حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت [النحل:۱۲۶]کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طرز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے یُّؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ(البقرۃ:270)‘‘(الحکم جلد 7 نمبر 9۔ مورخہ 10؍مارچ 1903ء صفحہ8) تویہ حکمت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، ہم سب کو اختیار کرنی ہو گی۔ اپنے دوستوں کا حلقہ وسیع کرنا ہو گا۔ پھر ایک تعارف سے دوسرے تعارف نکلتے چلے جائیں گے۔ اور جب لوگ آپ کو ایک امن پسند اور ٹھنڈے مزاج کاآدمی سمجھتے ہوئے تعارف حاصل کریں تو یقیناً یہ تعارف مزید مضبوط رابطوں میں تبدیل ہوں گے اور پھل لانے والے ثابت ہوں گے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ حکمت اور بزدلی میں فرق ہے۔ حکمت دکھانی ہے اپنے دین کی غیرت رکھتے ہوئے۔ اس بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’آیت جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَن کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مدا ہنہ کرکے خلاف واقعہ بات کی تصدیق کرلیں۔‘‘(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ) یعنی حکمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بزدلی دکھائی جائے، یہ نہیں ہے کہ اپنے قریب لانے کے لئے جو ہماری تعلیم نہیں ہے اس میں بھی ہاں میں ہاں ملائی جائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں تو اس وقت چپ ہو جائیں کہ اس کو حکمت سے قریب لانا ہے۔ یہ تو پھرشرک کے مدد گار بننے والی بات ہو جائے گی۔ اور بہت سار ے طریقے اور جو اب ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سا منے جلدی طیش میں آ کر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کئے جاتے ہیں ‘‘۔ جو اس طرح سخت کلامی کرتا ہے اس کے منہ سے پھر اچھی باتیں نہیں نکلتیں۔ ’’غضب اور حکمت دونوں جمع نہیں ہو سکتے۔ جو مغلوب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دئیے جاتے۔ غضب نصف جنون ہے جب یہ زیادہ بڑھتا ہے تو پورا جنون ہو سکتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ104 الحکم 10 مارچ1903ء) (خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍اکتوبر ۲۰۰۴ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍اکتوبر ۲۰۰۴ء) مزید پڑھیں: انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل اور برکات