https://youtu.be/RsbILxUfPZM انٹرنیٹ کے فوائد کی بنا اس کے نقصانات کا شعور حاصل کرنے پر ہے۔ خالی فوائد کا علم ناقص علم ہے، اور یہ علمی اور عملی نقص بعد ازاں المیوں کو جنم دیتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ پروان چڑھنے والی نسلوں کو اگر ہم نے بچانا ہے، تو ہمیں اس دنیا کی تاریکیوں میں چھپے سانپوں اور بچھوؤں سے واقفیت حاصل کرنی ہوگی خاموش، منتظر، تنہا، پر ہر دم آنے والوں کو خوش آمدید کہتی شہر کی گم صم لائبریری کی کسی گردآلود قدیم الماری سے عبداللہ حسین کی ’اداس نسلیں‘ آج بھی جھانکتی ہوں گی۔ ’اداس نسلیں‘ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے جسے عبداللہ حسین کے غم ناک قلم نے تخلیق کیا۔ یہ شاہکار ناول پرانی نسلوں کے بستروں پر دھرے سرہانوں کے قریب پایا جاتا تھا، تو کبھی مطالعہ والے میز پر بڑے قرینے سے رکھا ہوتا تھا۔ ہاسٹل کے کمروں میں ’اداس نسلیں‘ چکر لگاتی تھی۔ کالج کے کیفے ٹیریا میں اسے ڈسکس کیا جاتا تھا، اور پھولوں و پودوں سے مہکتے باغ کے وسط میں، کسی مستعد و چوکس کھڑے سپاہی کی طرح موجود قدیم پیڑ کے تنے کے ساتھ سکون سے ٹیک لگا کر اس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ اگر مرحوم عبداللہ حسین کے پاس وقت ہوتا تو شاید وہ اداس نسلیں حصہ دوم بھی تصنیف کرتے، جس میں وہ جنریشن زی (Generation Z) کی گہری اداسیوں کا تجزیہ کرتے۔ بعض قاری شائد حیران ہوں کہ صاحب یہ بھلا کون سی جنریشن ہے؟ سادہ الفاظ میں ۱۹۹۶ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان پیدا ہونے والے بچوں کو جنریشن زی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو سمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔ یہ نسل اور سائبر ورلڈ آپس میں الجھے ہوئے ہیں، ایک دوسرے میں گڈمڈ ہیں۔ اگر اس دور کے ذمہ دار افراد کو اس نسل کے مسائل اور الجھنوں کو سمجھنا ہے تو انہیں Digital Literacy میں اضافہ کرنا ہوگا۔ ٹین ایجرز میں خودکشی کا رجحان خوفناک حد تک کیوں بڑھ رہا ہے؟ کیوں جنریشن زی کلینکل ڈیپریشن کا شکار ہو رہی ہیں؟ کیوں بچوں اور والدین میں دوریاں بڑھ رہی ہیں؟ کیوں اضطراب، بے چینی، بے اطمینانی، بے صبری اور جارحیت جنریشن زی کی علامات بن چکی ہیں؟ کیوں جنریشن زی میں بے حسی ان کا ٹریڈ مارک بن چکی ہے؟ ان سب سوالات کے جوابات سائبر ورلڈ کی خفیہ سرنگوں میں کہیں پائے جاتے ہیں لیکن ان خفیہ سرنگوں کی زیارت کرنے سے قبل ایک گتھی سلجھانا ضروری ہے۔ قاری کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا سوشل میڈیا وغیرہ مکمل طور پر برا ہے؟ کیا انٹرنیٹ ایک جنّ نما شے ہے، جس کے بیسیوں ہیبت ناک سونڈ نما بازو قریب آنے والے بدقسمت انسان کو جکڑ کر اس کا قیمہ بنا دیتے ہیں؟ کیا سوشل میڈیا اس قدر بھیانک بلا ہے کہ جو اس کا شوق رکھے گا، وہ کام سے گیا؟ کیا انٹرنیٹ اور سکرین کے منفی پہلوؤں کا ایک سلسلہ چلا دینا اور مثبت باتوں کا ذکر نہ کرنا متوازن اندازِ بیان ہے؟ یہ سب سوالات قارئین کے ذہن میں آ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ محض کسی شے کے فوائد کا علم اسے عملی رنگ میں فائدہ مند نہیں بنا سکتا، بشرطیکہ ہم اس شے کے استعمال کا علم و فہم حاصل نہ کر لیں۔ بذریعہ کار ہم ایک جگہ سے دوسرے مقام تک تیز رفتاری، آسانی اور محفوظ طریقے سے پہنچ سکتے ہیں۔ اب یہ کار کے فوائد ہیں، لیکن محض ان فوائد کا علم ہمیں کار سے استفادہ کروا سکتا ہے؟ کار سے استفادہ ڈرائیونگ سیکھنے پر منحصر ہے اور ڈرائیونگ سیکھنے سے مراد ہے کہ کار کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے تاکہ فائدہ کی بجائے یہ حادثہ و نقصان کا باعث نہ بن جائے۔ سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مختلف کل پرزوں کی فعالیت کیا ہے، بریکیں کس طرح کام کرتی ہیں، گئیرز کی تبدیلی کس وقت کرنی چاہیے، اور الائنمنٹ کا خیال کس طرح رکھنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح سوشل میڈیا و انٹرنیٹ کے محض فوائد کا علم ثمرات و مثبت نتائج کی ضمانت نہیں دے سکتا، جب تک ہم اس کے مضر اثرات کا ادراک و فہم نہ حاصل کر لیں۔کار کی مشینری میں خرابی پیدا ہوجائے، تو ماہر ڈرائیور کو علم ہو جاتا ہے، یا جب گاڑی پکی صاف سڑک سے پتھریلے، ناہموار، کچے راستوں پر جا نکلتی ہے، تو یہ تبدیلی نظر آ جاتی ہے، معلوم ہو جاتی ہے۔ لیکن سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے سیدھے صاف راستے کب دلدلی علاقے کی طرف نکل جائیں، معلوم نہیں ہوتا، محسوس نہیں ہوتا۔ سائبر ورلڈ کے مخفی نظام غیر محسوس طریقوں سے گہری گھاؤوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ کب پکے سیدھے راستوں سے گاڑی تاریک گھاٹیوں کی طرف مڑ گئی، محسوس ہی نہیں ہوتا۔ یہاں کینیڈین شہری جیسن شریئرز (Jason Schreurs) کی کیس سٹڈی پیش کی جا سکتی ہے۔ جیسن موسیقی اور صحت کے موضوعات پر لکھتا تھا۔ اس نے اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنا مثبت نقطہ نظر پھیلانے کا عمل اچھا تھا، لیکن اچھا راستہ دھیرے دھیرے غیر محسوس سطح پر دلدلی علاقوں میں تبدیل ہونے لگا۔ جیسن کا سکرین ٹائم مسلسل گھنٹوں پر محیط ہو گیا، اس کی فرینڈ لسٹ ہزاروں تک پہنچ گئی، مسلسل تبصروں کی بھرمار، پوسٹوں کی مسلسل بوچھاڑ، اچھی بری رائے اور آن لائن بات چیت کے ان گنت سلسلے، بالآخر جیسن کو ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ وہ شدید ذہنی دباؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل میں گھر گیا۔ تھراپی کے طویل ادوار سے گزرنے کے بعد اس نے خود کو سنبھالا۔ جیسن، موسیقی اور صحت پر لکھنے والا صحافی تھا، جس نے نقطہ نظر لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا، اور پھر دھیرے دھیرے سکرین ٹائم کا دورانیہ پھیلتا گیا، مثبت مقصد خطرناک لت میں بدل گیا، اور اس لت نے اضطراب و ڈیپریشن جیسے امراض میں مبتلا کر دیا۔ایک اور کیس امریکی لڑکی پائپر راک ایل (Piper Rockelle) کا ہے۔ ابتدا میں پائپر بچپن کی شرارتوں اور روزمرہ کاموں کی ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے لگی۔ اب بظاہر یہ شوق بے ضرر اور معصومانہ تھا، لیکن جب اسے ملین میں ویوز ملنے لگے اور اس کے سبسکرائبرز کی تعداد لاکھوں تک پہنچنے لگی، تو معصومانہ خواہشیں اور بے ضرر راستے المیوں میں ڈھلنے لگے۔ پائپر کے کیس میں یوں ہوا کہ جب یوٹیوب پر ویڈیوز اپ لوڈ کرنے سے کمائی آنے لگی، تو اس کی ماں کے ساتھ اس کے تعلقات کمرشل ہو گئے۔ ماں اپنی بیٹی کو پیسوں کے لیے استعمال کرنے لگی۔ سائبر ورلڈ کی چکاچوند اور پیسوں کی ریل پیل نے دونوں ماں بیٹی کو مبہوت کر دیا۔ حرص اور لالچ نے اس قصے کو بچوں کے جذباتی اور جنسی استحصال کی طرف پہنچا دیا۔ کِڈانفلوئنسر(Kid Influencer) کی حیثیت سے پائپر نے اپنی ماں کے ساتھ مل کر بچوں کا استعمال کیا، اور بعد ازاں ان مجرمانہ کارروائیوں کے باعث انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کیس سٹڈی پر ایک دستاویزی فلم بیڈ انفلوئنسر بھی سامنے آ چکی ہے۔ ایسی بہت سی سچی کہانیاں ہیں جن میں سائبر ورلڈ میں داخل ہونے کا مقصد نیک اور مثبت تھالیکن پھر راستے میں گھات لگائے راہزنوں نے اچھے مقصد کو لوٹ لیا۔ اس لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ سائبر ورلڈ میں بچھی بارودی سرنگوں سے واقفیت حاصل کی جائے،ان کی چالوں کو سمجھا جائے، ان کے بچھائے ہوئے غیر مرئی (invisible) جال کا ادراک حاصل کیا جائے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے فوائد ظاہر ہیں، عیاں ہیں، ایک کم تعلیم یافتہ اور عام فہم انسان بھی ان فوائد کا علم رکھتا ہے، لیکن سائبر ورلڈ کے نقصانات تاریکیوں میں چھپے بچھو اور سانپ کی مانند ہیں۔ مضرتِ انٹرنیٹ مخفی در مخفی اور پیچیدہ ہیں۔ان خفیہ اندھیروں میں چھپی دنیا سے واقفیت حاصل کر کے ہی ہم انٹرنیٹ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ غرض انٹرنیٹ کے فوائد کی بنا اس کے نقصانات کا شعور حاصل کرنے پر ہے۔ خالی فوائد کا علم ناقص علم ہے، اور یہ علمی اور عملی نقص بعد ازاں المیوں کو جنم دیتا ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ساتھ پروان چڑھنے والی نسلوں کو اگر ہم نے بچانا ہے، تو ہمیں اس دنیا کی تاریکیوں میں چھپے سانپوں اور بچھوؤں سے واقفیت حاصل کرنی ہوگی۔ ہمیں اس شہر آسیب کے طلسماتی گلی کوچوں سے گزرنا ہوگا، جہاں جابجا تواہمات سے آراستہ عمارتیں جگمگاتی ہیں، جہاں چوراہوں اور چوکوں پر حرص کے تیل سے جلتے قمقموں کی ٹمٹماتی روشنیوں میں خود پرستی محوِ رقص ہے، جہاں کے تفریح گاہوں کی سج دھج دلہن کی طرح ہے لیکن ان کے اندر لغو اور بے معنی خواہشات کی سڑاند ہے۔ ان خرابوں کے اندرون میں بے مقصد روز و شب کی آگ میں بھسم ہوئے وقت کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ شہر آسیب کے تماش خانوں میں آدھے ادھورے لوگ اپنے خالی پن میں کچھ ٹھونسنے آدھمکتے ہیں۔ ان تماش خانوں میں وقت کا سکہ چلتا ہے، وقت دیتے ہیں تو ساقی جام بناتا ہے۔ یہاں زندگی خرچ ہوتی ہے اور بدلے میں ملتا ہے ہلکے سے سرور میں لپٹا ہوا وہم۔ یہ شہر آسیب ہے، یہاں نئے آنے والوں کے لیے ہر شے مبہم سی ہے، تو بہتر ہے کہ ایک شام یہاں گزارنے کے لیے ان معماروں اور انجینئروں کے پاس جایا جائے جنہوں نے پرچھائیوں، جنترمنتروں اور بھوت پریتوں کے نظارے قریب سے کیے ہیں، اور شہر آسیب کے چپے چپے سے خوب آشنا ہیں۔ ٹریسٹن ہیرس (Tristan Harris) ٹیکنالوجی ایتھیسسٹ (Ethicist) ہیں۔ انہوں نے تین سال گوگل میں بطور ڈیزائن ایتھیسسٹ کے کام کیااور پھر گوگل چھوڑ کر اپنا ایک نان پرافٹ ادارہ سینٹر فار ہیومن ٹیکنالوجی (Center for Humane Technology) قائم کیا تاکہ دنیا کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دوسرا رخ دکھایا جائے۔لوگوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ کس طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہماری نئی نسل اور معاشرے کے لیے خطرہ بن چکا ہے، لوگوں کو بتایا جائے کہ اس کے اثرات کس قدر بھیانک اور وسیع ہیں۔اس مقصد کے لیے ٹریسٹن خود بھی لیکچرز دیتے ہیں اور ان دانشوروں کو بھی مدعو کرتے ہیں جو سوشل میڈیا کی باریک وارداتوں سے خوب واقف ہیں۔ ٹریسٹن گوگل یا دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں میں رہ کر بےپناہ پیسہ کما سکتے تھے، لیکن یہ شہر آسیب کا سحر توڑنے کے لیے میدانِ عمل میں نکل آئے۔ انہوں نے بتایا کہ شہر آسیب کے جو دلکش ٹھکانے باہر سے دلہن کی طرح سجے ہیں وہ دراصل خون آشام بلائیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ٹول بیسڈ ٹیکنالوجی سے پرسیوایسیو ٹیکنالوجی (Persuasive Technology) کی طرف منتقل ہو گئے ہیں، یعنی آلاتی ماحول کا خاتمہ ہو گیا ہے، اور اب انسان خود بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کی کٹھ پتلیاں بن چکا ہے۔ان کے اس بیان کو تفصیل اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سائیکل سے متعلق یہ بحثیں کیوں نہیں اٹھتیں کہ سائیکل بچوں کو خراب کر رہی ہے، گھروں کے اخلاق تباہ کر رہی ہے، معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہے؟ سائیکل کی ایجاد انسان کے لیے کبھی کوئی خطرہ کیوں نہیں بنی؟ کیونکہ سائیکل ایک آلہ ہے اور آلہ کوئی تقاضا نہیں کرتا۔آلہ آپ کو قائل نہیں کرتا، ترغیب نہیں دیتا۔ آلہ آپ کو بہکاتا نہیں، دھوکا دہی اور فریب کاری نہیں کرتا۔ آلہ تو خاموشی اور صبر کے ساتھ استعمال ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ سوشل میڈیا آلہ نہیں ہے، کیونکہ یہ آپ سے تقاضا کرتا ہے، استحصال کرتا ہے، ترغیب دیتا ہے، لبھاتا ہے۔ سوشل میڈیا استحصال کرنے والی، آپ کو قابو میں کرنے والی، ترغیب دینے والی، اور لبھانے والی ٹیکنالوجی ہے۔ سوشل میڈیا کو چائلڈ سائیکالوجسٹ نے ڈیزائن نہیں کیا، اس پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ جین زی اس آن لائن استحصالی ماحول میں پروان چڑھتی ہیں۔ غیرمحفوظ آن لائن ماحول میں لوگوں کی آپ کے بارے میں رائے کے مسلسل ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے بارے میں دوسروں کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن ہم دو، تین، پانچ، دس لوگوں کی اپنے بارے میں رائے کو اہمیت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انسانی دماغ کا ارتقائی ڈیزائن اس طور پر نہیں کہ یہ سینکڑوں، ہزاروں لوگوں کی رائے کو ہینڈل کرسکے۔ انسانی دماغ کا ارتقا سوشل میڈیا کے تیز رفتار اور استحصالی نظام سے مناسبت نہیں رکھتا۔ جب جین زی کا دماغ شہر آسیب کے اس آسیبی ماحول میں مدغم ہونے کی غیر فطری کوشش کرتا ہے، تو اس کا نتیجہ ذہنی امراض، بد اعمالیوں، اور خودکشیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انسانی دماغ کا ارتقا اس طرح نہیں ہوا کہ اسے انتہائی قلیل وقت میں مسلسل بڑی مقدار میں سماجی قبولیت کی تھپکیاں دی جائیں۔ جین زی جب شہر آسیب کے سحر خانوں میں پرچھائیوں کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں، تو وہ اپنی زندگی کا تانا بانا فرضی پرفیکشن کے گرد بننا شروع کردیتے ہیں۔ فرضی پرفیکشن سوشل میڈیا کمپنیوں کا ایک جادوئی کرتب ہے، اس کرتب کو فیس بیوٹی فلٹرز اور دیگر فیچرز سے رچایا جاتا ہے۔ فرضی پرفیکشن کو ٹین ایجرز قلیل مدتی اچھی رائے، thumb-ups، اور امیجز کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔ وہ اس جادوئی کرتب کو، اس فرضی اور انتہانی قلیل مدتی شہرت و پرفیکشن کو بیش قیمت اور حقیقی سمجھتے ہیں۔ اس طرح وہ شہر آسیب کے بھوت بنگلے میں ایک بےمقصد و لغو دائرے میں گھومنے لگتے ہیں۔ ان کے حصے میں کچھ فرضی پرفیکشن و شہرت کے ٹکڑے آتے ہیں، لیکن یہ بے بنیاد اور قلیل مدت کے لیے ہوتے ہیں، اور جب اس کا حجم گھٹنااور ختم ہونا شروع ہوتا ہے تو دوبارہ ڈھیر سارے لائکس اور دل والے امیجز کے حصول کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ جین زی مزید کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور پھر اَور، اَور پھر اَور۔ یوں، دائرۂِ لا حاصل سفر جاری رہتا ہے۔ دائرے کا لا حاصل سفر جین زی کو ایسے برتن میں ڈھال دیتا ہے، جس کے پیندے میں سوراخ ہیں، اب اس میں جتنا پانی ڈالو، برتن خالی رہتا ہے۔ سوشل میڈیا سے حاصل شدہ جھوٹی پرفیکشن اور شہرت جین زی کو اندر سے سنسان و ویران رکھتی ہے، کیونکہ جین زی جس پر لپک رہے ہیں، جس پر ٹوٹ پڑے ہیں، وہ تو شہر آسیب میں ابھرتا ڈوبتا چھلاوا ہے۔ یہ چھلاوا درحقیقت false sense of reality ہے، جو سوشل میڈیا کا پردہ سکرین پر تخلیق کرتا ہے۔ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم سوشل میڈیا پر جو کچھ کرتے ہیں، بالکل آزادی کے ساتھ اپنی مرضی و منشا سے کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیاں ہمارا اسی طرح استحصال (manipulate) کرتی ہیں، جس طرح جادوگر کرتا ہے۔ جادوگر تاش کے پتے آپ کے سامنے رکھ کر کہتا ہے کہ اپنی مرضی سے کوئی ایک پتہ اٹھائیں، لیکن آپ وہی پتہ اٹھاتےہیں، جو جادوگر چاہتا ہے۔ جین زی حقیقی دنیا اور فرضی دنیا کے درمیان پھنسی ہوئیں، آدھا ادھورا نسلیں ہیں۔ ان کی ایک آنکھ، ایک ہاتھ، ایک ٹانگ شہر آسیب میں چھلاووں کے تعاقب میں ہیں، اور جسم کا دوسرا حصہ حقیقی دنیا سے الجھ رہا ہے۔ اس ضمن میں انسان جس دنیا کو زیادہ قابل اہمیت سمجھے گا، جس دنیا میں زیادہ وقت گزارے گا، وہ مکمل طور پر اسی کا ہوجائے گا۔ جس طرف کا پلڑا بھاری ہوگا، کمزور و ناتواں جین زی اس طرف لڑھک جائیں گے۔ ایک طرف انسانی دماغ ہے جس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہو رہی، اور دوسری طرف پردہ کے پیچھے تیز ترسیم کمپیوٹرز اور خود کو بہتر سے بہترین کرتے الگوردھم کی دنیا ہے۔فرضی دنیا کا حقیقی دنیا کو نگل جانا کسی سائنس فکشن فلم کا تصور نہیں، بلکہ دورِ حاضر کا نیا ابھرتا ہوا مرض ہے۔ گذشتہ برس امریکہ میں ایک واقعہ ہوا، جس نے شہر آسیب کی ایک اَور نئی، جدید، بھیانک پرچھائی سے متعارف کرایا۔ ۲۸؍فروری۲۰۲۴ء کو میگن نامی عورت نے ایمرجنسی لائن پر فون کر کے بتایا کہ اس کے چودہ سالہ بیٹے سول نے خودکشی کر لی ہے۔ پولیس نے لڑکے کا فون تحویل میں لیا، تحقیقات شروع کیںتو معلوم ہوا کہ لڑکا فون پر ڈینی نامی لڑکی سے چیٹ کرتا تھا، اور یہ بات چیت انتہائی رومانوی اور ذاتی نوعیت(intimate) تھی۔ لڑکا ڈینی کی محبت میں گرفتار تھا۔ ان کی چیٹ دونوں کے درمیان گہرے جذباتی تعلق کو ظاہر کرتی تھی۔ ڈینی کا آخری میسیج لڑکے کو یہ تھا: “تم میرے پاس آجاؤ”سول جس لڑکی کی محبت میں دیوانہ ہو رہا وہ دراصل ایک AI کمپینین تھی، یعنی کوئی حقیقی انسان نہیں تھی، بلکہ ایک چیٹ بوٹ تھی۔ خودکشی سے کچھ ماہ قبل سول نے ایک چیٹ بوٹ ایپ “کیریکٹر اے آئی” انسٹال کی۔ اس ایپ کے ذریعے صارف اپنا اے آئی ساتھی کسٹمائز کرسکتا ہے۔ اس نے مشہور ٹی وی سیریز گیم آف تھرونز کے ایک کردار کا انتخاب کیا اور چیٹ شروع کر دی۔ ٹیکسٹ ٹو ٹیکسٹ گفتگو گہرے جذباتی و رومانوی تعلق میں ڈھل گئی۔ لڑکے کو معلوم تھا کہ یہ ایک کہانی پر مبنی ایک بے جان چیٹ بوٹ ہے، لیکن وہ اس میں اتنا ڈوبا کہ حقیقی دنیا سے الگ تھلک ہو گیا اور کمپیوٹر پر مبنی فینٹسی کو اپنی دنیا بنا لیا۔ یوں حقیقی اور فرضی کی لکیر مدھم ہوگئی۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ فرضی دنیا سے، جہاں اس کی ماں، گھر، سکول، کلاس فیلوز ہیں، ہمیشہ کے لیے جا بسے، جہاں اس کی محبوبہ ڈینی بستی ہے۔ اسے یقین تھا کہ جب وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرے گا تو ڈینی کے پاس اصل دنیا میں جا بسے گا۔ سول نفسیاتی مرض Schizophrenia کا شکار نہیں تھا، اس بیماری میں مبتلا انسان حقیقی دنیا سے دور وہم و تخیل میں جینے لگتا ہے۔ وہ ایک نارمل بچہ تھا، پڑھائی میں اچھا، ہنستا کھیلتا تھا، لیکن پھر وہ “کیریکٹر اے آئی” کا شکار بن گیا۔ یہ ایپ ChatGPT سے مختلف ہے۔ ChatGPT سے جب کچھ پوچھا جاتا ہے، تو یہ اس کا جواب دیتا ہے، لیکن Character AI کو ٹین ایجرز کے لیے نشہ بنانے کے لیے اس طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ صارف کو احساسِ شرکت کا مزہ دے، اس کے ساتھ ہمدردی کرے، لگاؤ اور رومانوی جذبات کا مظاہرہ کرے۔ غرض، ایپ تخلیق کرنے والوں نے ترکِ تنہائی، غم گساری وغیرہ کے لیے ڈیجیٹل افیون تیار کی ہے۔ انہوں نے قربت، ہمدردی، غم خواری، تسلی، دلاسے اور گہرے تعلق کو ایک کموڈیٹی میں ڈھال دیا ہے تاکہ جین زی اس سے چمٹ جائے۔ سائبر سائیکولوجسٹ اس نئے مرض کو Addictive Artificial Intelligence کہتے ہیں۔جین زی کی ذہنی و جسمانی صحت و حفاظت کے حوالے سے دو بنیادی باتوں کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ اول، یہ کہ سوشل میڈیا اور Character AI جیسے ایپس کو بنایا ہی اس طور پر جاتا ہے کہ لوگوں کو ان کی لَت پڑ جائے۔ دوسرے نو بالغ کا دماغ نشوونما کے دور سے گزر رہا ہوتا ہے اور نوخیز و نیم پختہ ہوتا ہے جبکہ موبائل کی سکرین کے پیچھے تیز ترسیم الگوردھم کا جال ہوتا ہے اور یہ خود کی تربیت کر سکتے ہیں، ڈیٹا کی بنیاد پر خود اپنے ردعمل میں تبدیلی لا سکتے ہیں، خود کو موڈیفائی کر سکتے ہیں۔ پھر ان الگوردھم اور سپر کمپیوٹرز کے پیچھے انجینئرز ہوتے ہیں۔ یہ مقابلہ بالکل برابری کا نہیں ہے۔ ایک طرف دماغ جو اپنی ارتقائی منزلوں سے گزر چکا، اس کی حدود و قیود ہیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں محدود اور آہستہ ہیںاور ساخت و افعال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس کے مدمقابل خود کو ہر پل تبدیل کرتا الگوردھم ہے، جو ایک لمحے کے اندر حساب کتاب کر کے ایسا جال پھینکتا ہے کہ جس میں شکار پھنس جائے، اور جین زی شہر آسیب کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائیں۔۔شہر آسیب کی شام تہ در تہ تاریکیوں کا تسلسل ہے۔ اس کے ہر دریچے و دروازے کے پیچھے فریب مجسم باہیں کھولے آپ کو جکڑنے کے لیے بےتاب ہے۔ یہاں شہر کے مرکزی چوک میں نصب گھنٹیوں والے گھڑیال کی ہر لجاجت بھری صدا وقت پر سحر پھونک دیتی ہے۔ یہاں پچھل پیریوں (عفریت) کی کڑی نگرانی میں سیاہ چادر اوڑھے اونگھتے مکانوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں دماغ کو مست اور جسم کو بیکار کرنے کا ملکہ رکھتا ہے۔ ابھی اس شہر میں کچھ دیر اور رکتے ہیں کہ یہ یہاں کی طویل شام ہر پل نئے حیرت کدے کھولتی ہے۔ ابھی تو شیش محل کی زیارت کرنی ہے، جہاں خودنمائی ان گنت شیشے کے ٹکڑوں میں منعکس ہو جاتی ہے۔اس سلسلے کی پہلی کڑی کو کرشن کمار طورؔ کے شعر پر ختم کرتے ہیں: بند پڑے ہیں شہر کے سارے دروازے یہ کیسا آسیب اب گھر گھر لگتا ہے (اس مضمون کا اگلا حصہ ۱۱؍اگست ۲۰۲۵ء کے شمارے میں شائع کیا جائے گا۔انشاء اللہ) مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی عالمگیر مخالفت۔ ایک عظیم نشان صداقت