جلسہ سالانہ کے دوسرے اجلاس کی صدارت کے فرائض مکرم و محترم بلال ایٹکینسن صاحب نے سر انجام دیے۔ کارروائی کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا، مکرم راحیل احمد صاحب مربی سلسلہ نے سورۃ العنکبوت کی آیات ۴۸ تا ۵۲کی تلاوت اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔مکرم ندیم زاہد صاحب نے حضرت مصلح موعودؓ کے منظوم کلام دوستو ہرگز نہیں یہ ناچ اور گانے کے دن مشرق و مغرب میں ہیں یہ دیں کے پھیلانے کے دن سے چند اشعار خوش الحانی سے پڑھے۔ جلسے کی پہلی تقریر مولانااظہر حنیف صاحب نائب امیر و مبلغ انچارج امریکہ نے ’’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی و اخلاقی زوال کی روک تھام‘‘کے موضوع پر کی۔ آپ نے تقریر کے آغاز میں کہا کہ تقریباً سو سال قبل، سنہ ۱۹۲۴ء میں، حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓ یورپ میں سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کا جائزہ لینے اور یہ جاننے کے لیے کہ اسلام مغرب میں کس طرح پھیل سکتا ہے، برطانیہ تشریف لائے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپؓ نے The Conference of Living Religions Within the Empire میں ایک لیکچر بھی دینا تھا۔ اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کی وضاحت کے لیے آپؓ نے فوری ایک کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام اردو میں تحریر فرمائی اور اسے انگلش میں ترجمہ کروا کر روانگی سے قبل ہی طبع کرا لیا جو وہاں برائےفروخت موجود تھی۔ جب آپؓ امپیریل انسٹیٹیوٹ میں موجود تھے، ایک پادری نےجس کے ہاتھ میں وہ کتاب تھی، آپؓ کے پاس آ کر کہا کہ میں نے کل آپ کی یہ کتاب حاصل کی اور رات کھانے کے بعد پڑھنا شروع کی۔ میں اتنا محو ہو گیا کہ پوری رات پڑھتا رہا اور جب ناشتے کے لیے نیچے آیا تو کتاب مکمل کر چکا تھا۔ یہ مجھے بہت متاثر کن لگی۔ مقررنے کہا کہ یہ کتاب میری تقریر کے موضوع پر جامع روشنی ڈالتی ہے۔ اور وہ اس کتاب کے کچھ اقتباسات پیش کریں گے ۔ لیکن ساتھ ہی آپ نے اس کتاب کے مطالعہ کی تحریک بھی کی۔آپ نے اخلاقی زوال کا ماخذ کے متعلق بیان کرتے ہوئے سورۃ النساء، آیت ۱۸ پیش کی جس کا ترجمہ ہے یقیناً اللہ پر اُنہی لوگوں کی توبہ قبول کرنا فرض ہے جو (اپنی) حماقت سے برائی کے مرتکب ہوتے ہیں پھر جلد توبہ کرلیتے ہیں۔ اس آیت کی تشریح کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے پیش کی جہاں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ گناہ کی اصل وجہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں صحیح علم اور حقیقی معرفت کا نہ ہونا ہے، اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ گناہ کا سبب جہالت اور خدا کی حقیقی معرفت کا فقدان ہے۔ وہ مذہب جو یقینِ کامل اور خدا تعالیٰ کے سچے عرفان تک لے جائے وہی اپنے ماننے والوں کی اخلاقی حالت کو سنوار سکتا ہے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے کے زمانے کو ’’دَورِ جاہلیت‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا تاریک ترین دَور تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمارے سید و مولیٰ نبی ﷺ ایسے وقت میں مبعوث ہوئے جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے بگڑ چکی تھی، جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا: ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَالۡبَحۡرِ۔ پس قرآن کریم کا کام دراصل مردوں کو زندہ کرنا تھا۔ لیکن صرف دو دہائیوں میں قرآن کریم کی تعلیم نے ان کی زندگیوں کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ ان وحشیوں کو انسان بنایا، پھر انہیں اخلاقی اقدار سے آراستہ کیا اور آخرکار انہیں ولی اللہ بنا دیا۔ جو قوم قبیلوں کی لڑائیوں اور خونریزی کے لیے مشہور تھی، وہی قوم ایسی امن و امان کی حالت تک پہنچ گئی کہ جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے پیشگوئی فرمائی: ایک عورت تنہا اونٹ پر سوار صنعا (شام) سے حضرموت (یمن) تک سفر کرے گی اور اسے خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ دنیا نے اتنے قلیل عرصے میں اتنی عظیم اور معجزانہ تبدیلی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پہلے دورِ جاہلیت کے مقابل مولانا صاحب نےدورِ حاضر کو نیا دَورِ جاہلیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم آج ایک ایسے وقت میں جمع ہوئے ہیں جب ٹیکنالوجی میں غیر معمولی ترقی، طب میں حیرت انگیز پیش رفت اور انسانی ایجاد و اختراع میں عظیم کارنامے دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ہم عقیدے کی کمزوری، معاشرتی انتشار اور اخلاقی الجھن کے دور سے بھی گزر رہے ہیں۔ مولانا صاحب نے چند مثالیں پیش کیں کہ دنیا بھر میں دہریت تیزی سے بڑھ رہی ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں۔ اندازاً ۴۰؍فیصد دہریے ۱۸ سے ۲۹؍سال کی عمر کے درمیان ہیں۔ حالیہ سروے کے مطابق، برطانیہ اپنے پہلے دَورِ دہریت داخل ہو چکا ہے اور اس کا نتیجہ اخلاقی اور معاشرتی زوال کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ مولانا صاحب نے کہا کہ عالمی سطح پر نوجوانوں میں ڈپریشن اور ذہنی اضطراب اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔صرف ۲۰۲۴ء میں، امریکہ میں منشیات کے زیادہ استعمال سے ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد اموات ہوئیں۔۲۰۲۳ء میں، ۴۹,۰۰۰ سے زائد افراد نے خودکشی کی۔ہر پانچ میں سے ایک عورت جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ میں ہر سال دس لاکھ سے زائد اسقاط حمل کیے جاتے ہیں۔ CDC کے مطابق ہر سال ۲۴؍لاکھ سے زائد جنسی بیماریوں کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر ۲۰؍میں سے ایک بچہ جنسی زیادتی کا شکار ہو چکا ہے۔ کئی ممالک میں طلاق کی شرح پچاس فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں صرف سولہ فیصد لوگ اپنی حکومتوں پر اعتماد کرتے ہیں۔ایک طرف اربوں ڈالر جنگوں پر خرچ کیے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف لاکھوں انسان بھوک اور قحط کا شکار ہیں۔امیر اور طاقتور طبقات اب بھی غریب افراد اور قوموں کا مال ہڑپ کر رہے ہیں؛ دنیا کی کل دولت کا ۷۰ فیصد صرف ۱۰ فیصد افراد کے پاس ہے۔ مولانا صاحب نے یہ اعدادوشمارپیش کرنے کے بعد کہا کہ ان تلخ حقائق کے سبب دنیا بھر میں لوگ احتجاج، ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے اصلاح کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان میں کئی مشہور تحریکیں شامل ہیں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے: Black Lives Matter ۔ خواتین کے خلاف جنسی ہراسانی اور تشدد کے خاتمے کے لیے: #MeToo ۔ لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم کے بنیادی حق کے لیے: Girls Rights to Education ۔ یہ سب آوازیں اس گہرے زوال کا اظہار ہیں، جس سے انسانیت ایک بار پھر دَورِ جاہلیت میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے نسلی ہم آہنگی کے حوالے سے ان مسائل کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے کا ذکر کیا اور نسلی مساوات کے بارے میں سورۃ الحجرات، آیت۱۴ پیش کی جو اسلام کی عظیم الشان تعلیم کے ذریعہ انسانوں کے درمیان اتحاد اور برابری پر مبنی معاشرہ قائم کرتی ہے۔ پھر مولانا صاحب نے عفت و پاکدامنی اور بے راہ روی کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکا ایک ارشاد پیش کیا۔ مولاناصاحب نے کہا کہ یورپ میں کبھی عفت اور حیا ایک قابلِ فخر وصف سمجھا جاتا تھا۔ مگر رفتہ رفتہ “عورتوں کی آزادی” کے نام پر مغرب نے حیا کو خیر باد کہہ دیا۔ مولانا صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود ؑنے تو اس تباہی کی پیشگوئی پہلےہی فرمادی تھی کہ یورپ میں رائج مرد و عورت کے آزادانہ اختلاط کے نتیجہ میں خاندان ٹوٹ گئے اور خودکشیوں کی کثرت ہو گئی۔ اسی حقیقت کی گواہی حالیہ رپورٹس بھی دے رہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے امریکی لڑکیوں کے حوالےسے رپورٹ میں کہا کہ ۲۰۲۳ء میں تقریباً ہر تین میں سے ۱یک ہائی اسکول کی لڑکی نے خودکشی کے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ گذشتہ دس سالوں میں ساٹھ فیصد اضافہ ہے۔ لڑکیوں پر سوشل میڈیا، آن لائن نفرت، خود پر شک اور غیر حقیقی خوبصورتی کے معیار کا زبردست دباؤ ہے۔ یہ دباؤ ان کے ذہنوں اور دلوں کو توڑ رہا ہے۔ سب سے خوفناک حقیقت یہ ہے کہ قریباً ۱۴ فیصد لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ معاشرہ عورتوں اور بچیوں کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ اسلام نے اسی المیہ کے خلاف عورتوں کو جسمانی، سماجی اور ذہنی تحفظ دینے کے لیے پاکیزہ اور متوازن تعلیمات عطا فرمائیں تاکہ وہ معاشرتی بگاڑ اور ذہنی اضطراب کا شکار نہ ہوں۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے عورتوں اور بچیوں کےتعلیم حاصل کرنےپر روشنی ڈالی کہ اسلام بے شک معاشرتی تعلقات میں خواتین اور بچیوں کی حفاظت کے لیے زور ڈالتا ہے لیکن انہیں تعلیم حاصل کرنے سے کبھی نہیں روکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے افراد سے فرمایا کہ تم اپنی اصلاح کرو، دنیا خود بخود اصلاح پا جائے گی۔ اگر ہم میں سے ہر شخص مسلسل کوشش کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرے، اللہ کے نور، قرآن کے نور اور محمد ﷺ کے نور کو اپنے اندر جذب کرے اور دوسروں تک پہنچائے، تو ہم اس عظیم اخلاقی اصلاح اور روحانی انقلاب کو لانےکی رفتار کو تیز کر سکتے ہیں، جب پوری دنیا سچے اسلام کے دامن میں آ جائے گی (ان شاء اللہ)۔ مولانا صاحب نے آخر پر حضرت مصلح موعودؓکے اسی لیکچر احمدیت یعنی حقیقی اسلام سےاقتباس پیش کرکے تقریر ختم کی۔ ٭…٭…٭ اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم ناظرصاحب اعلیٰ قادیان نے ’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےحقیقی غلامِ صادق‘‘کےعنوان پر کی۔ آپ نےسورت آل عمران آیت ۳۵ اور سورۃالنساء کی آیات ۷۱-۷۲ کی تلاوت اورترجمے سے اپنی تقریرکی ابتداکی اورکہا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےبنی نوع کواپنی محبت کےساتھ ساتھ رسول مقبولﷺکی کامل اطاعت و فرمانبرداری کی تاکید فرمائی ہے اوران آیات میں یہ بشارت دی گئی ہےکہ اگراللہ کی محبت حاصل کرناچاہتےہوتوحضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت لازمی ہے اورپھراللہ کی محبت کےحاصل ہو جانے کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، ایسےلوگوں میں صالحین کا مرتبہ پانے والے نکلیں گے، شہداء کا مرتبہ پانےوالےظاہرہوں گے، صدیقوں کامرتبہ پانےوالےوجود نکلیں گے اورپھروہ صاحبِ کمال بھی ظاہرہوں گےجنہیں نہ صرف نبوت کےانعام سے نوازاجائے گا بلکہ وہ نبوّت کے کمالات سےبھی حصہ پائیں گے۔ ان آیات سےمتعلق مختصر تمہیدکےبعدناظرصاحب اعلیٰ نےمسیح زماں، مہدی دوراں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی تحریرات اورمنظوم کلام میں سےوقت کی رعایت کےاعتبارسےچندنمونے حاضرین جلسہ کےسامنے پیش کیے، جن سےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آقاومطاع حضرت اقدس محمد مصطفےٰﷺ سے مثالی عشق ومحبت اورکامل اطاعت و وفا کےدلی جذبات کااظہارہوتاہے۔ ’’ وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز اَرضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام) محترم ناظرصاحب نےاپنی تقریرمیں فرمایاکہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزاغلام احمدقادیانی علیہ السلام کو، جو چودھویں صدی کےمجدداوراس زمانہ کےدجّالی فتنوں کےانسداداوراحیائے اسلام کی غرض سےمسیح موعوداورمہدی معہودکےمنصب پرفائزکرکےمبعوث فرمایاگیاہے اُس کی حقیقت کیاہے؟اورآپؑ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےمثالی عشق ومحبت اورکامل اطاعت کےنتیجہ میں، بمطابق آیت سورۃالنساءجس کی خاکسارنےابتدامیں تلاوت کی تھی آپؑ کوخدا کی محبت اورقُربِ الٰہی کےچارمراتب میں سےبالخصو ص کونسامرتبہ عالیہ عطاہواہے؟ تواس سلسلہ میں بنیادی امر جو سمجھنے اور ذہن نشین کرنےکےلیےضروری ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ اوراقوالِ بزرگانِ امت کی روشنی میں مسیح موعود اور مہدی علیہ السلام کا منصب اور مرتبہ کیا بیان ہوا ہے اور وہ یہی ہے کہ اُس امام الزمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سےوحی و الہام اوربکثرت مکالمہ ومخاطبہ کا شرف عطا ہوگااوراسی شرف کواصطلاحِ شریعت میں نبوت کےمقام سےتعبیرکیاگیاہےاوریہ سب انعام و اکرام حضرت نبیٔ کریم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سےمثالی محبت اورکامل اطاعت کےنتیجہ میں عطاہواہے۔ اس عارفانہ نکتہ کوسمجھنےکےلیےآپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے چنداقتباسات پیش کیے: ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں۔ یعنی وہی نبیوں کا سردار، رسولوں کا فخر، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفیٰ و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزاروں برس تک نہیں مل سکتی تھی۔ (سراج منیر) مقررنے اپنی تقریرمیں گاہے بگاہے حضرت مسیح موعودؑکےاردو، فارسی اورعربی اشعارکوبھی شامل کیا، جن سےآپؑ کےنبی کریمﷺسے عشق اورفدائیت کےجذبات کااظہارہوتاہے۔ ناظرصاحب نےاپنی تقریرکااختتام اس شعرپرکیا۔ یَا ربِّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیِّکَ دَائِمًا فِی ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَ بَعْثٍ ثَانِی ٭…٭…٭ اس تقریر کے بعد مکرم عبد الحئی سرمد صاحب متعلم جامعہ احمدیہ یوکے نے حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام جمال و حسنِ قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے پیش کیا۔ اس اجلاس کی آخری تقریر مکرم زاہد خان صاحب (صدر قضاء بورڈ، یوکے) نے ’’قرآنِ پاک کی سچائی کی حمایت میں جدید سائنسی دریافتیں‘‘ کے موضوع پر کی۔ آپ نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال جلسہ سالانہ یو کے کا مرکزی موضوع ’’قرآن انسان کے لیے زندہ راہنما ‘‘رکھا ہے۔ آج انسانیت سیاسی، ماحولیاتی، اخلاقی اور سماجی بحران کا شکار ہے اور اسے ایک ایسے راہنما کی اشد ضرورت ہے جو وقت اور حالات سے بالاتر ہو۔ مقرر نے زور دے کر کہا کہ قرآنِ پاک وہ کامل اور ابدی راہنما ہے جو اپنی اصل شکل میں ۱۴۰۰؍سالوں سے محفوظ ہے اور اپنی حکمت اور آفاقیت میں بے مثال ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ یا تو قرآن کا انکار کرتے ہیں یا اس کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ناقدین اکثر یہ استدلال کرتے ہیں کہ عرب کے صحراؤں میں ایک ان پڑھ آدمی پر نازل ہونے والی کتاب ممکنہ طور پر جدید دنیا کو ہدایت نہیں دے سکتی۔ کچھ لوگ قرآن کی سرعام بے حرمتی بھی کرتے ہیں۔ مقرر نے کہا کہ قرآن کریم کی سچائی کو سائنسی پہلوؤں سمیت متعدد زاویوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے اور مجھے آج قرآن کی سچائی کو سائنسی پہلو سے ثابت کرنا ہے۔ مقرر نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا۔ قرآن خدا کا کلام ہے اور سائنس خدا کا کام ہے۔ آپ نے مزید کہا کہ اگرچہ قرآن سائنس کی نصابی کتاب نہیں ہے لیکن اس میںEmbryology,Cosmology (رحم میں انسانی ترقّی ) ارضیات، سمندروں کا علم، ماحولیاتی تحفظ، آثارِ قدیمہ کے ثبوت، Biometric اور جِلد بطور گواہ وغیرہ کا علم موجود ہے۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۳۴۴۔ ایڈیشن۱۹۸۴ء) اور یہ کہ قرآن ہر زمانہ کے مطابق اُس دور کی ضروریات کے لیے الٰہی بصیرت عطا کرتا ہے۔ مقرر نے سورۃ الملک آیت ۴-۵ کا حوالہ دیا:’’ وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا۔ تو رحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا۔ پس نظر دوڑا کیا تو کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے۔ ‘‘ نوبیل انعام یافتہ پروفیسر عبدالسلام اور طبیعات دان اور کاسمولوجسٹ کائنات کی ترتیب اور کاملیت پر حیرت کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ مقرر نے کائناتی توازن کی بہترین مثال کے طور پر سورج سے زمین کے درست فاصلے کی طرف اشارہ کیا۔ مقرر نے سورت فُصِّلت (حٰم سجدہ ) آیت۵۴کا بھی حوالہ دیا:’’پس ہم ضرور انہیں آفاق میں بھی اور ان کے نفوس کے اندر بھی اپنے نشانات دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر خوب کھل جائے کہ وہ حق ہے۔ کیا تیرے ربّ کو یہ کافی نہیں کہ وہ ہر چیز پر نگران ہے؟ ‘‘ یہ آیت پیش گوئی کرتی ہے کہ آسمانی سچائی کی نشانیاں خلا میں بھی اور انسانوں کے اندر بھی ظاہر ہوں گی۔ جدید کا سمولوجی ابتدا میں یہ مانتی تھی کہ کائنات جامد ہے۔ تا ہم قرآن نے سورۃ الانبیاء آیت ۳۱ میں اس نظریے کی تردید کی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ آسمان اور زمین ایک بار جدا ہونے سے پہلے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے جو کہ Big Bang تھیوری کے متوازی ہے۔ پھر قرآن سورۃ الذاریات آیت ۴۸ میں واضح طور پر کہتا ہے:’’اور ہم نے آسمان کو ایک خاص قدرت سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت دینے والے ہیں۔ ‘‘ یہ Edvin Hubble کی بیسویں صدی میں کائنات کی دریافت سے بالکل ملتی ہے جو کہ ۱۴۰۰؍ سال پہلے قرآن میں نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مقررنے Embryology کے شعبہ کو لیاجو قرآن کی تصدیق کرتا ہے۔ سورۃ المومنون آیت۱۳-۱۵؍ انسانی نشوونما کے مراحل کو بیان کرتی ہے۔ ایک قطرہ، ایک لوتھڑا(علقہ)، گوشت کے لوتھڑے تک، ہڈیوں تک، یہ مراحل اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئے جب تک سائنس دانوں نے مائیکروسکوپ اور Ultrasound جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا۔ سائنس نے اب جنین کے ابتدائی مراحل کی تصدیق کر دی ہے۔ پروفیسر Moore جو ایک عالمی شہرت یافتہ Embryologist ہیں نے تصدیق کی کہ جدید سائنس قرآنی علم کے مطابق ہے۔ یہ الٰہی وحی کی صداقت کا زبردست ثبوت فراہم کرتا ہے۔ ساتویں صدی کے عربوں کا عقیدہ تھا کہ پہاڑ آسمان کو اٹھائے ہوئے ستون ہیں۔ قرآن سورۃ النبا آیت ۸۱؍ میں پہاڑوں کو پیوستہ میخوں کی طرح فرماتا ہے۔ سائنس اب اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ پہاڑوں کی سطح کے نیچے گہری جڑیں ہیں اور پہاڑ زمین کو ہلنے سے روکتے ہیں اور زمین کا توازن برقرار رکھنے میں پہاڑوں کا بڑا کردار ہے۔ زمین کے بعد سمندروں کا ذکر کرتے ہوئے مقرر قرآنِ کریم کا حوالہ دیتے ہیں: وہ دو سمندروں کو ملا دے گا۔ جو بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے سے ملیں گے۔ (سرِ دست) ان کے درمیان ایک روک ہے (جس سے ) وہ تجاوز نہیں کرسکتے۔ (الرحمٰن:۲۰-۲۱) اس سے مراد نہر سویز( بحیرہ روم اور بحر احمر) اور پانامہ کنال (Canal) ہیں۔ سمندروں کا ملاپ جدید انجینئرنگ کے ذریعہ حاصل کیا گیا۔ قرآن میں مختلف قدرتی رکاوٹوں کے ذکر کی تصدیق بعد میں سائنسی تحقیق سے ہوئی۔ سمندر کے ماہرین نے یہ دریافت کیا کہ مختلف نمکیات، درجہ حرارت اور کثافت والے آبی ذخائر آسانی سے نہیں ملتے۔ لیکن ایک دوسرے سے ملتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تحقیق قرآن کے الہامی کتاب ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ قرآن کی صداقت کا ثبوت دیتے ہوئے مقرر نے آثار قدیمہ کا ذکر کیا کہ قرآن صرف سائنسی دریافتوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا بلکہ اس میں منفرد تاریخی پیشین گوئیاں بھی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعاقب میں فرعون کے ڈوبنے کی کہانی مشہور ہے۔ لیکن سورت یونس آیت۹۲-۹۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ پس آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے تاکہ تو اپنے بعد آنے والوں کے لیے عبرت بن جائے۔ ‘‘ یہ پیشگوئی کہ فرعون کی لاش آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رہے گی۔ جب ۱۹ویں صدی میں فرعون کی ممی شدہ لاش دریافت ہوئی تو پوری ہوئی۔ Forensic Archeologist نے موسیٰ کے زمانے کے فرعون کی شناخت کی تصدیق کی اور یہ قرآن کی سچائی کی ایک اور واضح نشانی ہے۔ مقرر نے آخر میں ایک اور تحقیق کو پیش کیا جو Forensic اور Biometric سائنس سے تعلق رکھتی ہے۔ سورت حٰم سجدہ؍آیت؍۲۱؍ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ اُن کے چمڑے ان کے خلاف گواہی دیں گے کہ کیسے کیسے عمل کیا کرتے تھے۔ ‘‘ انسانی جلد میں منفرد فنگر پرنٹس ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ۲۰؍ ویں صدی میں دریافت ہوئی۔ آج فنگر پرنٹس (Finger Prints ) کو بڑے پیمانے پر شناخت اور مجرمانہ تحقیقات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب سائنس دان جِلد کے خلیات سے DNA نکالنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ جس سے ذاتی معلومات جیسے شناخت، منشیات کا استعمال وغیرہ کا پتا چلتا ہے۔ یہ تحقیقات قرآنی بیان کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں کہ جِلد گواہی دے گی۔ ایک ایسی سمجھ جو ساتویں صدی میں ناممکن تھی۔ مقرر نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن صرف قدیم واقعات یا موجودہ حقائق کو بیان کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک زندہ راہنما ہے۔ جو ہر دور میں اپنی سچائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا علم تہ در تہ ہے اور روحانی، اخلاقی اور سائنسی جہتوں پر مشتمل ہے۔ جو انسانی فہم کی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بتدریج سامنے آتی ہیں۔ مقرر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ پیش کیا:’’ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ… خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اَلْخَیْرُکُلُّہٗ فِیْ الْقُرْآنِکہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ … بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلاواسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ … پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۲۶-۲۷) آخر میں مقرر نے یاد دلایا کہ قرآن کے ساتھ خلافت اللہ کی رسّی کے طور پر کام کرتی ہے جو عصرِ حاضر کے مسائل میں قرآنی حکمت کو بروئے کار لانے میں راہنمائی اور مدد فراہم کرتی ہے اور ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خلافت کے سلطان نصیر بنیں۔ (خلاصہ تقاریر تیار کردہ: عقیلہ صاحبہ، بشریٰ نذیر آفتاب صاحبہ اور راشدہ مظہر صاحبہ)