(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۵؍مئی ۲۰۱۲ء) حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور آخری بار لاہور تشریف لے گئے تو میرے والد صاحب کو خط لکھ کر منگوا لیا۔ والد صاحب جب لاہور پہنچے تو خواجہ کمال الدین صاحب نے اُن کو کہا کہ میاں غلام رسول! تم ہمارا یہاں کیا سنوار رہے ہو، (یعنی کیوں آئے ہو تم) والد صاحب نے حضرت صاحب کا خط نکال کر دکھایا اور فرمایا کہ اس شخص سے پوچھو جس نے خط لکھ کر مجھے بلایا ہے۔ پھر حضور سے ملاقات کی اور حضور کی حجامت بھی بنائی، مہندی بھی لگائی نیز خواجہ صاحب کی بات کا بھی ذکر فرما دیا۔ حضرت صاحب نے ایک پرچہ لکھ کر دیا جس پر وہ پرچہ والد صاحب نے نیچے جا کر دکھایا اور تمام لوگ خاموش ہو گئے پھر کسی نے ذکر نہیں کیا۔ پھر حضور نے یہ بھی پیار کا اظہار کیا کہ میرے والد صاحب کو پانچ روپے بھی دئیے اور فرمایا کہ آپ کو تو مَیں نے بلایا ہے، آپ ان کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ41-42۔ روایات حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراحؓ) یعنی یہ محبت کا جذبہ صحابہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اُس سے بڑھ کر سلوک فرمایا کرتے تھے۔ حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حافظ صاحب جب قادیان آئے تو حقہ بہت پیا کرتے تھے اور چوری چوری میاں نظام الدین صاحب کے مکان پر جا کر پیا کرتے تھے۔ یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رشتہ دار تھے لیکن بڑے سخت مخالف تھے۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا۔ فرمایا میاں حامد علی! یہ پیسے لو اور بازار سے ایک حقہ خرید لاؤ اور تمباکو بھی لے آؤ اور جب ضرورت ہو، گھر میں پی لیا کرو۔ ان لوگوں کے پاس نہ جایا کرو۔ (کیونکہ یہ لوگ تو اسلام کے بھی منکر تھے)۔ چنانچہ وہ حقہ لائے اور پیتے رہے۔ مہمان بھی وہی حقہ پیتے تھے۔ چھ سات ماہ کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا میاں حامد علی! یہ حقہ اگر چھوڑ دو تو کیا اچھی بات ہے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ بہت اچھا حضور! چنانچہ انہوں نے حقہ چھوڑ دیا فوراً۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ72-73۔ روایات حضرت شیخ زین العابدین برادر حافظ حامد علی صاحبؓ) پہلے بری صحبت سے بچانے کے لئے ایک عارضی ترکیب یہ کی کہ عارضی انتظام کر دیا کہ جاؤ، اپنا حقہ لے آؤ اور گھر میں پی لیا کرو۔ اور جب ایک وقت گزر گیا پھر فرمایا کہ کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جو صحت کے لئے بھی مضر ہے اور بد عادات میں مبتلا کر دیتی ہے اس لئے اس کو چھوڑ دو تو بہتر ہے۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ کیونکہ ایک دفعہ انتظام کر دیا تھا اس لئے بات جائز ہو گئی۔ سگریٹ نوشی اور یہ چیزیں جو ہیں عموماً ایسی بُری عادتیں ہیں جن کو چھوڑنا بہتر ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ تمباکو وغیرہ ہوتا تو یقیناً اس سے آپ منع فرماتے۔ حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک سیٹھ صاحب تھے، اُن کا ذکر کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ جب وہ تشریف لائے تو حضرت اقدس نے مجھے بلا کر فرمایا کہ میاں غلام حسین! سیٹھ صاحب کی خدمت کے لئے پیرا اور میاں کرمداد کو تو مَیں نے لگایا ہوا ہے مگر وہ سیدھے سادے آدمی ہیں، اس لئے آپ بھی خیال رکھا کریں۔ پیرا کے سپرد یہ خدمت تھی کہ وہ بازار سے اُن کے لئے اشیاء خرید لایا کرے اور چونکہ وہ تمباکو پیتے تھے کرمداد اُن کو حقہ تازہ کر دیا کرتا تھا۔ مجھے حضور نے ان دونوں کی نگرانی کے لئے مقرر فرمایا اور فرمایا کہ آپ بھی ان کا بہت خیال رکھا کریں۔ بڑے معزز آدمی ہیں اور دور سے بڑی تکلیف اُٹھا کر آتے ہیں۔ سیٹھ صاحب مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں غلام حسین! ٹھنڈا پانی چاہئے۔ مَیں دوڑ کر بڑی مسجد سے اُن کے لئے تازہ پانی نکال کر لے آتا۔ اُن کا کھانا بھی اندرسے پک کر آیا کرتا تھا۔ مَیں ہی اُنہیں کھلایا کرتا تھا۔ وہ قریباً ایک ماہ سے لے کر ڈیڑھ ماہ تک رہا کرتے تھے۔ حضرت صاحب وقتاً فوقتاً خاکسار سے پوچھا بھی کرتے تھے کہ سیٹھ صاحب کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مسجد میں مسکرا کر سیٹھ صاحب سے دریافت کیا کہ سیٹھ صاحب! آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! کوئی تکلیف نہیں۔ میاں غلام حسین تو پانی بھی مسجد سے لا کر دیا کرتے ہیں۔ حضرت صاحب سیٹھ صاحب کو رخصت کرنے کے لئے دارالصحت تک تشریف لے جایا کرتے تھے اور جب حضرت صاحب واپس لوٹتے تو مجھے، پیراں دتہ اور کرمد اد کو بلا کر دو دو روپے ان دونوں کو اور مجھے پانچ روپیہ دیا کرتے تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ89-90۔ بقیہ روایات ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ) خدمت اور اِکرامِ ضیف مہمان کی خدمت جو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل میں تو سب کرتے ہی تھے۔ ایک تو ویسے بھی حکم ہے کہ مہمان کی مہمان داری کرنی چاہئے لیکن یہاں خدمت کا ثواب کمانے کے لئے اور دوسرے محبت اور اطاعت کا اظہار کرنے کے لئے ایک اَور فرض بھی بن گیا تھا۔ حضرت مولوی عزیز دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مفتی محمد صادق صاحب نے جو اُس وقت لاہور میں ملازم تھے، صبح کے وقت جانے کی اجازت مانگی۔ حضرت صاحب نے فرمایا: آپ نہ جائیں، آج یہیں رہیں۔ پھر مفتی صاحبؓ نے دوپہر کے وقت عرض کی کہ حضور! نوکری کا کام ہے۔ آج پہنچنا ضروری تھا۔ اب تو وقت بھی گزر گیا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا: وقت کی کوئی فکر نہ کریں، آپ ابھی چلے جائیں ان شاء اللہ ضرور پہنچ جائیں گے۔ مفتی صاحب بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے اور میں بھی ان کے ساتھ بٹالہ چلا۔ وقت چار بجے کا ہو گیا۔ ان ایام میں بٹالہ سے لاہور کو دو بجے گاڑی جایا کرتی تھی۔ مایوس تو سبھی تھے مگر جب اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گاڑی دو گھنٹے لیٹ ہے۔ چنانچہ وہ گاڑی آئی اور ہم سوار ہو کر لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ جلسہ کے ایام کی بات نہیں، بلکہ کوئی اور وقت تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ215-216۔ روایات مولوی عزیز دین صاحبؓ) حضرت میاں عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میاں چراغ دین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ اتوار کے دن مَیں نے حضرت صاحب سے اجازت مانگی کہ حضور! مجھے دفتر حاضر ہونا ہے۔ حضرت صاحب اکثر اجازت دے دیا کرتے تھے مگر اُس دن اجازت نہ دی۔ پیر کے دن صبح اجازت دی۔ یہاں سے گیارہ بجے گاڑی پر سوار ہو کر تین بجے لاہور پہنچے اور سیدھے ٹم ٹم میں بیٹھ کر ساڑھے تین بجے دفتر پہنچے۔ کرسی پر بیٹھے ہی تھے۔ (اب یہاں دیکھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم اور اطاعت کی وجہ سے رُکے تھے، اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ سلوک کیا اور عجیب معجزانہ واقعہ ہوا ہے) کُرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ دفتر کا کوئی کلرک آیا اور کہنے لگا کہ بارہ بجے آپ کو کاغذ دئیے تھے، وہ کام آپ نے کیا ہے یا نہیں۔ (حالانکہ یہ پہنچے ہی تین بجے تھے) پھر ایک افسر آیا۔ اُس نے کہا چراغ دین! گیارہ بجے جو آپ نے چٹھی دی تھی یہ اُس کا جواب ہے۔ (یعنی اُس افسر کے پاس ایسا انتظام اللہ تعالیٰ نے کیا، کوئی بھی چٹھی لے کر گیا تھا وہ سمجھے کہ چراغ دین لے کے آئے، یا بہر حال اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے کام کیا)۔ فرمانے لگے کہ دفتر کا ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ مَیں دفتر میں ہی ہوں، چنانچہ چار بجے شام میں دفتر سے گھر چلا گیا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ234۔ روایات میاں عبدالعزیز صاحبؓ آف لاہور) یہ بھی اطاعت اور فرمانبرداری اور پھر صحابہؓ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک تھا، اُس کی ایک مثال ہے۔ مزید پڑھیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد