یہ ایک ازلی ابدی سچائی ہے کہ اگر آج مذاہبِ عالم ہم آہنگ ہو سکتے ہیں تو رحمۃٌ للعالمین، سیّدالمعصومین حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل شدہ کلام اللہ قرآن کریم پر، آپؐ کے اسوہ پر، آپؐ کی تعلیمات پر اور آپؐ کے درسوں پر عمل کر کے ہو سکتے ہیں اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَقَالُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ (البقرہ:۲۸۶) قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ(اٰل عمران:۶۵) وَلَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ(النحل:۳۷) ان آیات کاترجمہ ہے:رسول اس پر ایمان لے آیا جو اس کے ربّ کی طرف سے اس کی طرف اتارا گیا اور مومن بھی۔ (اُن میں سے) ہر ایک ایمان لے آیا اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر (یہ کہتے ہوئے کہ) ہم اس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کریں گے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ تیری بخشش کے طلبگارہیں۔ اے ہمارے ربّ! اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہیں بنائے گا۔ اور فرمایا:کہ ہم نے ہر امّت میں کوئی نہ کوئی رسول یہ حکم دے کر بھیجا ہے کہ( اے لوگو!) تم اللہ کی عبادت کرو اور بتوں سے اجتناب کرو۔ خاکسار کی تقریر کا عنوان ہے: بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام میں نبی کریمﷺ کا مبارک اسوہ۔ تجلّیٔ امن و سلامتی کا ظہور سامعینِ کرام!سنہ ۵۷۰ء میں یمن کا بادشاہ ابرہۃ الاشرمؔ جبر و استبداد کا نشان بن کر دنیا میں مرکزِ توحیداور انسان کے لیے تعمیرشدہ پہلے اللہ کے گھر خانہ کعبہ کے قریب اپنے ہزاروں ساتھیوں اور ہاتھیوں کے ساتھ اترا تاکہ اس بیت اللہ کو مسمار کرد ے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص تقدیر کے تحت خود اُسے تباہ و برباد اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔وہ مذہبی منافرت اور مذہبی جارحیّت کا علمبردار تھا۔ ابرہہ کی بربادی کا واقعہ ماہِ محرّم میں ہوا۔اس واقعے کے ڈیڑھ دو ماہ کے بعد ۱۲؍ربیع الاوّل مطابق ۲۰؍اگست ۵۷۰ء کو اسی مکّے ہی میں خانہ کعبہ کے نواح میں امن و سلامتی اور مذہبی وحدت و رواداری کی تجلّی کا بھی ظہور ہوا۔ یعنی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ آپؐ ابتداء ہی سے امن و سکون اور سُکھ چَین کاایک خوبصورت اور دلکش الٰہی شاہکار تھے اورایک الٰہی نشان تھے اور عالمگیرمذہبی اخوت و ہم آہنگی کے علمبردار تھے۔ مذاہب عالم میں ہم آہنگی کی حقیقی اور بنیادی اینٹ رسول اللہﷺنے مذاہب عالم میں ہم آہنگی کی حقیقی اور بنیادی اینٹ ایسی آہنی بنیادوں پر استوار فرمائی کہ تاقیامت اسے کو ئی جنبش تک نہیں دے سکتا۔ معزز سامعین! اس حقیقت سے ہر کوئی آگاہ ہے کہ مذہب کا قیام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولوں اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ہوتا ہے۔ مذہب اور رسولوں کے ساتھ دلوں کے رشتے اور روحوں کے ناتے ایسے مضبوط اور گہرے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے انسان اپنی جانیں تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ان کی خاطروہ اپنے سب مال و متاع، تمام دنیوی رشتے حتی کہ اپنے ماں، باپ،بال، بچے سب کچھ چھوڑدیتے ہیں۔ کیونکہ سچے مذہب پر ایمان ہی فطرتِ صحیحہ کا اصل تقاضا ہے۔ اسی وجہ سے اس پر سب کچھ قربان کر دیا جاتا ہے۔تمام مذاہب سے منسلک انسانوں کے ان سچے، حقیقی اورفطرتی اور مضبوط ترین جذبوں اوررشتوں کو تحفظ دینے والے میرے آقا و مولیٰ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ تھے۔ یہ صرف آپؐ تھے کہ بغیر کسی ایک کے استثناء کے تمام کے تمام انبیاء اور رسولوں پر اور ان کی کتابوں پر ایمان لانا اسلام میں داخل ہونے کی بنیادی اور دائمی شرائط قرار دی ہیں۔ آپؐ نے ان شرطوں کو ارکانِ ایمان میں شامل فرما کرہر ایک مسلمان کے ایمان کا بنیادی اور لازمی جزو قرار دیا ہے۔چنانچہ صرف وہ انبیاء علیہم السلام نہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ نہ ہی بعض وہ جن کا ذکر کسی اور مذہبی کتاب میں ملتا ہے۔ بلکہ بلا استثناء تمام نبی اوررسول جو دنیا کی کسی قوم یا کسی خطّے میں مبعوث ہوئے۔ان کا کسی کو علم ہو یا نہ ہو، آپؐ نےان پر ایمان لانا اوران کی عزّت و عظمت کی حفاظت کرنا ہر مسلمان پر فرض قرار دیا۔ یہ وہ بنیادی اکائی ہے جسے صرف اور صرف ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے مذاہبِ عالَم میں ہم آہنگی کےقیام کے لیے دنیا کے تمام مذاہب اور دنیا کی تمام وسعتوں میں قائم فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی نبی کو نہیں مانتا،تو وہ اسے اس لیے نہیں مانتا کہ وہ اسے سچّا نہیں سمجھتا۔اس لیے وہ اس کے خلاف بدزبانی کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔دنیا میں ہم ہر طرف ایسا ہوتا دیکھتے ہیں۔ مگر وہ شخص جو بغیر کسی استثناء کے ہر ایک نبی پر ایمان رکھتا ہے وہ یہ جسارت نہیں کر سکتا۔ پس یہ دنیا میں صلح و آشتی قائم رکھنےاورمذاہبِ عالم کو ہم آہنگ کرنے کی ایک بنیادی اکائی ہے، ایک حتمی قانون ہے اورایک غیر متزلزل مضبوط بنیاد ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نےرسول اللہﷺ کودیگر تمام انبیاء علیہم السلام پر ایک فضیلت یہ بھی عطافرمائی تھی کہ وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّنَذِیۡرًا (سبا:۲۹) کہ آپؐ کوتمام تر خلقِ خدا کی طرف بھیجا گیا تھا۔ یہ اسی لیے تھا کہ رسول اللہﷺ کے ذریعہ اب تمام انبیاء علیہم السلام کی امّتوں کو یکجا کیا جانا تھا۔ تمام مذاہب کو اس کامل، جامع،پُرامن اور خوبصورت تعلیم پر ہم آہنگ کیا جانا تھا جودراصل ہر مذہب کی بھی بنیادی اکائی ہے۔لہٰذااللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ایک لائحہ عمل عطا فرمایا کہ آپؐ یہ اعلان فرمائیں کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً(البقرہ: ۲۰۹)کہ اےدنیا کے طول و عرض میں رہنے والو! جو اپنے رسولوں اور اپنے مذہبوں پر ایمان لائے ہو تم سب کے سب امن و سلامتی کے اس پیغام میں داخل ہو جاؤ۔ اسلام کی اس عالمگیرپُرامن اور سچّی دعوت کو قبول کر لو۔ کیو نکہ یہی وہ پیغام ہے جو تمام انبیاءؑ کی طرف سے اپنے اپنے دَور میں انسانوں کے لیے امن و سلامتی کی نوید تھی۔لیکن اس آیت کی مخاطب اگر امّتِ مسلمہ لی جائے تو اس کا واضح پیغام یہ ہے کہ سب مسلمان وحدت اور توحیدِ ملّی کے ساتھ صلح و آشتی کے ساتھ رہیں، تفرقہ و تکفیر کی طرف نہ جائیں۔ الغرض یہ ایک حیرت انگیز اور خوبصورت حقیقت ہے کہ اسلام کی اس عمارتِ امن و سلامتی کا حسن اور دلکشی اپنی جامعیت، اپنی تکمیل اور اپنی تتمیم کی وجہ سے پہلے ہی سے صرف دیگر مذاہب سے ہم آہنگ ہی نہیں، بلکہ ان کا اس طرح احاطہ کرتی ہے کہ انہیں جامع طور پر اپنے اندر سمولیتی ہے۔چنانچہ ہم ببانگِ دُہل یہ اعلان کرتے ہیں اور اس میں حق بجانب ہیں کہ دنیا کےتمام مذہب اپنی اساس اور اپنی بنیاد کےساتھ اسلام میں ہیں اور اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سچائی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے کہہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَفِیۡ ہٰذَا( الحج: ۷۹) کہ (اللہ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا (اس سے) پہلے بھی اور اس (قرآن) میں بھی۔ چنانچہ کسی دوسرے مذہب والے سے پوچھیں کہ کیا تمہارے مذہب میں اللہ تعالی کی کامل اطاعت کی تعلیم نہیں ہے؟ اور دوسرے یہ کہ کیا تمہارے مذہب میں انسان سے اور مخلوقِ خدا سے ہمدردی اور اسے امن دینے کی تعلیم نہیں ہے؟ کسی مذہب سے وابستہ کوئی شخص ان دو باتوں کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا۔ یہ دو باتیں ہر مذہب کی بنیاد میں داخل ہیں۔ لہٰذا ان میں بنیادی طور اسلام موجود ہے۔ کیونکہ ’’اسلام‘‘ کا ایک معنیٰ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرنا ہے اور دوسرا معنیٰ سلامتی دینا ہے۔ یہ ہے توحیدِ ملّی پر قائم وہ خوبصورت مذہب جو ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ لے کر دنیا میں تشریف لائے۔آپؐ ہم آہنگی اور یکجہتی کا یہ تاکیدی پیغام لائے کہ جو شخص اسلام میں ہے یا وہ جو اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے، اسے بلا استثنا تمام نبیوں پر اور ان پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لانا ضروری ہے۔آپؐ یہ پیغام لائےکہ ازلی ابدی طور پراللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف یہی ایک دین ہے جو اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ(اٰل عمران: ۱۹) یقیناً دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔چنانچہ آپؐ نے یہ حقیقت پیش فرمائی کہقُلۡ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا وَمَاۤ اُنۡزِلَ عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَمَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَعِیۡسٰی وَالنَّبِیُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّہِمۡ ۪ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ ۫ وَنَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ۔ وَمَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ(اٰل عمران:۸۵-۸۶) تُو کہہ دے ہم ایمان لے آئے اللہ پر اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم پر اتارا گیا اور اسماعیل پر اور اسحق پر اور یعقوب پر اور (اس کی) نسلوں پر اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو نبیوں کو اُن کے ربّ کی طرف سے دیا گیا۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں۔ اور جو بھی اسلام کے سوا کوئی دین پسند کرے تو ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا۔ یہ آیتِ قرآنی بتاتی ہے کہ دراصل ابتداء ہی سے ہر نبیؑ پر نازل ہونے والا دینِ الٰہی دینِ اسلام ہی تھا، گو شناخت کے لیے ان کےنام مختلف تھے مگر ان کی روح اور تعلیم درحقیقت اسلام تھی۔ وہی دین رسول اللہﷺ پر کامل اور مکمل ہوا اور آپؐ کے مبارک اُسوہ کے ساتھ دنیا میں اپنے عالمی پیغام اور ابدی سچائی کے ساتھ نافذ ہوا۔ اَسْلِمُوْا تُسْلَمُوْا: بار بار ہم آہنگی اورامن و سلامتی کا پیغام اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو یہ تعلیم بھی عطا فرمائی تھی کہ وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے، فَاصۡفَحۡ عَنۡہُمۡ وَقُلۡ سَلٰمٌ(الزخرف :۹۰)کہ تو ان سے درگزر کر اور انہیں سلامتی کا پیغام دے۔انہیں امن کی طرف بُلا۔ چنانچہ امن و سلامتی اور اسلام کی پیشکش کے لیے رسول اللہﷺ کا ایک مبارک اسوہ یہ بھی تھا اور یہ آپؐ کا مستقل طریق تھا کہ آپؐ قبائل کویا بعض لوگوں کو انفرادی طور پر اَسْلِمُوْا تُسْلَمُوْا یا أَسْلِمْ تُسْلَمْ کا پیغام بھیجتے تھے۔آپؐ نے جب بادشاہوں کو خطوط لکھے تو انہیں بھی اَسْلِمْ تُسْلَمْ کا پیغام دیا۔چنانچہ ہرقلؔ جو ان علاقوں میں قیصرِ روم کا گورنر تھا، اسے لکھا:’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ اِلیٰ ھِرَقْلَ عَظِیْمَ الرَّوْم۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اَدْعُوْکَ بِدَاعِیَۃِ الْاِسْلَامِ۔اَسْلِمْ تُسْلَمْ وَ اَسْلِمْ یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ۔ فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْاِرِّیْسِیِّنَ۔ وَ يَا اَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّٰهِ۔‘‘(صحیح البخاری کتاب الجہاد و السِّیَر باب دعوۃِ الیھود یّ و النصرانیِّ و … ما کتب النبیُّ الی کسرٰی و قیصر…)کہ میں اللہ کے نام کے ساتھ اس خط کو شروع کرتا ہوں جو بن مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے۔یہ خط محمدؐخدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے روما کے رئیس ہرقل کے نام ہے۔ سلامتی ہو اس شخص پر جو ہدایت قبول کرتا ہے۔ اس کےبعد اے رئیس روما! میں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔ مسلمان ہو کر اللہ کی سلامتی کو قبول کیجئے۔ اسلام قبول کیجیے کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس کا دوہرا اجر دے گا۔ لیکن اگر آپ نے روگردانی کی تو یاد رکھیے کہ آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہوگا۔ اور اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اُس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہیں بنائے گا۔ رسول اللہﷺ نے اور بادشاہوں اور حاکموں کو بھی ایسے ہی خطوط لکھے۔ مثلاًبحرین کے رئیس منذر بن ساوٰیؔ جو اس علاقے میں کسریٰ شاہِ ایران کا نائب السلطنت تھا، مقوقسؔ والیٔ مصر جو قیصر روم کے تحت مصر اور اسکندریہ کا موروثی حاکم تھا، نجاشی ؔجو حبشہ کا موروثی بادشاہ تھا، غسّان کے حاکم حارث بن ابی شمر ؔیہ قیصر روم کے ماتحت رئیس تھا، رئیسِ یمامہ ہوذہ بن علیؔ وغیرھم۔ رسول اللہﷺ نےان سب کو اپنے خطوط میں اسلام اور سلامتی کی طرف دعوت دی۔ یہاں یہ وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ رسول اللہﷺ’’ اَسْلِمُوْا تُسْلَمُوْا یا أَسْلِمْ تُسْلَمْ‘‘کے پیغام جنگی مواقع پر بھی معاندین کو بھیجتے تھے۔جنگ کے تناظر میں عام طور پراس پیغام کو ایک دھمکی کے طور پرلیا جاتا ہے۔ یعنی تم مسلمان ہو جاؤ تو محفوظ رہوگے ورنہ نہیں۔ایسا مفہوم اختیار کرنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ لغت کے اعتبار سے ’اَسْلِمْ‘کے معنے اسلام قبول کرنے کے بھی ہیں اور مطیع،تابع اور فرمانبردار ہونے کے بھی۔لہٰذا یہاں صرف اسلام قبول کرنے کے لے لیے جاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ مدّ نظر رکھنا ضروری ہے کہ اسلام کی طرف بلانا آنحضرتﷺ کا منصب تھا۔ یہ آپؐ کا مذہبی فریضہ تھا۔اس کے لیے آپؐ نے ہر کس و ناکس کو دعوت دی۔ آپؐ کی خواہش ہوتی تھی کہ ہر شخص اسلام قبول کر کے دنیوی لحاظ سے بھی کامل امن میں آجائے اور اپنی عاقبت اور آخرت کے اعتبار سے بھی مأمون و محفوظ ہو جائے۔اس دعوت میں آپؐ نے نہ تو کبھی جارحیّت سے کام لیا،نہ جبر سے اور نہ ہی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اسلام میں داخل کیا۔ مثلاًآپؐ نے کبھی بھی کسی قیدی کو قید میں مجبور و بے بس پا کر اسلام میں داخل نہیں کیااور نہ ہی کسی قیدی کی قیمت پر اس کے لواحقین کو اسلام میں داخل کیا۔پس عام حالات میں اسلام کی دعوت دینا بالکل اور بات ہے اور مختلف منظر ہے۔ مگر کسی کو اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسلام میں داخل کرنا بالکل اور بات ہے۔ یہ جبر ہے،ظلم ہے اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ چنانچہ خاص جنگ کے مواقع پر اَسْلِمْ تُسْلَمْ کا پیغام دینا، در اصل جنگ سے گریز، امن،سلامتی اور صلح کا پیغام ہے نہ کہ دینِ اسلام میں داخل ہونے کی دعوت۔ایسے مواقع پر امن کے معاہدے ہوتے ہیں، مذہب میں داخل کرنے کے معاہدے نہیں ہو سکتے۔ آنحضرتﷺ کے اس پیغام میں اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا واضح عکس ہی نہیں، اس کی مکمل بنیادنظر آتی ہے کہ وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا وَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ(الانفال:۶۲)کہ اگر وہ صلح کی طرف جھک جائیں تو تُو بھی اس کے لیے جھک جا اور اللہ پر توکّل کر۔یعنی رسول اللہﷺ کے اس امن و سلامتی کے پیغام کودشمن اگر قبول کرتے ہیں تو پھر آپؐ کو ہدایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے آپؐ انہیں بہرحال تحفظ اور سلامتی عطا فرمائیں۔ حقیقت میں مذہب کا تعلق دل کی رغبت اور اس کے اقرار اور میلان سے ہے۔ دل کی تسلیم سے ہے۔جنگ اور خوف کی حالت میں اگر کوئی اپنامذہب تبدیل کرتا ہے تو اُس وقت غالب امکان یہ ہوتاہے کہ وہ دل سے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لیے یا بالفاظِ دیگراپنے قتل کے خوف کی وجہ سے، ازراہِ منافقت ایسا کرتاہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کوجبر کے ساتھ ان کے دین سے منحرف کرنے کی کوشش اصل میں کفّارکا شیوہ تھااور آنحضرتﷺ ان کواس طریق سے روکتے تھے۔ پھریہ کیونکر ممکن تھا کہ آپؐ خود اپنے ہی مسلک کے خلاف اقدام فرماتے ؟ پس ظاہر ہے ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ کسی کو تلوار کے خوف سے اسلام میں داخل کرنا آپؐ کا نہ پیغام تھا، نہ منشا تھا،نہ عمل، نہ طریق۔ جنگی حالتوں میں اَسْلِمْ تُسْلَم میں آپؐ کاپیغام یہ تھا کہ صلح و آشتی کے ساتھ ہمارے ساتھ مل جاؤ اور امن کے لیے ہماری پیش کش قبول کر لو توامن و سلامتی کے ساتھ رہو گے، تحفظ و آشتی کے ساتھ رہو گے۔ لیکن اس کے برعکس اگر مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو یہ تمہارا فیصلہ اور اختیار ہے جس کے تحت ہم تمہیں امن کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے۔ہاں اگر تم ہماری سرپرستی میں آتے ہو تو پھرہر حال میں اور ہر صورت میں ہم تمہارے لیے امن و سلامتی اور تحفظ و ترقی کے ضامن ہیں۔ آنحضرتﷺکے اس پیغام کے معنیٰ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھے اور انہی معنوں کی رُو سے آپؐ کے اس پیغام میں مذہب تبدیل کرنے کی کوئی دھمکی موجود نہیں۔ یہ ایک ٹھوس اور واقعاتی حقیقت ہے کہ مذہب میں داخل کرنے کے لیے اسلام کسی جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ آنحضرتﷺ کا ساری زندگی کا طریق اور آپؐ کامستقل عمل بھی یہی تھا کہ آپؐ نے جب بھی کسی دشمن کو مذکورہ بالا پیغام دیاتو اس کے بعدخواہ وہ شکست کھا کر آپؐ کے تابع ہوا یا معاہدہ کرکے،آپؐ نے اس کو کبھی بھی مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا۔اس طریق پر کسی ایک فرد کو بھی اسلام سے ہم آہنگ نہیں فرمایا۔گو مستشرقین نے بلکہ بعض نام نہاد ’مزاج شناسِ رسولؐ‘ قسم کے مسلمان علماء نے بھی ایسے اعتراض کیے ہیں کہ اسلام میں داخل کرنے کے لیے لوگوں کو مجبور کیا گیاتھا مگرغزوۂ بدر سے لے کر آخری سریّہ حضرت اسامہ بن زیدؓ تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے جس سے وہ یہ ثابت کرسکتے ہوں کہ آنحضرتﷺنے یا مسلمانوں کے کسی امیرِ لشکرنے فتح حاصل کرنے کے بعد یا معاہدہ کرنے کے بعد کسی کواپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے پر مجبور کیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس ایک واقعہ ضرور ملتا ہے کہ جہاں یہ شک ہوا کہ کسی نے موت کے خوف سے اسلام قبول کرنے کی کوشش کی ہے تو اسے قبول نہیں کیا گیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔گو اس کایہ قتل غلط ہوا اور بہت غلط اور ناجائز ہوااور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ رسول اللہﷺ کے لیے تکلیف کا باعث تھا۔ مگر اس ناگوار واقعہ سے یہ پیغام ضرور ثابت ہوگیا کہ صحابہؓ کسی کو جبراً مسلمان نہیں بناتے تھے، نہ ہی اس کے قائل تھے، نہ ہی انہیں یہ تعلیم تھی۔ پس یہ ہیں ہمارےآقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ جودنیا میں انسانوں میں اورمذاہبِ عالم میں ہم آہنگی کے قیام کے کامل، اکمل اور اعلیٰ و ارفع اسوہ تھے۔ ہم آہنگی کے قیام کے لیے رسول اللہﷺ کا ایک جامع ارشاد رسول اللہﷺ کا اسوہ یہ بھی تھا کہ اپنے زیرِ نگیں علاقوں میں خواہ وہ عیسائی تھے یا یہودی،آپؐ وہاں اپنے عمّال، امراء یا نمائندوں کو بھیجتے تو آپؐ کی یہ رحیمانہ نصیحت ہوتی تھی کہ یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا (بخاری کتاب العلم ما کان رسول اللّٰہ یتخوّلھم)کہ آسائش اور آسانی پیدا کرو اور مشکل پیدا نہ کرو، خوشی پہنچاؤ،نفرت نہ دلاؤ، انہیں مت بِدکاؤ۔ وہ بلا تفریق مذہب و ملّت ہر ایک سے نرمی اور آسانیاں بانٹنے کا مزاج رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی تعلیم کی تجدید حضرت مسیح موعودؑ پر دوسرے الفاظ میں بھی نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’تَلَطَّفْ بِالنَّاسِ وَ تَرَحَّمْ عَلَیْھِمْ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۸۳ الہام ۱۹۸۳ء)کہ لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر۔ دینی، مذہبی اور اعتقادی لحاظ سے ہم آہنگی کےقیام کا ایک ابدی پہلو مذاہبِ عالَم ہوں یا اسلام کے اندر مختلف فرقے یا مسالک، اللہ تعالیٰ نے ان کے مقدّس مقامات کی حفاظت سے متعلق قرآن کریم میں یہ تعلیم نازل فرمائی کہ ان کی ہر صورت میں حفاظت کی جائے۔ چنانچہ فرمایا: وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لَّہُدِّمَتۡ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذۡکَرُ فِیۡہَا اسۡمُ اللّٰہِ کَثِیۡرًا ؕ وَلَیَنۡصُرَنَّ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ (الحج: ۴۱)ترجمہ: اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض کے ذریعے سے (شرارت سے) باز نہ رکھتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے۔ اور یقیناً اللہ ضرور ا س کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے۔ یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور )کامل غلبہ والا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام مذاہب کے تمام عبادت خانوں کی حفاظت کے انتظام کا اعلان کیا گیاہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دیگر مذاہب کے عبادتخانوں کی حفاظت دراصل اللہ تعالیٰ کی مدد کرنا ہے اور جو یہ کرے گا اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شاملِ حال ہوگی۔کاش!یہ الٰہی ابدی تعلیم ہمارے لوگوں کو بھی معلوم ہو سکے۔ اس تعلیم کے تحت رسول اللہﷺنے ہر مذہب و ملّت کے شعائر کی حفاظت کے لیے معاہدے کیے اور ان کے تقدّس کو پامالی سے بچانے کے لیے واضح ارشاد فرمائے اور ان کی حفاظت کی قطعی ضمانت مہیّا فرمائی۔چنانچہ یمن کے بادشاہ ابرہہ کے مکّہ میں برباد ہو جانے کے کم و بیش باسٹھ۶۲سال بعد سنہ۱۰ھ میں اسی کے ملکِ یمن سے عیسائی اکابرین کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوا۔ آپؐ نے ان کی کما حقّہٗ تکریم فرمائی۔اس وفد کے ساتھ آپؐ کی تفصیلی بحث ہوئی اور بالآخرآپؐ کی طرف سے انہیں مباہلہ کی دعوت بھی دی گئی۔جس کے بعد آپؐ نے انہیں اسلام کی طرف بلایا۔ انہوں نے آپؐ کی اس دعوت کو ایمانی اور دینی لحاظ سے تو قبول نہ کیا مگر اسلام کے پُر امن نظام کو تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ آپؐ سے صلح کی درخواست کرتے ہیں اور جو حکم آپؐ انہیں دیں گے وہ انہیں قبول ہوگا۔ اس پرآنحضرتﷺنے ان سے حسبِ ذیل امور پر معاہدۂ امن کیا اورانہیں اس معاہدہ پر مبنی حسبِ ذیل تحریربھی دی کہ محمد نبیؐ کی طرف سے اسقف(آرچ بشپ) ابو حارث کے لیے اور نجران کے دیگر پادریوں،کاہنوں،اور ان کے پیروکاروں اور راہبوں اور ان کے سب متبعین کے لیے اور ان کے گرجوں، عبادت گاہوں وغیرہ کے لیے امان ہے۔ ان کے پادریوں میں سے کسی کواس کے منصب و مقام سے،ان کے راہبوں میں سے کسی راہب کواس کی رہبانیّت سے اور ان کے کاہنوں میں سے کسی کاہن کو اس کی کہانت سے قطعاًبرطرف نہیں کیا جائے گا۔انہیں ان کے حقوق اور ان کے اختیارات سے جن پر وہ قائم ہیں، ہٹایا نہیں جائے گا۔جب تک وہ خیر خواہ، صلح جُو اور امن پسند رہیں گے یا ظالموں کے ساتھ مل کر ظلم ڈھانے والے نہ ہوں گے،انہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی پناہ حاصل رہے گی۔ (طبقات ابن سعد، ذکر بعثۃ رسول اللّٰہ الرسل بکتبہٖ الیٰ الملوک یدعوھم الیٰ الاسلام وابن کثیر کتاب الوفود وفد نجران) سامعینِ کرام! ذرا غور فرمائیں کہ کہاں وہ عیسائی حکمران ابرہہؔ مذہبی ظلم اور جارحیت کا ایک نشان نہیں دھبّہ بن کر اس غرض سےمکّہ آیا تھا کہ وہ خانہ کعبہ کو برباد کر دے۔اورکہاں یہ رحمۃٌ لّلعالمین، ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کہ اُسی ملک سے آنے والے عیسائیوں کو ہر قسم کے مذہبی مقامات، معاملات اور ان کے مرتبوں کو تحفظ اور اعتماد فراہم فرماتے ہیں۔ یہ تحریرجہاں مذہبی آزادی اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے آنحضرتﷺکی جدّو جہد کی ایک اعلیٰ مثال ہے وہاں آپؐ کی مذہبی وسعتِ قلبی کی بھی آئینہ دار ہے۔ یہ معاہدہ صرف تحریر یا مثال کی حدّ تک نہیں تھا بلکہ عملاً رسول اللہﷺ نے اسے نافذ بھی کرایا۔اس کے ذریعہ آپؐ نے اسلامی حدودِمملکت میں نہ صرف آزادیٔ ضمیر و مذہب کو قائم فرمایا بلکہ اسے احکامِ شریعت میں بھی داخل فرمایا۔ ان احکام کے ذریعہ آپؐ نے ہر مذہب والے کو جو اسلامی سلطنت کا مطیع و محکوم تھا،مذہبی آزادی کی کھلی فضا مہیّا فرمائی۔آپؐ نے ان کے جملہ حقوق کا تحفظ نیز فرائض کا تعیّن کر کے انہیں پُر امن زندگی جینے کااعزاز واعتمادعطافرمایا۔رسول اللہﷺ نے درجنوں قبائل اور قوموں سے بھی اسی نوع کے معاہدے کیے۔ یکجہتی اور اتحاد کے قیام کا بین المذاہب و القبائل معاہدہ۔ میثاقِ مدینہ بین القبائل،بین الاقوام یا بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک مثال، جسے رہتی دنیا تک کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اس کی نظیر پیش کی جا سکتی ہے، یہ ہے کہ رسول اللہﷺ ہجرت کر کے جب مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے آپؐ نے مدینہ کے انصار اور مکّہ سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجروں میں مؤاخاۃ قائم کی اور بھائی چارے کا معاشرہ تشکیل دیا۔ اس کے بعدآپؐ نے وہاں کے دوسرے عناصر یعنی یہودی قبائل، بنوقریظہ، بنو قینقاع،بنو نظیر اور غیر یہودی قبائل اوس اور خزرج اور ان کے حلیفوں کو ایک امن و سلامتی کے شاہکار جمہوری معاہدہ میں پِرویا۔ آپؐ کا تحریر کردہ یہ معاہدہ تاریخ عالم میں میثاقِ مدینہ کے نام سے ہمیشہ عدل و امن اور عظمت و تقدّس کے مقام پر قائم رہے گا۔ یہ اہم معاہدہ کم و بیش سینتالیس۴۷ شقوں پر مشتمل تھا۔ اس کی ہر شقّ ہی فلاح و بہبود، امن و استحکام کا لائحۂ عمل تھی۔ ان میں سے صرف دو دفعات ملاحظہ فرمائیں۔آپؐ نے لکھوایاکہ’’اِنَّہُمْ اُمَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ‘‘اس معاہدہ میں شامل(یعنی جو اس میں شامل نہیں ہیں ان کے علاوہ) تمام طبقات ایک اُمت اور ایک قوم شمار ہوں گے۔اور ’’اِنَّ یَہُوْدَ بَنِی عَوْفٍ اُمَّۃٌ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ لِلْیَہُوْدِ دِیْنَہُمْ وَلِلْمُسْلِمِیْنَ دِ یْنَہُمْ‘‘(سیرۃ ابن ہشام، زیر عنوان ’الرسول یوادع الیہود‘۔جلد۲،صفحہ۶۴)کہ بنوعوف کے یہود مومنوں کے ساتھ یقینا ًامّتِ واحدہ ہیں۔دین و مذہب میں ہر شخص آزاد ہوگا۔یہودیوں کا اپنا دین اور مسلمانوں کا اپنا دین ہو گا۔ اس میں ایک دوسرے کو دخل دینے کی اجازت نہ ہوگی۔(مذہبی لحاظ سے دونوں آزاد ہیں مگر معاشرتی، قومی،قبائلی لحاظ سے وہ امّتِ واحدہ ہیں۔)… اس میں ہر ایک کو مذہبی آزادی عطا فرمائی گئی۔ چھ قوموں میں ہم آہنگی کا یہ کیا ہی عظیم الشان پیغام ہے اور مذہبی رواداری کا کیا ہی خوبصورت قانون ہے۔ یہ رسول اللہﷺ کے پاک اُسوہ کی ایک دلکش جھلک ہے۔ سامعین کرام!امن و آشتی اور اتّحاد و ہم آہنگی کایہ منفرد، بنیادی اور اعجازی معاہدہ ہے جس کی نظیر نہ پہلے کبھی دنیا میں موجودتھی اور نہ آئندہ اس سے بہتر کوئی معاہدہ ظہور میں آسکتا ہے۔ میثاقِ مدینہ رہتی دنیا تک یہ شہادت پیش کرتا رہے گا کہ باوجود اس کے کہ مدینہ کے یہود اور منافقین رسول اللہﷺکو اذیت دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے، آپؐ نے انہیں ان خاص حالات میں’’امّتِ واحدہ ‘‘ میں شامل رکھا۔آپؐ نے اسلام کو ایسے وسیع النّظر، وسیع القلب اور وسیع الظّرف مذہب کے طور پر قائم فرمایا جو دنیا کی ہر قوم اور مذہب کو اپنے اندر سمو کر اسے ’’امّت ِ واحدہ‘‘ بننے کی دعوت کے ساتھ اس کے دوام کے لیے مستقل عملی لائحۂ عمل بھی پیش کرتا ہے۔ رسول اللہﷺنے ایسے ہی امن کے معاہدے مدینہ کے اِردگرد کےقبائل سے بھی کئے۔اس کے لیے آپؐ نے جہاں جانا ضروری سمجھا وہاں آپؐ بذاتِ خود تشریف لے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ خطّے کے ماحول کو پُرامن رکھا جائے۔ یہاں ایک ایسا معاشرہ قائم اورجاری کیا جائے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی اصل غرض و غایت ہے۔ جو ’اَسْلِمْ تُسْلَمْ‘ کا عملی نمونہ ہو۔(یعنی ہمارے ساتھ امن کے معاہدے میں داخل ہو جاؤ تو تمہیں مستقل طور پر امن کی ضمانت مل جائے گی)۔جس کے تحت سب قومیں معاہدوں کی پُر امن فضا میں آکر ایک ایسے نظام کی اطاعت میں آجائیں۔ جس کے تحت آ کرہر ایک شرطیہ امن اور اعلیٰ تحفظ کی ضمانت حاصل کر سکے۔ رسول اللہﷺکے ایسے معاہدے خطۂ عرب ہی نہیں، ساری دنیا کے لیے پائیدار امن و سلامتی کی نوید تھے جن سے ہر قوم و قبیلہ کے افراد کے جانی و مالی اور انسانی حقوق کا تحفظ وابستہ تھا۔ قیامِ امن و آشتی کے لیے آنحضرتﷺکا ایک مخصوص اور منفرد اسوہ۔ آپؐ کی شادیاں اللہ تعالیٰ نےاُس زمانہ کے مزاج، طریق اور ضرورت کے ماحول ومناظر میں آنحضرتﷺ پر خاص طور پر زیادہ شادیوں کی ذمہ داری کا جو بوجھ ڈالا۔آپؐ کی ان شادیوں پراپنے اپنے خبثِ باطن کے مطابق معاندین باتیں کرتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سےان میں متعدد غیر معمولی حکمتیں اور ضرورتیں مدِّ نظرتھیں جو خَالِصَۃً رسول اللہﷺکی ذات کے ساتھ وابستہ تھیں۔اس لیے شریعت میں آپؐ کےعلاوہ کسی کو اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ان جملہ غیر معمولی حکمتوں اور ضرورتوں میں سے ایک بڑی حکمت اور ضرورت یہ بھی تھی کہ آپؐ کی شادیوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ فوری طور پرقبائل، اقوام اور مذاہب میں عداوتوں کی گِرہیں کھلیں بلکہ محبتوں کے مضبوط بندہن باندھے گئے اوراجتماعی طور پر امن و آشتی کو فروغ بھی ملا اور اس سے مذہبی ہم آہنگی کا قیام ہوا۔ مذاہب میں ہم آہنگی کے لیے یہ بھی ایک تقدیر تھی جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ذریعہ ظاہر فرمائی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ ساری دنیا میں عموماً او رعرب میں خصوصاً ازدواجی رشتوں کوآپس میں تعلّقات کی پختگی کا مضبوط ترین ذریعہ شمار کیا جاتا تھااور ان کی غیر معمولی قدر کی جاتی تھی اور معاملات میں ان کی فائق وقعت ہوتی تھی۔مثال کے طور پرآنحضرتﷺ ہجرت فرما کر جب مدینہ تشریف لائے اور وہاں آپؐ کے قیام کا سوال اُٹھا تو آپؐ نے اس رشتے کو مدنظر رکھا جوآپؐ کے پردادا ہاشمؔ کابنو خزرج کے قبیلہ بنونجّارکے ساتھ تھا۔ہاشم نے بنو نجّار میں سلمٰی نامی عورت سے شادی کی تھی جو آپؐ کے دادا عبدالمطّلب کی والدہ تھیں۔ (ابنِ ہشّام اولاد ہاشم و أمّھاتھم) فتحِ مکّہ سے قبل جب حدیبیہ کا معاہدہ توڑتے ہوئے قبیلہ بنو خزاعہ پر قبیلہ بنو بکر نے حملہ کیا تو بنوخزاعہ کا سردارعمرو بن سالم خزاعی آنحضرتﷺ کی خدمت میں مدد کی فریاد لے کر آیا تو اُس وقت اُس نے آپؐ کے جدِّ امجد قُصَیّ کی والدہ کے تعلق کا واسطہ دیا جو بنو خزاعہ سے تھیں۔ (المواہب اللدنّیہ و زرقانی غزوۃ الفتح الأعظم) اسی طرح رسول اللہﷺ نے حضرت عمرو بن العاصؓ جن کومسلمان ہوئے ابھی چار پانچ مہینے ہی ہوئے تھے، سریّہ ذات السلاسل کا سپہ سالار بنا کر بھیجا جبکہ اس لشکر میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت سعد بن عبادہؓ جیسے کبار صحابہؓ بھی شامل تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ مہمّ قبیلہ بنو قضاعہ کی طرف تھی اور بنو قضاعہ کے ایک ذیلی قبیلے بنو بَلیّ سے آپؓ کی دادی تھی۔ اس وجہ سے راستہ میں آپؓ کے لیے امن بھی تھا اور آسانیاں بھی یقینی تھیں۔اسی طرح آنحضرتﷺ نے اس سے بھی دور کا ایک حوالہ دیتے ہوئے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ ’’جب خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کا ملک فتح کرائے تو اہلِ مصر سے نیکی،رحمت اور احسان کا سلوک کرنا کیونکہ تمہاری ماں کی وجہ سے (حضرت حاجرہ ؑ اور امّ ابراہیم حضرت ماریہؓ سے رشتۂ مصاہرت یعنی سسرالی رشتے کی وجہ سے) تم پر اہلِ مصر کا خاص حق ہے۔‘‘(مسلم کتاب فضائل الصحابۃباب وصیّۃ النبيّ بأھل مصر) اسی روح کو اورفطرتی جذبات کو مدّنظر رکھتے ہوئے آنحضرتﷺ نے خدا تعالیٰ کی خاص منشاء کے تحت مختلف قبائل اور مذاہب سے رشتۂ ازدواج باندھا تا کہ بین القبائل والمذاہب ایک وسعت پذیر تعلقِ محبت استوار ہو جائے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ جن خاندانوں اورقبائل وغیرہ میں آپؐ نے شادیاں کیں ان کی وجہ سے وہ سب بھی آپس کے رشتوں میں منسلک ہو گئے۔ یہ رشتے ایسے تھے جن کا مرکزی وجود آنحضرتﷺ کی ذاتِ بابرکات تھی۔یعنی اتّحاد و مودّت کی پھوار آپؐ کی ذات کے سرچشمے سے پھوٹ کر چار سَو پھیل رہی تھی۔چنانچہ آپؐ کی جتنی بھی شادیاں ہوئیں سوائے دو ازواجِ مطہرات کے سب الگ الگ قبیلوں میں ہوئیں۔یہ دو ازواج حضرت زینب بنتِ خزیمہؓ اور حضرت میمونہؓ تھیں جو ماں جائی بہنیں بھی تھیں۔ حضرت زینبؓ کی وفات کے تقریباً چار سال بعد آنحضرتﷺ نے اسی قبیلہ بنو ہلال سے حضرت میمونہؓ کو عقدِ زوجیت میں لیا۔اسی طرح ازواجِ مطہرات میں سے وہ بھی تھیں جو عرب میں موجود دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والی تھیں اورآپؐ کے عقد میں آنے سے پہلے مسلمان ہوئی تھیں۔ چنانچہ آپؐ کی چھ ازواجِ مطہرات قبائلِ قریش میں سے تھیں اور چارازواج عرب کے دیگر قبائل سے تھیں۔ان دس ازواجِ مطہرات میں سے صرف حضرت عائشہؓ تھیں جو پیدائشی مسلمان تھیں۔آپؓ کے علاوہ باقی سب وہ تھیں جوخود مسلمان ہوئیں یااپنے والدین کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئی تھیں۔اس وقت عرب میں بت پرستی کا رواج زیادہ تھا اور قبائلِ قریش اور دیگر عرب قبائل عمومی طور پربت پرستی میں ہی مبتلا تھے اور قبل از اسلام یہ ازواجِ مطہرات ایسے ہی مذاہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے علاوہ آپؐ نے حضرت صفیہ ؓسے شادی کی جو یہود کے قبیلہ بنو ہارون سے بنی اسرائیلی تھیں،آپؓ نے آنحضرتﷺ کے عقد میں آنے سے قبل اسلام قبول کیا۔ اسی طرح آپؐ کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت ماریہ قبطیہؓ تھیں جومصرکے قبطی قبیلہ سے تھیں۔مصر چونکہ برّ اعظم افریقہ میں شمار ہوتا ہے اس لیے آپؓ بھی غیر عرب تھیں۔ آپؓ کا مذہب عیسائیت تھا۔آپؓ آنحضرتﷺ کے عقد میں آنے سے قبل یعنی مصر سے مدینہ آتے ہوئے حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ کے ذریعہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئی تھیں۔ (ابنِ سعد ذکر ازواج رسول اللّٰہ و زرقانی ذکر ازواجہٖ الطاہّراتؓ و سراریہ) اس مختصر جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی شادیوں میں خداتعالیٰ نے منجملہ حکمتوں کے یہ حکمت بھی رکھی تھی کہ آپؐ نے مختلف قبائل،اقوام اور مذاہب حتّی کہ عرب و عجم کے ساتھ رشتۂ مصاہرت یعنی سسرالی تعلق باندھ کر امن و آشتی اوراخوّت و محبت کوعرب و عجم پر حاوی عالمی وسعتیں عطا کیں۔ حرمات اللہ کے تحفظ کے لیے سخت شرائط قبول کرکے ہم آہنگی کا قیام رسول اللہﷺ نے ہر سمت اورہر ممکن امن و آشتی کے قیام کے لیے کوششیں فرمائیں۔آپؐ کی مکّہ میں واپسی امن و سلامتی کے ماحول میں مقدّرتھی جس کی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو ان الفاظ میں اطلاع عطا فرمائی تھی کہ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ(الفتح:۲۸)کہ اگر اللہ چاہے گا تو تم ضرور بالضرور مسجد الحرام میں امن کی حالت میں داخل ہو گے۔ چنانچہ ایک رؤیا کی وجہ سے آپؐ ۶ہجری میں مکّہ کی جانب روانہ ہوئے مگر قریشِ مکّہ کی طرف سے روک دیے گئے۔آپؐ حدیبیہ کے مقام پر ٹھہر گئے جہاں قریش سے ایک معاہدہ طے پایا۔اس معاہدے کے وقت آپؐ کا فرمانا تھا: وَالَّذِی نَفْسِیْ بِیَدِہِ لَا یَسْاَلُوْنِی خُطَّۃً یُعَظِّمُوْنَ حُرُمَاتِ اللّٰہِ اِلَّا اَعْطَیْتُھُمْ اِیَّاھَا۔(بخاری کتاب الشروط باب الشروطِ فی الجھاد…)کہ بخدا وہ حرماتِ الٰہی کی عزت و عظمت کے لیے مجھ سے جو مطالبہ بھی کریں گے میں اسے قبول کروں گا۔یعنی جھگڑے یا تصادم سے بچنے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنے حق کو بھی چھوڑ دیا۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کی شرائط ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح رسول اللہﷺ نے حرمات اللہ کے تقدّس کی خاطر قریش ِمکّہ کی ہر سخت سے سخت شرط قبول فرمائی۔یہ شرائط ظاہر میں اسلام کے مفادات کے خلاف تھیں۔ اسی وجہ سے صحابہؓ میں شدید بےچینی اور انگیخت تھی۔ مگر عملاً ان سب شرائط پر مضبوط ضبط اور گرفت شہنشاہِ امنِ عالَم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ ان شرائط کی اگر خلاف ورزی کرنی تھی تو وہ مکّہ والوں ہی نے کرنی تھی۔ اور بالآخر ایسا ہی ہوا اور اس کا نتیجہ فتح مکّہ پر منتج ہوا۔ یہ فتح مبین تھی کہ رسول اللہﷺ نے شعائر اللہ کی حرمت کے قیام کے لیے بظاہر ایک قربانی پیش کرتے ہوئے قریشِ مکّہ کی پیش کردہ شرائط قبول فرمائیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نتیجے میں ان شعائر کی دائمی حفاظت کا انتظام و انصرام آپؐ کے ہاتھ میں دے دیا۔ تمام مذاہب، فرقوں، قبائل اور اقوام میں خونریزی کی قطعی روک تھام فتح مکہ کے دوسرے روز رسول اللہ نے انتہائی سبق آموز اور جلالی رنگ میں قتل و غارت کے بد نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے کلّیۃً اس سے ہاتھ اٹھالینے کا ارشاد فرمایا:اِرْفَعُوْا اَیْدِیَکُمْ عَنِ الْقَتْلِ،فَقَدْ کَثُرَ الْقَتْلُ اِنْ نَفَعَ۔(ابنِ ہشّام و السیرۃ الحلبیہ غزوہ فتح مکّہ)کہ قتل سے اپنے ہاتھ روکو۔قتل تو بہت ہو چکا اور قتل و غارت نے دنیا کو کبھی بھی فائدہ نہیں دیا۔ آپؐ کا یہ پُر زور حکم کسی مذہب و ملّت تک محدود نہیں تھا بلکہ دنیا کی ہر قوم و قبیلہ اور مذہب و ملّت کے لیے تھا۔پھر اس حکم کے دو سال کے بعدحجۃ الوداع کے موقع پر ایک خطبہ میں آپؐ نے پھریہ بھی تاکید فرمائی: لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔(بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع)کہ میرے بعد یوں نہ بھٹک جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاؤ۔ آپؐ کے اس حکم نے رہتی دنیا تک یہ سچائی قائم فرمادی ہے کہ کشت و خون نے کبھی نفع نہیں دیا۔اس نے ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے۔ بلکہ دنیا میں انسان اور انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان خود انسان ہی نے باہمی قتل و غارت کے ذریعہ پہنچایا ہے۔ ایک اَور پہلو- عدل و انصاف کا قیام اللہ تعالیٰ نے بین المذاہب،بین القبائل، بین الاقوام یا عالمگیر قیامِ امن کےپہلو سے رسو ل اللہﷺ کو یہ تعلیم بھی عطا فرمائی کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَلَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ(المائدہ:۹) اس آیت میں یہ عالمگیر اعلان کیا گیا ہے کہ اسلام تمام مذاہب، قوموں اور علاقوں کا مذہب ہے۔ لہٰذا جب بھی تمہیں موقع ملے تو اے لوگو تم جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو یہ تقوٰی کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔ ان احکام کے تحت کوئی حقیقی مسلمان حکومت بین المذاہب، بین الفِرَق اوربین الاقوامی تعلقات کو خراب کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی کیونکہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ دوسرے مذاہب، دوسرے فرقوں اور دوسری قوموں کے مالوں اور حکومتوں کی طرف کبھی حرص و طمع کی نگاہ نہ ڈالیں اور نہ صرف یہ کہ انفرادی طور پر با اخلاق اور منصف و عادل ہوں بلکہ ضروری ہے کہ قومی اور بین الاقوامی طور پر بھی با اخلاق اور منصِف و عادل ہوں۔یہ بنیادی اصول ہیں جو انفرادی و قومی اوربین الاقوامی معاہدوں، جھگڑوں، تنازعات اور جنگوں پر یکساں لاگو ہوتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی اپنی ذات کا جہاں تک تعلق ہے، آپؐ کا ہر فیصلہ، حکم، عمل اور زندگی کا ہر لمحہ ایک اعلیٰ ترین عدل و انصاف پر استوار تھا، مگر آپؐ نے اپنے صحابہؓ کی جس طرح اس پہلو سے تربیت فرمائی وہ بھی عدل و انصاف کی بےنظیر مثال ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ فتحِ خیبر کے بعد جب واپس لوٹے تو حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو وہاں کی پیداوار وغیرہ کے معاملات طے کرنے کے لیے مقرر فرما گئے۔ چنانچہ آپؓ نے جس طرح غلّہ کی تقسیم فرمائی، اس پر وہاں کے یہود بے اختیار پکار اٹھے :بِھٰذَا قَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ۔ (السیرۃ الحلبیہ۔ غزوۂ خیبر) کہ ایسے ہی انصاف کے باعث زمین و آسمان قائم ہیں۔ رسول اللہﷺ کے ذریعہ دنیا میں اسلامی عدل و انصاف کا قیام، مذاہبِ عالم میں ہم آہنگی کے قیام کا ایک بہت اعلیٰ ذریعہ ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کا ایک ذریعہ- معبدوں میں مقیم افراد کا تحفظ جنگوں کے بارے میں رسول اللہﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جامع احکام لے کر آئے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپؐ نے جنگی حالت کے دوران بھی مذہبی لیڈروں کو قتل کرنے سے ان الفاظ میں منع فرمایا کہ لَا تَقْتُلُوْا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ(طحاوی بحوالہ سیرت خاتم النبیّینﷺ از صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ ) کہ معبدوں یا مذہبی عبادت گاہوں میں مقیم لوگوں کو قتل نہ کرو۔مذہبی ہم آہنگی کا یہ ایک اعلیٰ حکم ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کی ایک الٰہی تقدیر مذاہبِ عالم میں ہم آہنگی کی وہ تقدیر جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر شروع فرمائی تھی، اب مسیح و مہدیٔ موعودکے ذریعہ تمام انبیاء علیہم السلام کے بنیادی مذہب یعنی اسلام کو غلبہ عطا کر کے نافذ کی جارہی ہے۔اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو قرآن کریم میں یہ پیغام بھی دیا کہ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ(التوبہ:۳۳)کہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے خواہ مشرک کیسا ہی ناپسند کریں۔ اس آیت کے بارہ میں رسول اللہﷺ نے خود اور متعدد مفسّرینِ امّت نے تصدیق کی ہے کہ یہ غلبہ مسیح موعود اور مہدیٔ معہود کے ذریعہ مقدّر ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ آیت تین مرتبہ آنحضرتﷺ پر نازل فرمائی۔یعنی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تاکید کے ساتھ یہ پیغام دیا کہ اسلام میں یہ طاقت اور صلاحیّت ہےکہ وہ دیگر ادیان کو اپنی غالب وسعتوں کی وجہ سے، اپنی پُر امن و پُر سلامتی تعلیمات و اقدار اور دلائل و براہین جیسی خصوصیات کی وجہ سے اپنے اندر سموسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس دینِ حق میں گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی ہدایتوں اور تعلیمات کو بھی جمع فرمایا اور ساتھ رسول اللہﷺ کو وہ ازلی ابدی سچائیاں اور جامع عقلی، نقلی و منطقی دلائل عطا فرمائے جو اپنی جامعیت اور حقانیت کے ساتھ دیگر ادیان پر غالب ہیں۔