمہ کی طرف بھیجا، یہ قبیلہ بنو کنانہ کی شاخ تھا۔ جو مکّے کے یلملم کی جانب آباد تھا۔ نبی اکرمؐ نے حضرت خالد رضی الله عنہ کو فرمایا کہ اِس قبیلے کو اسلام کی دعوت دیں اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ اِن سے جنگ نہیں کرنی۔ حضرت خالدبن ولیدؓ مہاجرین و انصار اور بنو سُلَیْم کے ۳۵۰؍ آدمیوں کے ہمراہ روانہ ہوئے۔جب حضرت خالدؓ وہاں پہنچے، تو اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہیں، جیسا کہ حملہ آور ہوں۔ حضرت خالدؓ نے اُن لوگوں سے کہا کہ ہتھیار رکھ دو، لوگ تو اسلام قبول کر چکے ہیں۔آپؓ کی یہ بات سن کر اُن میں سے ایک شخص جحدم نام کا کھڑا ہوا اور اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اَے بنو جذیمہ! ہتھیار نہ رکھنا، یہ خالد ہے، ہتھیار رکھنے کے بعد تم لوگوں کو گرفتاری اور موت کا سامنا کرنا ہو گا۔ اِس لیے مَیں تو ہتھیار نہیں رکھوں گا۔ اِس پر باقی لوگوں نے جحدم کو سمجھایا کہ کیوں تم ہمارا خون کروانے پر تُلے ہوئے ہو؟ ہتھیار رکھ دو!اور لوگ اُسے سمجھاتے رہے، یہاں تک کہ اُس سے ہتھیار لے لیے۔ہتھیار پھینک دینے کے بعد اِن لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اور ہر مسلمان کو ایک ایک، دو دو قیدی دیے گئے۔ اور رات بھر یہ قید میں رہے۔ بہرحال ایک روایت کے مطابق جب حضرت خالد رضی الله عنہ وہاں پہنچے اور اُنہیں اسلام کی دعوت دی تو اِن لوگوں نے اَسْلَمْنَا کہنے کی بجائے یہ کہنا شروع کیا کہ صَبَانَا صَبَانَاکہ ہم نے دین چھوڑ دیا، ہم نے اپنا دین چھوڑ دیا۔اِس پر حضرت خالد رضی الله عنہ کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ تو مسلمان نہیں ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے اِن کے قتل کا فتویٰ دے دیا، یہ تاویل پیش کی جاتی ہے۔ ابن سَعْدنے بیان کیا کہ جب خالد رضی الله عنہ اِن کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ تم کس دین پر ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں، نماز پڑھتے ہیں وغیرہ۔ حضرت خالدؓ نے پوچھا کہ پھرتم نے ہتھیار کیوں اُٹھا رکھے ہیں؟ وہ بولے کہ ہمارے اور عرب کی ایک قوم کے درمیان دشمنی چلی آ رہی ہے، ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ وہی دشمن قوم ہے، اِس لیے ہتھیار پکڑ لیے۔ بہرحال روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قیدی نماز بھی پڑھتے تھے اور مسلمان ہی دکھائی دیتے تھے لیکن عین ممکن ہے کہ ان کےقیدیوں میں سے کچھ قیدی ایسے ہوں گے، جیسے خود جحدم اور اِس کی ہاں میں ہاں ملانے والے ، جو سرکشی کا مظاہرہ کرنے والے تھے اور حضرت خالد رضی الله عنہ اُن کی طرف سے مطمئن نہیں ہو رہے تھے۔کچھ صَبَانَا صَبَانَا کہنے نے حضرت خالد رضی الله کو چوکنا کر دیا۔ اِس لیے اُنہوں نے ایک رات کے آخری پہر میں یہ فتویٰ دے دیا کہ اِن قیدیوں کو قتل کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اِس پر کچھ مسلمانوں نے اپنے قیدیوں کو قتل کر دیا ، لیکن مہاجرین اور انصار کے گروہ نے جو پُرانے مسلمان تھے، اُنہوں نے خالد رضی الله عنہ کی اِس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور اپنے قیدیوں کو قتل نہیں کیا۔ انصار کے سردار ابو اُسَیْد ساعدی رضی الله عنہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کے پاس گئے اور اُنہیں بتایا کہ یہ مسلمان ہیں، اِن کو قتل کرنا درست نہیں، حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما اور حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہ رضی الله عنہ نے بھی حضرت خالد رضی الله عنہ کی رائے سے اتفاق نہ کیا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو اپنے اپنے قیدی قتل کرنے سے منع کیا۔ ان رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک قیدی نے مدینے پہنچ کر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں صورتحال بیان کی تو آپؐ نے پوچھا کہ کسی نے خالد کی بات سے اختلاف نہیں کیا یا روکا نہیں؟ جب مذکورہ دو روکنے والے اشخاص کا ذکر کیا گیا اور آنحضرتؐ کو اِس سارے واقعے کا علم ہوا تو آپؐ کو بہت دکھ ہوا۔ آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے خالد کو اُنہیں قتل کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، مَیں نے تو صرف اُنہیں اسلام کی طرف دعوت دینے کا کہا تھا اور پھر آپؐ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دو مرتبہ خدا کے حضور عرض کی کہ اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اَبْرَاُ اِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ کہ اَے الله! خالد نے جو کچھ کیا ہے، مَیں تیرے حضور اِس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر آپؐ نے حضرت علی رضی الله عنہ کو بنو جذیمہ کی طرف اُن کے مقتولین کی دیّت ادا کرنے اور سارے معاملے کی تحقیق کرنے کے لیے بھیجا۔حضرت علیؓ نے وہاں جا کر تمام مقتولین کےورثاء کو خون بہا ادا کیا اور اُن کے جو اموال مسلمانوں نے لیے تھے، اُنہیں وہ سب واپس دیے، یہاں تک کہ لکڑی کا وہ برتن بھی واپس کیا، جس میں کتّا پانی پیتا تھا۔ سب کو دیت وغیرہ کی رقوم دینے کے بعد حضرت علیؓ کے پاس کچھ مال بچ گیا، تو آپؓ نے بنو جذیمہ کے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی ایسا شخص رہ گیا ہو، جس کے کسی نقصان کا ازالہ نہ ہوا ہو؟ سب نے کہا کہ نہیں! پھر حضرت علیؓ نے بچا ہوا مال بھی اُنہی لوگوں کو دے دیا اور کہا کہ مَیں یہ مال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے بطور احتیاط دے رہا ہوں تاکہ اُس ممکنہ نقصان کا بھی ازالہ ہو جائے، جسے نہ الله کا رسول ؐجانتا ہے اور نہ تم جانتے ہو۔ حضرت علیؓ واپس تشریف لائے اور آنحضرتؐ کی خدمت میں ساری رپورٹ پیش کی اور یہ بھی بتایا کہ اِن کی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اِنہیں لَوٹا دی گئی ہے اور باقی بچا ہوا مال بھی اِنہیں دے دیا ہے، تو اِس پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تُونے بالکل ٹھیک کیا اور بہت اچھا کیا۔ اِس واقعہ سے قبل آنحضورؐ نے ایک خواب بھی دیکھا تھا۔ اِس کا سیرت ابنِ ہشام میں ذکر ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ مَیں نے حیس(کھجور ، پنیر اور گھی سے ملا ہوا ایک کھانا ہے)کا ایک لقمہ لیا، تو مجھے اُس کا ذائقہ لذیذ لگا، لیکن جب مَیں نے اُسے نگلا تو اُس کا کچھ حصّہ میرے حلق میں پھنس گیا۔پھر علی نے ہاتھ ڈال کر اِس کو نکالا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اِس کی تعبیر کرتے ہوئے عرض کیا کہ یارسول اللهؐ!یہ آپؐ کے بھیجے ہوئے سرایا میں سے ایک سریّہ ہے، جسے آپؐ روانہ کریں گے، اِس کی کچھ چیزیں تو آپؐ کو پسند آئیں گی اور کچھ قابلِ اعتراض ہوں گی۔ پھر آپؐ علی کو روانہ کریں گے اور وہ اِس میں آسانی کر دیں گے یعنی معاملے کو درست کر دیں گے۔چنانچہ اِس سریّہ کے واقعات سے یہ خواب پورا ہو گیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ ابنِ سَعْدکے بیان سے ظاہر ہے کہ بعض نے لڑائی کی اور یہ ذکر بھی ہے کہ بنو جذیمہ کو مسلّح دیکھ کر حضرت خالدؓ نے اُن سے دریافت کیا کہ کیا بات ہے کہ تم ہتھیار اُٹھائے ہوئے ہو؟ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان اور بعض عرب قبائل کے درمیان پُرانی دشمنی ہے، سو ہم اِس بات سے ڈرے کہ تم وہی لوگ ہو، اِس لیے ہم ہتھیار بند ہو گئے ہیں۔ حضرت خالدؓ نے اُنہیں قید کرنے کا حکم دیا۔ اُن کے بازو جکڑے گئے اور اُنہیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دیا۔ امام ابنِ ہجرؒ نے یہ حوالہ نقل کر کے لکھا ہے کہ لڑنے والوں نے لڑائی کے بعد اپنے آپ کو سپرد کیا۔ امام بخاریؒ کی روایت میں اختصار ہے اور کتاب مغازی کی روایت میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں، اِن میں بھی واضح ارتباط نہیں ہے، البتہ اِس سے مجملاً معلوم ہوتا ہے کہ جو جھڑپ اِس تبلیغی مہم کے دوران ہوئی ہے ، اُس میں زمانۂ جاہلیت کی کسی خونریزی کا دخل ضرور تھا۔ محض لفظ صَبَانَا سے اختلافِ رائے پر بعض قیدیوں کا قتل کیے جانا بعید اَز عقل ہے۔خصوصاً جب مہاجرین و انصاربرملا فتویٰ مذکورہ بالا کے خلاف تھے۔ بعدازاں حضور انور نے اِس واقعہ کے پسِ منظر کے حوالے سےمختلف اسباب بیان فرمائے کہ کیوں دشمنیاں تھیں اور جس کی وجہ سے خالد بن ولید رضی الله عنہ محلِّ اعتراض بنے اور صحابہؓ اِسی وجہ سے حضرت خالدؓ کے فیصلے سے متعلق مطمئن نہ تھے۔ بہرحال حضرت خالد ؓکی طرف سے کسی قسم کا عُذر بنایا نہیں جا سکتا، کیونکہ وہ صرف دعوتِ اسلام کی غرض سے بھیجے گئے تھے، جس میں کسی قسم کا جبر جائز نہیں۔ اور صحابہ کرامؓ کی اکثریت نے اُنہیں نیک مشورہ دیا تھا جو قبول نہیں ہوا اور بنو سُلَیْم کو راتوں رات اپنے قیدی قتل کرنے کا موقع مل گیا۔ مہاجرین و انصار میں سے کسی نے اپنے قیدی قتل نہیں کیے، بلکہ اُنہیں آزاد کر کے آنحضرتؐ کے ارشادات اور آپؐ کے اُسوۂ حسنہ پر عمل کیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ تشرح بخاری کی حضرت سیّدزین العابدین ولی الله شاہ صاحبؓ نے بھی لکھی ہے اور مزید آپؓ نے یہ بڑا عالمانہ نوٹ بھی لکھا ہے کہ یہ اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کی کوئی بد نیتی شامل نہ تھی، اُن سے ایک اجتہادی غلطی ہوئی اور جلد بازی میں اُنہوں نے ایک فیصلہ کیا اور بعد میں جو صورتحال ہوئی ، بطورِ امیرِ لشکر کے، اِس کی ذمہ داری اِن کی بنتی تھی۔ اِس وجہ سے آنحضرتؐ حضرت خالدؓ سے ناراض بھی ہوئے اور خدا کے حضور اپنی بیزاری کا اظہار بھی فرمایا۔اور جب آپؐ نے سارے معاملے کی تحقیق فرمائی ، تو یہی ثابت ہوا کہ کسی غلط فہمی کی بنا پر یہ قتل ہوئے ہیں، تبھی آپؐ نے قصاص کی بجائے دیّت دیے جانے کا فیصلہ فرمایا۔ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ کی گذارشات اور معذرت پیش کرنے کے بعد نبیؐ نے نہ صرف خالد رضی الله عنہ کو معاف فرما دیابلکہ چند ہی دنوں کے بعد غزوۂ حنین کے لیے تیار کیے جانے والے ہراول دستے اور گُھڑ سواروں کے دستے کا نگران اور سالار حضرت خالد رضی الله عنہ کو مقرر فرمایا۔ بعد ازاں حضور انور نے فرمایا کہ اِس کے علاوہ دو اور سرایا کا بھی مختصر ذکر ملتا ہے۔ سریّہ یلملم، آنحضرتؐ نے حضرت ہشام بن العاص رضی الله عنہ کی قیادت میں ۲۰۰؍ افراد پر مشتمل یہ سریّہ مکّے کے جنوب مشرق میں واقع یلملم کی طرف بھیجا۔ سریّہ عُرنہ، یہ عرفات کے سامنے ایک وادی ہے، بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریمؐ نے حضرت خالد بن سعید بن العاص رضی الله عنہ کو ۳۰۰؍ افراد کے لشکر کا امیر بنا کر اِس طرف بھیجا تھا۔اِس سریّہ کا ذکر محمد بن عمر واقدی نے کیا ہے ، اِس کے علاوہ کسی اور معروف سیرت نگار نے اِسے بیان نہیں کیا، اِس لیے محلِّ نظر ہے کہ یہ صحیح بھی ہے کہ نہیں۔ اور نہ کوئی مزید تفصیل اِس کی ملتی ہے۔ خطبہ ثانیہ سے قبل حضور انور نے فرمایا کہ بہرحال اِس سے آنحضرتؐ کی سیرت کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے کہ کہیں بھی آپؐ نے سختی نہیں کی اور یہ الزام بھی جو دشمنانِ اسلام لگاتے ہیں، غلط ہے کہ جنگوں میں آپؐ نے قتل کروایا۔ جہاں غلطی سے بھی کچھ ہو اتوآپؐ نے بڑی ناراضگیوں کا اظہار فرمایا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ25؍ جولائی 2025ء