اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔ ’’محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی‘‘ جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب نے تو نہ جانے کن خیالات کے مدِّنظر یہ خوبصورت شعر کہا ہو گا لیکن راہ وفا میں ایک احمدی شہید کے جذبات کی عکاسی یہ شعر برملا کر رہا ہے۔جب بھی الٰہی سلسلوں کی مخالفت کی تاریخ اور مومنین کی راہ حق میں قربانیوں کا خیال ذہن میں ابھرتا ہے تو اولاً ان سرفروش مومنین و معصومین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر خیر دل کی زبان پر ورد کرنے لگتا ہے جنہوں نے قرون اولیٰ کے اہل ایمان کے نقوشِ پا پر چلتے ہوئے دینِ حق کی سربلندی کی خاطر مخالفت کی آندھیوں کے سامنے ثبات قدم اور عدو کے ہر ہر ناروا ظلم و ستم کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے دلیری کے ساتھ اپنا سر کٹوانا پسند کیا اور راہ حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے رضائے باری تعالیٰ سے مزین حیاتِ جاودانی کے تاج سروں پر سجالیے۔ عالمِ احمدیت کے یہ روشن ستارے دنیابھر کے مختلف خطّوں، نسلوں اور قوموں میں جگمگارہے ہیں۔ اپنی گراں قدر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے احمدی جاں نثاروں کا ذکرخیر کیا جائے تو سینکڑوں پھولوں کا ایسا خوشنما گلدستہ دکھائی دیتا ہے جس میں آویزاں ہرپھول گو کہ اپنے رنگ، خوشبو اور حُسن میں تو منفرد ہے لیکن اس ایک قدرِ مشترک کے ساتھ کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے عہدِ وفا کی فعلی شہادت پیش کرتے ہوئے احمدیت اور حضرت مسیح الزمانؑ کے من جانب اللہ ہونے پر اپنے لہو سے مہرصداقت ثبت کرتے ہوئے ان بے مثال قربانیوں کو اپنے لیے عین فخر و سعادت جانا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جس قربانی کا آغاز سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے مبارک زمانہ میں شَاتَانِ تُذْبَحَانِ کی آسمانی خبرکے ساتھ دو پاکیزہ روحوں کی قربانی سے ہوا تھا، محض ایک صدی میں ایسے جاں نثاروں کی تعداد سینکڑوں میں ہوگئی۔ اور یہ بھی امر واقعہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں اس الٰہی سلسلے کی مخالفت میں اضافہ اور عناد میں شدّت آتی گئی، اسیری کی صعوبتیں برداشت کرنے اور لہو کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا وہاں جماعت احمدیہ کی عالمگیر ترقیات کے بھی ناقابل یقین باب رقم ہونے لگے۔ دلائل اور براہین کے سامنے لاجواب و عاجز معاندین آج بھی ہر وہ حربہ اپنائے ہوئے ہیں جو انبیائے کرامؑ کے مخالفین ابتدائے آفرینش سے استعمال کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف عاجزانہ وفاؤں کے پُرخلوص نذرانے پیش کرنے والے مخلصین کی تعداد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوتا چلاجارہا ہے۔ یہ قربانیاں یقیناً رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ان شاءاللہ۔ لیکن ہمارا فرض ہے کہ شہدائے احمدیت کا ذکرِ خیر ہمیشہ اپنی نسلوں کے دلوں میں زندہ و جاوید رکھیں تاکہ احمدیت کی سربلندی کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے والے جاںنثار بھی قیامت تک اس الٰہی جماعت میں پیدا ہوتے چلے جائیں۔ سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مکرم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی۔‘‘ اپنے آقا کے اس ارشاد کے پیش نظر ہمارا فرض ہے کہ شہدائے احمدیت اور اُن کی نسلوں کو نہ صرف اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو ان کے اہل و عیال سے بھی ویسا ہی حُسن سلوک کریں جیسے ہم اپنی اولاد سے کرتے ہیں۔ شہادت کے عظیم مرتبہ کو قرآن کریم میں جس محبت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے اور شہید کے لیے خداتعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ نے اپنے پیار کا اظہار جن الفاظ میں فرمایا ہے اُس کی وجہ سے جب کسی احمدی بھائی کی شہادت کا ذکر چلتا ہے تو ساری جماعت کے دلوں میں سوگوار احساسات کے ساتھ ساتھ تسکین کی لہریں بھی موجزن نظر آتی ہیں کیونکہ یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے اسی دنیا میں ایک کامیاب انجام کی خوشخبری عطا فرمادی گویا اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ جاری فرمادیا۔ الفضل انٹرنیشنل کی اس خصوصی اشاعت میں چند شہدائے احمدیت کی قربانیوں کا ولولہ انگیز تذکرہ ’’الفضل ڈائجسٹ ‘‘کی زینت بنایا جائے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ مکرم محمد امتیاز احمد صاحب شہید روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶؍جولائی۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق نوابشاہ سندھ میں مکرم محمد امتیاز احمد صاحب ابن مشتاق احمد صاحب طاہر کو ۱۴؍جولائی ۲۰۱۴ء کو شہید کردیا گیا۔ ان کی عمر تقریباً ۳۹؍سال تھی۔ شام ساڑھے چار بجے دو نامعلوم موٹرسائیکل سوار ٹرنک بازار میں واقع اُن کی دکان پر آئے اور فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ اُن کو تین گولیاں لگیں۔ دو گولیاں ان کے سر پر دائیں طرف لگیں اور بائیں طرف کان کے نیچے سے آر پار ہو گئیں جس سے موقع پر ہی شہادت ہو گئی۔ نوابشاہ میں یہ نویں احمدی کی شہادت ہے۔ اس واقعہ سے دو تین دن پہلے شہید مرحوم کو ایک قریبی دکاندار نے بتایا تھا کہ بعض مخالفین اُن کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ۱۹۳۵ء میں ان کے دادا مکرم سیٹھ محمد دین صاحب آف امرتسر کے ذریعہ سے ہوا تھا جنہوں نے نعمت اللہ خان صاحب وزیرآباد کے ذریعہ سے بیعت کی تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ خاندان امرتسر سے نوابشاہ میں آبسا۔ شہید مرحوم ۱۹۷۵ء میں پیدا ہوئے۔ F.Sc کرنے کے بعد اپنے والد کے کاروبار میں مصروف ہوگئے۔ جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے اور شہادت کے وقت بطور صدر جماعت حلقہ محمود ہال، نوابشاہ شہر کے سیکرٹری تحریک جدید اور سیکرٹری اصلاح و ارشاد نیز قائد خدام الاحمدیہ نوابشاہ شہر، ناظم اصلاح و ارشاد علاقہ اور ضلع خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ کئی دیگر خدمات بھی بجالارہے تھے اور ہر دینی خدمت کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ جو بھی کام سپرد کیا جاتا بڑی خوش اسلوبی سے اس کو سرانجام دیتے۔ کبھی انکار نہیں کیا۔ بہت مہمان نواز تھے۔ مرکزی مہمانوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ سادہ طبیعت کے مالک اور خلافت سے انتہائی محبت اور اطاعت کا تعلق رکھنے والے تھے۔ اطاعت کا غیرمعمولی جذبہ رکھتے تھے۔ پنجوقتہ نمازی اور تہجد گزار تھے۔ بڑا دھیما مزاج تھا۔ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے۔ ہمیشہ معاف کرنے کی صفت نمایاں تھی۔ گذشتہ سال قادیان کے جلسے میں بھی شامل ہوئے۔ شہادت کے روز رمضان المبارک کے سلسلے میں ذاتی طور پر مستحقین کے لیے راشن کے پیکٹ خود تیار کرکے دوپہر تک تقریباً سات گھروں میں تقسیم کرکے ابھی واپس دکان پر پہنچے ہی تھے کہ بدبخت حملہ آوروں نے آپ کو شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب شہید (سابق امیر ضلع نوابشاہ) شہید مرحوم کے تایا تھے۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں والد محترم مشتاق احمد صاحب کے علاوہ اہلیہ مکرمہ نبیلہ امتیاز صاحبہ، تین بیٹے جاذب عمر دس سال، عبدالباسط عمر نو سال اور محمد عبداللہ عمر سات ماہ چھوڑے۔ مکرم مبشر احمد صاحب کھوسہ شہید روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۴؍ستمبر۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مکرم مبشر احمد صاحب کھوسہ ابن مکرم محمد جلال صاحب آف سیٹلائٹ ٹاؤن میرپورخاص کو ۲۲؍ستمبر کو شام ساڑھے سات بجے اُن کے کلینک میں نامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے شہید کردیا جب آپ معمول کے مطابق مریض چیک کررہے تھے۔ تفصیلات کے مطابق اچانک دو نامعلوم افراد موٹرسائیکل پر آئے اور ان میں سے ایک نے کلینک میں داخل ہو کر مکرم مبشر احمد صاحب پر فائرنگ کردی۔ پانچ چھ گولیاں آپ کے سر اور سینے میں لگیں جس سے موقع پر ہی وفات ہو گئی۔ آپ کی عمر ۴۷؍سال تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے خاندان کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ ۱۹۵۴ء میں ان کے والد مکرم محمد جلال صاحب نورنگر ضلع عمرکوٹ سندھ شفٹ ہوئے اور اسی سال انہوں نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ اس پر اُنہیں گھر سے نکال دیا گیا تو مکرم غلام رسول صاحب آف محمدآبادنے اُن کو پناہ دی اور بعدازاں ایک محنتی اور مخلص انسان دیکھ کر اپنی بیٹی محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ کے ساتھ شادی کردی۔ شادی کے بعد محمد جلال صاحب کنری چلے گئے اور وہاں آٹا چکی کا کام شروع کیا۔ ۱۹۷۴ء میں مخالفین نے ان کی آٹا چکی کو آگ لگا دی اور گھر کا سامان لُوٹ لیا۔ شہید مرحوم ۱۹۶۷ء میں کنری میں پیدا ہوئے۔ میٹرک تک تعلیم محمدآباد ضلع عمرکوٹ میں حاصل کی جہاں جماعت کی زمینیں ہیں۔ اس کے بعد یہ اپنی نانی کے پاس کراچی چلے گئے جہاں F.A پاس کیا اور پھر DHMS (ہومیوپیتھی پریکٹس) اور ڈسپنسری کے کورسز کیے۔ ۱۹۹۵ء میں شادی کے بعد بچوں کی تعلیم کی خاطر میرپورخاص شفٹ ہوگئے اور کچھ عرصے کے بعد وہاں کلینک کا آغاز کیا۔ آپ ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور ڈسپنسری کی بھی پریکٹس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شہید مرحوم کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی۔ علاقے کے وڈیروں اور کئی خاندانوں کے فیملی ڈاکٹر تھے۔ لوگوں کو ان کے احمدی ہونے کا علم تھا مگر کبھی کسی نے مخالفت نہیں کی حتٰی کہ کلینک کے ساتھ غیر از جماعت کی مسجد ہے۔ وہاں کے امام مسجدنے بھی کبھی جماعت کی مخالفت کی کوئی بات نہیں کی بلکہ ڈاکٹر صاحب سے اچھا تعلق تھا۔ شہید مرحوم کو کئی تنظیمی اور جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ ضلعی عاملہ کے ممبر رہے۔ شہادت کے وقت سیکرٹری تربیت نومبائعین کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ جو بھی نومبائعین آتے تو ان کے کھانے کا انتظام کرتے۔ ان کے پاس کرایہ نہ ہوتا تو اپنی جیب سے بھی کرایہ دے دیتے۔ خدمت خلق کا بڑا شوق تھا۔ کشمیر کا زلزلہ آیا تو میڈیکل ٹیم کے ساتھ وہاں ۲۲؍دن تک خدمت کی توفیق پائی۔ بہرحال قربانی کے میدان میں صف اول میں سے تھے۔ مہمان نواز تھے۔ اپنے ساتھیوں اور جماعتی عہدیداران کی دعوت کا اہتمام کرتے تھے۔ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ خلافت سے انتہائی محبت، عشق کا تعلق تھا۔ اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ باجماعت نمازی تھے۔ نوافل پڑھنے والے اوردرود پڑھنے والے تھے۔ ہمیشہ نرم لہجے میں بات کرتے اور ہمیشہ درگزر سے کام لیتے۔ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بڑی باوقار اور بارُعب شخصیت تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور چندہ جات کی ادائیگی میں ہمیشہ فعال تھے۔ ہمیشہ اپنے بجٹ سے زیادہ اور بروقت چندہ وصیت ادا کیا کرتے تھے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا شوق تھا۔ ان کی دو بیٹیاں میڈیکل کالج میں زیرتعلیم ہیں۔ دو بیٹے بھی زیر تعلیم ہیں۔ پہلے ان کو پان کھانے کی عادت تھی جو انہوں نے اس لیے ترک کردی کہ یہ عادت درود شریف کے ورد میں روک بنتی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی محمد بلال نے شہادت سے چند روز قبل ایک خواب میں دیکھا کہ ان کے بھائی ایک چھت پر مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صاحب صدیقی شہید کے ساتھ ایک طرف کونے میں کھڑے ہیں اور باقی لوگ دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اسی طرح شہید مرحوم کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ تمام بہن بھائیوں میں یہ اونچے مقام پر کھڑے ہیں۔ شہید مرحوم کے لواحقین میں والد مکرم جلال احمد صاحب اور والدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے علاوہ اہلیہ محمودہ بیگم صاحبہ، دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ عطاءالوحید باجوہ صاحب کہتے ہیں کہ میرا تعلق بھی میرپورخاص سے ہے اس وجہ سے شہید مرحوم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ ہر ایک سے مسکرا کر بات کرتے۔ کسی مجلس میں بیٹھے ہوتے تو فوراً اس کا حصہ بن جاتے اور اپنے دلچسپ انداز گفتگو سے محفل کو کشت زعفران بنا دیتے۔ تمام واقفین زندگی اور خاص طور پر مربیان سلسلہ کا بہت احترام کرتے تھے خواہ وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹے ہی ہوتے۔ چہرے پر غصہ، تنگ نظری کے آثار کبھی نہیں دیکھے۔ ہمیشہ مسکراتے اور بارونق چہرے کے ساتھ ملتے۔ علاقے کے لوگ بھی حیران ہیں کہ کس وجہ سے شہید کیا گیا ہے۔ ایک ہمدرد انسان تھے۔ خدمتِ انسانیت کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ لوگوں کی طرف سے اس بات کا برملا اظہار آپ کی شہادت کے موقع پر بھی ہوا۔ ایک سابق صدر لجنہ بیان کرتی ہیں کہ شہادت کے موقع پر غیر از جماعت بھی افسوس کے لیے آئے۔ دو عورتوں کا تعلق اس علاقے سے تھا جہاں ان کا کلینک تھا۔ وہ کہتی ہیں ہم بھی ڈاکٹر صاحب سے دوائی لیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک غریب عورت ڈاکٹر صاحب کے پاس دوائی لینے کے لیے آئی تو آپ نے اسے دوائی دی اور کچھ پرہیز بتایا۔ اس پر اس عورت نے بادل نخواستہ کہا: اچھا۔ اس کے انداز سے آپ سمجھ گئے کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ وہ غریب تھی۔ تو مبشر صاحب شہید نے اُسے فیس بھی واپس کردی اور کچھ رقم بھی دی اور کہا کہ ان پیسوں سے تم نے یہ چیزیں لینی ہیں، اپنا علاج مکمل کرنا خوراک کا بھی خیال رکھنا۔ ان عورتوں نے کہا کہ آپ لوگ جو انسانیت کی خدمت کرتے ہیں تو یہ مخالفین آپ لوگوں کو ہی چُن چُن کر مارتے ہیں۔ شہید مرحوم کے بھائی لکھتے ہیں کہ آپ بڑی حکمت سے سارے خاندان کے کام سلجھانے والے تھے اور تمام خاندان والے ان سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا اور اُن کی تعلیم کا خیال رکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتے۔ ایک بہن کے کچھ مالی مسائل تھے۔ ان کے خاوند کو کسی وجہ سے جیل جانا پڑ گیا تو اُن کے بچوں کا بڑا خیال رکھا۔ نومبائعین کی خدمت میں ہر وقت مصروف رہنے والے تھے۔ مکرم لطیف عالم بٹ صاحب شہید روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۸؍اکتوبر۲۰۱۴ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مکرم لطیف عالم بٹ صاحب ابن مکرم خورشید عالم بٹ صاحب آف کامرہ ضلع اٹک کو ۱۵؍اکتوبر کی رات کو قریباً سات بجے ان کے گھر کے قریب دو نامعلوم موٹرسائیکل سوار دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ وہ گھر کے قریب ہی واقع اپنی سٹیشنری کی دکان سے معمول کے مطابق واپس آرہے تھے جب اپنے گھر کے قریب گلی میں پہنچے تھے تو پیچھے سے موٹرسائیکل سواروں نے انہیں بٹ صاحب کہہ کے آواز دی۔ جیسے ہی یہ واپس مڑے ہیں تو ایک شخص نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں چار پانچ گولیاں شہید مرحوم کے سینے میں لگیں۔ کسی نے ان کے بیٹے ذیشان بٹ صاحب کو اطلاع دی تو وہ فوری موقع پر پہنچے۔ بہرحال ریسکیو والے بھی پہنچ گئے تھے۔ لطیف بٹ صاحب اس وقت ہوش میں تھے مگر سول ہسپتال اٹک جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی عمر ۶۲سال تھی۔ لطیف عالم بٹ صاحب کے خاندان کا تعلق کامونکی ضلع گوجرانوالہ سے تھا۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے والد مکرم خورشید عالم بٹ صاحب کے ذریعہ ہوا جن کو ۱۹۳۴ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم اپریل ۱۹۵۲ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ F.Aتک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایئر فورس میں بھرتی ہو گئے اور کامرہ ایئر فورس سے کارپورل ٹیکنیشن کے رینک سے ۱۹۹۱ء میں ریٹائر ہوئے اور کتابوں کا کاروبار شروع کیا۔ زیادہ کاروبار قانونی کتابوں کا تھا اور پاکستان کی مختلف کچہریوں میں وکلاء کو کتب دیا کرتے تھے۔ غیراحمدی وکلاء بھی ان کے بڑے معترف تھے۔ شہید مرحوم بطور ناظم اشاعت انصاراللہ بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ قبل ازیں ضلعی سطح پر سیکرٹری ضیافت اور خدام الاحمدیہ میں ناظم صحت جسمانی کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ شہید مرحوم کا گھر لمبے عرصے سے نماز سینٹر ہے۔ اس کے علاوہ جماعت کے دیگر پروگرام جلسے اجلاسات بھی ان کے گھر منعقد ہوتے تھے۔ شہید مرحوم ہمیشہ جماعتی خدمت کے لیے تیار رہتے اور جو کام بھی سپرد کیا جاتا اسے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے۔ کبھی انکار نہیں کرتے تھے۔ بہت مہمان نواز تھے۔ خلافت سے انتہائی محبت اور عشق کا تعلق تھا اور اطاعت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ نماز جمعہ سے دو گھنٹے قبل ہی مسجد میں چلے جایا کرتے تھے۔ بہت دلیر اور نڈر انسان تھے۔ ۲۰۰۷-۰۸ء میں بھی ان پر نامعلوم افرادنے حملے کی کوشش کی تھی۔ حملہ آور نے ان پر فائر کیا مگر گولی پِسٹل میں پھنس گئی اور انہوں نے اس وقت ایک حملہ آور کو پکڑ لیا اور کافی مزاحمت ہوئی لیکن بہرحال وہ بعد میں بھاگ گیا۔ شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت شوق تھا۔ شہادت کے وقت وصیت کا فارم انہوں نے پُر کر دیا تھا جو ابھی زیر کارروائی تھی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر کرتے ہوئے آپ کی وصیت منظور فرمانے کا بھی اعلان کیا۔ مکرم امیر صاحب ضلع نے بتایا کہ شہید مرحوم میں عہدیداران اور نظام کی اطاعت کا غیر معمولی جذبہ تھا اور جماعتی پروگراموں اور اجلاسات میں ہمیشہ شامل ہوتے۔ کبھی کسی پروگرام سے غیر حاضر نہ ہوتے۔ شہید مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی عزیزہ ارم وسیم اور چار بیٹے خرم بٹ صاحب، ذیشان بٹ صاحب جو اپنے والد کے ساتھ ہی کاروبار کررہے تھے، انجینئرعمر بٹ صاحب اور علی بٹ صاحب چھوڑے ہیں۔ مکرم محمود مجیب اصغر صاحب (سابق امیر ضلع)کہتے ہیں کہ شہید مرحوم نے ایئر فورس سے ریٹائر ہونے کے بعد اس نیت سے وہیں مستقل رہائش اختیار کر لی تھی کہ وہاں مستقل رہنے والا کوئی نہیں کیونکہ ایئرفورس کے آفیسر آتے اور ٹرانسفر ہو کے چلے جاتے۔ جماعت موجود نہیں تھی۔ اس لیے انہوں نے وہاں اپنا گھر بھی بنایا تھا تاکہ نماز سینٹر کا کام بھی دے اور جماعت بھی قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس نیت کو پھل لگائے اور اس شہادت کے بدلے اللہ تعالیٰ سینکڑوں ہزاروں احمدی وہاں اس علاقے میں عطا فرمائے۔ مکرم نعمان احمدنجم صاحب شہید روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۵؍مارچ ۲۰۱۵ء میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق مکرم نعمان احمدنجم صاحب ابن مکرم چودھری مقصود احمد صاحب آف ملیر رفاہِ عام سوسائٹی کراچی پر دو دہشتگردوں نے ۲۱؍مارچ ۲۰۱۵ء کی شام قریباً آٹھ بجے ان کی دکان پر آکر فائرنگ کردی۔ ایک گولی سینے میں لگی اور دل کو چھوتی ہوئی آرپار ہوگئی۔ واقعہ کے بعد قریبی دکانداروں نے ان کے بھائی مکرم عثمان احمد صاحب کو فون کرکے اطلاع دی۔ وہ فوری طور پر آئے اور نعمان صاحب کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جارہے تھے کہ وہ راستے میں ہی شہید ہوگئے۔ مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم چودھری منظور احمد صاحب کے ذریعے ہوا تھا جنہوں نے خلافت ثانیہ کے دَور میں بیعت کی تھی۔ ان کے والدین چھوٹی عمر میں وفات پا گئے تھے جس کے بعد یہ قادیان چلے گئے جہاں بیعت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بھی قادیان میں حاصل کی۔ وہیں پر محترمہ صفیہ صادقہ صاحبہ بنت مکرم مبارک علی صاحب کے ساتھ شادی ہوئی۔ پھر قیام پاکستان کے بعد ہڑپہ ساہیوال میں آگئے۔ کچھ عرصہ ربوہ میں رہے اور شہید مرحوم کے والد مکرم مقصود احمد صاحب ربوہ میں ہی پیدا ہوئے۔ پھر شہید مرحوم کے دادا نے گوجرانوالہ میں ملازمت کی وجہ سے۱۹۶۸ء میں مع فیملی وہاں رہائش اختیار کرلی۔ ۱۹۷۴ء میں جب گوجرانوالہ میں ہنگامے ہوئے تو احمدیہ مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے شہید مرحوم کے دادا مکرم چودھری منظور احمد صاحب، چچا مکرم محمود احمد صاحب اور پھوپھا مکرم سعید احمد صاحب بھی شہید ہو گئے۔ ان حالات کی بِنا پر یہ خاندان ۱۹۷۶ء میں کراچی شفٹ ہو گیا۔ نعمان احمدنجم صاحب ۲۶؍جنوری۱۹۸۵ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ MBA کرنے کے بعد۲۰۰۸ء میں کمپیوٹر ہارڈویئر کا بزنس شروع کردیا۔ نہایت ایماندار، نیک دل، نیک سیرت، شریف النفس اور ملنسار تھے۔ نہایت مخلص اور فدائی نوجوان تھے۔ اپنے ملازمین کو بھی چھوٹے بھائیوں کی طرح رکھا ہوا تھا۔ نگرپارکر مٹھی میں جماعت کے زیرانتظام قائم کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ اور مشن ہاؤس کے لیے کچھ کمپیوٹر اور متعلقہ سامان تحفے کے طور پر نہ صرف پیش کیا بلکہ وہاں جاکر سسٹم خود install کرکے آئے۔ شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ اپنے دادا مکرم چودھری منظور احمد صاحب شہید کے نام سے ایک کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ بھی قائم کریں۔ مرحوم ایک ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ غیر از جماعت بھی کہتے تھے کہ یہ ایک فرشتہ ہے۔ اس وقت رفاہِ عام سوسائٹی میں بحیثیت قائد مجلس خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے والے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے والے تھے۔ مخالفین کی طرف سے ان کو دھمکیاں ملتی رہتی تھیں تو اپنے چھوٹے بھائیوں کو ہمیشہ محتاط رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ چھ ماہ قبل شہید مرحوم اپنا کاروباری سامان لے کر آ رہے تھے کہ اس وقت ان کو نامعلوم افرادنے روک کر سامان بھی لے لیا اور رقم بھی لوٹ لی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم آئے تو تم کو مارنے تھے مگر چونکہ رقم مل گئی ہے اس لیے چھوڑ رہے ہیں۔ شہید مرحوم کے پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو بھائی ذیشان محمود اور عثمان احمد شامل ہیں۔ خرم احمد صاحب معلم سلسلہ کہتے ہیں کہ نعمان احمد نجم شہید بڑے نرم گو تھے۔ محبت کرنے والے تھے۔ جماعتی خدمت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان تھے۔ کئی دفعہ کمپیوٹر انسٹیٹیوٹ میں خدمت کے لیے نگرپارکر میں جاتے تھے جو سندھ کا دُوردراز علاقہ ہے۔ جب وہاں پہنچتے تو ان کو کہا جاتا کہ آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کر لیں، پھر کام کریں تو ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہم مجاہد ہیں، ہمیں شہری سمجھ کر نازک مزاج نہ سمجھ لیں۔ سابق قائد علاقہ منصور صاحب کہتے ہیں کہ مَیں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ بارہ سال کے تھے۔ ہمیشہ بڑے شوق، جوش اور ولولے سے جماعتی کاموں میں، مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے اور ہمیشہ اوّل پوزیشن لیتے تھے۔ سکول کے بعد اپنے والد صاحب کی دکان پر ان کا ہاتھ بٹاتے لیکن خدمتِ دین کو مقدّم رکھتے۔ کبھی وقت ضائع نہیں کرتے تھے۔ انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ بات کرنے والے تھے۔ عمران طاہر صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ میرے عزیز بھی تھے۔ مَیں نے انہیں کبھی کسی پر چلّاتے یا سختی سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ عاجزی، مسکینی اور حلم کی تصویر تھے۔ نہایت باادب اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کی ایک عزیزہ کہتی ہیں کہ مخالفت کے پیش نظر ان سے بیرونِ ملک ہجرت کرنے کے لیے کہا جاتا تھا لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان میں رہنا ہی پسند کیا۔ اپنی والدہ کی ہر خواہش اور ضرورت کا خیال رکھنے والے تھے۔ مشہود حسن خالد صاحب مربی سلسلہ کہتے ہیں کہ ایک دن باتیں کرتے ہوئے شہید مرحوم نے کہا کہ وہ کون خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جو شہید ہوتے ہیں۔ شاید ان کی یہ تمنا ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ مقام دیا۔ مکرم خالد احمد البراقی صاحب مکرم خالد احمد البراقی صاحب کا تعلق شام (سیریا) سے تھا اور آپ ایک انجینئر تھے۔ ۵؍جنوری ۱۹۷۷ء کو پیدا ہوئے اور ۳۷؍سال کی عمر میں شہادت کا مقام پایا۔ ان کے والدین کو ۱۹۸۶ء میں دمشق کے نواحی علاقے کی ایک بستی ’حوش عرب‘ میں سب سے پہلے قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔ بیعت کرنے کے بعد ان کے والد صاحب کو مخالفت اور دھمکیوں کے ساتھ ۱۹۸۹ء میں چھ ماہ کی جیل بھی کاٹنی پڑی۔ اسی طرح بعد میں فسادات کے دوران ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء میں بھی دو دفعہ ان کے والد کو گرفتار کیا گیا۔ خالد البراقی صاحب کو ۱۸؍ستمبر ۲۰۱۳ء کو انٹیلیجنس ایجنسی کی کسی برانچ نے گرفتار کیا اور لاپتہ کردیا گیا۔ یہاں تک کہ ۹؍دسمبر۲۰۱۳ء کو ان کے والد کو ملٹری انٹیلیجنس کی ایک برانچ میں بلاکر بعض کاغذات تھماکر بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کی ۲۸؍اکتوبر ۲۰۱۳ء کو وفات ہو گئی ہے۔ لاش بھی نہیں دی گئی۔ غالباً یہی امکان ہے کہ وہاں کیے جانے والے ٹارچر کی وجہ سے شہادت ہوئی۔ خالد البراقی صاحب کی نیکی، تقویٰ، حُسنِ خلق اور دینی تعلیمات کی پابندی کی گواہی وہاں کے بہت سارے احمدیوں اور غیراحمدیوں نے دی ہے۔ بہت نرم دل اور لوگوں سے ہمدردی رکھنے والے اور ہر مفوضہ کام کو نہایت خوشدلی کے ساتھ انجام دینے والے تھے۔ تعاون، اخلاص اور خلافت سے محبت ان کے خصائل میں شامل تھیں۔ اپنے وطن اور انسانوں سے محبت رکھنے والے وجود تھے۔ ایک مقامی جماعت کے صدر بھی رہے۔ بوقت وفات بطور سیکرٹری تعلیم القرآن اور وقفِ عارضی خدمات بجا لا رہے تھے۔ موصی تھے۔ چندوں کی باقاعدہ ادائیگی کرنے والے تھے۔ ان کی بیوی بھی احمدی ہیں۔ بچے چھ سال سے کم عمر کے ہیں۔ ایک بیٹی شروب، بیٹا احمد اور ایک بیٹا حسام الدین جو اُن کی گرفتاری سے چند ہفتے قبل پیدا ہوا تھا اور وقفِ نو کی تحریک میں شامل ہے۔ گرفتاری سے پہلے خالد البراقی صاحب نے اپنی فیس بُک پر وطن سے محبت کا بےپایاں اظہار کیا اور سرزمین شام میں امن اور عوام میں باہمی محبت پیدا ہونے کی دعائیں کیں۔ یکم اپریل ۲۰۱۲ء کو انہوں نے حضورانور ایدہ اللہ کو ایک خط لکھا تھا جس کے آخر پر اپنا ۲۰۰۶ء کا ایک رؤیا لکھا تھا۔ اس رؤیا سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ بھاری ذمہ داری اور اہم امانت اُن کے سپرد کی جائے گی اور رؤیا میں اُنہیں حق پر قائم رہنے اور کوئی کمزوری نہ دکھانے کی تاکید کی گئی تھی۔ اس رؤیا کے بعد اُن کو جماعت کا صدر بنایا گیا تو وہ سمجھے کہ شاید یہ رؤیا پوری ہو گئی ہے۔ لیکن رؤیا میں حق پر قائم رہنے اور کمزوری نہ دکھاتے ہوئے جان دینے کی تلقین کی گئی تھی۔ تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ اسی حالت میں اُنہوں نے اپنی جان دی کہ دین پر قائم رہے اور اپنے ایمان میں لغزش نہیں آنے دی۔ محترم خالد البراقی شہید نے اپنے والد کے قبول احمدیت کے حوالے سے بیان کیا کہ سرکاری نوکری سے فراغت کے بعد میرے والد نے ’حوش عرب‘ میں ٹریکٹرز اور موٹریں ٹھیک کرنے کی ورکشاپ کھول لی۔ سردیوں میں جب شدید برفباری ہوتی تو بستی کے لوگ گھروں میں بیٹھ کر کھاتے پیتے، تاش کھیلتے اور تمباکونوشی کا شغل کرتے۔ میرے والد بھی ان تمام چیزوں کے رسیا تھے۔ لیکن احمدیت قبول کرنے کے بعد وہ یکسر بدل گئے حتیٰ کہ سگریت نوشی بھی ترک کردی بلکہ اس کی بُو تک سے کراہت کھانے لگے۔ وہ گھر جس میں فضول قصّے کہانیاں ہوتی تھیں اب وہاں اللہ رسولؐ کی باتیں ہونے لگیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کی اشاعت ہونے لگی۔ مخالفت کے باوجود بستی والے اپنے ٹریکٹر اور موٹریں ٹھیک کروانے میرے والد کے پاس ہی آتے تھے اور ان کے کام اور دیانتداری کے معترف تھے۔ اہل بستی کہا کرتے تھے کہ احمد براقی کے بچے بہت ذہین ہیں لیکن اس نے احمدیت قبول کرکے ان کو ضائع کردیا ہے۔ ہم سات بہن بھائی ہیں۔ مَیں نے مکینیکل انجینئرنگ کی، دو بھائیوں نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی، ایک بہن ڈینٹسٹ ہے اور دو بہنوں نے ادب عربی اور ایک نے فرنچ لٹریچر پڑھا ہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ لوگ بستی میں ہمارے مقاطعے کی باتیں کرتے تھے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں کسی کا محتاج نہیں کیا، ہماری شادیاں بھی احمدیوں میں کروادیں اور اولاد کی نعمت بھی عطا فرمائی۔ مکرم طاہر ندیم صاحب کہتے ہیں کہ شام میں قیام کے دوران ہمارا ان سے تعارف ہوا۔ یہ تواضع اور خاکساری کی بڑی مثال تھے۔ نہایت سادہ، نیک اور ہنس مکھ۔ دمشق میں جماعت کے ہی ایک مکان میں رہتے تھے جسے بطور مرکز استعمال کیا جاتا تھا۔ انہیں علم کی اس قدر پیاس تھی کہ اکثر اپنے ایک کزن کے ساتھ ہمارے پاس آ جاتے اور علمی موضوعات پر باتیں ہوتی تھیں۔ جو بھی جماعتی کتاب ملتی، بڑی محبت اور تڑپ کے ساتھ اُس کا مطالعہ کرتے۔ جماعت کی پرانی لائبریری میں سے بعض عربی کتب اور رسالہ البشریٰ کے قدیم شماروں میں سے مضامین نکالتے اور دوبارہ کمپیوٹر پر ٹائپ کرکے ہمیں ارسال کرتے تھے۔ مختلف کتابوں کے تراجم پر نظرِ ثانی میں معاونت کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے گہری محبت اور خلافت سے بھی عشق تھا۔ یوم مسیح موعود علیہ السلام کے موقع پر نشر ہونے والے عربی پروگرام کو سن کر بہت جذباتی انداز میں انہوں نے اپنا پیغام بھیجا اور حضرت مسیح موعودؑ کا ایک قصیدہ بھی نہایت پُر سوز آواز میں ریکارڈ کروایا۔ مکرم میر انجم پرویز صاحب بھی شام میں رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں تبلیغ کا انہیں بڑا شوق تھا اور کام پر چونکہ تبلیغ کرنا منع ہے اس لیے کہتے تھے کہ میں اخلاق سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ بڑی محنت، اخلاص اور دیانت داری کے ساتھ کام کرتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اس لیے ایسا کرتا ہوں تاکہ لوگوں کو خود توجہ پیدا ہو کہ احمدی سچے، دیانتدار، محنتی اور بااخلاق ہوتے ہیں۔ وطن سے بڑی محبت کرنے والے تھے اور اپنے دوستوں اور ہم جلیسوں کو بھی یہ سمجھایا کرتے تھے کہ وطن سے محبت کرو کیونکہ یہی صحیح اسلامی تعلیم ہے۔ وطن سے محبت کے حوالے سے حضورانور کے خطبات بھی انہوں نے اپنے دوستوں کو سنائے اور اُن کو آمادہ کیا کہ تشدد کی زندگی ختم کرکے پُر امن شہری بن کے رہو۔ لیکن بعض بدفطرت ان کے خلاف تھے۔ لگتا ہے حکومت کے انہی کارندوں نے اُن پر ظلم کیا جس کی وجہ سے اُن کو یہ شہادت کا رُتبہ نصیب ہوا۔ شہید مرحوم کے بھائی مکرم طاہر البراقی صاحب بیان کرتے ہیں کہ خالد شہید کے کمرے کی دیواروں پر ہر جگہ قرآنی آیات، حدیث یا حضرت مسیح موعودؑ کا کوئی شعر آویزاں ہوتا۔ گھر میں یا جماعتی طور پر جو کام بھی اُن کے سپرد ہوتا اُسے بھرپور ذمہ داری سے ادا کرتے۔ علاقے کے کئی گھروں میں شمسی توانائی کے پینلز انسٹال کیے۔ طلبہ کی مدد میں پیش پیش رہتے۔ انتہائی عاجز اور منکسرالمزاج، نماز کے پابند، اہلیہ سے حددرجہ حسنِ سلوک سے پیش آنے والے اور دوسروں کو صلہ رحمی، محبت اور خدا کو راضی کرنے کی نصیحت کرنے والے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳؍دسمبر۲۰۱۳ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید سیّدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے برادرم محترم ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی دردناک شہادت کا تفصیل سے ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍اپریل ۲۰۱۲ء میں فرمایا تھا اور شہید مرحوم کو نہایت پیار سے خداتعالیٰ کے سپرد فرماتے ہوئے ان کے سفّاک قاتلوں کا معاملہ بھی خداتعالیٰ کی تقدیر کے حوالے کردیا تھا۔ مجلس انصاراللہ یوکے کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرو دسمبر۲۰۱۸ء میں شہید مرحوم کا ذکرخیر خاکسار (محمود احمد ملک) کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ واقعات کے مطابق ربوہ کے محلہ نصرت آباد کے ایک رہائشی احمد یوسف کو کسی نے قتل کردیا اور پولیس نے مقتول کے بیٹے کے ایما پر مختلف احباب کو مختلف اوقات میں شک کی بِنا پر گرفتار کرکے شامل تفتیش رکھا اور بعد میں ان تمام احباب کو بےگناہ کرکے چھوڑ دیا گیا۔ اسی سلسلے میں مدّعی کی طرف سے محلّے کے صدر ماسٹر عبدالقدوس صاحب کا نام بھی لیا گیا تھا لیکن بعد میں بغیر کسی وجہ کے انہیں اس کیس میں نامزد کردیا گیا ۔ چنانچہ پولیس نے ان کو گرفتار تو کر لیا لیکن باقاعدہ پرچہ نہیں کاٹا اور گرفتاری بھی نہیں ڈالی۔ رابطہ کرنے پر پولیس افسران مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہم جانتے ہیں یہ بھی بے گناہ ہے۔ جلد ہی معاملہ کلیئر (clear) ہوجائے گا، بعض مجبوریاں ہیں اس لیے ہم نے پکڑا ہوا ہے۔ اسی دوران ماسٹر صاحب کو پولیس نے تھانہ ربوہ سے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کردیا۔ اُن کو غائب کرنے کے دس دن کے بعد پولیس اُنہیں تھانہ میں واپس لے آئی اور ماسٹر صاحب کے ایک دوست کو فون کر کے کہا کہ اپنا بندہ آکے لے جاؤ۔ وہ دوست وہاں گئے تو پولیس نے اُس دوست سے ایک سادہ کاغذ پر دستخط لے لیے کہ ماسٹر صاحب کو مَیں واپس لے کر جارہا ہوں۔ ماسٹر صاحب کی حالت چونکہ ٹھیک نہیں تھی اس لیے وہ دوست انہیں تھانے سے سیدھے فضل عمر ہسپتال لے گئے جہاں جاکے انہوں نے بتایا کہ۱۷؍مارچ کو رات کے اندھیرے میں اُنہیں کچھ پولیس اہلکار تھانہ ربوہ سے پانچ چھ گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلہ پر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور انتہائی تشدّد کیا۔ بالکل ویران جگہ تھی۔ پولیس والے اُنہیں مارمار کے یہ کہتے رہے کہ اس قتل میں ملوّث کسی عہدیدار کا نام لے دو تو تمہیں چھوڑ دیں گے۔ ایک کاغذ پر دستخط کروانے کی کوشش بھی کرتے رہے اور انہوں نے بعض ناظران اور دوسروں کے نام بھی لیے۔ تشدّد کرتے ہوئے یہ اہلکار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کے نام لے کر جماعت کے خلاف شدید بدزبانی کرتے۔کئی روز کے تشدّد کے نتیجے میں جب ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی حالت بہت خراب ہوگئی (انہیں پاخانے میں بھی خون آتا رہا، خون کی اُلٹیاں بھی آتی رہیں، گردوں پر بھی کافی اثر ہوا۔ ویسے ہوش میں تھے لیکن اندرونی طور پر انتہائی شدید چوٹیں آئی تھیں) تو پولیس والوں نے انہیں کچھ دوائیں دیں اور حالت قدرے بہتر ہوئی تو واپس لاکر ان کے دوست کے حوالے کر دیا۔ فضل عمر ہسپتال میں ICU میں ماسٹر صاحب کو مسلسل خون کی بوتلیں لگائی گئیں۔ لیکن حالت سنبھلنے کے بعد دوبارہ بگڑ گئی۔ ۲۹؍مارچ کو دوبارہ خون کی الٹیاں آئیں۔ پھیپھڑے بھی متاثر تھے جس کی وجہ سے ۳۰؍مارچ۲۰۱۲ء کو بےہوش ہوگئے اور اُسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی اور شہادت کا رُتبہ پایا۔ شہید مرحوم نے شہادت سے قبل بتایا کہ پولیس والوں کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا کہ یہ تمہارا بیان ہے اس پر دستخط کردو تو تمہیں چھوڑ دیں گے۔ اُس میں لکھا تھا کہ جو قتل ہوا ہے اُس میں ربوہ کی مرکزی انجمن اور صدرعمومی وغیرہ کے یہ یہ لوگ ملوّث ہیں۔ یہ دستخط کرنے سے انکار کرتے کہ یہ میرا بیان ہی نہیں ہے۔ آپ کے انکار پر تشدّد پھر شروع کردیا جاتا۔ ایک دفعہ طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو پھر کچھ انجکشن لگوائے، کچھ دوائیاں دیں، طبیعت سنبھلی تو پھر تشددّکرنے لگ گئے۔ ماسٹر صاحب کہتے ہیں مار تو برداشت ہو رہی تھی لیکن وہ گالیاں سننا مشکل تھا جو میرے بزرگوں کو دیتے تھے۔ کھانا بھی کبھی کبھار دیتے تھے۔ ایسا تشدد اور ظلم کبھی نہ مَیں نے سنا اور نہ کبھی دیکھا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ مَیں برداشت کرسکتا۔ مَیں دعائیں کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے تشدّد سہنے کی، برداشت کرنے کی ہمت دے۔ شہیدمرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا کہ یہ ہے ایمان کو سلامت رکھنے والے اور سچائی پر قائم رہنے والے کی کہانی۔ اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دیدی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس اس عظیم شہید نے ہمیں جہاں بہت سے سبق دیے وہاں یہ سبق بھی دیا کہ ہمارے سے شرک نہیں ہو سکتا۔ شہید مرحوم نے اپنے عہدِ بیعت کو بھی خوب نبھایا۔ وہ اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے تو اس کے نتائج جماعت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔ قتل کے جھوٹے مقدمے میں مرکزی عہدیداران کو گرفتار کرنا تھا۔ مرکزی دفاتر پر پابندی ہو سکتی تھی۔ جماعت کی امن پسندی کی تعلیم اور کوششوں کو بدنام کرنے کی کوشش ہو سکتی تھی۔ نہ صرف ملکی طور پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی جماعت کو نقصان پہنچتا۔ بہرحال دشمن نے ایک مکر کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مخلص کے ذریعہ جو عام زندگی میںانتہائی نرم دل تھا، جس کو اس قسم کی سختیوں کا تصور بھی نہیں تھا، اُس کے ذریعے سے ان کے مکر کو توڑا۔ پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کر لیالیکن جماعت کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔ تُو نے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچالیا۔ ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہید نہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔ مکرم عبدالقدوس شہید کے والد میاں مبارک احمد صاحب کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا حضرت میاں احمد یار صاحبؓ کے ذریعے ہوا جو فیروز والا (گوجرانوالہ) کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی طرح آپ کی پڑدادی محترمہ مہتاب بی بی صاحبہؓ بھی صحابیہ تھیں۔ ماسٹر عبدالقدوس صاحب ۲؍اپریل۱۹۶۸ء کو پیدا ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر۴۳؍سال تھی۔ آپ موصی تھے۔ آپ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر PTC کا کورس کیا اور ٹیچر لگ گئے۔ شہید مرحوم تقریباً بیس سال ربوہ میں گورنمنٹ سکول میں پڑھاتے رہے۔ آپ کے ساتھی اساتذہ کے مطابق آپ کا شمار نہایت محنتی اور دیانتدار اساتذہ میں ہوتا تھا۔ آپ کی شادی ۱۹۹۷ء میں روبینہ قدوس صاحبہ بنت مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب آف گوجرانوالہ سے ہوئی۔ شہید مرحوم نے بوقت شہادت اپنے والدین اور اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے عبدالسلام (چودہ سال)، عبدالباسط (تیرہ سال)، عبدالوہاب (پانچ سال) اور بیٹی عطیۃ القدوس (دس سال) چھوڑے۔ آپ کا بچپن محلہ دارالرحمت شرقی الف میں گزرا جہاں بطور طفل اور خادم مجلس کے کاموں میں شوق سے حصہ لیتے رہے۔ دس سال تک مختلف محلہ جات میں زعیم حلقہ رہے۔ بلاک لیڈر بھی رہے۔ ۱۹۹۴ء میں نصرت آباد شفٹ ہوئے تو یہاں بھی بطور زعیم حلقہ خدمت کی توفیق پائی۔ مجلس صحت کے زیرِ انتظام شعبہ کشتی رانی کے انچارج تھے۔ نائب صدر شعبہ کشتی رانی مجلس صحت پاکستان اور تین سال تک پنجاب روئینگ ایسوسی ایشن کے مینیجر بھی رہے۔ بہت اچھے تیراک تھے۔ اڑھائی سال قبل صدر محلہ منتخب ہو ئے۔ محلہ کے احباب کے مطابق شہید مرحوم بہت زیادہ حسنِ سلوک سے پیش آنے والے اور بلند حوصلے کے مالک تھے۔ اگر کوئی سخت لہجے میں بھی بولتا تو بات کو ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے۔ آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ حفاظت مرکز میں بھی لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ ۲۰۰۲ء سے حفاظت مرکز کے تحت ایریا انچارج تھے۔ ڈیوٹی دہندگان کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے اور اُن کے کھانے پینے، چائے وغیرہ کا انتظام کرنا اور خود جاکر پہنچانا ان کا معمول تھا۔ شہید مرحوم اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک نمونہ تھے اور جماعتی عہدیدارکا بہت احترام کرنے والے تھے۔ طالبعلمی کے دَور سے ہی اُنہیں ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ کبڈی، ہاکی، فٹ بال،کرکٹ اور کشتی رانی کے اچھے پلیئر تھے۔ عطیہ خون کے ذریعے بھی انسانیت کی خدمت کی بارہا توفیق پائی۔ خدمتِ خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ دریائے چناب میں اگر کبھی کوئی ڈوب جاتا تو احمدی یا غیراحمدی کا فرق کیے بغیر اُس کی لاش تلاش کرنے میں اپنے ساتھیوں کی نگرانی کرتے ہوئے دن رات محنت کرتے اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ نعش کو تلاش نہ کرلیں۔ حضور انور نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی انہوں نے ڈیوٹیاں دی ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ کبھی سامنے آ کر ڈیوٹی دینے کا شوق نہیں تھا۔ کوئی نام و نمود نہیں تھی۔ باوجود انچارج ہونے کے پیچھے رہتے تھے اور اپنے ماتحتوں کو آگے رکھتے تھے۔ مرحوم کی اہلیہ نے بیان کیا کہ شہید نہایت ملنسار، محبت کرنے والے، شاکر، ہمدرد اور دعا گو انسان تھے۔ ہم سب کا بہت خیال رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ سخت رویہ کبھی نہیں اپنایا۔ باوجود تکلیف اور مشکل کے عزیزوں کی خوشیوں میں شامل ہوتے تھے۔ شہادت سے ایک روز قبل بچوں کو صبر، ہمت اور خلافت سے وابستگی کی تلقین کی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبے کے اختتام سے قبل فرمایا کہ قدوس شہید سے ہمیں اور اہل ربوہ کو بھی یہ وعدہ کرنا چاہیے کہ ہم احسان فراموش نہیں ہیں۔ یقیناً انہوں نے جماعت پر بہت زیادہ احسان کیا ہے اور محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی۔ ہمیں وہ ان شاءاللہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ حضورانور کے مذکورہ بالا ارشاد کی روشنی میں حضورانور کی منظور ی سے مجلس خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ کے دفتر کا نام شہید مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ’’ایوان قدوس‘‘ رکھ دیا گیا۔ اس موقع پر منعقد ہونے والی تقریب میں مکرم عبدالکریم قدسیؔ صاحب کی یہ مختصر نظم بھی پڑھی گئی: زخموں سے چُور چُور تھا لب پہ گِلہ نہ تھا کیا حوصلہ تھا ماسٹر عبدالقدوس کا مجرم نہ کہہ سکا وہ کسی بےگناہ کو بڑھتا ہی جا رہا تھا تشدّد کا سلسلہ پرواہ اپنی جاں کی نہ بہتے لہو کی تھی پیشِ نظر تھا اس کے فقط عہد بیعت کا اس نے تو صدق صبر کی اعلیٰ مثال سے سفّاک قاتلوں کو بھی حیران کر دیا تھا اس کا جسم قدسیؔ اطاعت سے عطر بیز قربانیوں کی دوڑ میں آگے نکل گیا برادرم محترم عبدالقدوس صاحب کے ساتھ اگرچہ میرا خون کا رشتہ نہیں تھا لیکن اُن کی شہادت پر مجھے یہی احساس ہوا کہ گویا مَیں نے اپنا ایک قریبی عزیز کھودیا ہو۔ یہ احساس اس لیے بھی شدید تھا کہ اُن کا بچپن اور نوجوانی کے کئی سال میری ہمسائیگی میں اور نظروں کے سامنے گزرے تھے۔ اُن کی محنت، دیانتداری اور خلوص نیت کا مَیں دل سے معترف تھا۔ پہلے بطور منتظم اطفال اور بعد میں زعیم خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے خدمت کرتے ہوئے خاکسار نے اُسے اپنے محلّے کے بہترین اطفال اور خدام میں سے ایک پایا۔ اپنے محدود مادی وسائل پر قانع وہ ایسا اطاعت شعار بچہ تھا جس نے کبھی کسی خدمت سے اِعراض کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ جب بھی اور جس خدمت کے لیے بھی اُسے کہا گیا عبدالقدوس نے سعادتمندی سے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھا۔ کبھی کسی جھگڑے یا فساد میں اُس کا نام نہیں آیا۔ کبھی کسی سے بحث نہیں کرتا تھا بلکہ ہنس کر بات ٹال دیا کرتا تھا۔ ادب ملحوظ رکھنا اُس کی فطرت ثانیہ تھی۔ نماز باجماعت کا پابند تھا اور خدمتِ دین میںذاتی مصروفیات کو کبھی حائل نہیں ہونے دیتا تھا۔ بلاشبہ اُس کا شمار اُن بچوں اور نوجوانوں میں کیا جاتا تھا جو ہمہ وقت ہر خدمت کے لیے لبّیک کہنے پر آمادہ رہتے تھے۔ طبعی طور پر خوش مزاج ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں میں بھی مقبول تھا۔ یہ وہ دَور تھا جب پاکستان میں جنرل ضیاءالحق نے احمدیوں کا جینا حرام کررکھا تھا اور ربوہ کے خدام سالہاسال تک روزانہ رات کو حفاظتی ڈیوٹیاں دینے کی خدمت بجالاتے رہے۔ عبدالقدوس ہمہ وقت ہر خدمت کے لیے تیار جاںنثار خدام میں سے ایک تھا۔ خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ میں قریباً دو سال بطور نائب ناظم اشاعت بھی وہ میری ٹیم میں شامل رہا۔ بےشک وہ ایک ایسا قابل بھروسہ نوجوان تھا جس پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کیا جاسکتا تھا۔ محلّہ دار ہونے اور سالہاسال سے اکٹھے دینی خدمات کی توفیق پانے کی وجہ سے ذاتی اعتماد اور محبت کا تعلق بھی اُن کے ساتھ قائم تھا۔ غالباً ۱۹۸۷ء میں ایک روز انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اب مزید پڑھنے کا ارادہ نہیں رکھتے اور کوئی کام شروع کرنا چاہتے ہیں۔ شاید اُن کے ذاتی اور گھریلو حالات بھی اُنہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کررہے تھے۔ لیکن چونکہ میرے خیال میں اُن کا تعلیم کو خیرباد کہنے کا فیصلہ درست نہیں تھا اس لیے اپنے طور پر اُنہیں سمجھانے کی کافی کوشش کی اور پڑھائی میں مدد دینے کی پیشکش بھی کی۔ لیکن جب وہ اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو پھر مَیں اُن کی خواہش پر اُن کو اپنے ہمراہ فیصل آباد لے گیا جہاں میرے ماموں مکرم ملک ناصر احمد صاحب کا ٹویوٹا گاڑیوں اور سپیئرپارٹس کا کاروبار تھا اور ربوہ سے چند دیگر دوست بھی اُن کے پاس کام کررہے تھے۔ اُن کی ایک فرم K.Z.Motors میں عبدالقدوس صاحب کو ملازمت مل گئی اور رہائش کی جگہ بھی۔ ہفتہ وار رخصت پر وہ ربوہ آجاتے۔ لیکن چونکہ عبدالقدوس صاحب مبتدی تھے، تجربہ بالکل نہیں تھا، عمر بھی چھوٹی تھی اس لیے تنخواہ بھی زیادہ نہیں تھی بلکہ محض گزارہ ہی تھا کیونکہ کھانا بازار سے کھانا پڑتا تھا۔ اُن کی رہائش بھی چونکہ کام کے ساتھ ہی تھی اس لیے ڈیوٹی کا وقت بھی متعیّن نہیں تھا۔ چنانچہ محض چند ماہ کے بعد ہی گرمیوں کی ایک دوپہر وہ میرے ہاں اُس وقت تشریف لائے جب انہیں معلوم تھا کہ محترم ملک ناصر صاحب بھی آئے ہوئے ہیں۔ عبدالقدوس صاحب کہنے لگے کہ ان حالات میں کام کرنے سے تو بہتر ہے کہ وہ اپنی تعلیم ہی جاری رکھیں۔ لیکن چونکہ اُن کے آجر اُن کی دیانتداری اور محنت کے معترف ہوچکے تھے چنانچہ اُنہیں ملازمت چھوڑنے میں مشکل پیش آرہی تھی اور اسی لیے اُنہوں نے مجھ سے مدد مانگی تھی۔ جب مَیں نے اُن کی خواہش محترم ملک ناصر صاحب سے بیان کی تو پہلے تو انہوں نے عبدالقدوس صاحب کی خوبیوں کو سراہا اور اُن کی خواہش اور حالات کا علم ہونے پر فوراً ہی اُن کو دوگنی سے بھی زیادہ تنخواہ کی پیشکش کردی بلکہ مستقبل قریب میں مزید اضافہ کرنے کا وعدہ بھی کیا اور اپنے ساتھ سالہاسال سے کام کرنے والوں کی مثالیں بھی دیں جو اپنے تجربے اور محنت کی بِنا پربہت آسودہ حال تھے۔ دس پندرہ منٹ یہ گفتگو جاری رہی لیکن عبدالقدوس صاحب نے شاید زمانے کی سختی کی جھلک بہت قریب سے دیکھ لی تھی اور اسی لیے وہ اپنی چھوڑی ہوئی تعلیم دوبارہ جاری کرنے پر مُصر تھے۔ چنانچہ یہ مرحلہ بھی طے ہوگیا اور عبدالقدوس صاحب نے ملازمت سے فراغت حاصل کرکے اپنی منقطع تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک آجانے کی وجہ سے اُن کے ساتھ میرا براہ راست رابطہ تو اگرچہ منقطع ہوگیا لیکن اُن کی خدمات کا علم دوستوں کے ذریعے ہوتا رہتا تھا۔ دسمبر۲۰۰۳ء میں مَیں پاکستان گیا تو ایوان محمود ربوہ میں میری اُن سے اتفاقاً ملاقات ہوگئی جب ایک شام مَیں وہاں پہنچا تو چند خدام کے گروپ میں سے نکل کر وہ اچانک میرے سامنے آکھڑے ہوئے۔ لیکن جسمانی طور پر اُن میں اتنی تبدیلی آچکی تھی کہ مَیں اُنہیں پہچان نہیں سکا۔ چند ثانیے خاموشی سے کھڑے رہنے کے بعد مسکراتے ہوئے وہ کہنے لگے: ’’پہچانیا نئیں؟‘‘ (وہ ہمیشہ پنجابی زبان میں گفتگو کرتے تھے)۔ اُن کی آواز سنتے ہی میرے ذہن میں اُن کے نام کی بازگشت سنائی دی اور بےساختہ زبان سے اُن کا نام ادا ہوا اور پھر ہم بغلگیر ہوگئے۔ پندرہ سال کے طویل وقفے کے بعد اچانک ہونے والی یہ ایک مختصر سی ملاقات تھی جو یادگار بن گئی۔ آج مجھے یہ کہنے میں کوئی حجاب نہیں ہے کہ مَیں تو برادرم عبدالقدوس صاحب کو اُس وقت پہچان نہیں پایا تھا۔ لیکن آج اُن کو پہچاننے والے اور بِن مِلے اُن سے محبت کرنے والے اور اُن کی پاک روح پر سلام بھیجتے ہوئے اُن کی نسلوں کے لیے دعائیں کرنے والے لاکھوں افراد خطّۂ ارض پر موجود ہیں۔ برادرم عبدالقدوس صاحب کی شہادت پر مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مکرم بشارت محمود طاہر صاحب نے جو نظم کہی تھی اس کے چند اشعار ہدیۂ قارئین ہیں ؎ بَن پڑا جو بھی مخالف نے ستم رکھا ہے تُو نے قدوسؔ محبت کا بھرم رکھا ہے خوب دکھلائی وفا تُو نے سرِ مقتل بھی کٹ گئے ہاتھ تو سینے پہ عَلَم رکھا ہے تیری خوشبو سے مہک اٹھا ہے ربوہ سارا تیری یادوں نے ہر اِک آنکھ کو نَم رکھا ہے تجھ سے گر پھول ہوں گلشن میں تو اس گلشن پہ مالکِ کُل کا بہت ناز و کرم رکھا ہے خداتعالیٰ شہدائے احمدیت کی پاک روحوں پر بےشمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے ۔وہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس یقینِ محکم پر قائم رہے کہ اُن کی یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی بلکہ اپنی ذات میں نمو پاکر ایسے ثمرات پیدا کرے گی جن کی لذّت اور شیرینی سے نہ صرف اُن کی روح لطف اندوز ہوگی بلکہ آئندہ احمدی نسلیں بھی اُن پر فخر کریں گی اور اُن کے نقوشِ پا پر چلنا سعادت سمجھیں گی۔ اور دشمنِ احمدیت اپنے بدارادوں میں ہمیشہ ناکام و نامراد رہے گا۔ ان شاءاللہ ………٭………٭………٭……… روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۵؍اکتوبر۲۰۱۴ء میں شہدائے احمدیت کے حوالے سے مکرم ابن کریم صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے جس میں سے انتخاب پیش ہے: یہ جذبۂ دل اور یہ جاں سپاریہزاروں مثالوں پہ ہے آج بھاریسنو اپنے معصوم خوں سے ہمیں نےمحمدؐ کے گلشن کی، کی آبیاریعبادت کے دوران بیتِ خدا میںبڑے فخر سے ہم نے کی جاں نثاریشہادت کہاں مفت میں ہم نے پائیادا ہم نے کی اس کی قیمت ہے بھاریخلافت کی خاطر ہی صدق و صفا سےیہاں ہم نے ہے زندگانی گزاریخدا ہر گھڑی ہے ہمارا بھی حافظیہ فیضان اُسی کا رہے ہم پہ جاری صاحبِ عرفان شاعر مکرم چودھری محمد علی صاحب کی ایک غزل روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۷؍نومبر۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے: جاں بکف اشک بجام آئے گینالہ کرتی ہوئی شام آئے گیدر بدر روتی پھرے گی خلقتکوئی تدبیر نہ کام آئے گیشور رُک جائے گا آوازوں کااِک صدا بر سرِ عام آئے گیداغ در داغ جلیں گے سینےیاد یاروں کی مدام آئے گیپھر سرِ دار ہنسے گا منصورزندگی پھر کسی کام آئے گیپھر وہی جشنِ شہیداں ہو گازندگی بہرِ سلام آئے گیشب گزر جائے گی آخر مضطرؔصبح آہستہ خرام آئے گی روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۶؍اکتوبر۲۰۱۴ء کی زینت مکرم ڈاکٹر حافظ فضل الرحمٰن بشیر صاحب کی ایک خوبصورت غزل میں سے انتخاب پیش ہے: رشتۂ جسم و جاں میں بھٹکتے ہوئے قافلے دل پہ آکے ٹھہر جائیں گےمنزلوں تک رسائی ملے گی تو سب نارساؤں کے دن بھی سنور جائیں گےعزت و آبرو ، مال و دولت تو کیا جاں بھی حاضر ہے میرِ سپاہ کے لیےعشق منزل ، جنوں مشعلِ راہ ہے ، ماورائے خرد کام کر جائیں گےجسم و جاں کے زیاں کا کوئی غم نہیں ، کیسے جھکتا ہے سر ہم نہیں جانتےخوں بہا کر مرے شہر میں قاتلو! تم نے سمجھا کہ ہم لوگ ڈر جائیں گےاِک دیا کیا بجھا شہرِ معصوم میں ، ہر گلی موڑ پر ہیں دیے جل اُٹھےشامِ غم کے چراغوں کی لَو کی قسم یہ یقیں ہے کہ تا بہ سحر جائیں گےدل گرفتہ سہی ، دل شکستہ نہیں، ہم بدل دیں گے نفرت کی ہر سوچ کولے کے اپنی محبت کا سیلِ رواں ہم تمہاری رگوں میں اُتر جائیں گےشہرِِ جاناں ترے حُسن کی خیر ہو ہم درِ یار سے دار تک آگئےبےخبر اس گلی میں تو آئے نہیں فیصلہ ہے کہ جاں سے گزر جائیں گے مزید پڑھیں: توجہ اور ارتکاز کے ہائی جیکرز