جو اپنی اس طاقت اور صلاحیّت کی وجہ سے تمام ادیان کو اس کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی خصوصی وسعت رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ(الصّف:۱۰)پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس میں دو لفظ ھُدٰی اور حَق کے رکھے ہیں۔ ھُدٰیتو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے۔ معما نہ رہے۔ یہ گویا اندرونی اصلاح کی طرف اشارہ ہے، جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے۔ چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے۔ جَاءَ الْحَقُّ وَزَ ھَقَ الْبَاطِلُ۔ اور خود اس آیت میں بھی فرمایا ہے۔ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ۔ یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا۔ یہ غلبہ تلوار او ر تفنگ سے نہیں ہوگا، بلکہ وجوہ ِ عقیلہ سے ہوگا۔‘‘(الحکم مورخہ ۱۰؍اپریل ۱۹۰۳ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۷ صفحہ ۴۱۱تفسیر سورۃ الصّف ) پس اس طریق سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ کی زبان سے ادیانِ عالم کو متّفَق علیہ اصولوں پر اکٹھا ہونے کی دعوت دی گئی۔یعنی آپؐ کی بعثت سے دیگر ادیان کو ان کی اپنی اصولی تعلیمات کی بنیادوں پر اسلام کی طرف بلایا جائے گا۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کے موعود مسیح و مہدی علیہ السلام کے ذریعہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کی تبلیغ خالصتاً رواداری امن وصلح اور عقلی و منطقی دلائل کی بنیاد پر استوار ہوئی ہے۔ تاقیامت امن و سلامتی اور صلح و آشتی کے پائیدار قیام کے لیے اقدام رسول اللہﷺ نے مستقبل میں بین المذاہب والاقوام امن و سلامتی کے دائمی قیام کے لیے موعودمسیح اور مہدیٔ معہود کی خبر دی اور فرمایا: یَضَعُ الْحَرْبَ۔وہ (دینی اور مذہبی)جنگوں کو موقوف کر دے گا۔مذاہبِ عالم میں ہم آہنگی کے راہبرِ عالم کے غلام اِس مسیح و مہدی علیہ السلام نے اعلان فرمایا: میں تو آیا اس جہاں میں ابنِ مریم کی طرح میں نہیں مأمور از بہرِ جہاد و کارزار ابنِ مریم ہوں مگر اترا نہیں میں چرخ سے نیز مہدی ہوں مگر بے تِیغ اور بے کار زار ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہےکام کام میر ا ہے دلوں کو فتح کرنا نَے دیار آپؑ نےآخری زمانے میں وجوہِ عقلیہ اور دلائل و براہین کے ساتھ مذاہبِ عالم میں ہم آہنگی اور مذہبی دنیا میں قیامِ امن و آشتی کےاس پہلو سے دنیا کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی انتہائی اہم تلقین بھی یاد دلائی اور اس کی عظمت و اہمیت و ضرورت کے بارے میں ان پُرزور الفاظ میں آگاہ فرمایا کہ ’’اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال فرما چکا ہے سیّدِ کونینِ مصطفیٰؐ عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التواء جب آئےگا تو صلح کو ساتھ لائے گا جنگوں کےسلسلے کو وہ یکسر مٹائے گا یعنی وہ وقت امن کاہوگا نہ جنگ کا بھولیں گے لوگ مشغلہ تِیر و تفنگ کا اک معجزے کے طور سے یہ پیشگوئی ہے کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے‘‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول اللہﷺ کی اس پیشگوئی کی تعمیل میں ۱۸۹۹ء میں جلسہ ہائے مذاہبِ عالَم کی بنیاد رکھی۔ جس میں بانیانِ مذاہبِ عاَلم کی خوبصورت سیرت اور ان کے مذاہب کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کی طرف توجّہ دلائی۔ اس غرض کے لیے آپؑ نے حکومتِ وقت کو ایک میموریل بھی تحریر فرمایا۔ اس کے بعد جماعت میں ہر دَور میں مذاہبِ عالَم کانفرنسز کا انعقاد ہوتا ہے۔ان کانفرنسوں کے ذریعہ مذاہب میں ہم آہنگی کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ دنیا کے طول و عرض میں جماعتِ احمدیہ کے تحت منعقدہ یہ پروگرام ہر سال اس سچائی کو ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ مذاہبِ عالَم میں ہم آہنگی کے اصل اور حقیقی علمبردار تھے۔ پس یہ ایک ازلی ابدی سچائی ہے کہ اگر آج مذاہبِ عالم ہم آہنگ ہو سکتے ہیں تو رحمۃٌ للعالمین،سیّد المعصومین حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نازل شدہ کلام اللہ قرآن کریم پر، آپؐ کے اسوہ پر، آپؐ کی تعلیمات پر اور آپؐ کے درسوں پر عمل کر کے ہو سکتے ہیں اور اسی کے طفیل اور اسی کے تسلسل میں اس زمانہ میں آپؐ کے مسیح و مہدی علیہ السلام اور آپؑ کے مقدّس خلفاء کی تعلیمات اور ان کی ہدایات پر عمل کر کےہی وحدت و اتحادسے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ اب یہی ایک ذریعہ ہے جو مذاہبِ عالَم کو ان کے اصل اور بنیادی دین، دینِ اسلام پر ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ یہ سب شہنشاہِ امن و رحمتِ عالم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہی کے اسوہ کی کامل اتّباع کی برکت سے ہے۔ اس کے بغیرممکن نہیں۔پس آج خلافتِ موعودہ، خلافتِ حقّہ اسلامیہ احمدیہ ہے جو ’’محبت سب سے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کی شاہراہ پر’’ تَعَالَوْا اِلَى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ‘‘ اور کلمۂ توحید کاجھنڈا لے کر رواں دواں ہے۔ پس آج ایک ہی حقیقت ہے اور ایک ہی سچائی ہے کہ مذہبوں کی ہم آہنگی ہے خلافت کےطفیل اب خلافت ہے فقط ادیان کی جائے قرار امن عالم کی ہے ضامن اب خلافت بالیقیں دیتا ہے قصرِ خلافت یہ صدائے امن بار ’’صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار‘‘ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُحَمَّدٍ ا فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَ سَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ (ہادی علی چودھری۔ نائب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: مخالفت کے باوجود جماعت احمدیہ کی ترقیات پر ایک طائرانہ نظر