حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں۔ ہریک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اوّل صدمات کا تختۂ مشق ہوتا ہے۔ مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینہ تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین جو پتھر کی طرح سخت اور درشت معلوم ہوتی تھی سرمہ کی طرح پس جاتی ہے اور ہوا اس کو ادھر ادھر اڑاتی ہے اور پریشان کرتی رہتی ہے اور وہ بہت ہی خستہ شکستہ اور کمزور معلوم ہوتی ہے اور ایک انجان سمجھتا ہے کہ کسان نے چنگی بھلی زمین کو خراب کر دیا اور بیٹھنے اور لیٹنے کے لائق نہ رہی لیکن اس دانا کسان کا فعل عبث نہیں ہوتا۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس زمین کا اعلیٰ جوہر بجز اس درجہ کی کوفت کے نمودار نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسان اس زمین میں بہت عمدہ قسم کے دانے تخم ریزی کے وقت بکھیر دیتا ہے اور وہ دانے خاک میں مل کر اپنی شکل اور حالت میں قریب قریب مٹی کے ہوجاتے ہیں اور ان کا وہ رنگ و روپ سب جاتا رہتا ہے لیکن وہ دانا کسان اس لئے ان کو مٹی میں نہیں پھینکتا کہ وہ اس کی نظر میں ذلیل ہیں۔ نہیں بلکہ دانے اس کی نظر میں نہایت ہی بیش قیمت ہیں بلکہ وہ اس لئے ان کو مٹی میں پھینکتا ہے کہ تا ایک ایک دانہ ہزار ہزار دانہ ہوکر نکلے اور وہ بڑھیں اور پھولیں اور ان میں برکت پیدا ہو اور خدا کے بندوں کو نفع پہنچے۔ پس اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہریک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے۔ تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہوکر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے۔ یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے۔‘‘(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد ۹صفحہ ۵۲تا۵۳)