https://youtu.be/cvYzAVbTr3k (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍دسمبر ۲۰۰۴ء) وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات:57)۔ اور میں نے جنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔ گزشتہ دنوں مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ بعض لوگ جو آجکل اس مغربی معاشرے سے متأ ثر لگتے ہیں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے یوں لگتا ہے گویا(نعوذ باللہ) خداتعالیٰ کو بھی دنیاداروں کی طرح اپنے ماننے والوں یا اپنے احکامات پر عمل کرنے والوں کی ضرورت ہے یا ایسے لوگ چاہئیں جو ہر وقت اس کا نام جپتے رہیں اس کے آگے جھکے رہیں، یہ تو خط میں واضح نہیں تھا کہ یہ خیالات رکھنے والے احمدی ہیں، غیر احمدی ہیں یا اس ماحول کے لڑکے ہیں یا کوئی اور۔ بہرحال مجھے اس سے یہ تأثر ملا تھا کہ شاید کچھ احمدی لڑکے بھی ہوں یا ان میں کچھ احمدی لوگ بھی ہوں، صرف نوجوان ہی نہیں بڑی عمر کے بھی بعض اوقات ہو جاتے ہیں جو بعض دفعہ لا مذہبوں یا دوسروں سے متا ثر ہو کر ایسی باتیں کر جاتے ہیں یا متأثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو تأ ثر یہی تھاکہ یہ جو پانچ وقت کی نمازیں ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے یہ جیسے کہ زائد بوجھ ہیں اور ان کی اس طرح پابندی کرنی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہے اور آجکل کے مصروف زمانے میں یہ بہت مشکل کام ہے بہرحال دہریت اور عیسائیت دونوں سے متاثر ہو کر ایسے لوگ ایسی باتیں کرسکتے ہیں۔ اور ان پر یہ باتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بےحد شکر ہے کہ مغرب میں رہنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اِلَّامَاشَاءَ اللّٰہ عموماً احمدی یہ تو ہو سکتا ہے کہ عبادت میں نمازوں میں سستی کر جائیں لیکن اس قسم کے نظریات نہیں رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کو عبادت کروانے کی کیا ضرورت تھی۔ یا یہ زمانہ جو سائنس کا اور مشینی زمانہ ہے اس میں اس طرح عبادات نہیں ہو سکتیں، پابندیاں نہیں ہو سکتیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ عموماً تو نہیں ہوتے لیکن اگر چند ایک بھی ایسے احمدی ہوں جن کا جماعت سے اتنا زیادہ تعلق نہ ہو۔ تعلق سے میری مراد ہے جماعتی پروگراموں میں حصہ نہ لیتے ہوں یا جلسوں وغیرہ پہ نہ آتے ہوں یا جن کادینی علم نہ ہو، ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں، یہ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں۔ اپنے ماحول میں اس قسم کی باتوں سے برائی کا بیج بو سکتے ہیں۔ یا بعض دفعہ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جو لامذہب قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور کیونکہ برائی کے جال میں انسان بڑی جلدی پھنستا ہے اس لئے بہرحال فکر بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایسے مغربی معاشرے میں جہاں مادیت زیادہ ہو، اس قسم کی با تیں کہیں اَور وں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں۔ اس وجہ سے مَیں نے اس موضوع کو لیا ہے۔ لیکن کچھ کہنے سے پہلے ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے ماحول میں جائزہ لیتے رہیں۔ عموماً جو احمدی کہلانے والے ہیں عموماً ان تک ان کی پہنچ ہونی چاہئے۔ جو نوجوان دُور ہٹے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا چاہئے تاکہ اس قسم کی ذہنیت یا اس قسم کی باتیں ان کے ذہنوں سے نکلیں۔ مَیں نے ابھی جس آیت کی تلاوت کی ہے اور اس کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور پر یہی فرمایا ہے کہ مَیں نے جن و انس کو عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ لیکن یہاں پابندی نہیں ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ نے جن و انس کی مخلوق پیدا کی ہے وہ ضرور پیدائش کے وقت سے ہی اپنے ماحول میں بڑے ہوں تو ضرور عبادت کرنے والے ہوں۔ ماحول کا اثر لینے کی ان کو اجازت دی گئی ہے۔ باوجود اس کے کہ پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ عبادت کرنے والا ہو اور عبادت کی جائے لیکن ساتھ ہی، جیسا کہ مَیں نے کہا، شیطان کو بھی کھلی چھٹی دے دی، ماحول کو بھی کھلی چھٹی دے دی کہ وہ بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ فرمایا کہ جو میرے بندے بننا چاہیں گے، میرا قرب پانا چاہیں گے وہ بہرحال اپنے ذہن میں یہ مقصد رکھیں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق عبادت کرنی ہے۔ اور اب کیونکہ ایک مسلمان کے لئے وہی عبادت کے طریق ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے ہیں۔ اسی شریعت پہ ہمیں چلنا ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کے آئے ہیں۔ جس طرح انہوں نے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکموں کو سمجھتے ہوئے عبادت کے طریق سکھائے ہیں اسی طرح عبادت بھی کرنی ہے۔ اور جو اوقات بتائے ہیں ان اوقات میں عبادت کرنی ہے۔ اگرنہیں تو پھر مسلمان کہلانے کا بھی حق نہیں ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے کا بھی حق نہیں ہے۔ پھر تو شیطان کے بندے کہلانے والے ہوں گے۔ لیکن ایسے ہی خیالات والے لوگ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوں تو مسلمان گھرانوں کے ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ احمدی ہوں تو اور زیادہ مضبوط ایمان والے گھر کا اثر ہوتا ہے جو اسلام پر عمل کرنے والے ہوں۔ اور اسی ماحول میں کیونکہ پلے بڑھے ہوتے ہیں اس لئے جب بھی ان کو کوئی مشکل پڑتی ہے، جب بھی کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے ہیں تو دعا کی طرف ان کی توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اور پھر دعا کے لئے کہتے بھی ہیں۔ باوجود اس کے کہ اعتراض کرتے ہیں کہ عبادت کا جو اسلام میں طریق کار ہے وہ بہت مشکل ہے۔ گویا ذہن میں عبادت کا تصور بھی ہے اور یہ خیال بھی ہے کہ کسی مشکل وقت میں اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے۔ لیکن پانچ وقت نمازیں پڑھنا کیونکہ بوجھ لگتی ہیں اس لئے عبادت کی تشریح اپنی مرضی کی کرنا چاہتے ہیں، اس سے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر احمدی کہلاتے ہیں، مسلمان کہلاتے ہیں تو عبادت کی وہی تشریح ہے جس کے نمونے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے ہیں اور پھر اس زمانے میں احمدی کے لئے خاص طور پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان نمونوں کو اور قرآن کریم کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کی تفسیر ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے۔ اس لئے ہمیں اس زمانے میں ان احکامات کو سمجھنے کے لئے اور ان پر پابندی اختیار کرنے کے لئے اُسی طرح عمل کرنا ہو گا اور اُنہیں لائنوں پر چلنا ہو گا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں سمجھائی ہیں۔ اور انہیں رستوں پہ چل کے ہم نیکیوں اور عبادت کے طریقوں پر قائم بھی رہ سکتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(الذاریات: 57) اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر پروانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خداتعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں اور خداتعالیٰ کی ذمہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔ وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری بھی اس وقت ہے جب اس کے احکامات پر عمل کرو گے اور اس کی عبادت کرو گے۔ فرمایا کہ ’’وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے۔ موت کا اعتبار نہیں ہے …… تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خداتعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذات نہ ہو۔ مَیں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہوا ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو، بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں۔ اسلام تو انسان کو چست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے، اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو وہ اس کا تردّد نہ کرے تو اس سے مؤاخذہ ہو گا۔ پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جاوے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خداتعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض اور جذبات کو مقدم نہ کرنا‘‘۔ (الحکم مورخہ 10؍ اگست 1901ء صفحہ 2) مزید پڑھیں: صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کا اِخلاص و وفا