آپؑ نے 12؍جنوری 1889ء کو ایک اعلان ’’تکمیلِ تبلیغ‘‘ کے نام سے شائع فرمایا اور اس میں یکم دسمبر 1888ء کے اشتہار کا حوالہ دے کر 10شرائط بیعت درج فرمائیں۔ ان شرائط بیعت کو ہم سب جانتے ہیں لیکن یاددہانی کیلئے تاکہ یاد تازہ ہو جائے اور احمدی بھی اس سے استفادہ کر لیں اور کیونکہ ایم ٹی اے بڑے وسیع حلقہ میں غیروں میں بھی سنا جاتا ہے وہ بھی اندازہ کر سکیں کہ یہ شرائط کیا ہیں، ان شرائط کو مَیں پڑھ دیتا ہوں۔ پہلی شرط آپ نے فرمائی :’’بیعت کنندہ سچے دل سے عہداس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا۔ ‘‘ ’’دوم یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔‘‘ شرط ’’سوم یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریمﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیارکرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یادکر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہرروزہ وِرد بنائے گا۔‘‘ شرط ’’چہارم یہ کہ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا، نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔‘‘ شرط ’’پنجم یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عُسر اور یُسراور نعمت او ربلا میں خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضا ہو گا اور ہر ایک ذلّت اور دکھ کے قبول کرنے کیلئے اس کی راہ میں تیار رہے گااور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا۔‘‘ شرط ’’ششم یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آ جائے گا اور قرآن شریف کی حکومت کوبکلّی اپنے سر پر قبول کر لے گا۔ اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر یک راہ میں دستور العمل قرار دے گا۔‘‘ شرط ’’ہفتم یہ کہ تکبّر اور نخوت کو بکلّی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خُلقی اور حلیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا۔‘‘ آٹھویں شرط’’ یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہریک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔‘‘ نویں شرط’’ یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔‘‘ دسویں شرط’’یہ کہ اس عاجز سے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے) عقدِ اخوت محض للہ باقرارطاعت در معروف باندھ کر اس پر تاوقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو ۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159-160جدید ایڈیشن)(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍مارچ۲۰۰۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اپریل ۲۰۰۷ء) مزید پڑھیں: پردہ ہمارے ایمان کو بچانے کے لئے ضروری ہے