(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۳؍جنوری ۲۰۱۵ء) اس وقت مَیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وہ واقعات پیش کروں گا جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں بیان فرمائے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور احترام اور آپؑ کا اس بارے میں معیار کیا تھا اور ردّ عمل کس طرح ہوتا تھا اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ لیکھرام کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ لاہور یا امرتسر کے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں آیا اور اس نے آپ کو آ کر سلام کیا۔ چونکہ پنڈت لیکھرام آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اس لئے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ بہت خوش ہوئے کہ لیکھرام آپ کو سلام کرنے آیا ہے۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی۔ اور جب یہ سمجھ کر کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں کہ پنڈت لیکھرام صاحب سلام کر رہے ہیں آپ کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے آ کر سلام کرتا ہے۔ گویا آپ نے اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ لیکھرام آیا ہے۔ لیکن عام لوگوں کے نزدیک یہی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ کسی بڑے رئیس یا لیڈر سے ان کو ملنے کا اتفاق ہوجائے۔ چنانچہ جب کوئی ایسا شخص ان کے پاس آتا ہے وہ بڑی توجہ سے اس سے ملتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب آ جائے تو پرواہ بھی نہیں کرتے۔‘‘ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد8 صفحہ161) اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپ نے اس طرح بھی فرمایا کہ آریوں میں لیکھرام کی جو عزت تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے کہ پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں کہ میرے آقا کو گالیاں دینا چھوڑ دے تب ملوں گا۔‘‘ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114) یہاں اس واقعہ میں جہاں غیرت رسولؐ کا پتا چلتا ہے وہاں یہ بھی سبق ہے کہ صرف بڑے لوگوں کو اس وجہ سے سلام کر دینا کہ وہ بڑے ہیں اور ہماری عزت قائم ہو گی کافی نہیں بلکہ غریب کی عزت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور اصل چیز غیرت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بڑا آدمی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط الفاظ میں کچھ کہتا ہے تو چاہے وہ کتنا بڑا ہو اس کو اہمیت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بہرحال اس کے مختلف زاویے ہیں۔ پھر اسی طرح ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مرزا صاحب کا سلوک اپنی اولاد سے ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ قطعاً خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کبھی ناراض بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں ’’ہم چھوٹے ہوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ حضرت صاحب کبھی غصّے ہوتے ہی نہیں۔‘‘ اولاد سے محبت کا معیار اس قدر بلند تھا کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ سے ہی بیان کیا کہ ’’حضرت مرزا صاحب نے ایک دفعہ کہا کہ میری پسلی میں درد ہے جہاں ٹکور کی گئی لیکن آرام نہ ہوا۔ آخر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی جیب میں اینٹ کا ایک روڑا پڑا تھا جس کی وجہ سے پسلی میں درد ہو گیا۔ پوچھا گیا کہ حضور! یہ کس طرح آپ کی جیب میں پڑ گیا۔ فرمایا محمودنے مجھے یہ اینٹ کا ٹکڑا دیا تھا کہ سنبھال کر رکھنا۔ مَیں نے جیب میں ڈال لیا کہ جب مانگے گا نکال دوں گا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ مجھے دے دیں مَیں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ فرمایا نہیں، مَیں اپنے پاس ہی رکھوں گا۔ تو آپ کو اولاد سے ایسی محبت تھی‘‘۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ ’’ہم سب سے بہت پیار اور محبت کرتے تھے اور خاص طور پر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی مرزا مبارک احمد جو تھے ان سے بہت محبت تھی۔ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس سے زیادہ آپ کسی سے محبت نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر غالب نہیں آئی۔ جب اس لاڈلے بچے نے ایک دفعہ بچپن کی ناسمجھی کی وجہ سے منہ سے کوئی ایسی بات نکال دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف تھی تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے زور سے اسے جسم پہ مارا۔‘‘ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114-115) پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں شامل ہونے کی دعوت حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کو بھی دی گئی اور بانیان جلسہ نے اقرار کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بُرا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن جلسے میں سخت گالیاں دی گئیں۔ ہماری جماعت کے بھی کچھ لوگ وہاں گئے تھے جن میں مولوی نور الدین صاحب بھی تھے جن کی حضرت مرزا صاحب خاص عزت کیا کرتے تھے۔ جب آپؑ نے سنا کہ جلسے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئیں ہیں تو مولوی صاحب کو کہا کہ وہاں بیٹھا رہنا آپ کی غیرت نے کس طرح گوارا کیا؟ کیوں نہ آپ اٹھ کر چلے آئے؟ اس وقت آپ علیہ السلام ایسے جوش میں تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ مولوی صاحب سے بالکل ناراض ہو جائیں گے۔ مولوی صاحب نے کہا حضور! غلطی ہو گئی۔ آپ نے فرمایا یہ کیا غلطی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں اور آپ وہاں بیٹھے رہیں۔ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ۔ انوار العلوم جلد5 صفحہ114-115) پھر آپؓ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے ساتھ میں بھی گیا ہوا تھا اور مجھے بھی بڑی سختی سے ڈانٹا کہ تم وہاں بیٹھے کیوں رہے۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد16 صفحہ298) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: انسان کا مقصد پیدائش۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت