https://youtu.be/nkyE6xssnEI ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہماری عورتوں کی اصلاح ہو جائے اور ہماری عورتیں نیک ہو جائیں،ہماری عورتیں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے لگیں تو ہماری نسلیں ان شاء اللہ تعا لیٰمحفوظ ہو جائیں گی، پھر ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی اس مضمون کے عنوان سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوجائے کہ یہ پیغام یا مضمون صرف نوبیاہتا جوڑوں کے لیے ہی ہے۔میں نے بعض خاندانوں میں یہ رواج دیکھا ہے کہ عزت کے طور پر اپنے گھر میں بیاہے ہوئے (شادی شدہ)شخص کو ’دلہا بھائی‘ ہی کہتے ہیں، چاہے اس شخص کی عمر اسّی سال سے اوپر ہو اور اس کے نواسے نواسیاں بھی ہوں۔اسی طرح گاؤں میں میری والدہ مرحومہ کو ساتھ والی پڑوسن ہمیشہ ’دلہن‘ کے لفظ سے پکارا کرتی تھیں۔ تو خاکسار نے یہ مضمون نو بیاہتوں کے علاوہ ان کے لیے بھی لکھا ہے جن کی شادی کو ساٹھ ستّرسال بھی ہوچکے ہیں اور وہ اب پوتے پوتیوں اورنواسے نواسیوں والے بھی ہوگئے ہیں۔ ہر ایک اس کا مخاطب ہے۔ اس وقت عمومی طور پر ہر جگہ رشتوں کے حصول میں پریشانیاں لاحق ہیں۔ تعلیم کے حساب سے بسااوقات ہم کفو رشتہ نہیں ملتا۔ پھر ماں باپ اپنی بچیوں کے نام تو شعبہ رشتہ ناطہ میں دے دیتے ہیں لیکن لڑکوں کی شادی خود اپنی پسند سے کرنا چاہتے ہیں۔اپنی پسند سے شادی کرانے میں تو کوئی ہرج نہیں لیکن یہاں جو بات بیان کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ لوگ عموماً اپنے لڑکوں کے نا م شعبہ رشتہ ناطہ میں رجسٹر نہیں کراتے جس کی وجہ سے انتظامیہ کو دقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ پھر جب رشتہ دیکھنے جاتے ہیں تو منہ سے توتقویٰ اور مذہبی گھرانہ، جماعت سے تعلق چاہتے ہیں مگر جب رشتہ تلاش کرتے ہیں تو ان باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ رشتے کی تلاش میں وہی حسب نسب، امارت، اونچی ذات اور فیشن پرستی ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اگر تقویٰ اور خدا خوفی ہو، سچائی پر مبنی حقائق ہوں اور ہر بات قول سدید کو مدنظر رکھ کر کی جائے تو آئندہ بہت سے مسائل سے خلاصی مل سکتی ہے۔ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور سنت اور ہدایات سے باہر نکلتا ہے یا نکلنے کی کوشش کرتا ہے منہ سے خواہ کتنا ہی تقویٰ، تقویٰ کرتا رہے اسےوہ حقیقی خوشی اور کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اکثر مسائل قول سدید(کھری، صاف اور سچی بات) نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور اگر رشتہ طے ہوجائے تو پھر کچھ عرصے بعد اور بعض اوقات تو بچوں کی پیدائش کے بعد بھی طلاق تک نوبت آپہنچتی ہے۔ اس قسم کے کئی مسائل خاکسار نے مشاہدہ کیے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰۰۶ء میں جماعت احمدیہ امریکہ کو ایک خط لکھا جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے بڑی وضاحت کے ساتھ ان امور کی طرف نشاندہی فرمائی جن کی وجہ سے طلاقوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یقیناًحضور کا یہ تجزیہ حقیقتِ حال پر مبنی ہے۔ حضور نے فرمایاکہ شادیوں میں ناکامی کا باعث بننے والی جو باتیں گہرے جائزے کے بعد سامنے آتی ہیں وہ بالعموم حسبِ ذیل ہوتی ہیں۔ نماز باجماعت میں بے قاعدگی، نشے اور شراب کی عادت، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا، غیر احمدیوں سے تعلق، بے پردگی، شادی بیاہ میں بدرسومات، جماعت سے تعلق میں کمزوری، اپنی نیکی اور بڑائی کا زعم، احساس برتری، مارکٹائی، سسرال والوں کے مطالبات، جھوٹ پر رشتےکی بنیاد، آپس میں ایک دوسرے کے حقوق پورے نہ کرنا، سسرال والوں کا سخت اور نامناسب رویّہ، زبردستی کی شادی، خاوند کی طبی یا ذہنی معذوری، بےروزگاری، خاندانی جائیداد کے مسائل، سسرال والوں کا جھگڑالو ہونا، بالخصوص ساس اور سسر کی سخت مزاجی، خاوند کے بڑے بھائیوں اور نندوں کا غلط رویّہ، سسرال والے اور لڑکا بیوی کو رکھنا نہیں چاہتے، شوہر کی دوسری شادی وغیرہ۔ حضورِانور نے فرمایاکہ شادیوں کی ناکامی کے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے احباب جماعت کی تربیت کی بہت ضرورت ہے۔ اس طرف خاص توجہ دیں اور مربیان سے بھی کہیں کہ وہ اس بات کا اہتمام کریں کہ ہر ماہ جماعتوں میں کم از کم ایک خطبہ ان برائیوں کی اصلاح کے موضوع پر ضرور ہوا کرے تاکہ احمدی معاشرے میں ایسی خرابیاں ہمیشہ ہمیش کے لیے ختم ہوجائیں اور ہر احمدی گھرانہ جنت نظیر نمونہ پیش کرنے والا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے۔ آمین حضورِانور کی ہدایات اور تجزیہ کا ایک ایک لفظ ہمیں اپنی اصلاح کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں یہ کمیاں اور برائیاں اور ایک دوسرے کے بارے میں غلط بیانیاں ہیں تو انہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق حل کریں۔یہ ہدایات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۰؍مئی ۲۰۰۶ءکو ارشاد فرمائی۔خاکسار نے بطور یاددہانی اس مضمون میں درج کر دی ہیں تا کہ اس پر ہم سب عمل کر سکیں۔ اس کے بعد اب خاکسار اپنے مشاہدے میں آنے والے رشتوں میں مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے بعض واقعات شیئر کرے گا۔ ایک دفعہ خاکسار کو دوپہر کے وقت ایک نوجوان کا فون آیا جس نے کہا کہ میرا اپنی اہلیہ سے شدید جھگڑا ہوگیا ہے اور میں اس کے ساتھ اب بالکل نہیں رہ سکتا۔میں نے اسے طلاق دینی ہے۔ جب وہ اپنی بات مکمل کر چکا اور دل کی بھڑاس نکال لی تو میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ آپ مسجد جاتے ہو؟ کہنے لگا کہ مسجد میرے گھر سے بہت دُور ہے۔ میں نے کہا کیا کبھی آپ دونوں میاں بیوی نے گھر میں باجماعت نمازیا تہجد پڑھی ہے؟ اس کے نفی میں جواب پر میں نے اسے کہا کہ حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے آپ دونوں کچھ دن ایسا کریں اور وعدہ کریں کہ ایک دوسرے کے لیے نماز میں دعا بھی کریں گے۔ چنانچہ کچھ دن کے بعد اس کا فون آیا کہ ہم نے آپ کی بات پر عمل کیا اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اب ٹھیک طور پر رہ رہے ہیں۔ الحمدللہ اسی طرح ایک اَور نوجوان کا اسی قسم کا فون آیا۔میں نے اس کے حالات سُن کر اس سےپوچھا کہ کیا تم نے یہ حدیث پڑھی یا سنی ہے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے؟ کہنے لگا کہ ہاں۔ میں نے کہا کہ شادی سے پہلے پڑھی یا سنی تھی یا شادی کے بعد؟ کہنے لگا شادی سے پہلے پڑھی تھی۔ میں نےکہا بس پھر تمہارا سارا معاملہ اس حدیث کے مطابق ہے۔عورت کی خوبصورتی اسی میں ہے۔ اور تم اسے اتنا سیدھا نہ کرو کہ وہ ٹوٹ جائے۔اللہ کے فضل سے اس کا معاملہ بھی حل ہوگیا۔ بسا اوقات یہ شکایت ہوتی ہے کہ خاوند گالی گلوچ کرتا ہے یا مارتا ہے یا سسرال والوں کو طعنے دیتا یا بُرا بھلا کہتا ہے۔ اسی طرح عورت کے بارے میں بھی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور بعض اوقات یہ دونوں (دلہا اور دلہن )اللہ کے فضل سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں لیکن جماعت کے ساتھ تعلق میں کمزوری ہوتی ہے۔ نمازوں میں کمی ہوتی ہے۔ غلط قسم کے لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسے لوگوں کو چاہے وہ دلہا بھائی ہوں یا ہماری بچی دلہن بہرحال اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت خوبصورت حدیث ہے کہ قیامت کے دن مجھ سے نزدیک وہ لوگ ہوں گے۔ جن کے اخلاق اچھے ہوں گے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ مرد بیوی کو طعنے دے،گالیاں دےیا بُرا بھلا کہے۔ اور اسی طرح عورت خاوند کے سامنے زبان درازی کرے۔بارہا ایسے کیس سنتے ہوئےیہ باتیں سامنے آتی ہیں اور ان سب باتوں کا حل حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ’’کشتی نوح‘‘میں ان الفاظ میں دیا ہے کہ ’’سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو‘‘جب یہ بات ہوگی اور اس کے مطابق عمل کریں گے تو مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ بعض اوقات ایک فریق کہتا ہے کہ میں تو سچ بات کر رہا ہوں۔ (جودراصل سوائے عیب بیان کرنے، برائیوں کو بیان کرنے کے اور کچھ نہیں ہوتا)ایسا سچ جو فساد کھڑا کرے اور صلح کے راستے میں حائل ہو وہ سچ نہیں کہلاتا۔ وہ تو فساد ہے۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں جہاں ’’دلہا ‘‘بھائی کو اپنا مزاج نرم رکھنا چاہیے اچھے اور عمدہ اخلاق سے بیوی کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور چشم پوشی کا شیوہ اختیار کرناچاہیےوہاں بیوی کو بھی انہی امور کا خیال رکھنا چاہیے۔ میں یہاں پر حضرت اماں جانؓ کی کچھ نصائح ’’دُلہن‘‘کے لیے لکھتا ہوں:’’حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت اماں جانؓ نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓکو شادی کے وقت ذیل کی نصائح فرمائیں۔ ۱۔ اپنے شوہر سے پوشیدہ، یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہرگز کبھی نہ کرنا۔ شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھو دیتی ہے۔ ۲۔ اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہرگز کبھی نہ چھپانا صاف کہہ دینا کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے۔ ۳۔ کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا۔ تم پر یا کسی نوکر یا بچہ پر خفا ہوں اور تم کو معلوم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں ہیں جب بھی اس وقت نہ بولنا۔ غصہ تھم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان کا غلطی پر ہونا ان کو سمجھا دینا۔ غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی اگر غصے میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو۔ ۴۔ ان کے عزیزوں کو۔ عزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا۔ کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے۔ تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا۔ اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا۔ دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا کرے گا۔‘‘(سيرة حضرت اماں جان حصہ دوم صفحہ۱۶۷، ۱۶۸ مرتبہ محمود علی عرفانی صاحب) اب ملفوظات جلد سوم سے چند اَور واقعات پیش خدمت ہیں جن میں حضرت مسیح موعودؑ نے حسن معاشرت کی تعلیم بیان فرمائی ہے:’’بارہا دیکھا گیا ہے اور تجربہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کرنا چاہتا ہے۔ تو یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ملال کا موجب ہوتا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط اس کی طرف روانہ نہ ہوگی تو اسے طلاق دے دی جاوے گی۔ سنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ’’جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے۔‘‘ ایسا ہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اول بڑی چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے۔ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہوا اور فرمایا کہ مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہوکر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے۔ چنانچہ دوسرے دن پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ صاحب اپنی نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اوّل کو دیویں وہی اسے دیویں۔ ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب ادھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اول کا دستِ نگر کر کے نہ رکھا جاوے۔ ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصول اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اول کو جو صدمہ ہوا۔ اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی۔ اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فرمائی۔ چنانچہ اس خاوند نے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھرمیں آباد ہے۔‘‘( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۴۵۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے۔ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء) حضرت مسیح موعودؑ نے ایک موقع پر خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوسکتا مگر تاہم آپ کی بیویاں سب کام کر لیا کرتی تھیں۔ جھاڑو بھی دے لیا کرتی تھیں اور ساتھ اس کے عبادت بھی کرتی تھیں۔ چنانچہ ایک بیوی نے اپنی حفاظت کے واسطے ایک رسّہ لٹکا رکھا تھا کہ عبادت میں اونگھ نہ آئے۔ عورتوں کے لیے ایک ٹکڑا عبادت کا خاوندوں کا حق ادا کرنا ہے۔ اور ایک ٹکڑا عبادت کا خدا کاشکر بجا لانا ہے۔ خدا کا شکر کرنا اور خدا کی تعریف کرنی یہ بھی عبادت ہے۔ دوسرا ٹکڑا عبادت کا نماز کو ادا کرنا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ۳۶۹۔ ایڈیشن ۲۰۱۰ء) بعض اوقات خاوندوں کی طرف سے یہ شکایت ہوتی ہے کہ عورتیں اپنا وقت انٹرنیٹ اور فون پر خرچ کرتی رہتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم،تربیت اور خاوندوں کے حقوق سے لاپروا ہوجاتی ہیں۔اور پھر خاوند کے کچھ کہنے پر انہیں بھی باتیں سنا دیتی ہیںجس سے گھر میں مزید تلخی پیداہوجاتی ہے۔اس حوالے سے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خاوندوں کے حقوق ادا کرنا، ان کی عزت کرنا اوران کا خیال رکھنا بھی عورت کے لیےایک عبادت ہے۔چنانچہ ایسی عورت کو جو خاوند کا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی ہے۔ چند دن پہلے خاکسار نے ایک واقعہ پڑھا جودراصل اس مضمون کو لکھنے کا بھی باعث بنا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک طلاق یافتہ خاتون نے لکھا کہ ’’میں آپ کو یہ بات سمجھانے کے لیے لکھ رہی ہوں کہ اپنے شریک حیات کی خوبیوں کی قدر کرنا ضروری ہے، چاہے ان میں خامیاں ہوں۔ میری عمر ۳۲؍سال ہے۔ میرا سابق شوہر اور میں،ہم بہترین دوست تھے۔ پھر انہوں نے کالج مکمل کر لیا اور کام شروع کر دیا۔ پھر میرے خاندان اور اس کے خاندان نے ملاقات کی۔ ہماری شادی ہوئی اور ہمارا ایک بیٹا ہوا۔ [اب ۷ سال کا ہے]۔ میرا شوہر کبھی کبھار غصے میں آ جاتا تھا لیکن ہمارے مسائل تب شروع ہوئے جب میں نے اسے یہ محسوس کرانا چاہا کہ وہ مجھے کنٹرول نہیں کر سکتا۔ جب بھی ہم جھگڑتے، میں اپنا سامان باندھ کر اپنے خاندان کے پاس چلی جاتی اور انہیں صورتحال سمجھاتی۔ میری بہنیں میرے شوہر کو فون کرتیں اور اس پر چیختیں۔ اگر وہ مجھے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا تو میں ہمیشہ اسے کہتی کہ اگر وہ چاہے تو مجھے طلاق دے سکتا ہے۔ میں کبھی طلاق نہیں چاہتی تھی۔ مجھے صرف اپنی عزت کا خیال تھا اور میں کبھی بھی اس کی نظروں میں ایک کمزور عورت نہیں بننا چاہتی تھی۔ ایک دن میں نے اسے اتنا تنگ کیا کہ پہلی بار اس نے مجھے مارا اور گھر سے باہر نکال دیا۔ میں اپنے خاندان کے پاس چلی گئی، میرے خاندان نے اسے پولیس میں رپورٹ کر دیا، ہر بار ایسا لگتا تھا جیسے میں ہی مظلوم ہوں لیکن حقیقت میں مَیں اپنے شوہر کو جذباتی طور پر تکلیف پہنچاتی تھی۔ اسے گرفتار کرلیا گیا اور حراست میں رکھا گیا۔ اس کے خاندان نے مجھ سے کیس واپس لینے کو کہا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں غلط کر رہی ہوں۔ میرا شوہر کبھی بھی پُرتشدد انسان نہیں تھا، اس نے جو کیا وہ اس لیے کیا کیونکہ میں نے اسے مجبور کیا اور اس نے کھلے دل سے معافی مانگی۔ میں نے کیس واپس لے لیا، اور ہم دوبارہ مل گئے۔ تین ماہ بعد ایک چھوٹے مسئلے پر میں نے پھر سے اپنا سامان باندھ لیا اور وہ اکیلا رہ گیا۔ دو دن بعد مجھے کال آئی کہ وہ ہسپتال میں ہے۔ میرے خاندان نے مجھے کہا کہ وہاں نہ جاؤں کیونکہ ایسا لگے گا جیسے میں اسے منانے جا رہی ہوں اور میری بہنیں مانتی تھیں کہ وہ بیماری کا ڈرامہ کر رہا ہے اس دوران لوگ مجھے مظلوم سمجھتے رہے جیسے میں ہی ظلم کا شکار ہوں۔وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رہا، جب وہ واپس آیا مجھے صرف طلاق کا نوٹس ملا۔ میں طلاق کو ردّ کرنا چاہتی تھی لیکن میرے غرور کی وجہ سے، میں چاہتی تھی کہ وہ اپنا فیصلہ بدلے اور مجھ سے معافی مانگے۔ میں نے اسے فون کیا اور کہا کہ اسے طلاق مل جائے گی کیونکہ میں جہنم میں جی رہی تھی۔ جب ہم عدالت گئے، میں چاہتی تھی کہ وہ قیمت چکائے، اس لیے میں نے عدالت سے کہا کہ اس کی جائیداد تقسیم کی جائے۔ میری حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے کھلے عام عدالت کو بتایا کہ جو کچھ بھی ہم نے اکٹھا حاصل کیا ہے وہ مجھے دیا جائے، اسے صرف طلاق چاہیے۔ ہم جولائی ۲۰۰۹ء میں طلاق یافتہ ہو گئے۔ اب میرا شوہر شادی شدہ ہے، جبکہ میں یہاں برباد ہو رہی ہوں۔ میرے خاندان والے میرے بارے میں چغلی کرتے ہیں۔میں اپنی بقا کے لیے اپنے بیٹے کے لیے جو رقم میرا سابق شوہر دیتا ہے، اس پر انحصار کرتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنی شادی برباد کی۔ میں یہاں تمام بیویوں کو بتا رہی ہوں کہ انہیں مشورہ لیتے وقت احتیاط کرنی چاہیے۔دھوکا نہ کھائیں، اپنے خاندان کو اپنی شادی میں مداخلت نہ کرنے دیں۔ میرے عزیز قاری! یہاں تک کہ میری چھوٹی بہنیں بھی مجھ سے زیادہ عزت پاتی ہیں۔جن لوگوں نے مجھے طلاق لینے کی ترغیب دی، وہ ہمیشہ میرا مذاق اڑاتے ہیں اور میرے بارے میں بُری باتیں کرتے ہیں۔ براه کرم خواتین اپنی شادی میں چوکسی سے کام لیں۔سوچا کہ اپنی کہانی شیئر کروں تاکہ آپ کی شادی بچ سکے۔غرور میں کوئی فائدہ نہیں۔ کبھی کبھی یہ مرد کا قصور نہیں ہوتا۔یہ آپ کا غرور ہوتا ہے، اور وہ لوگ جو آپ کو مشورہ دیتے ہیں، اس لیے اپنی شادی میں ہوشیار اور چوکنا رہیں۔ اللہ ہمیں برائی سے بُرے لوگوں سے ان سے جو بُرائی کرتے ہیں اور دوسروں کو بُرائی کی دعوت دیتے ہیں، محفوظ رکھے۔ (آمین)‘‘ آخر میں خاکسار حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک ہدایت لکھتا ہے۔بنگلہ دیش کی نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ کے ساتھ ایک Virtual ملاقات مورخہ ۱۴؍نومبر ۲۰۲۰ء میں صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ بنگلہ دیش نے حضور انورکی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور! بنگلہ دیش کی لجنہ اور ناصرات کےلیے کوئی پیغام ارشاد فرما دیں جو اس میٹنگ کے بعد وہ سب کو پہنچا دیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:سب کو میراالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پہنچا دیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیں کہ اپنے ایمان پہ قائم رہنا۔ مشکل حالات آتے ہیں، پریشانیاں آتی ہیں، تکلیفیں آتی ہیں، اس کو کبھی اپنے دین پہ حاوی نہ ہونے دینا۔ اور ہمیشہ ہر مشکل اور ہر تکلیف کے وقت اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا۔ اور کسی انسان سے کسی قسم کی امید نہ رکھنا۔ اور اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسل کی تربیت کےلیے عہد کرو کہ ہم نے انہیں نیک اور صالح بنانا ہے اور صحیح مومن بنانا ہے۔ اور اگر یہ دعا کریں گی اور اپنے بچوں کےلیے کوشش کریں گی تو ظاہر ہے کہ خود بھی اس کےلیے کوشش کرنی پڑے گی۔ اس لیے اپنی اصلاح کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں تاکہ آئندہ نیک نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔ اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہماری عورتوں کی اصلاح ہو جائے اور ہماری عورتیں نیک ہو جائیں، ہماری عورتیں تقویٰ کے معیاروں کو حاصل کرنے لگیں تو ہماری نسلیں انشاء اللہ تعا لیٰ محفوظ ہو جائیں گی، پھر ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی۔ یہی لجنہ اماءاللہ کا کام ہےاور یہی میرا پیغام سب لجنہ اماءاللہ کو اور سب ناصرات کو ہے جنہوں نے آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ مائیں بننا ہے۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۰ اگست ۲۰۲۱ء صفحہ ۱۲) یہ باتیں خلوص دل اور خلوص نیت سے لکھی گئی ہیں تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم واقعی احمدیہ ماحول سے جنت نظیر نمونہ پیش کریں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: کیا ۱۹۸۴ء کاصدارتی آرڈیننس جماعت احمدیہ کی ترقیات کو روک سکا؟