https://youtu.be/Cifw6bijuZE?si=N6F1NHlojLeWkanM&t=1518 گرمیوں کی چھٹیوں کا آغاز ہوئے ایک ماہ گزر چکاتھا۔ تینوں بچے باقاعدگی سے دادی جان کے دیے گئے ٹائم ٹیبل کی پابندی کررہے تھے۔ ان کا کزن خاقان بھی چھٹیاں گزارنے ان کے پاس آیا ہواتھا۔ بچوں کو تمام کام کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی بے چینی سے اس وقت کا انتظار رہتا تھا جب دادی جان انہیں کہانی سناتی تھیں۔آج بھی خاقان میاں نے فرمائش کر دی۔ خاقان : نانی جان ! گذشتہ روز میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی سیرت کے بارے میں مجلس خدام الاحمدیہ کی شائع کی ہوئی کتاب سوچنے کی باتیں کا مطالعہ کررہا تھا مگر اس میں دی گئی معلومات بہت مختصر ہیں ۔کیا آپ ہمیں ان کے بچپن کے واقعات سنا سکتی ہیں ؟ دادی جان : ضرور کیوں نہیں،خاقان میاں نے کیا اچھی فرمائش کی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی سیرت کے بارے میں دو کتب موجود ہیں ایک مرقات الیقین فی حیاتِ نور الدین اور دوسری حیاتِ نور۔ گڑیا مجھے یہ دونوں کتب پکڑائیں۔ دادی جان (کتاب کھولتے ہوئے ): تو بچو! آپؓ 1841ء میں بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے والد کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب اور والدہ کا نام نوربخت صاحبہ تھا۔آپ نو بہن بھائی تھے اورآپ اپنے بہن بھائیوں میں آخری نمبر پر تھے۔آپ کے والدین نے سب بچوں کی تربیت کبھی مار کے ذریعہ سے نہیں کی اور وہ سب بچوں پر اور بالخصوص آپ پر بہت ہی زیادہ شفقت فرماتے تھے۔ بچوں کی تعلیم کے لیے وہ کبھی بڑے سے بڑے خرچ کی بھی پروا نہ کرتے تھے۔ گڑیا : آپؓ کا بچپن کیسا تھا ؟ دادی جان : دوسرے بچوں کی طرح آپ کا بچپن بہت سادہ تھا مگر چند ایسی خوبیاں بھی تھیں جو کہ آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں جن میں ایک آپ کا حافظہ ہے ۔آپؓ نے فرمایا کہ میرا حافظہ کچھ اس قدر تیز ہے کہ مجھے اپنی والدہ کا دودھ چھڑوانا بھی یاد ہے۔ خاقان : نانی جان! حضور ؓکو کوئی کھیل بھی پسند تھا؟ دادی جان : جی!آپؓ کو تیراکی بہت پسند تھی ۔ خوب تیراکی کرتے تھے۔ فرمایا کرتے کہ مجھ کو تیرنا خوب آتا ہے۔ بعض اوقات میں بڑے عظیم الشان دریائوں میں بھی تیرتا تھا۔ احمد :آپ کی والدہ منع نہیں کرتی تھیں ؟ دادی جان :یہ تو معلوم نہیں لیکن آپؓ کی والدہ صاحبہ پڑھی لکھی اور مذہب سے خوب واقف تھیں۔ قرآن شریف خوب سمجھتی سمجھاتی تھیں۔ والدہ صاحبہ کوقرآن کریم پڑھانے کا بڑا ہی شوق ہوتاتھا۔ انہوں نے تیرہ برس کی عمر سے قرآن شریف پڑھانا شروع کیا تھا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ کے سب بچوں کو قرآن شریف کو پڑھنے کا بہت ہی شوق رہا ہے۔پھر فقہ سے خوب واقفیت تھی اور بہت مسائل یاد تھے۔ آپؓ کی والدہ صاحبہ سے ہزاروں لڑکیوں اور لڑکوں نے قرآن شریف پڑھا ہے۔ وہ اگر کسی کی سرزنش کرتیںتو کہتیں کہ’’محروم نہ جاویں‘‘ یا ’’نامحروم‘‘۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے تھے کہ ’’خدا تعالیٰ رحم کرے میری والدہ پر انہوں نے اپنی زبان میں عجیب عجیب طرح کے نکات مجھ کو بتائے۔ایک یہ بات تھی کہ تم اللہ تعالیٰ کی جس قسم کی فرماں برداری کروگے اسی قسم کے انعامات پاؤ گے اور جس قسم کی نافرمانی کرو گے اسی قسم کی سزا پاؤ گے‘‘۔ محمود:اور آپؓ کے والد کیا کرتے تھے؟ دادی جان : آپؓ کے والد کو بچوں کی تعلیم کا اس قدر شوق تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ جب تحصیل علم کے لیے پردیس کو جانے لگے۔ تو آپ کے والد نے نصیحت فرمائی کہ اتنی دُور جاکر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے۔ یعنی پڑھائی پر خوب توجہ دینا۔ حضورؓ کوبچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔ آپ کے ہم جولی بھی آپ کی عزت کرتے تھے اور آپ کے ساتھ کھیلنے والے لڑکوں نے کبھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ آپ کو دُور سے دیکھ کر آپس میں کہا کرتے تھے کہ یار و سنبھل کر بولنا ۔ آپ کو کتابیں جمع کرنے کا بھی شوق تھا۔ فرمایا’’مجھ کو اپنے سن تمیز سے بھی پہلے کتابوں کا شوق ہے۔بچپنے میں جلد کی خوبصورتی کے سبب کتابیں جمع کرتا تھا۔ سن تمیز کے وقت میں نے کتابوں کا بڑا انتخاب کیا اور مفید کتابوں کے جمع کرنے میں بڑی کوشش کی۔ ‘‘ خاقان : اور بتائیں ناں وہ بچپن میں کیا کرتے تھے؟ دادی جان: بچپن ہی سے آپؓ کو علم کا شوق تھا۔ چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید پڑھ لیا تھا، اور نماز میں دل لگا کر دعا کرتے تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ حکیم بنیں۔ لیکن حضرت نورالدینؓ کو تو دین اور علم کا ایسا شوق تھا کہ حصولِ علم کی خاطر کئی سفر کیے یہاں تک کہ کشمیر سے لے کر دہلی، لکھنؤ، اور حجاز (مکہ و مدینہ) تک گئے۔جہاں انہوں نے نہ صرف قرآن، حدیث اور فقہ پڑھی بلکہ طب (یعنی حکمت) بھی سیکھی۔ اسی لیے انہیں’’حکیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی بہت ساری دعائیں قبول کیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ حصول علم کے سلسلہ میں رام پور کے سفر کے دوران آپ نے تین دن کھانا نہیں کھایا تھا مگر کسی سےکھانا نہیں مانگا بلکہ تنہائی میں بیٹھےدعا کرتے رہے۔ فرمایا کہ’’جب میں اکیلا تھا تو مجھے باہر سے کسی کی آواز آئی نور الدین یہ کھانا آکر جلد پکڑلو۔ میں گیا تو ایک بڑی سی ٹرے میں بڑا مزے دار کھانا تھا میں نے پکڑ لیا۔ میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے خوب کھایا اور پھر برتن دیوار کے ساتھ کھونٹی پرٹکا دیا جب میں آٹھ دس دن کے بعدو اپس آیا تو برتن وہیں آویزاں تھا جس سےمجھے یقین ہوگیا کہ کھانا گاؤں کے کسی آدمی نے نہیں بھجوایا تھا خدا تعالیٰ نے ہی بھجوایا تھا۔‘‘ احمد :واہ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کا سامان کیا ؟ دادی جان :جی بیٹا بالکل اور آپؓ کی پاکیزہ سیرت ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ تین ساتھیوں کے ساتھ ہم راستہ بھول گئے اور کہیں دُور نکل گئے۔ کوئی بستی نظر نہیں آتی تھی۔ میرے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس نے سخت ستایا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ نورالدین جو کہتا ہے کہ میرا خدا مجھے کھلاتا پلاتا ہے، آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح کھلاتا پلاتا ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میں دعا کرنے لگا۔ چنانچہ جب ہم آگے گئے تو پیچھے سے زور کی آواز آئی۔ ٹھہرو، ٹھہرو۔ جب دیکھا تو دوشتر سوار تیزی کے ساتھ پاس آئے اور کہا کہ ہم شکاری ہیں۔ ہرن کا شکار کیا تھا اور خوب پکایا۔ گھر سے پراٹھے لائے تھے۔ ہم سیر ہو چکے ہیں اور کھانا بھی بہت ہے، آپ کھالیں۔ چنانچہ ہم سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ ساتھیوں کو یقین ہوگیا کہ نورالدین سچ کہتا تھا۔ آپؓ نے وفات سے قبل اپنے بیٹے عبد الحئی کو ان الفاظ میں نصیحت فرمائی: تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو پڑھنا، پڑھانا اور عمل کرنا۔ میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہیں دیکھی۔ بے شک یہ خدا تعالیٰ کی کتاب ہے۔ اور وفات سے چند روز قبل جماعت کے نام جو وصیت تحریر فرمائی اس وصیت کے آخری الفاظ یہ تحریر فرمائے:’’قرآن وحدیث کا درس جاری رہے‘‘۔ محمود: اسی لیے آپ ہمیں قرآن پڑھنے پر زور دیتی ہیں۔ خاقان: نانی جان! میں بھی کوشش کروں گاکہ ان چھٹیوں میں قرآن ختم کر لوں۔ دادی جان (پیار سے دونوں کو گلے لگاتے ہوئے): اللہ تم دونوں کو ایسے ہی نیکیوں کی روشنی عطا فرمائے۔ آمین! (درثمین احمد۔ جرمنی)