خالق ارض وسماءنے میرے آقائےنامدارﷺ کو تمام عالم کےلیےرحمت بناکربھیجاہے۔ آپ ﷺ کی اس وسیع رحمت سےسب نےفیض پایا،کیا انسان کیاحیوان،کیاچرنداورکیا پرند،یہاں تک کہ نبا تات نے بھی آپﷺ کی صفت رحیمیت سےحصہ پایا۔ماں جیسی عظیم اورسراسرشفیق ومحبوب ہستی کو اسلام سے قبل کوئی حقوق حاصل نہ تھےاورنہ ہی کسی قسم کی عزت وتکریم،یہاں تک کہ اسے ترکہ میں بانٹاجا تاتھا۔میرےاس رحیم وکریم،رسول ِ عظیم ﷺنےنہ صرف ماں کےحقوق قائم فرمائے،میراث میں حصہ داربنایا،بلکہ اسےاُس وحشی معاشرےمیں وہ مقام ومرتبہ عطافرمایاجو اس سےقبل نہ کسی مذہب نےدیااورنہ آج تک دےسکا۔آپؐ تو صغرسنی میں ہی والدہ کےسایۂ عاطفت سے محروم ہوگئے تھےاس کےباوجوداپنی امت کےدلوں میں ماں کابےحدادب اوراحترام قائم فرمایا۔آپؐ نےہرچھوٹےبڑےکوماؤں سےشفقت اورعزت واحترام سےپیش آنےکادرس دیااوران سےحُسن سلوک کی تاکیدفرمائی۔ماں کاشفیق ومہربان وجود،اولادکی خوشیوں اورکامیابیوں کےساتھ ساتھ ان کی اعلیٰ تعلیم وتربیت کےلیےقربان ہواجا تاہے۔اپنی اولادکےسکھ اورراحت کےلیےزندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لینےکانام ماں ہے۔اپنےبچوں کےآرام وآسائش پراپناآرام اور چین قربان کردینےکانام ماں ہے۔بچےکے ماں کی کوکھ سے ہی ماں کی قربانی کاعمل شروع ہوجاتاہےجس کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان الفاظ میں فرمایاہے:وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّوَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَحَمۡلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً (الاحقاف:۱۶)اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا۔ اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ (لقمان:۱۵)اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے حق میں تاکیدی نصیحت کی۔ اُس کی ماں نے اُسے کمزوری پر کمزوری میں اٹھائے رکھا۔ اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں (مکمل) ہوا۔ (اُسے ہم نے یہ تاکیدی نصیحت کی) کہ میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ ایک شخص نے عرض کی، یا رسولَ اللہؐ! میرےحسن سلوک کاسب سے زیادہ کون مستحق ہے؟ آپؐ نے فرمایاتمہاری ماں (یعنی ماں کا حق سب سے زیادہ ہے۔) انہوں نے پوچھاپھر کون؟ فرمایاتمہاری ماں انہوں نے پوچھا پھر کون؟ حضورﷺنے تیسری مرتبہ فرمایاتمہاری ماں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ پھر کون؟ ارشاد فرمایا تمہارا والد۔(بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ مَیں نے رسول اللہ ﷺسےعرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺعورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ تو نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا شوہر کا پھر مَیں نےعرض کی یا رسول اللہ ﷺاورپھرسب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ تو نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا، اس کی ماں کا۔(المستدرک۔ کتاب البر والصلۃ)حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قریش مکہ کے (حدیبیہ والے) معاہدے کے زمانہ میں میری ماں جو اپنے مشرکانہ مذہب پر قائم تھی (سفر کر کے مدینے میں) میرے پاس آئی،تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ کچھ خواہش مند ہے، تو کیا مَیں اس کی خدمت کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اس کی خدمت کرو (اور اس کے ساتھ وہ سلوک کرو جو بیٹی کو ماں کے ساتھ کرنا چاہیے)۔(صحیح مسلم وصحیح بخاری۔کتاب الادب، باب صلۃ الوالد المشرک) اس حدیث سےپتاچلتاہےکہ حضورؐ نےمشرک والدہ کےساتھ بھی اچھابرتاؤ کرنے کی تاکیدفرمائی ہے۔حضرت ابوطفیلؓ بیان کرتےہیں کہمَیں نےآنحضرتﷺکومقام جعرانہ میں دیکھا۔آپؐ گوشت تقسیم فرمارہےتھےاس دوران ایک عورت آئی توحضورؐنےاس کےلیےاپنی چادربچھادی اوروہ عورت اس پربیٹھ گئی۔مَیں نےلوگوں سےپوچھاکہ یہ خاتون کون ہےجس کی حضورؐاس قدرعزّت افزائی فرمارہےہیں؟لوگوں نےبتایاکہ یہ حضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔(ابوداؤد۔کتاب الادب باب فی برالوالدین) سیدنا جاہمہ سلمیٰ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! میرا جنگ کے لیے جانے کا ارادہ ہے جبکہ میں آپؐ سےمشورہ لینےآیا ہوںآپؐ نے فرمایا تیری والدہ زندہ ہے؟