بچوں کی تربیت کا سلسلہ تو ان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن ذمّہ دار والدین ہر اس موقعہ کی تلاش میں رہتے ہیں جب وہ اپنے بچوں کی تربیت پر مزید توجہ مرکوزکر سکیں۔یوں تو دوران سال سکول اور یونیورسٹیاں ہفتہ دو ہفتہ کے لیے بند ہوتی رہتی ہیں لیکن ہر کسی کو سب سے زیادہ انتظار موسم گرما کی تعطیلات کا ہوتا ہے۔ جو عموماً دو ماہ کے عرصہ پر محیط ہوتی ہیں۔ اتنا طویل عرصہ گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی لائحہ عمل بنایا جاتا ہے۔چھٹیوں کے دنوں میں روزمرہ کی مصروف زندگی کی نسبت معمولات زندگی کچھ مختلف ہو جاتے ہیں۔ لہذا والدین اور بچے ان دنوں کے بہترین مصرف کے لیے کئی پروگرام بنا سکتے ہیں۔بچوں اور بڑوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے جہاں اچھی نیند لینا مفید ہے۔ وہیں ورزش کرنا بھی بہت اہم ہے۔ لہذا صبح کی سیر کو معمول بنایا جا سکتا ہے۔ صبح کی تازہ ہوا، فضا میں ہلکی سی خنکی، پرندوں کی چہچہاہٹ، سورج کے طلوع ہونے کا منظر، سبز گھاس اور کھلتے ہوئے تازہ پھول سیر کرنے والوں کے مزاج کو نئی تازگی بخشتے ہیں۔ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔ ایسے موقعہ پر والدین بچوں کو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو محسوس کر کے خدا تعالیٰ کی موجودگی اور اس کے احسانات پر غورکرنے کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں۔موسم گرما کی تعطیلات میں بچوں کو کتابوں کے مطالعہ کی طرف توجہ دلائی جانی چاہیے۔ والدین اُن سے ان کی پسندیدہ کتابوں کے بارے میں گفتگو کریں اور پھر ان کو جماعتی کتب کے مطالعہ کی ضرورت اور اہمیت سے متعارف کروائیں۔ ہو سکے تو روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کے چند صفحات بچوں کو بلند آواز سے پڑھنے کے لیے دیں اور باقی فیملی ممبرز ان کو غور سے سنیں۔دس شرائط بیعت میں سے ایک شرط پڑھ لی جائے اور پھر ہفتہ بھر اس پر گاہے بگاہے بات چیت کی جائے۔ کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی جماعت سے کیا توقعات ہیں اور ہم کس طرح اپنی اصلاح کر کے آپ ؑکے بتائے گئے معیار پر پورا اترسکتے ہیں۔چھوٹے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے پینٹنگ اور ڈرائینگ کروائی جا سکتی ہے۔ ان کی لکھائی کو درست کرنے کے لیے ان کی مدد کی جا سکتی ہے۔ کمپیوٹر اور فون کے استعمال نے آج کے بچوں سے ان کی خُوش خطی چھین لی ہے۔ بازار سے یہ عملی مشک کرنے کی کتابیں بہت سستے داموں مل جاتی ہیں۔ہمیں ہمیشہ اس بات کی فکر رہتی ہے اور رہنی چاہیے کہ ہمارے بچوں کے دوست کیسے ہیں۔ چھٹیوں کے دوران ان کے دوستوں اور سہیلیوں کو ہلکی پھلکی دعوت پر اپنے گھر میں یا کسی پارک میں بلایا جا سکتا ہے۔ جہاں وہ مل کر وقت گزاریں اور والدین کا بھی ان سے تعارف ہو جائے گا۔ پارک میں ہی بچوں کے ورزشی مقابلے کروائے جا سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایسے پارک کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے جو بچوں نے پہلے نہ دیکھا ہو۔ بچے ہوں یا بڑے، ہر کوئی نئی جگہ پر جا کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ سمندر اور جھیل کے کنارے جا کر قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونا، تیراکی کرنا، کشتی چلانا یا مل کر دوڑ لگانا بھی صحت پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔موسم گرما کی تعطیلات کے دوران مختلف ممالک میں جماعت کے جلسہ جات منعقد ہوتے ہیں جن پر جانا بڑوں اور بچوں کے لیے یکساں مفید ہوتا ہے۔ اگر کسی وجہ سے جلسہ پر نہ جا سکیں تو ایم ٹی اے کے ذریعہ جلسہ کی کاروائی خود بھی سنیں اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھا کر دکھائیں۔اسی طرح سے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا خطبہ جمعہ سننے کی عادت کو اپنائیں۔ بچوں کو عام دنوں میں نماز جمعہ کی ادائیگی میں مشکل پیش آتی ہے لیکن چھٹیوں میں ان کواپنے ہمراہ مسجد لے جانے کی عادت ڈالیں۔ گھر پر ہوں تو باجماعت نمازیں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ حضورِ انور ایدہ اللہ کو خط لکھوا کر پوسٹ کروائیں۔مائیں باورچی خانے میں بچّوں اور بچّیوں دونوں سے ہلکی پھلکی مدد لے سکتی ہیں۔ اس سے ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اور کام کرنے کی عادت بھی ہو جاتی ہے۔کھانا اکٹھے مل کر کھائیں اس سے فیملی میں محبت بڑھتی ہے۔ نیز بچے کھانے کے آداب بھی سیکھ لیتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔اگر آپ ایسے گھر میں رہ رہے ہوں جہاں پر پھول پودے اور سبزیاں اُگائی جا سکتی ہیں تو بچوں کو اس مشغلہ میں مصروف کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان کی مختلف صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے۔والدین کو حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ موسم گرما کی چھٹیوں کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اپنے بچوں سے پیار محبت سے بات چیت کر کے ان کو اپنے قریب لائیں۔ ان کی ہر بات غور سے سنیں اور ان کے سوالوں کے مناسب جواب دیں۔ بچّوں سے بات کرتے وقت ان کی طرف دیکھیں ایسا نہ ہو کہ آپ کے ہاتھ میں فون ہو اور نگاہیں بچوں کو دیکھنے کے بجائے فون پر مرکوز ہوں۔ ویسے بھی ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ بات کرنے والا اور سننے والا دونوں ایک دوسرے کو توجہ دیں نہ کہ ٹیکنالوجی کا استعمال ان کے لیے زیادہ اہم ہو۔چھٹیوں کے ان قیمتی لمحات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت جانیں۔ مزید پڑھیں:چھوٹے بچوں کی تربیت کا طریق