https://youtu.be/ODpD7ftdClc کثرت ازدواج پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو۔ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے۔مثلاً عورت اندھی ہوگئی یا کسی اور خطر ناک مرض میں مبتلا ہوکر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطرناک بیماریوں کا شکار ہوکر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں اگر نکاح ثانی کی اجازت نہ ہو تو بتلاؤ کیا اس سے بدکاری اور بداخلاقی کو ترقی نہ ہو گی؟ پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازدواج کو روکتی ہے تو یقیناً وہ بدکاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے لیکن اسلام جو دنیا سے بداخلاقی اور بدکاری کو دور کرنا چاہتا ہے اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پسِ مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت و خون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرکے اولاد پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا۔عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے کیونکہ ان کے مسلّمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہوگا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے۔علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا۔لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں۔پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے۔ (ملفوظات جلد ۱ صفحہ ۲۵۸، ۲۵۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: اولاد کے لیے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو