مختصر تجزیہ ہے کہ کس طرح ہمیشہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہر شورش منظم انداز میں شروع کی جاتی ہے۔ اسے پروان چڑھایا جاتا ہے اور جب فسادات کے بعد ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو یہ سلسلہ رکتا نہیں ہے بلکہ اس کی آڑ میں نئے مطالبات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے جماعت احمدیہ کی مخالفت کا سرسری مطالعہ اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہےکہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں اٹھنے والی شورشوں اور برپا کیے جانے والے فسادات کا آغاز اتفاقی نہیں ہوتا۔ان کو ایک منظم سازش کے تحت شروع کیا جاتا اور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ خواہ ۱۹۵۳ء کے فسادات ہوں یا ۱۹۷۴ء کے فسادات اور ان کے بعد آئین میں کی جانے والی دوسری ترمیم یا ۱۹۸۴ء جنرل ضیاء صاحب کا جاری کیا جانے والا آرڈیننس۔ان سب اقدامات کے پیچھے ایک منظم سازش واضح طور پرنظر آتی ہے۔ اس مضمون میں ہم صرف ۱۹۷۴ء اور اس کے بعد کی دہائی کے تاریخی واقعات کا تجزیہ کریں گے۔ اور یہ تجزیہ کریں گے کہ کس طرح دوسری آئینی ترمیم کی راہ ہموار کی گئی اور اس کی کوکھ سے جنرل ضیاء صاحب کے آرڈیننس نے جنم لیا۔کیا یہ سب کچھ اتفاقی طور پر ہوا تھا؟ بہت سے مؤرخین اور مصنفین جب ان واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ اس روز سے آغاز کرتے ہیں جب ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر ربوہ کے نوجوانوں اور نشتر میڈیکل کالج کے طلبہ کا جھگڑا ہوا اور چند روز میں پورے ملک میں احمدیوں کے خلاف فسادات شروع ہو گئے۔ حکومت پر دبائو پڑا اور پارلیمنٹ نے آئین میں دوسری ترمیم کے ذریعہ احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا۔ ۱۹۷۴ء کے فسادات کا پس منظر پہلے ہم ۱۹۷۴ء سے قبل رونما ہونے والے واقعات کامختصر جائزہ لیتے ہیں۔ ۱۔ ۱۰؍اگست ۱۹۷۰ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ربوہ میں احمدی ڈاکٹروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مغربی افریقہ میں جماعت بہت مضبوط ہوگئی ہے۔ ہم وہاں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اس لیے انہیں پاکستان میں کچل دو تاکہ وہاں پر بھی ان کی سرگرمیوں پر اثر پڑے۔(احمدی ڈاکٹروں سے خطاب از حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ؒ صفحہ ۲۱ شائع کردہ محمد اسمٰعیل منیر سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ پاکستان ۳۰؍مئی ۱۹۷۲ء) ۲۔دسمبر ۱۹۷۱ء میں جنگ کے بعد پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ اتنے بڑے سانحہ کے بعد جب پہلی مرتبہ باقی ماندہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے کام شروع کیا تو دوسرے ہی دن یعنی ۱۵؍اپریل ۱۹۷۲ء کو جب عبوری آئین کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا توجمعیت العلماءپاکستان کے صدر شاہ احمد نورانی صاحب نے اپنی تقریر میں احمدیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کر دیا لیکن اس وقت حکمران جماعت یعنی پیپلز پارٹی نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ ۳۔ اس کے ایک سال بعد ۱۰؍اپریل ۱۹۷۳ء کو قومی اسمبلی نے نئے آئین کی منظوری دی تو اس میں صدر اور وزیراعظم کے حلف ناموں میں ختم نبوت کا حلف نامہ بھی شامل کیا گیا۔ ۴۔ ۲۹؍اپریل۱۹۷۳ء کو آزاد کشمیر اسمبلی نے ایک سفارشی قرارداد منظور کی کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور ریاست کشمیر میں احمدیت کی تبلیغ پر پابندی لگائی جائے۔ اور پاکستان کے بعض سیاستدانوں کے علاوہ رابطہ عالم اسلامی کی سیکرٹری جنرل نے بھی اس کا خیر مقدم کیا۔ ۱۹۷۳ء کی ہنگامی مجلس شوریٰ ۵۔