سورۃ فاتحہ میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ کئی مرتبہ بیان کیا ہے مگر قرآن شریف کے آخر میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ بھی مختصر طور پر سمجھ لو۔ اَلضَّآلِّيْنَکے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں۔اصل تو قُلْ هُوَ اللّٰهُ (الاخلاص : ۲) ہے اور باقی دونو سورتیں اس کی شرح ہیں۔قُلْ هُوَ اللّٰهُ کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاریٰ سے کہہ دو کہ اﷲ ایک ہے۔اﷲ بے نیاز ہے۔نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا۔اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔ پھر سورۃ الفلق میں اس فتنہ سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ یعنی تمام مخلوق کے شرّ سے اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو رَبُّ الْفَلَقِ ہے یعنی صبح کامالک ہے یا روشنی ظاہر کرنا اسی کے قبضہ و اقتدار میں ہے۔رَبُّ الْفَلَقِ کا لفظ بتاتا ہے کہ اس وقت عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کی تکفیر اور توہین کے فتنہ کی اندھیری رات احاطہ کرلے گی اور پھر کھول کر کہا کہ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ اور میں اس اندھیری رات کے شر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شبِ تار ہے پناہ مانگتا ہوں۔پھر لکھا وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِ اور میں ان زنانہ سیرت لوگوں کی شرارت سے پناہ مانگتا ہوں جو گنڈوںپر پھونکیں مارتے ہیں۔ گرہوں سے مُراد وہ معضلات اور مشکلات شریعتِ محمدیہ ہیں جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ان کو ایک پیچیدہ صورت میں پیش کر کے لوگوں کو دھوکا میں ڈالتے ہیں اور یہ دو قسم کے لوگ ہیں ایک تو پادری اور ان کے دوسرے پس خوردہ کھانے والے اور دوسرے وہ نا واقف اور ضدی مُلاں ہیں جو اپنی غلطی کو تو چھوڑتے نہیں اور اپنی نفسانی پھونکوں سے اس صاف دین میں اور بھی مشکلات پیدا کردیتے ہیںاور زنانہ خصلت رکھتے ہیںکہ خدا کے مامورو مرسل کے سامنے آتے نہیں۔پس ان لوگوںکی شرارتوںسے پناہ مانگتے ہیںاور ایسا ہی ان حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگتے ہیںاور اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسدکرنے لگیں۔ اور پھر آخر سورۃ میںشیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دعا تعلیم فرمائی ہے جیسے سورۃ فاتحہ کو اَلضَّآلِّيْنَ پر ختم کیا تھا ویسے ہی آخری سورۃ میں خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تاکہ خنّاس اور اَلضَّآلِّيْنَ کا تعلق معلوم ہو۔اور آدم کے وقت میںبھی خنّاس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں جنگ کے لیے آیا تھا اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کامثیل بھی ہے ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لیے عیسائیوں اور مسلما نوں نے باتفاق یہ بات تسلیم کی ہے کہ آخری زمانہ میں آدم اور شیطان کی ایک عظیم الشان لڑائی ہو گی جس میں شیطان ہلا ک کیا جاوے گا۔اب ان تما م امور کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جا تا ہے کیا یہ میرے اپنے بنائے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں۔ کس طرح پر ایک دائر ہ کی طر ح خدا نے اس سلسلہ کو رکھا ہو اہے وَلَا الضَّآلِّيْنَ پر سو ر ۃ فاتحہ کو جو قرآن کا آغا ز ہے ختم کیا اور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سو رتیں رکھیں جن کا تعلق سو رۃفا تحہ کے انجا م سے ہے۔ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرا ئی اور مجھے مسیح مو عو د بنا یا تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نا م رکھا۔یہ باتیں معمولی باتیں نہیں ہیں۔ (ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۹ تا ۳۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: یار کو گِن گِن کر کیا یاد کرنا