(سو سال قبل کے الفضل میں مطبوعہ کلام حضرت مصلح موعودؓ) پوچھو جو ان سے زلف کے دیوانے کیا ہوئےفرماتے ہیں کہ میری بلا جانے کیا ہوئے اے شمع رو بتا ترے پروانے کیا ہوئےجل جل کے مر رہے تھے جو دیوانے کیا ہوئے خم خانہ دیکھتے تھے جو آنکھوں میں یار کیتھے بے پئے کے مست جو مستانے کیا ہوئے جن پر ہر اک حقیقت مخفی تھی منکشفوہ واقفانِ راز وہ فرزانے کیا ہوئے سب لوگ کیا سبب ہے کہ بے کیف ہو گئےساقی کدھر کو چل دئیے میخانے کیا ہوئے ابوابِ بغض و غدر و شقاوت ہیں کھل رہےعشق و وفا و مہر کے افسانے کیا ہوئے امیدِ وصل حسرت و غم سے بدل گئینقشِ قدومِ یار خدا جانے کیا ہوئے 1۔اس نظم میں پہلا شعر حضور کی حرم محترمہ حضرت امۃ الحی کا منتخب کردہ ہے باقی شعر حضور کے اپنے ہیں۔ (اخبار الفضل جلد ۱۳۔ ۱۲؍اگست ۱۹۲۵ء بحوالہ کلام محمود صفحہ۱۲۶) مزید پڑھیں: نہ کچھ قوّت رہی ہے جسم و جاں میں