۲۷؍مئی ۱۹۷۳ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ربوہ میں ایک ہنگامی مجلس شوریٰ طلب فرمائی۔اس سےخطاب میں حضور نے جماعت احمدیہ کے نمائندگان کو مطلع فرمایا کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے مخالفین تین قسم کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک منصوبہ دو مخالف سیاسی جماعتوں نے بنایا ہے اور وہ یہ ہے کہ جماعت کے خلاف پورے پاکستان میں فسادات کرائے جائیں اور ان میں احمدیوں کی قتل و غارت کے علاوہ امام جماعت احمدیہ کی جان پر بھی حملہ کیا جائے۔اور یہ خبر مل چکی تھی کہ اس کے ذریعہ ملک میں فسادات کرائے جائیں گے تاکہ ملک کو تباہ کیا جائے اور جماعت کی طرف سے حکومت کو اس سازش کی اطلاع دے دی گئی تھی کہ احمدیت کی مخالفت کی آڑ میں یہ سب کچھ شروع کیا جائے گا اور اصل مقصد ملک کو ختم کرنا ہوگا۔حضورؒ نے فرمایا کہ لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے رؤیا میں دکھایا ہے کہ یہ لوگ ناکام ہوں گے۔اور دوسرا منصوبہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ احمدیوں کو پاکستان میں اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ ان کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں۔حضور نے فرمایا کہ یہ منصوبہ بنانے والے بیوقوف ہیں۔ انہوں نے احمدیوں کو پہچانا ہی نہیں ہے۔اور تیسرا منصوبہ یہ بنایا ہے کہ کچھ منافقوں کو کھڑا کر کے اور انہیں کچھ عمارتیں دلا کر ایک متوازی جماعت قائم کی جائے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ یہ ان مخالفین کی بھول ہے کہ وہ اس طرح کامیاب ہو جائیں گے۔یہ منصوبے بیان کرنے کے بعد حضور نے جماعت کو نصائح فرمائیں کہ ان کے تدارک کے لیے جماعت کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ اس مجلس شوریٰ کی کارروائی میں ممبران کے علاوہ اور کوئی نہیں شامل ہوا تھا اور اس خطاب کو اس وقت شائع نہیں کیا گیا تھا۔ اس کی اشاعت بعد میں ہوئی تھی۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر اس وقت سے اب تک جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اس خطاب میں مستقبل میں جماعت کے خلاف بننے والے مختلف منصوبوں کا خلاصہ بیان کر دیا تھا۔ ہنگامی مجلس شوریٰ میں حضور انورؒ نے بیان فرمایا کہ ان منصوبوں کی اطلاع میڈیا کے اداروں کو بھی ہو چکی ہے اور لندن میں بی بی سی کے افسران یہ معلومات حاصل کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ امام جماعت احمدیہ کے گھر کا اور سڑک کا فاصلہ کتنا ہے اور ربوہ کے فلاں محلہ کے نام کا تلفظ کیا ہے؟جیسے وہ کسی خبر کی توقع کر رہے ہیں۔ رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد ۶۔ جب ۱۹۷۴ء کا آغاز ہوا تو یہ واضح ہونا شروع ہوگیا کہ اس سازش کا تانا بانا ملک سے باہر تیار کر کے پاکستان میں در آمد کیا جا رہا ہے۔اس سال کے آغاز میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس منعقد ہوا۔اس سے قبل یہ اطلاعات مل چکی تھیں اور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہو گئی کہ اس موقع پرمندوبین میں جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ یہ تو بند دروازوں کے پیچھے کیا گیا لیکن اس کانفرنس کے محض ڈیڑھ ماہ کے بعد مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کا ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔اس اجلاس میں ایک سب کمیٹی نے جماعت احمدیہ کے خلاف خوب زہر فشانی کر کے یہ تجاویز منظور کیں۔ ۱۔تمام اسلامی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قادیانی معابد، مدارس، یتیم خانوں اور دوسرے تمام مقامات میں جہاں وہ اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہیں ان کا محاسبہ کریں۔ ۲۔ ان کے پھیلائے ہوئے جال سے بچنے کے لیے اس گروہ کے کفر کا اعلان کیا جائے۔ ۳۔ قادیانیوں سے مکمل عدم تعاون اور مکمل اقتصادی، معاشرتی اور ثقافتی بائیکاٹ کیا جائے۔ ان سے شادی سے اجتناب کیا جائے اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کیا جائے۔ ۴۔ کانفرنس تمام اسلامی ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان کی ہر قسم کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور ان کی املاک کو مسلمان تنظیموں کے حوالے کیا جائے۔ اور قادیانیوں کو سرکاری ملازمتوں میں نہ لیا جائے۔ ۵۔ قادیانیوں کے شائع کیے گئے تحریف شدہ تراجمِ قرآن مجید کی نقول شائع کی جائیں او ران تراجم کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے۔ پاکستان کے سیکرٹری اوقاف ٹی ایچ ہاشمی صاحب اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی اس قرارداد پر دستخط کیے اور صرف سرکاری ملازمتوں میں احمدیوں کو نہ رکھنے والے حصہ سے اختلاف کیا۔ ظاہر ہے کہ ایک وفاقی سیکرٹری حکومت کی مرضی کے بغیر ایسی قرارداد پر دستخط نہیں کر سکتا۔اس قرارداد کا سرسری مطالعہ ہی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ احمدیت کی مخالفت کا ایسا منصوبہ بنایا جا رہا تھا جس کے ذریعہ تمام دنیا میں احمدیت کی مخالفت کی آگ بھڑکائی جائے۔نہ صرف احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے بلکہ ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے۔ اور ان کی جائیدادیں ضبط کر کے دوسری تنظیموں کے حوالے کی جائیں اور خاص طور پر جماعت کی طرف سے شائع کردہ قرآن کریم کے تراجم پر پابندی لگائی جائے۔ فسادات کا آغاز کیا یہ محض اتفاق تھا کہ۶تا ۱۰؍اپریل ۱۹۷۴ء کو اس قرارداد کے منظور ہونے کے صرف چند ہفتے بعد یعنی ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کوپاکستان بھر میں احمدیوں کے خلاف خون ریز فسادات شروع ہو جاتے ہیں؟ یا یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ شروع کرا دیے جاتے ہیں۔ یہ تمام واقعات اور ان کا تسلسل اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ ۱۹۷۴ء میں ایک منظم بین الاقوامی سازش کے ذریعہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک نیا باب شروع کیا جا رہا تھا جس کی جھلکیاں اس وقت سے لے کر اب تک ہمیں مختلف ممالک میں جماعت احمدیہ کے خلاف برپا کیے جانے والی شورشوں میں نظر آتی ہیں۔ جس طرح عیدی امین صاحب کے دور صدارت میں یوگنڈا میں جماعتی اداروں کی املاک کو مسلم سپریم کونسل کے حوالے کر دیا گیا، اور جس طرح آج بھی خاص طور پر پاکستان میں جماعت کی طرف سے شائع کردہ تراجم قرآن کو نشانہ بنا کر ان پر پابندی لگائی جاتی ہے۔ ۱۹۷۴ء میں سپیشل کمیٹی کی کارروائی بہر حال جب رابطہ عالم اسلامی میں تیار ہونے والی اس سازش کے ڈھائی ماہ بعد جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے لیے اس وقت پاکستان کی اپوزیشن نے ایک مشترکہ قرارداد پیش کی تو اس میں لکھا:’’نیز ہرگاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس جو مکۃالمکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی کے زیر انتظام ۶ تا ۱۰؍اپریل ۱۹۷۴ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں دنیا بھر کے مختلف حصوں سے۱۴۰؍مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی۔ متفقہ طور پریہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔‘‘ (کارروائی سپیشل کمیٹی قومی اسمبلی ۱۹۷۴ء صفحہ۱۸۸۳) سپیشل کمیٹی کی کارروائی میں مزید مظالم کا مطالبہ بہر حال آئین میں دوسری ترمیم کر کے یہ دعویٰ کیا گیا کہ ہم نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ہمیشہ کے لیے یہ نوے سالہ مسئلہ حل کر دیا ہے۔ کیا اسمبلی میں یہ فیصلہ کرنے والوں کے نزدیک یہ کافی تھا ؟ یا یہ فیصلہ مزید مظالم کرنے کے لیے محض تمہید تھا اور مزید مظالم کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اس فیصلہ کے دس سال بعد جنرل ضیاء الحق صاحب نے ایک آرڈیننس کے ذریعہ پاکستان میں احمدیوں پر مزید ظالمانہ پابندیا ں لگائیں۔وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہہ سکتے، تبلیغ نہیں کر سکتے، اذان نہیں دے سکتے، مسجد کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور اپنے بزرگان کے لیے رضی اللہ عنہ، اہل بیت، صحابی وغیرہ کی اصطلاحات نہیں استعمال کر سکتے۔ اگر ایسا کریں گے تو انہیں تین سال قید کی سزا ہو گی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ۱۹۷۴ء میں ابھی یہ ترمیم منظور نہیں ہوئی تھی اور اس سپیشل کمیٹی کی اختتامی کارروائی ہو رہی تھی کہ کئی ممبران اسمبلی نے مزید مطالبات شروع کر دیے۔ ان کی نوعیت سمجھنے کے لیے ان مخالف ممبران اسمبلی کے اصل الفاظ درج کیے جاتے ہیں۔ ایک ممبر میاں عطاء اللہ صاحب نے کہا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورت میں اس فتنے کو روکنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ اس جماعت کو سیاسی جماعت declareکیا جائے، اس کو بین کیا جائے اس کا لٹریچر confiscateکیا جائے، کیونکہ ایک سیاسی جماعت جو اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے دین کو استعمال کر رہی ہے اور دین میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کر رہی ہے، ان کوخالی کافر قرار دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔‘‘ اس عقلمند ممبر اسمبلی کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ جس آئین کو اسی اسمبلی نے بنایا تھا اس میں کسی سیاسی جماعت کو بنانے پر پابندی نہیں تھی۔ کوئی عقیدہ رکھنے کی پابندی نہیں تھی۔ اور جہاں تک سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کرنے کا تعلق ہے تواس کاروبار میں جماعت احمدیہ کے مخالفین ہمیشہ سے پیش پیش رہے تھے۔اور اس وقت یہی اسمبلی اپنی واہ واہ کرانے کے لیے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کر رہی تھی۔اس کے بعد ان صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام ان الفاظ پر کیا :’’انہوں نے جو جائیدادیں یہاں بنائی ہیں ان کو اوقاف کا محکمہ لے اور وہ حکومت کی تحویل میں جانی چاہئیں۔‘‘(کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ء صفحہ۲۷۴۶و ۲۷۴۷) ایک اور ممبر مولوی عبدالحق صاحب نے یہ مطالبہ پیش کیا کہ ’’اس لیے میں یہ گذارش کروں گا کہ ان کو کلیدی آسامیوں پرسے ضرور ہٹایا جائے ورنہ صرف غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔‘‘(کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ء صفحہ۲۹۱۹) ملک محمد سلیمان صاحب نے پہلے یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو پاکستان میں تبلیغ کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ پاکستان کا سٹیٹ مذہب اسلام ہے۔پھر چھلانگ مار کر اس نتیجہ پر پہنچے: ’’اس لئے ان کو ایک خلاف آئین جماعت قرار دیا جائے۔‘‘(کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲۶۳۹) اس وقت ممبران اسمبلی میں سے نہ کسی کو یہ یاد آ رہا تھا اور نہ ہی کسی میں یاد کرانے کی ہمت تھی کہ ایک سال قبل ہی انہوں نے جو متفقہ آئین منظور کیا تھا اس کی شق میں یہ بنیادی حق درج تھا کہ قانون کے تابع ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہوگا۔ابھی ملک محمد سلیمان صاحب کی دل کی بھڑاس نہیں نکلی تھی انہوں نے اپنی باغ و بہار تقریر جاری رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر Glory of Islamکے خلاف ہے اس لیے آئین کی رو سے اس کو ضبط کرنا چاہیے۔ اور جماعت کی تمام جائیداد ضبط کر کے اوقاف کہ حوالے کرنی چاہیے۔ اتنا کچھ کہنے کے بعد بھی وہ کچھ تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ عجیب الخلقت مطالبہ پیش کیا :’’جہاں تک بیعت کا تعلق ہے تو بیعت جو ہے یہ نہیں ہو سکتی۔یہ خلاف شرع اور آئین ہے۔ تو یہ بیعت منسوخ فرما دی جائے۔‘‘(کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ء صفحہ۲۰۴۲) ملاحظہ فرمائیں کہ بیعت احمدی کر رہے ہیں اور بیعت کو قبول ان کا امام کر رہا ہے۔اور اس کو منسوخ پاکستان کی قومی اسمبلی کر رہی ہے۔پھر ملک جعفر صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ احمدی جب صحابہ اور ام المومنین جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں تو ہماری دل آزاری ہوتی ہے۔اس کا سد باب ہونا چاہیے۔(کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ء صفحہ۲۶۶۵) جب یہ سب مطالبات پیش ہو چکے تو اس کے بعد تقریر کرنے والے ممبران ان سے زائد کیا مطالبہ کرتے ؟ اس کا حل بھی ایک ممبر مولوی نعمت اللہ شنواری صاحب نے نکال لیا۔ انہوں نے سب کے نہلوں پر اپنا دہلا مارتے ہوئے کہا:’[قبائلی جب مرزا غلام احمد کی تحریروں میں انگریز دوستی اور جہاد دشمنی کی تحریریں پڑھتے ہیں تو ان کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ انہیں قادیانیوں سے جہاد کرنے کی اجازت دی جائے۔…اب بھی ہمارے عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ انہیں قادیانیوں کے خلاف جہاد کرنے کی اجازت دی جائے۔‘‘ (کارروائی سپیشل کمیٹی ۱۹۷۴ء صفحہ ۲۹۸۶) گویا جب سارے حقوق سلب کرنے کے بعد بھی جی نہ بھرے تو پھر پاکستان کی قومی اسمبلی میں یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ہمیں احمدیوں کی قتل و غارت کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے۔جہاں تک جہاد کا تعلق ہے تو مولوی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے تھا کہ صرف تین سال قبل پاکستان کو جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ملک دو لخت ہوگیا تھا۔ اگر ان کے ہمنوا اس وقت جہاد کا شوق پورا فرماتے تو دنیا تسلیم کرتی کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔اور شائع ہونے والی ساری کارروائی گواہ ہے کہ کسی ممبر یا کسی وزیر نے یا سپیکر نے انہیں روکنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ہی یعنی ۱۹۷۴ء میں یہ سازش تیار ہو چکی تھی کہ رفتہ رفتہ احمدیوں کے سارے حقوق سلب کرکے مخالفین کو ان کی قتل و غارت کی کھلی چھٹی بھی دی جائے گی۔ جنرل ضیاء صاحب کے دور میں جو مزید قانونی پابندیاں لگائی گئیں اور جو حالات اس وقت نظر آ رہے ہیں ان سب کا اظہار اس وقت خود پاکستان کی قانون ساز اسمبلی میں کر دیا گیا تھا۔یہ سب مظالم اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی طویل المیعاد منظم سازش کا نتیجہ ہیں۔ اپوزیشن نے جو قرارداد پیش کی اور دوسری آئینی ترمیم کے بعد جو بلند بانگ وعدے کیے گئے ان میں یہی دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس فیصلہ کے ذریعے مسلمانوں کے باقی فرقوں کا دیرینہ مطالبہ تو پورا کیا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ احمدیوں کے حقوق بھی محفوظ ہو جائیں گے۔ لیکن قومی اسمبلی میں داغے جانے والے جن بیانات کا حوالہ دیا گیا ہے، ان سے اصل عزائم واضح ہو جاتے ہیں۔ ۱۹۷۴ء کے بعد مزید مطالبات کا سلسلہ یہ روش صرف ۱۹۷۴ء میں قومی اسمبلی کی اس سپیشل کمیٹی تک محدود نہیں تھی بلکہ اس آئینی ترمیم کے بعد جماعت احمدیہ کے مخالفین ایک منظم انداز میں نت نئے مطالبات پیش کر رہے تھے۔ ان مطالبات کا لب لباب یہ تھا کہ گو ہم نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے لیکن اوّل تو احمدیوں نے اس فیصلہ کو قبول ہی نہیں کیا اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے ہیں۔یعنی فرمائش یہ ہے کہ چونکہ ہم نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے اس لیے احمدی بھی اپنے عقائد اور ضمیر کے خلاف اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھنے لگیں۔ ہم ایک رسالہ یعنی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ترجمان ’لولاک ‘ کے ۱۹۷۶ء کے صرف ایک ماہ کے شماروں سے کچھ حوالے پیش کرتے ہیں۔اب وہ یہ مطالبات پیش کر رہے تھے کہ احمدیوں کے لٹریچر پر پابندی لگائی جائے۔(لولاک ۱۰؍جنوری ۱۹۷۶ء صفحہ ۶)جلسوں میں وفاقی وزیر کی موجودگی میں یہ مطالبات کیے گئے کہ صرف غیر مسلم قرار دینا کافی نہیں احمدیوں پر مزید پابندیاں لگانے کے لیے مزید قوانین بنائے جائیں۔ اور چونکہ احمدیوں نے اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کیا اس لیے وہ ملک کے باغی ہیں۔ ان سے باغیوں جیسا سلوک کیا جائے، اور وفاقی وزیر اعلان کر رہے تھے کہ میں احمدیوں کو کہتا ہوں کہ وہ اس فیصلہ کو قبول کر لیں ورنہ جو کچھ ہو گا ان نتائج کی ذمہ داری ان پر ہو گی۔ظاہر ہے کہ یہ کھلی کھلی دھمکی تھی۔(لولاک ۱۰؍جنوری ۱۹۷۶ء صفحہ ۷) چونکہ ۱۹۷۳ء کے آئین کی شق ۶ میں آئین کو ختم کرنے کو سنگین غداری قرار دیا گیا تھا۔ اس لیے اب احمدیوں کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے لیے جلسوں میں یہ راگ الاپنے کا سلسلہ شروع ہوا کہ چونکہ احمدی اپنے آپ کو غیرمسلم تسلیم نہیں کر رہے ہیں اس لیے وہ اجتماعی طور پر بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اصل میں وہ پاکستان کے دستور کو منسوخ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ ہزاروں احمدی مغربی جرمنی جا کر گوریلا جنگ کی ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔(لولاک ۱۸؍جنوری ۱۹۷۶ء صفحہ۱) اس واویلا کا یہی مقصد تھا کہ کسی طرح احمدیوں کو آئین میں درج بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا جواز ڈھونڈا جائے خواہ وہ کتنا ہی بودا جواز کیوں نہ ہو۔اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگلے سال ہی مارشل لا لگا کر پاکستان کا دستور معطل کر دیا گیا اور یہ جرم کسی احمدی نے نہیں بلکہ جماعت کے شدید دشمن جنرل ضیاء صاحب نے کیا تھا، اور اکثر جماعت مخالف علماء اس وقت جنرل ضیاء صاحب کے درباری علماء کی خدمات سرانجام دے رہے تھے بلکہ ان کی غیر منتخب کابینہ میں ان کے عطا کردہ عہدے بھی قبول کر رہے تھے، اور جن گروہوں نے ملک میں خانہ جنگی شروع کرنے کی کوشش کی وہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لیے مشہور تھے۔ اس کے علاوہ جلسے منعقد کر کے یہ مطالبات کیے جا رہے تھے کہ احمدی ابھی اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہے ہیں اس کے لیے مناسب قوانین بنائے جائیں۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول کے لئے ختم نبوت کا حلف نامہ رکھا جائے۔اور قوانین بنا کر اس بات پر پابندی لگائی جائے کہ وہ اسلامی اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ان مخالفین کا اصرار تھا کہ ان باتوں سے ہم مشتعل ہو جاتے ہیں۔(لولاک ۱۸؍جنوری ۱۹۷۶ء صفحہ۳) جنرل ضیاء کا آرڈیننس جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ ۱۹۷۴ء میں کی جانے والی آئین پاکستان میں دوسری ترمیم کے دس سال بعد جنرل ضیاء نے آرڈیننس ۲۰ کے ذریعہ احمدیوں پر مختلف قسم کی ظالمانہ پابندیاں عائد کر دیں اور اس کے بعد خلیفہ وقت کو پاکستان سے لندن منتقل ہونا پڑا۔