https://youtu.be/1WTNxJJqMKM جرمن قوم تین سو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس غرض کے لیے اس نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اگر اس جنگ میں بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ہم اسے بتا سکیں گے کہ خدا نے تمہاری ترقی کا کوئی اَور ذریعہ مقرر کیا ہوا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تم خدا کے دین میں داخل ہو جاؤ اور بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ(آل عمران:۱۱۳) ترقی کر جاؤ۔ پھر تمہیں دنیا میں کوئی مغلوب نہیں کر سکے گا۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ جرمن قوم کا اس شکست میں دینی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ ہے اور عنقریب تبلیغ کے لیے ہمیں ایک ایسا میدان میسّرآنیوالا ہے جہاں کے رہنے والے باتیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں اور زبانی دعوے نہیں کرتے بلکہ عملی رنگ میں قربانی کر کے دکھاتے ہیں(المصلح الموعودؓ) ’مسیح‘ کے لفظ میں یہ پیشگوئی شامل ہے کہ آنے والا مسیح بہت زیادہ سفر اختیار کرے گا اور یہ بھی کہ مسیح موعود کی اتباع میں اس کے خلفاء بھی مختلف ضروریات کے لیے سفر کے اس تسلسل کو جاری رکھیں گے۔ دنیا میں ہر انسان کو کسی نہ کسی مقصد کے لیے سفر کرنا پڑتا ہے مثلاً حصول علم کے لیے سفر، تلاش معاش کے لیے، عزیز و اقارب سے ملنے کی غرض سے اور رضائے باری تعالیٰ یا احیائے کلمۃ اللہ کے لیے سفر۔ انبیاء کا ہر سفر خالصتاً اللہ کی خاطر ہوتا ہے۔ یہی حال ان کے خلفاء کے سفروں کا ہے۔ جماعت احمدیہ مغربی جرمنی خوش نصیب جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جہاں حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہے اور اس سرزمین کو قدم بوسی کا شرف بخشتے رہے۔ خلفائےاحمدیت نے جرمن قوم کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں خوشخبریوں سے بھی نوازا ہے اور ان رؤیا صالحہ کا ذکر فرمایا ہے جن میں واضح طور پر اس کے بالآخر مسلمان ہوجانے کی پیشگوئیاں درج ہیں۔ مضمون ہٰذا میں مجھے خلفاء حضرت مسیح موعودؑ کے اس غرض کے لیے اختیار کیے گئے سفروں کا تذکرہ اوران کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمرات کا ذکر کرنا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بیرونِ ہندوستان کا سفر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لندن میں ویمبلےکانفرنس میں شمولیت کے لیے۱۹۲۴ء میں اختیار کیا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دوسرا سفر یورپ ۱۹۵۵ء میں اختیار فرمایا۔ اس سفر کے دوران حضورؓ شام، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، جرمنی اور انگلینڈ تشریف لے گئے۔ حضرت مصلح موعودؓ کا جرمنی میں ورود جرمنی میں تبلیغ اسلام کے لیے سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جنگ عظیم اوّل سے پیشتر مساعی کا آغاز کر دیا تھا اور ۱۹۲۳ء میں یہاں مبلغ سلسلہ مکرم مولوی مبارک علی صاحب بنگالی اور حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کو بھجوایا۔ جرمنی کے حالات کی وجہ سے یہاں مختلف رکاوٹیں پیدا ہو گئیں اور پھر جنگ عظیم دوم کا آغاز ہو گیا۔ سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان حالات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ۱۹۴۱ء کی مجلس مشاورت میں اپنے خطاب کے دوران فرمایا:’’میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر جرمنی کو شکست ہوئی تو اس کے بعد تبلیغ کا بہترین مقام جرمنی ہو گا۔ جرمن قوم تین سو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس غرض کے لیے اس نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں مگر ابھی تک وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اگر اس جنگ میں بھی اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تو ہم اسے بتا سکیں گے کہ خدا نے تمہاری ترقی کا کوئی اور ذریعہ مقرر کیا ہوا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تم خدا کے دین میں داخل ہو جاؤ اور بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ (آل عمران: ۱۱۳)ترقی کرجاؤ۔ پھر تمہیں دنیا میں کوئی مغلوب نہیں کر سکے گا۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ جرمن قوم کا اس شکست میں دینی لحاظ سے بہت بڑا فائدہ ہے اور عنقریب تبلیغ کے لیے ہمیں ایک ایسا میدان میسّرآنیوالا ہے جہاں کے رہنے والے باتیں نہیں کرتے بلکہ کام کرتے ہیں اور زبانی دعوے نہیں کرتے بلکہ عملی رنگ میں قربانی کر کے دکھاتے ہیں۔‘‘(خطابات شوریٰ جلد دوم صفحہ ۵۷۷) ۱۵؍ جون ۱۹۵۵ء کو حضورؓ آسٹریا سے جرمنی کے شہر نیورنبرگ تشریف لائے۔ یہ خلیفۃ المسیح کا جرمنی میں پہلا ورود تھا۔ حضور کے استقبال کے لیے مکرم چودھری عبداللطیف صاحب مرحوم مبلغ جرمنی مع ۱۵؍نو مسلم مرد و عورتیں یہاں موجود تھے۔ حضورؓ نے اپنے قیام کے دوران نو مسلمین کے ساتھ جرمنی میں تبلیغ کا کام وسیع کرنے اور مسجد کی تعمیر کرنے کے معاملات پر گفتگو فرمائی۔ اسی روز مقامی جماعت نے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا۔ حضورؓ نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جرمن قوم کو اللہ تعالیٰ نے بہت ہمت عطا فرمائی ہے، وہ باوجود لڑائیوں کی تباہ کاری کے پھر ترقی کر جاتی ہے۔ ۱۷؍ جون کو حضور نیورنبرگ سے روانہ ہوئے اور رات Bad Godesberg میں قیام کرنے کے بعد ۱۸؍ جون کو ۵ بجے کے قریب ہیگ (ہالینڈ) پہنچے۔ ۱۹؍ تا ۲۴؍ جون حضور ہالینڈ میں قیام فرما رہے اور پھر دوبارہ جرمنی تشریف لے گئے اور ہمبرگ کے ہوائی مستقر پر جہاز سے اترے جہاں پر مبلغ سلسلہ چودھری عبداللطیف صاحب کے علاوہ کچھ احباب نے اھلاً و سھلاً و مرحبا کہا۔ کسٹم وغیرہ سے فارغ ہو کر حضور ۵ بجے ہوٹل میں پہنچے جہاں دیگر احباب جماعت موجود تھے۔ حضور نصف گھنٹہ کے بعد ملاقات کے کمرہ میں تشریف لے آئے۔ پہلے ہمبرگ کے ایک مشہور جرنلسٹ مسٹر Pirath نے اپنے فوٹوگرافر کے ساتھ حضور کا انٹرویو لیا اور کئی ایک فوٹو لیے اس کےبعد ایک گھنٹہ تک حضورؓ احباب جماعت سے مشن کے استحکام کے متعلق تبادلہ خیالات فرماتے رہے اور دیگر ضروری امور کے علاوہ ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر کے متعلق تفصیلی گفتگو فرمائی۔ ۲۶؍جون بروز اتوار صبح ۱۰بجےحضور اپنے ڈاکٹری معائنہ کے لیے تشریف لے گئے واپس تشریف لا کر حضورؓ نے کچھ آرام فرمایا اور اس کے بعد Kiel سے آئے ہوئے جرمنی کے ایک بہت بڑے مستشرق سے ایسی مؤثر گفتگو فرمائی کہ اس نے اسی روز حضور ؓکے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ بیعت لینے کے بعد حضورؓ نے فرمایا: خدا تعالیٰ غالباً مجھ کو ہمبرگ اس لیے لایا تھا کہ آپ میرے ہاتھ پر اسلام قبول کریں ۔حضورؓ نے اس کا اسلامی نام زبیر تجویز فرمایا۔ ہمبرگ کے ایک اور نامور جرمن مستشرق ڈاکٹر Abel بھی حضورؓ سے ملاقات کے لیے آئے اور نصف گھنٹہ تک گفتگو کی حضورؓ ان سے عربی میں گفتگو فرماتے رہے۔ بعد میں حضورؓ نے ان کی زبان دانی کی تعریف فرمائی۔ ان ملاقاتوں سے فارغ ہونے پر حضورؓ نماز کے لیے تشریف لائے۔ نماز کے بعد حضور قریباً ایک گھنٹہ مجلس میں رونق افروز رہے اور لوکل احمدیوں سے مختلف امور کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے۔ حسب ضرورت چودھری عبداللطیف صاحب جرمن زبان میں ترجمہ کرتے رہے۔ حضورؓ نے دیگر امور کے علاوہ مسجد تعمیر کرنے کے بارے میں پھر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور جلد از جلد زمین کے حصول کی تاکید فرمائی۔ ۲۷؍ جون بروز سوموار حضورؓ کی بلند پایہ شخصیت کے پیش نظر ہمبرگ گورنمنٹ نے بھی Receptionکا انتظام کیا اور حضورؓ ہمبرگ گورنمنٹ کے نمائندگان کو ملنے کے لیے ۱۰ بج کر ۴۵ منٹ پر ٹاؤن ہال تشریف لے گئے اور وزیر تعمیر مسٹر Josef von Fisenne نے حضور کے استقبال کی سعادت پائی۔ مقامی جماعت کی طرف سےحضور کے اعزاز میں دعوت اسی روز شام کے ساڑھے ۷ بجے حضورؓ کے اعزاز میں ہمبرگ کی جماعت نے دعوت چائے کا انتظام کیا جس میں احمدی احباب کے علاوہ ہمبرگ کے معززین نے بھی شرکت کی۔ پریس کے نمائندے بھی شامل ہوئے اور انہوں نے فوٹو بھی لیے۔ مکرم عبدالکریم ڈنکر صاحب نے حضور ؓکی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضورؓ نے کھڑے ہوکر خاص ولولہ اور روحانی کیفیت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک انگریزی زبان میں تقریر فرمائی۔ جس میں احمدی احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد مرکز احمدیت ربوہ کی تعمیر کی تفاصیل بیان فرمائیں کہ کس طرح ایک بنجر علاقہ جس میں صرف تین Tent ابتدا میں تھے خدا تعالیٰ نے ایک پُر رونق شہر بسا دیا۔ اپنے خطاب کے دوران حضورؓ نے فرمایا کہ جرمن قوم کا کریکٹر بلند ہے۔ اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلدی تعمیر کر لیا ہے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ جرمن قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اسی روح کو بلند کرنے کی تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی۔ حضورؓ نے فرمایا کہ میں اس نبیﷺ کا پیرو کار ہوں جس نے دنیا میں امن اور رواداری کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے مخالفین جنہوں نے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا، کو فاتح ہونے کی حیثیت میں کس طرح معاف کر دیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اسلام اس رواداری کی تعلیم کا حامل ہے اور اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔ اسلام قومیت اور رنگ و نسل کی تمیز سے بالا ہے اور دنیا میں عالمگیر برادری اور اخوت کو قائم کرنے کے لیے زریں اصول پیش کرتا ہے۔ حضور کی اس محبت بھری تقریر کا جرمن ترجمہ چودھری عبداللطیف صاحب نے بعد میں کیا۔ حاضرین نے حضور کی تقریر کو بہت پسند کیا۔ اخبارات میں چرچا ہمبرگ کے ایک روزنامہ Hamburger Anzeiger نے اپنی اشاعت مورخہ ۲۸؍ جون ۱۹۵۵ء میں حضور کی اس تقریر اور ہمبرگ گورنمنٹ کی طرف سے خوش آمدید کا ذکر ایک نہایت خوبصورت تصویر کے ساتھ اس عنوان سے کیاکہ ’’امیر المومنین ٹاؤن ہال میں‘‘ نیز لکھا کہ احمدیہ جماعت کے امام حضرت مرزا محمود احمد صاحب کو لوکل ٹاؤن ہال میں Minister von Fisenne نے خوش آمدید کہا۔ ۶۶سال کی عمر کے امیرالمومنین نے کل جماعت کی طرف سے دی ہوئی دعوت چائے کے موقع پر بیان کیا کہ اسلام صلح اور امن کا مذہب ہے اور عالمگیر اخوت کو قائم کرنے کے لیے اصول پیش کرتا ہے۔ اس لیے اسلام یورپ کے لیے مناسب حال مذہب ہے اور خاص طور پر جرمنی کے لیے۔ عالمگیر مذہب ہونے کی بنا پر اسلام کا مستقبل جرمنی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی روح جرمنی میں زندہ ہے۔ اس روزنامہ کے علاوہ جرمنی کے دیگر بیسیوں اخبارات میں بھی حضور کی آمد کی خبر کم و بیش انہی الفاظ میں شائع ہوئی۔ اسی دن حضور ؓنے مشن کی Guest Book میں اپنے قلم مبارک سے انگریزی میں جو ریمارکس دیے ان میں مبلغ سلسلہ چودھری عبد اللطیف صاحب کے بارے میں لکھا۔ (ترجمہ) جرمنی میں تمہاری کامیابی حیرت انگیز ہے اور معجزانہ رنگ رکھتی ہے۔ تم نے جرمنی کے رہنے والوں کے دلوں کو فتح کیا ہے اور یہ کام صرف تمہاری کوششوں سے نہیں ہوسکتا۔ یہ یقینی طور پر خدا کا کام ہے۔ بعض نو مسلم نہایت جوشیلے اور مخلص ہیں۔ خدا تعالیٰ تمہیں زیادہ سے زیادہ نو مسلم عطا فرمائے۔ اور تمہارے ذریعہ جرمنی کے لوگوں کے دل اسلام کے لیے کھول دے۔ اور خدا تعالیٰ تمہیں ہمبرگ میں ایک موزوں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو جرمنی کے تمام لوگوں کے لیے اور خاص طور پر یہاں کے نو مسلموں کے لیے ایک مرکز بنائے۔ آمین حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق یورپ یقینی طور پر اسلام کی طرف رجوع کر رہا ہے۔ خدا تعالیٰ جرمنی کے نومسلموں کو اپنی برکات میں سے حصہ عطا فرمائے اور ان کو لاکھوں لاکھ کی تعداد میں بڑھاتا چلا جائے یہاں تک کہ جرمنی میں ان کی اکثریت ہو جائے۔ آمین ہمبرگ میں مسجد کی تعمیر اور افتتاح میرا موضوع حضرت مسیح موعودؑ کے خلفاء کی جرمنی میں آمد اور اس کے ثمرات ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے جس دورہ کا میں نے ذکر کیا ہے اس وقت یہ عاجز تو یہاں پر نہیں تھا۔ لیکن میں نے حضورؓ کے اس دورہ کے ثمرات کا مشاہدہ ضرور کیا ہے۔ حضورؓ نے جرمنی میں جلد مسجد تعمیر کرنے کا جو ارشاد فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضورؓ کی یہ مبارک خواہش دو سال کے اندر اندر پوری ہو گئی۔ چنانچہ ۲۲؍ فروری ۱۹۵۷ء کو ہمبرگ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اسی سال ۲۲؍ جون کو چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے اس کا افتتاح فرمایا۔صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے نمائندہ کی حیثیت سے اس میں شرکت کی اور حضورؓ کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ اس پیغام میں حضورؓ نے اپنے اس ارادہ کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جرمنی کے بعض اَور شہروں میں بھی مساجد کا افتتاح کیا جائے۔ حضورؓ نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا: ’’خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے۔ ہم ایک مبلغ یا درجنوں نو مسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کریں تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہاتھ میں ہو۔‘‘(روزنامہ الفضل ربوہ ۲۶؍ جون ۱۹۵۷ء) مسجد فرینکفرٹ کی تعمیر و افتتاح مسجد ہمبرگ ،جس کا نام مسجد فضلِ عمر رکھا گیا ،کے افتتاح پر ابھی دو سال بھی نہ ہوئے تھے کہ فرینکفرٹ میں دوسری مسجد بھی تعمیر ہو گئی جس کا نام مسجد نور رکھا گیا۔ تقریباً چالیس اخبارات نے مسجد کے افتتاح کی کارروائی شائع کی جس سے وسیع پیمانے پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ گیا۔ مساجد و مشن ہاؤسز کا کام اور تبلیغ اسلام کے کام کو اس کے بعد کے سالوں میں بڑی وسعت حاصل ہوئی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کا مغربی جرمنی کا سفر جرمنی میں اسلام کے روحانی انقلاب کی بنیادی اینٹ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس ہاتھوں سے رکھی جا چکی تھی جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ اس بنیاد کو مضبوط تر، مستحکم اور وسیع کرنے کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے بحیثیت خلیفۃ المسیح جرمنی کے چھ دورے فرمائے۔ پہلا دَورہ ۱۹۶۷ء، دوسرا دَورہ ۱۹۷۰ء، تیسرا دَورہ ۱۹۷۳ء، چوتھا دَورہ ۱۹۷۶ء، پانچواں دَورہ ۱۹۷۸ء اور چھٹا اور آخری دَورہ ۱۹۸۰ء میں فرمایا۔ حضورؒ اپنے پہلے دورہ یورپ پر۱۹۶۷ء میں جب تشریف لائے تو مغربی جرمنی کا بھی دَورہ فرمایا۔اس دورے میں حضورؒ ۸ تا ۱۰؍ جولائی فرینکفرٹ میں رونق افروز رہے۔ ۹؍ جولائی کو فرینکفرٹ میں جماعت احمدیہ جرمنی کی طرف سےحضورؒ کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں جرمنی کے احمدی مخلصین کے علاوہ شہر کے دوسرے معززین مثلاً پادری، وکلاء اور پروفیسر صاحبان بھی شامل ہوئے۔ اس موقع پر چودھری عبداللطیف صاحب مبلغ انچارج جرمنی نے سپاس نامہ پڑھا جس کے جواب میں حضورؒ نے انگریزی میں ایک پُراثر خطاب فرمایاجس میں جرمنوں کو یہ پُرشوکت پیغام دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تائید و نصرت کے لیے اپنے ایک موعود بندے کو اس زمانے کا مصلح اور مسیح موعود اور مہدی بنا کر بھیجا ہے جس نے دنیا کو چیلنج دیا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل ہونے کی حیثیت میں کثرت سے میرے ہاتھ پر نشان ظاہر کیے ہیں۔ اگر عیسائیوں میں سے کوئی یہ ثابت کر کے دکھائے کہ مسیحؑ کے معجزات کیفیت اور کمیّت میں میرےمعجزات سے بڑھ کر ہیں تو میں ایک زرکثیر انعام دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس تعلق میں حضورؒ نے فرمایا کہ اُس مسیح موعودؑ کے تیسرے خلیفہ کی حیثیت میں مَیں وہی چیلنج دنیا کے سامنے پھر دہراتا ہوں، اگر دوسرے مذاہب کے راہنما میرے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں تو ہمیں خوشی ہو گی کیونکہ اس طرح پر دنیا اسلام اور بانی جماعت احمدیہ کی سچائی پر روشن نشان دیکھ لے گی۔ آخر میں حضورؒ نے فرمایا کہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام کا خدا ایک زند ہ خدا ہے اور محمد رسول اللہﷺ ایک زندہ نبی اور مسیح موعودؑ آپ کے فرزند جلیل ہیں۔ فرینکفرٹ میں حضورؒکا قیام مشن ہاؤس میں تھا۔ اس موقع پر علاوہ جرمن نومسلموں کے بہت سے دوسرے احمدی بھی اپنے آقا کی زیارت کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔ دوران قیام مسٹر والٹر ہلز نے دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ علاوہ ازیں اطالوی مستشرق ڈاکٹر کیو سی بھی بغرض ملاقات حاضر ہوئے۔جنہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ مکہ معظمہ و مدینہ عمرہ و حج کے لیے گئے اور قادیان و ربوہ جلسہ سالانہ پر حاضر ہوئے نیز قرآن مجید کا اسپرانٹو زبان میں ترجمہ بھی کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرینکفرٹ کے بعد ۱۶تا ۱۹؍ جولائی ہمبرگ میں بھی رونق افروز رہے۔ ریڈیو ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ ملک بھر میں حضور ؒکی آمد کا غیر معمولی چرچا ہوا اور لاکھوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ اندازاً ساٹھ ستّرلاکھ نفوس کو ٹیلی ویژن کے ذریعہ تعارف کا موقعہ ملا جو خالصتاً ایک خدائی تصرف تھا۔ ہمبرگ میں بھی حضورؒ کے اعزاز میں شاندار استقبالیہ تقاریب منعقد کی گئیں جن میں معززین شہر اور نمائندگان حکومت بھی شامل ہوئے۔ اٹلانٹک ہوٹل میں وسیع پیمانے پر ایک پریس کانفرنس کا انعقاد بھی عمل میں آیا جس میں ملکی اخبارات کے نمائندوں کے علاوہ خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندے، مختلف ریڈیو سٹیشنوں اور مقالہ نگار( فیچر رائٹر)، ۳۵؍کی تعداد میں شامل ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس کانفرنس میں باقاعدہ اخباری بیان جاری کرنے کی بجائے سوال و جواب کے طریق کو ترجیح دی۔ اس موقع پر نامہ نگاروں اور نمائندوں نے کثرت سے سوالات کیے جن کے جوابات حضوؒر نے روح القدس کی تائید سے نہایت درجہ بشاشت اور بے تکلفی سے ایسے مدلل اور پرزور رنگ میں دیئے کہ سب پر اسلامی دلائل کی معقولیت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اس کانفرنس نے نہ صرف ہمبرگ کے عوامی حلقوں میں ہی زبردست تہلکہ مچا دیا بلکہ اخبارات نے بھی حضورؒ کے سفر ہمبرگ اور پریس کا نفرنس کی خبریں نمایاں طور پر شائع کیں۔(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد ۱۲ صفحات ۱۵۴ تا ۱۵۶، شائع کردہ نظارت نشرو اشاعت قادیان ۲۰۰۷ء) حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا دوسرا دورہ جرمنی ۱۹۷۰ء میں حضورؒ مغربی افریقہ کے سفر پر جانے سے قبل زیورک اور فرینکفرٹ میں کچھ عرصہ کے لیے ٹھہرے۔ ۹؍ اپریل کو فرینکفرٹ میں تشریف لائے۔ یہاں پر قیام کے دوران ایک مجلس میں اپنے خدام کو قیمتی ہدایات سے نوازنے کے علاوہ ایک خطبہ جمعہ بھی ارشاد فرمایا۔ نماز جمعہ میں ایک زیر تبلیغ نوجوان بھی شامل ہوا جس کو حضورؒ کی روحانی توجہ نے اپنی طرف کھینچ لیا اور وہ بیعت کر کے احمدیت اسلام میں شامل ہوا۔ حضورؒ نے انہیں ہدایت اللہ کا نام عطا فرما یا جب کہ ان کا فیملی نامHübsch تھا۔(از تاریخ احمدیت جلد ۱۲ صفحہ ۱۶۳، ۱۶۴ ، شائع کردہ نظارت نشرو اشاعت قادیان ۲۰۰۷ء) ہدایت اللہ ہبش صاحب کا جماعت میں داخل ہونا جماعت کے لیے بہت ترقی کا باعث بنا کیوںکہ وہ شاعر بھی تھے اور مصنف بھی۔ آپ کے پروگرام ٹی وی اور ریڈیو پر آتے تھے جس سے اسلام احمدیت کی وسیع پیمانہ پر تبلیغ ہوتی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒکا تیسرا سفر جرمنی ۲۲؍ اگست ۱۹۷۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒسفر یورپ کے دوران ہالینڈ سے مغربی جرمنی کے شہر فرینکفرٹ تشریف لائے جہاں ۲۴؍ اگست تک حضور نے قیام فرمایا۔ ۲۳؍ اگست کو مسجد نور میں ایک پریس کانفرنس میں حضورؒ نے خطاب فرمایا جس کا اخبارات میں بہت چرچا ہوا اور Frankfurter Neue Presse نے تفصیل کے ساتھ حضورؒ کے دورے کا ذکر کیا اور لکھا:’’ جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ قرآن کریم آپ نے لفظ بلفظ حفظ کیا ہوا ہے اس بنا پر آپ حافظ کہلاتے ہیں۔ مزید برآں اینجلز، مارکس، لینن، سٹالن اور ماؤ کی کتب آپ نے پڑھی ہوئی ہیں۔ عہد نامہ قدیم اور جدید کا بھی آپ نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہوا ہے۔ آپ کو اپنے سامعین کو اپنی قوت بیان کے ذریعہ اپنی طرف متوجہ رکھنے میں خاصی دسترس حاصل ہے۔ آپ نے اخبار نویسوں کو مخاطب کرتے ہوئے اپنا ایک خواب سنایا کہ ایک وقت آئےگا کہ جرمن قوم بھی قرآن کریم کے سلامتی کے پیغام کو قبول کرے گی۔ آپ نے اپنی اس توقع کے بارے میں مسکراتے ہوئے فرمایا۔ یہ کیفیت خود خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے کسی صحیفہ میں یہ بات لکھی ہوئی نہیں ہے۔‘‘( الفضل ۱۰؍ اکتوبر۱۹۷۳ء) حضورؒ نے دورہ پر روانہ ہونے سے قبل ۱۲؍جولائی ۱۹۷۳ء کو دَورہ کی اغراض بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ سفر خالصتاًمحض اس لیے اختیار کیا جارہا ہے تا کہ یورپ میں دعوت الی اللہ اور قرآن کی اشاعت کے وسیع سے وسیع تر کرنے کے منصوبوں کا اور وہاں پر ایک اعلیٰ قسم کا پریس قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے اور اس غرض سے یورپ کے مختلف احمد یہ مشنوں اور وہاں کے احباب جماعت سے براہ راست مشورہ ہو سکے۔‘‘(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ۶) حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒکا چوتھا دورہ جرمنی ۱۹۷۶ء میں گوتھن برگ میں مسجد ناصر کے افتتاح کے بعد حضورؒ نے جرمنی کو شرف باریابی سے نوازا۔ اس عاجز کو جو کہ اُن دنوں ہمبرگ میں متعین تھا ارشاد ہوا کہ ڈنمارک اور جرمنی کی سرحد پرحضور رحمہ اللہ کا استقبال کیا جائے۔ ہمبرگ مشن کے پاس اُس وقت کوئی گاڑی نہیں تھی۔شمالی اور مغربی جرمنی میں صرف دو تین احباب جماعت کے پاس گاڑیاں تھیں۔ البتہ ہمارے لیے Kempen کی جماعت کے ایک دوست مکرم مسعود احمد خان صاحب کی گاڑی تھی جس کے ذریعہ یکم ستمبر ۱۹۷۶ء کو ہم دونوں بارڈر پر مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے۔ استقبال کے بعد حضور رحمہ اللہ مع قافلہ قریب ہی ایک ریسٹورنٹ میں تشریف لے گئے جہاں پر چائےکافی وغیرہ سے حضور رحمہ اللہ اور دیگر ممبران قافلہ کی تواضع کی گئی۔ یہاں پر ایک اخباری نمائندہ بھی آیا اور اس نے حضور رحمہ اللہ کی تصاویر لیں اور میرا انٹرویو بھی لیا۔ اس انٹرویو میں حضور رحمہ اللہ کے تعارف کے علاوہ حضورؒ کے دورہ کی تفصیلات بھی بتائی گئی تھیں۔ حضور رحمہ اللہ کے دورے کے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ وہ اسلام کی اشاعت اور جماعت احمدیہ کے ممبران کی تربیت کے لیے ہے۔ اس خبر کو اس نے حضور رحمہ اللہ کی دو عدد تصاویر سے مزین کیا۔ اس کے بعد ہمبرگ کے لیے روانگی ہوئی۔ حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ آگے چلیں۔ کچھ دیر تک ہماری گاڑی آگے چلتی رہی مگر پھر ہماری گاڑی پیچھے رہ گئی اور قافلہ آگے چلا گیا۔ ہمبرگ میں داخل ہونے سے کچھ پہلے قافلے کی گاڑیاں رکی رہیں حتیٰ کہ ہم بھی آملے۔ پھر یہ قافلہ اکٹھا ہو کر بخیر وعافیت مسجد میں پہنچا۔ مسجد فضلِ عمر تشریف آوری پر مکرم فضل الٰہی صاحب انوری امیر و مبلغ انچارج جرمنی کے ساتھ وہاں پر موجود ۸۰؍احباب جماعت نے اپنے امام ہمام کا خیر مقدم کیا۔ ہمبرگ میں قیام کے دوران احباب جماعت ہمبرگ کی طرف سے حضور ؒکی خدمت میں استقبالیہ دیا گیا اور حضورؒ نے اس موقع پر احباب کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا اور احباب نے حضورؒ کے تبرک سے بھی استفادہ کیا۔ حضورؒ نے فضل عمر مسجد میں ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب فرمایا۔ علاوہ ازیں حضورؒ نے اپنے قیام کے دوران دفتر میں احباب جماعت کو انفرادی ملاقات کا شرف بھی بخشا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ ۱۹۷۶ء میں مسجد فضل عمر ہمبرگ کے باہر احباب جماعت کو شرف مصافحہ بخش رہے ہیں ایک روز بعد دوپہر حضورؒ مع قافلہ Wedel Schulau تشریف لے گئے جہاں پر دریا کے کنارے ایک ریسٹورنٹ میں ریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا تھا۔ اسی دوران ایک پاکستانی بحری جہاز ہمبرگ کی بندرگاہ کی طرف جا رہا تھا جس پر انتظامیہ نے پاکستانی ترانہ استقبال کی غرض سے لگا دیا۔ چنانچہ ہم سب ترانے کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ نماز مغرب اور عشاء کے بعد حضورؒ ہمبرگ کے ایک مشہور مقام سیاحت Planten un Blomen تشریف لے گئے اور وہاں پر Water and light Show سے محظوظ ہوئے۔ حضورؒ کا قیام مسجد فضل عمر ہمبرگ میں مبلغ سلسلہ کی رہائش گاہ میں تھا۔ چنانچہ اس کے پیش نظر کئی خدام نے دن رات ایک کرکے بڑی محنت کے ساتھ تزئین و آرائش کی۔ خدام بڑی محبت اور ذوق و شوق کے ساتھ وقارعمل کے لیے آتے تھے۔ چونکہ احباب جماعت میں سے کسی کو دروازوں اور کھڑکیوں کو رنگ و روغن کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس لیے بعض جگہوں پر بے احتیاطی سے شیشوں پر بھی رنگ لگ گیا جو کہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں تھا۔ اس پر Lüdenscheid سے مکرم ناصر محمود چیمہ صاحب نے آکر بڑی تگ و دو سے اس رنگ کو صاف کیا۔ ان کے کام کی آج تک میرے دل میں قدر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اور وقارعمل کرنے والے دیگر خدام کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین حضورؒ کے ہمراہ قافلے میں حضور ؒکی حرم حضرت منصورہ بیگم صاحبہ ، مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ، مکرم نواب شاہد احمد خان صاحب، مکرم مسعود احمد خان دہلوی صاحب اور مکرم بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد فضل لنڈن شامل تھے۔ ہمبرگ سے حضورؒ ۴؍ستمبر ۱۹۷۶ء کو فرینکفرٹ تشریف لے گئے۔ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب کو اپنی ٹیم کے ہمراہ اس موقع پر مہمان نوازی کی خدمت کی توفیق ملی۔ فجزاهم الله احسن الجزاء۔ مجھے وہ دن خوب یاد ہیں جب احباب جماعت کے پاس گاڑیوں کی مذکورہ بالا صور تحال تھی جبکہ آج الحمدللہ نہ صرف ہمبرگ مشن کے پاس بلکہ تقریباً سب احباب جماعت کے پاس گاڑیاں ہیں ، بعض کے پاس تو کئی کئی گاڑیاں ہیں اور وہ بھی ایک سے ایک بڑھ کر۔ الحمد للہ۔ یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت مسیح موعود کے خلفاء کے دورہ جات اور دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ جرمنی ایک فعال جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پر احمدیوں کو اپنے بے انتہا فضلوں سے نوازا ہے۔ کہاں سنہ ۷۵ء ، ۷۶ء اور ۷۷ء کا وقت کہ کیمپوں میں رہائش، اسائلم منظور ہونے کی غیر یقینی صورت حال اور آج نہ صرف یہ کہ ایک کثیر تعداد نے جرمنی کی شہریت حاصل کر لی ہے بلکہ اپنے مکانات بھی خرید لیے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہمارے دلوں کی ترجمانی کرتے ہیں:’’سب کچھ تری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے (’’من آنم کہ من دانم‘‘ مصنفہ خاکسار حیدر علی ظفر صفحہ ۱۱۶-۱۱۸) حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ کا پانچواں دورہ ۱۹۷۸ء کے سفر مغربی جرمنی میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ۱۴؍ اگست کو فرینکفرٹ کے مشہور ہوٹل ’’فرینکفرٹر ہوف‘‘ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ مشہور اخبار فرینکفرٹر رونڈ شو Frankfurter Rundschau نے پریس کانفرنس کی روئیداد شائع کرتے ہوئے لکھا:’’ایک غیر ملکی اور اجنبی نظر آنے والے مہمان کی شخصیت فرینکفرٹ میں عوام کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی۔‘‘ آپؒ نے فرمایا:اہل یورپ نے عفو اور درگزر سے کام لینا سیکھا ہی نہیں۔ دو عالمی جنگیں اور ان کے نتیجہ میں رونما ہونے والے واقعات اس کا کھلا ثبوت ہیں۔ صرف اسلام ہی انہیں عفو اور درگزر سے کام لینا سکھا سکتا ہے۔ عمر رسیدہ خلیفۃ المسیح نے جن کی سفید ریش اور سفید پگڑی اُن کی بزرگی کی آئینہ دار تھی اعلان فرمایا کہ آئندہ سو ڈیڑھ سو سال کے عرصہ میں سارا یورپ اسلام قبول کر لے گا جس کے نتیجہ میں جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ۸؍ اگست ۱۹۷۸ء کو حضورؒ ہمبرگ بھی تشریف لے گئے اور تین یوم قیام فرمایا۔ اس موقع پر احباب جماعت کو اجتماعی اور انفرادی ملاقاتوں کا شرف عطا فرمایا۔ ۹؍ اگست کی صبح کو حضورؒ نے ایک وسیع پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں مقامی اور قومی اخبارات کے نمائندے نیز مقامی ریڈیو کے ممبران سٹاف بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اخبارات اور ریڈیو نے پریس کانفرنس کی خبر کو بہت وسیع پیمانے پر نشر و شائع کیا۔(الفضل ۲۳؍ اگست ۱۹۷۸ء) حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کا چھٹا اور آخری دورہ ۱۹۸۰ء کے تبلیغی سفر یورپ و افریقہ میں حضورؒ نے ایک بار پھر جرمنی کو اپنے بابرکت وجود سے مستفیض فرمایا۔ ہمبرگ اور فرینکفرٹ کے احباب جماعت کو انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کا شرف بخشا، وسیع پریس کا نفرنسز سے خطاب فرمایا جس کو اخبارات نے خوب شائع کیا۔ روزنامہ Sachsenhäuser Brücke نے پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’بنی نوع انسان کے لیے محبت کا جذبہ آپ کے اندر کِس درجہ موجزن ہے اس کا اندازہ اُس وقت ہوا جب گفتگو کا رخ دنیا کے سیاسی مسائل کی طرف مڑا۔ انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ فی زمانہ بنی نوع انسان تاریخ کے ایک نازک دور میں سے گزر رہے ہیں، بڑی بڑی غلطیوں کے ارتکاب نے انہیں ایک ایسی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا امکان پیدا ہو گیا ہے لہٰذا لوگوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مشترکہ طور پر اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس کے دو طریق ہو سکتے ہیں۔ ایک طریق تو جنگ کے خطرہ کو ٹالنے سے تعلق رکھتا ہے، بڑی طاقتیں اسی طریق پر عمل پیرا ہیں وہ جنگ کے خطرہ کو ٹالنے میں ناکام رہی ہیں۔ دوسرا طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کی جائے اور ایک دوسرے کی مدد کی جائے اور دشمنی کسی سے بھی نہ رکھی جائے اور یہی وہ طریق ہے جو جماعت احمدیہ کی تعلیم کے عین مطابق ہے۔‘‘(الفضل ۴؍ اکتوبر ۱۹۸۰ء) دورہ ۱۹۷۶ء کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ہمبرک میں چودھری عبد اللطیف صاحب سے گفتگو فرمارہے ہیں ۱۰؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو جماعت احمدیہ فرینکفرٹ کی طرف سے حضورؒ کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک استقبالیہ تقریب کا انتظام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات، بعض ممالک کے سفارتی نمائندے، ڈاکٹرز، پبلشرز، یونیورسٹی کے پروفیسرز، مستشرقین، اخبار نویس، پادری صاحبان اور متعدد دیگر دانشور شریک ہوئے۔ حضورؒ نے تمام مہمانانِ کرام سے گھل مل کر باتیں کیں اور بعض اہم موضوعات پر تحقیقی اور سیر حاصل تبصرہ کیا جس سے خود ماہرین علوم حضورؒ کے مطالعہ کی ہمہ گیر وسعت اور تبحّر علمی پر حیران ہوئے بغیر نہ رہے۔(الفضل ۵؍ اکتوبر ۱۹۸۰ء) (جاری ہے) (حیدر علی ظفرؔ۔ سابق مبلغ انچارج جرمنی) مزید پڑھیں: حضورﷺماؤں کےلیےرحمت