٭… محمد(ﷺ) بچپن میں بھی احسان کرنے والے تھے اور اس عمر میں بھی ٭… حضوراکرمﷺ نےکفار کے بتوں کے مقامات کو منہدم کرنے کا حکم ارشادفرمایا تاکہ لوگوں کے دلوں سے ان بتوں کا فرضی خوف ختم کیا جاسکے ٭… مخالفین کےگروہ سے اسلام کی آغوش میں آنے والے متعدد اصحاب کے اخلاص و وفا اور حضرت عمرؓ کا رئوساء مکہ کے مقابل پر اولین غلام صحابہ ؓکو ترجیح دینے کا ایمان افروز ذکر ٭… مکرمہ چودھری عبدالغفور صاحب جام شورو سندھ اور مکرم محمد علی صاحب کرتار پور فیصل آباد کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائبخلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍اگست ۲۰۲۵ء بمطابق ۸؍ظہور۱۴۰۴؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے اميرالمومنين حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۸؍اگست۲۰۲۵ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب (مربی سلسلہ)کے حصے ميں آئي۔ تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعدحضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: جلسے سے پہلے فتح مکہ کے واقعات کا ذکر ہورہا تھا۔ مَیں نے بعض شدید مخالفین کے قبولِ اسلام کا ذکر کیا تھا۔ ان میں سے چند اور بھی ہیں۔ وحشی بن حرب نے جنگِ احد میں حضرت حمزہ ؓکو شہید کیا تھا اور فتح مکہ کے بعد یہ طائف بھاگ گیا، جب اہلِ طائف نے اسلام قبول کیا تو یہ آیا اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔ آپؐ نے اس کے قبولِ اسلام پر اس سے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ تم مجھ سے اپنا چہرہ چھپالو۔ پھر جب رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب نے بغاوت کی تو وحشی نے اس خیال سے مسیلمہ کے خلاف قتال میں حصہ لیا تاکہ حضرت حمزہؓ کے قتل کا داغ دھویا جاسکے۔ دورانِ جنگ وحشی نے اپنی برچھی سے حملہ کرکے مسیلمہ پر وار کیا جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ اسی طرح عمرو بن ہاشم کی لونڈی سارہ بھی تھی جو مغنیہ تھی۔ فتح مکہ سے قبل اس نے رسول اللہﷺ سے امداد کی درخواست کی تو رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ تمہارے گیتوں کو کیا ہوا؟ اس پر اس نے کہا کہ غزوہ بدرمیں سردارانِ قریش کےمارے جانےکے بعد سےاہلِ مکہ نے گانے سننے بند کردیے ہیں، اس پر آنحضرتﷺ نے اسے ایک اونٹ غلہ عطا فرمایا۔ مگر یہ اسلام مخالف ہجویہ گیت گانے سے باز نہ آئی، یہ وہی عورت تھی جس کے پاس حضرت حاطب کا خط ملا تھا۔ اس نے اسلام قبول کیا اور حضرت عمرؓ کی خلافت تک زندہ رہی۔ حارث بن ہشام مکے کا ہردلعزیز رئیس تھا، ابو جہل کا باپ کی طرف سے بھائی تھا، حضرت خالدؓ کی بہن اس کی بیوی تھی۔ فتح مکہ کے موقعے پر یہ اور عبداللہ بن ابی ربیعہ حضرت ام ہانیؓ کے گھر داخل ہوگئے۔ حضرت ام ہانی نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ انہیں مَیں نے پناہ دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے پناہ دی ۔ چند روز بعد یہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ شہادت پڑھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا سب تعریفیں اللہ کےلیے ہیں۔ حارث! تم جیسا انسان کیسے اسلام سے دُور رہ سکتا تھا۔ حارث نے جواب دیا بخدا! اسلام سے دُور رہنا ممکن نہ تھا۔ اسی طرح سہیل بن عمرو کا قبولِ اسلام کا واقعہ ہے، یہ حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے لیے قریش کی جانب سے آیا بھی تھا۔ وہ خود کہتے ہیں کہ جب فتح مکہ کے بعد رسول اللہﷺ نے غلبہ پالیا تو مَیں نے خود کو گھر میں بند کرلیا اور اپنے بیٹے کو محمدﷺ کے پاس بھیجا تاکہ وہ میرے لیے امان طلب کرے۔ آنحضورﷺ نے انہیں پناہ دی اور فرمایا کہ سہیل جیسا صاحبِ عقل و شرف زیادہ دیر اسلام سے دُور نہیں رہ سکتا ۔ جب سہیل کو یہ اطلاع ملی تو انہوں نے کہا کہ محمد(ﷺ) بچپن میں بھی احسان کرنے والے تھے اور اس عمر میں بھی۔ غزوہ حنین میں یہ مشرک ہونےکی حالت میں شریک ہوئے اور غزوہ حنین سے واپسی پر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ فتح مکہ کے موقعے پر ایمان لانے والے سرداروں میں سہیل سب سے زیادہ آہ و بکا اور گریہ کرنے والے تھے، آپ زبردست خطیب بھی تھے۔ حضورِانور نے بعض دیگربڑےبڑے مخالفین کے قبولِ اسلام کے واقعات پیش فرمائے اور اس کے بعد مخالفین کےگروہ سے اسلام کی آغوش میں آنے والے ان اصحاب کے اخلاص و وفاکا تذکرہ فرمایا۔ حضورِانور نے حضرت عمرؓ کے دَورِخلافت میں مخالفین کے نَوجوان بچوں کے حضرت عمرؓ کے پاس حاضر ہونے اور حضرت عمرؓ کے اُن پر ایسے غلام صحابہ کو ترجیح دینے کا واقعہ بیان کیا جو آغازِ اسلام میں آنحضرتﷺ پر ایمان لے آئے تھے۔ فتح مکہ کے فوراً بعد حضوراکرمﷺ نےکفار کے بتوں کے مقامات کو منہدم کرنے کا حکم فرمایا تاکہ لوگوں کے دلوں سے ان بتوں کا فرضی خوف ختم کیا جاسکے۔ حضورانور نے یہ واقعات آئندہ بیان کیے جانے کا ارشاد فرمایا۔ خطبے کے دوسرے حصے میں حضورانور نے دو نماز ہائے جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا اور مرحومین کا ذکر فرمایا۔ مکرم چودھری عبدالغفورصاحب ابن چودھری غلام قادر صاحب جام شورو حیدرآباد۔ مرحوم گذشتہ دنوں ۹۲؍ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کا تعلق زمیندار خاندان سے تھا۔ آپ کے والدنے سلسلہ احمدیہ سے محبت کے باعث ۱۹۴۲ء میں انہیں دینی تعلیم کے لیے قادیان بھجوایا۔ مرحوم نے قیامِ پاکستان تک وہیں تعلیم حاصل کی، اس کے بعد چنیوٹ اور ربوہ میں تعلیم حاصل کی۔ پھر کراچی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۹۳ء میں ریٹائرمنٹ کےبعد انہوں نے زندگی وقف کی اور یوگنڈا میں دو سال تک ایک پراجیکٹ میں خدمت کی توفیق پائی۔ احمدیت کے بڑے دلیر سپوت تھے۔ خدمتِ خلق کرنے والے، بہت وسیع القلب تھے، بلا امتیاز ہر ایک کی مالی مدد کرنے والے، مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ مرحوم قائد علاقہ کےطور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے، اسی طرح انصار اللہ میں لمبا عرصہ خدمت کرنے کا موقع ملا۔ لمبا عرصہ سیکرٹری امورعامہ حیدرآباد بھی رہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے انہیں امیر ضلع نواب شاہ اور نوشہروفیروز مقرر فرمایا تھا۔ اس کی ذمہ داری مرحوم نے بڑے احسن رنگ میں نبھائی۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔ حضورانور نے فرمایا کہ جب مَیں وہاں تھا پاکستان میں تو مجھے بھی ان کے گھر جانےکا موقع ملابڑی مہمان نوازی کرنے والے تھے۔ ایک دفعہ مجھے سندھ میں رات کو سفر کرنا پڑا وہاں حالات بھی ٹھیک نہیں تھے۔ بارش بھی بہت تیز تھی، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ مجھے انہوں نے کہا کہ تمہیں مَیں خود لے کر جاؤں گا۔ ہم رات کو منزل پر پہنچے تو مَیں نے انہیں کہا کہ آپ رات کو نہ جائیں صبح تک انتظار کرلیں مگر انہوں نے کہا کہ نہیں! مَیں ابھی ہی جاؤں گا اور یہ گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔ بڑے دلیر اور بہادر انسان تھے۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لیے بھی ان کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ انسانیت کی خدمت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، رشتے داروں کا خیال رکھنے والے تھے۔ خلافت سے بڑی محبت رکھنے والے تھے۔ غیر احمدی ملنے والوں پر بھی ان کی نیکی کا بڑا اثر تھا۔ حلقہ احباب ان کا بہت وسیع تھا۔ لوگوں کو جماعت کا تعارف کراتے۔ سندھ کے بڑے افسروں اور خاندانوں سب سے ان کے روابط تھے اُنہیں جماعت کا شائع شدہ ترجمہ قرآن تحفے میں دیا کرتے تھے۔ مکرم محمد علی صاحب کرتارپور فیصل آباد یہ گذشتہ دنوں ۷۰؍سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ان کے ایک بیٹےطاہر احمد سیفی صاحب زیمبیا میں مبلغ سلسلہ ہیں جو آج کل یہاں جلسہ سالانہ یوکے میں شرکت کےلیے آئے ہوئےہیں اس لیے یہ اپنے والد کے جنازے میں شامل بھی نہیں ہوسکے۔ مرحوم صوم و صلوٰة کے پابند، تہجد گزار، ملنسار، خندہ پیشانی سے پیش آنے والے، مخلص انسان تھے۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ہر کام سے پہلے خلیفہ وقت کو دعا کےلیے لکھتے۔ ہر دینی کام میں خاموشی سے حصّہ لیتے، اور جہاں تک ممکن ہوتا مالی قربانیوں میں حصہ لیا کرتے۔ جب ایم ٹی اے کا آغاز ہوا تو ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا۔ ایم ٹی اے کا آغاز ہوتے ہی انہوں نے ٹی وی لیا تاکہ خلیفہ وقت کی آواز براہ راست سنی جاسکے۔ ان کے بیٹے مبلغ سلسلہ کہتے ہیں کہ مجھے علم نہیں کہ والد صاحب نے خلیفہ وقت کی کسی تحریک پر بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو۔ غیروں سے بڑی شفقت کا سلوک تھا، ان کے حسنِ سلوک کی وجہ سے فیصل آباد کے آٹھ افراد کو قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔ حضورانور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