لیکن یہ سب کچھ کسی مختصر شورش کے بعد نہیں کیا گیا تھا بلکہ برسوں سے یہ ارادے ظاہر کیے جا رہے تھے۔گواس وقت ہر ذی ہوش یہی گمان کر رہا تھا کہ کون سا ملک اس قسم کی اوٹ پٹانگ پابندیاں عائد کر سکتا ہے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب اقدامات ایک منظم سازش کے نتیجہ میں اور دہائیوں کے پراپیگنڈا کے بعد اٹھائے گئے۔ جماعت احمدیہ کے مخالفین کا عمومی طریقہ یہ ہوتا ہے کہ برسوں زہر فشانی کر کے مخالفت کی آگ بھڑکائی جاتی ہے اور پھر ایک سازش کے تحت ایسا واقعہ کرایا جاتا ہے یا اس طرز اور غلط رنگ میں عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس سے ملک میں فسادات شروع ہو جائیں۔جیسا کہ ۱۹۷۴ء کے فسادات ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر ہونے والے واقعہ کی آڑ لے کر شروع کرائے گئےتھے۔اسی طرح ۱۹۸۴ء کے آرڈیننس سے قبل ایک مخالف مولوی اسلم قریشی کے اغوا کا ڈرامہ شروع ہوا۔ ان صاحب نے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور رہائی کے بعد داڑھی رکھ کر مولانا بن گئے اور دن رات جماعت احمدیہ کے خلاف زہر فشانی کر کے اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ۱۷؍فروری ۱۹۸۳ء کو وہ بھارت کی سرحد کے قریب ایک گائوں معراجکے جانے کے لیے نکلے اور غائب ہوگئے۔اس کے بعد بغیر کسی ثبوت کے پورے ملک میں شور مچا دیا گیا کہ احمدیوں نے اور خاص طور پر امام جماعت احمدیہ نے اسلم قریشی صاحب کو اغوا کر لیا ہے۔ صدر مملکت سے اپیلیں کی گئیں کہ اس مولوی کو بازیاب کرایا جائے۔(نوائے وقت ۲۷؍فروری۱۹۸۳ء) ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے انکشاف کیا کہ مولوی صاحب اتنے دُور اندیش تھے کہ اغوا ہونے سے دو تین ہفتہ قبل پاسپورٹ بنوایا اور گھر سے پاسپورٹ اور کثیر رقم لے کر نکلے تھے، اور گھر سے ایسے خط بھی برآمد ہوئے جس میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے انہیں بیرون ملک بھجوانے کی پیشکش کی تھی۔لیکن مولوی حضرات یہی شور مچاتے رہے کہ اسلم قریشی صاحب کو احمدیوں نے اغوا بلکہ قتل کر دیا ہے۔ (امروز ۱۴؍مارچ ۱۹۸۳ء) (چٹان ۲۱تا۲۸؍مارچ ۱۹۸۳ء صفحہ ۱۴تا ۱۶) پورے ملک میں شور مچایا جا رہا تھا بلکہ جنرل ضیاء صاحب پر بھی یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بھی احمدی ہیں تبھی تو مولوی صاحب بازیاب نہیں ہو رہے۔سعودی علماء بھی مطالبہ کررہے تھے کہ اسلم قریشی کو بازیاب کرایا جائے۔ یہاں تک کہ مخالفین نے یہ اشتہار شائع کیا کہ امام جماعت احمدیہ کو گرفتار کرکے تفتیش کروائو اگر اسلم قریشی نہ بازیاب ہو تو ہمیں پھانسی دے دینا۔ (ختم نبوت کراچی ۱۲تا ۱۸؍نومبر ۱۹۸۳ء صفحہ۴و۵) (ختمِ نبوت کراچی ۱۲تا ۱۸؍نومبر ۱۹۸۳ءصفحہ۱۰) بہر حال ان حالات کی آڑ لے کر ضیاء الحق صاحب نے احمدیوں کے خلاف آرڈیننس کے ذریعہ مزید ظالمانہ پابندیاں عائد کر دیں۔ آخر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ چند سال بعد اسلم قریشی جنہیں شہید کا درجہ دیا جا چکا تھا ایران سے پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے پکڑے گئے۔پھر انکشاف ہوا کہ یہ صاحب اپنے بیوی بچوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر ایران چلے گئے تھے اور وہاں جا کر انہوں نے دوسری شادی بھی کر لی تھی اور اس شادی سے ان کی ایک بیٹی بھی تھی۔ یہ مختصر تجزیہ ہے کہ کس طرح ہمیشہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہر شورش منظم انداز میں شروع کی جاتی ہے۔ اسے پروان چڑھایا جاتا ہے اور جب فسادات کے بعد ان کے مطالبات تسلیم کر لیے جاتے ہیں تو یہ سلسلہ رکتا نہیں ہے بلکہ اس کی آڑ میں نئے مطالبات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ مزید پڑھیں: نبوت اور خلافت کے متعلق جماعت احمدیہ کا موقف