خدا تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔یعنی یہ کہ (۱)اپنی آ نکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا(۲) کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا۔(۳)نامحرموں کے قصے نہ سننا(۴) اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا(۵) اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔ اس جگہ ہم بڑے دعوے کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام سے ہی خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذباتِ شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔اس لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں۔اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔ اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیںبلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظراندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کیلئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔اوریہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آ جائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا۔یہی وہ خلق ہے جس کو احصان اور عفت کہتے ہیں۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ،روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ ۳۴۳، ۳۴۴) مزید پڑھیں: حکمت کے معنی