اس نے کہا جی ہاں آپؐ نے فرمایا اسی کےپاس رہواور خدمت کرو۔بے شک جنت اس کے پاؤں تلے ہے۔(النسائی)حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہےرسول اللہ ﷺنےفرمایامَیں جنت میں گیااس میں قرآن پڑھنےکی آوازسنی،مَیں نےپوچھا یہ کون پڑھتاہے؟فرشتوں نےکہا،حارثہ بن نعمان ہیں حضورﷺنےفرمایایہی حال ہےاحسان کا،یہی حال ہےاحسان کا۔(شرح السنّۃ،کتاب البرّوالصلۃ،باب برالوالدین،حدیث ۳۳۱۲)ان احادیث مبارکہ سےہمیں پتاچلتاہے کہ دین اسلام نےماؤں کےحقوق کاکس قدرخیال رکھاہے۔اس لیےہمارافرض ہےکہ والدین کےحقوق کےبارےمیں اسلامی تعلیم پرعمل کرتےہوئے خداکی خوشنودی حاصل کرنے والےہوں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کےقدموں تلےہے۔اس حدیث سے بڑی تعریف،اس سے زیادہ بڑا اعزاز ماں کو کوئی نہیں دے سکتا کہ ہر انسان کی جنت اس کی والدہ کے قدموں تلے ہے۔ یہ وہ اعزاز ہے جو آنحضرت ﷺنے ہر ماں کو دیا۔ اس ارشادکےذریعہ آپؐ نے ماں کی خدمت، ماں کی عزت و تعظیم اورفرمانبرداری کو اولاد کےلیے لازم قرار دےدیا۔ایک اورموقع پررحمۃ للعالمینؐ نےفرمایا:رَغِمَ اَنْفُ مَنْ اَدْرَكَ اَبَوَيْهِ اَوْ اَحَدَهُمَا عِنْدَ الْكِبَرِ فَلَمْ يَدْخُلِ الْجَنَّةَ۔بدبخت ہے وہ انسان جو بڑھاپے میں والدین کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کرے۔( صحیح مسلم)غرضیکہ ہمارے دین اسلام نے جو حقوق ماؤں کو دیے ہیں کسی دوسرے مذہب میں ملنا محال ہیں۔ اب بحیثیت ماں ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم ان حقوق پراللہ تعالیٰ کاشکراداکرتے ہوئے اپنے فرائض یعنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو احسن رنگ میں پورا کرنے والیاں ہوں۔ اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت اسلام کےبتائےہوئےسنہری اُصولوں کےمطابق نہیں کریں گی یا اپنےبچوں کوقوم وملک کےمفیدشہری بنانےکی طرف توجہ نہیں دیں گی توپھر وہ جنت،جس کینوید میرےاورآپ کےآقاﷺ نےدی ہےپانامشکل ہوگا۔ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک احمدی مسلمان عورت(ماں) کی عائلی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئےارشاد فرمایا:’’ ایک عورت، ماں کے ناطے بچوں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے، اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ بچپن میں بچے باپ کی نسبت ماں سے زیادہ attachہوتے ہیں۔ تو اگر ابتدا سے ہی اپنے عمل سے اور اپنی باتوں سے بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کردیں، بٹھادیں تو نسلاً بعد نسلٍ عبادت گزار پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور نتیجۃً احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والوں کی ایک کے بعد دوسری فوج تیار ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں اچھے حالات کی وجہ سے پہلے کے گزارے ہوئے تنگی کے دنوں کو زیادہ جلدی بھول جاتی ہیں اور یہ عورت کی فطرت ہے اور اس کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ایک احمدی عورت کو چاہیے کہ اپنی ترجیحات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں۔ اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ آپﷺ نے فرمایا:وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ پس اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ بجائے اس کے آپ کے خاوند آپ کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوں کے لیے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں۔‘‘(خطاب ازمستورات جلسہ سالانہ آسٹریلیا،۱۵/اپریل ۲۰۰۶ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۲/جون ۲۰۱۵ء)آئیے! ہم یہ عہد كر یں كہ ہم اپنے پیارےامام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی ان قیمتی نصائح کوحرزجاں بناتےہوئےاپنی نسلوں کی تربیت آپ کےقیمتی ارشادات کی روشنی میں كرنے كی پوری كوشش كریں گے۔ان شاءاللہ العزیز بھیج دروداس محسن پرتُو دن میں سوسوبارپاک محمدمصطفیٰ ؐ نبیوں کا سردار(درّعدن،صفحہ ۱۹) مزید پڑھیں:تربیتِ اولاد، والدین بالخصوص ماؤں کا اہم فریضہ