ہماری جماعت پر یہ مصائب مختلف رنگ اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں۔ہم پر وہ وقت بھی آیا کہ جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہو گئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا۔ایسے موقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ سے رجوع کیا اور اسی سے مدد مانگی۔جب ہماری دعائیں اور گریہ و زاری اس مقام تک پہنچ گئی جب عرش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ سنی گئی اور مخالفت ھباء منبثاء ہو کر رہ گئی (المصلح الموعودؓ) مخالفت، الٰہی سلسلوں کی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔ربّانی جماعتوں کی طرح سلسلہ احمدیہ کی ۱۳۶سالہ تاریخ آزمائشوں اور ابتلاؤں سے مرصّع ہے۔ ہر نازک وقت میں دشمن نے یہی سمجھا کہ اب اس جماعت کا خاتمہ ہوا مگر خدا کے قادر اور توانا ہاتھ نے جماعت احمدیہ کو ہر مشکل گھڑی سےنکال کرمزید بلندیوں تک پہنچا دیا۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’یہ مت خیا ل کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیاخدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑادرخت ہو جائے گا پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٰ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔…وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ا ن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔ وہ آخر فتح یاب ہوں گے‘‘۔( رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر۲۰ صفحہ۳۰۹) احرار کی اٹھان اور مذہبی و سیاسی میدان میں شکست ۱۹۳۰ء کی دہائی کے اوائل میں حضرت مصلح موعودؓ نے مسلمانان ہنداورخصوصاً کشمیر یوں کے حقوق کے لیے بصیرت افروز سیاسی خدمات انجام دیں جن کو ہندوستان کے مسلم اور غیرمسلم حلقوں میں شاندار پذیرائی ملی۔ کشمیر کے میدان میں جماعت احمدیہ کی بے مثال کامیابی اور آپؓ کی حکمت عملی کو دیکھتے ہوئے طاقتور غیرمسلم حلقوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نےجماعت کواپنےمستقبل کے لیے خطرہ سمجھا۔ چنانچہ کانگریس اور بعض انگریز افسروں نے غیر احمدی مولویوں کو سیاسی لیڈری کے خوشنما خواب دکھاکر سیاست میں دخیل کیا۔ غیر احمدی مولویوں نے، جو کہ پہلے ہی جماعت احمدیہ سےخار کھائے بیٹھے تھے، اس موقع کو غنیمت جانا اورمخالفت کا طوفان اٹھا کرمیدانِ سیاست میں کود گئے۔ پنجاب کے سرکردہ علماء نےمجلسِ احرارالاسلام کے نام سے تنظیم بنائی اور آپؓ کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کو جڑ سے اکھاڑنے کااعلان کیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا بال بھی بیکا نہ کر سکے اور بُری طرح شکست کھائی۔ سیاسی میدان میں بھی مولویوں کو ناکامی ہوئی۔احرار نےتحریک پاکستان میں کانگرس کا ساتھ دیتےہوئے مسلم لیگ اور قائد اعظم کی سخت مخالفت کی۔ قائد اعظم کو کافر اعظم قراردیا۔ پاکستان کو پلیدستا ن کہا۔ مسلمانانِ ہند احراریوں سے سخت بد ظن ہو گئےاور سیاسی میدان میں بھی ان کو بری طرح دھتکار دیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعدمسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کرنے لگے۔مجلس احرار کا زور پنجاب میں تھا۔ جب ہجرت کے سوا کوئی راہ نہ بچی تو یہ بھی خاموشی سے اپنابوریا بستر سمیٹ کر پاکستان چلے آئے جہاں انہیں غدار کے طعنے سننے کو ملے۔ الغرض ۱۹۴۷ء کی تقسیم اور پاکستان کا قیام احرار کے لیے بہت مایوسی کا پیغام تھا۔ پاکستان میں ہر قسم کا اقتدار اور سیاست مسلم لیگ کی طرف منتقل ہو گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ کی دانشمندانہ قیادت میں جماعت احمدیہ نے قیام پاکستان میں فعال کردار ادا کیا۔ سب سے قابل ذکر کردار حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ کا تھا۔ قائداعظم نے آپ کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ آپؓ نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا اور اقوام متحدہ میں مسلمان ممالک کے لیے شاندار خدمات سر انجام دیں۔ جماعت احمدیہ کی یہ خدمات جہاں تعلیم یافتہ طبقے کو متاثر کر رہی تھیں وہیں مخالفین اور خصوصاًغیراحمدی مولوی حسد کی آگ میں جل رہے تھے۔ پاکستان میں احراریوں کے بدلتے رنگ مذہبی اور سیاسی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے مولویوں نے پھراپنے آزمودہ نسخے یعنی جماعت احمدیہ کو تختہ مشق بنانے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ مئی ۱۹۴۸ء میں فیصل آبا د میں کانفرنس کرتے ہوئے احراریوں نے پاکستان سے اظہارِ وفاداری کرتے ہوئے کہا کہ دراصل جماعت احمدیہ پاکستان کی مخالف ہے جبکہ ماضی میں ان کا اپنا سیاسی کردار پاکستان مخالف تھا۔۱۹۴۹ء میں کینچلی بدلتے ہوئے عطاءاللہ شاہ بخاری نے کہا کہ ہم پاکستان کے مخالف نہیں تھے۔چنانچہ کہا ’’مسلم لیگ سے ہمارا اختلاف صرف یہ تھا کہ ملک کا نقشہ کس طرح بنے۔ یہ نہیں کہ ملک نہ بنے بلکہ اس کا نقشہ کیوں کر ہو۔ یہ کوئی بنیادی اختلاف نہیں تھا۔‘‘نیز اعلان کیا کہ مجلس احرار اب مذہبی اور سماجی کاموں میں سرگرم رہے گی۔ مسئلہ ختم نبوت اس کا بنیادی مسئلہ ہے۔سیاسیات اب ہماری منزل نہیں۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ۱۲) یہ بیانات محض جھوٹ کا پلندہ تھے۔ جماعت مخالف تحریک کی ابتدا ۱۹۵۰ء سے احرار نے سیاست میں اپنے قدم جمانے شروع کردیے۔ مختلف شہروں میں جلسے ہونے لگے۔ اخبارات میں جماعت مخالف جھوٹی خبریں اور مضامین شائع ہونا شروع ہوئے۔جماعت کی طرف جھوٹے عقائد منسوب کیے جاتےاورلوگوں کے جذبات کو انگیخت کیا جاتا۔ کہا جانے لگا کہ ’’احمدی ابتدا سے ہی پاکستان کے مخالف ہیں، احمدی دھڑادھڑ زمینوں کی الاٹمنٹ اپنے نام کروا رہے ہیں۔‘‘کشمیر کے محاذ پر احمدیوں کی کامیابی پر کہا گیا کہ ’’فرقان فورس دراصل اپنے آپ کو مسلح کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ احمدی فوجی افسروں کی لسٹیں شائع کی جاتی ہیں کہ یہ لوگ ایک دن بغاوت کریں گے۔‘‘ بزرگان سلسلہ کے بارے میں بدزبانی کی جاتی۔ چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ مخالفین کی دلآزاریوں اور الزامات کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔(سلسلہ احمدیہ جلد۲ صفحہ ۳۷۷، ۳۷۸) جلسوں میں شبیر عثمانی کا فتویٰ تقسیم کیا جاتا کہ احمدی مرتد ہیں اور مرتد واجب القتل ہے۔اعلان ہوتے کہ جو حضرت مصلح موعودؓیا چودھری صاحبؓ کو قتل کرنے کے لیے تیار ہے وہ اپنے ہاتھ کھڑے کریں۔ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کرنا شروع کر دیا کہ ہم احمدیوں کو قتل کرنے کے لیے تیار ہیں۔(رپورٹ تحقیقاتی عدالت :۱۸۔۲۲)اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب کے کئی مقامات پر معصوم احمدی شہید ہونا شروع ہو گئے۔ مخالفین نے پروپیگنڈا کے لیے اخبارات و رسائل کا خوب سہارا لیا۔ ان اخبارات میں احراری اخبار ’’آزاد، زمیندار،احسان، مغربی پاکستان،تسنیم اور آفاق ‘‘ شامل تھے۔ اخبارات اور مخالف علماء کوپنجاب حکومت کی طرف سے معاوضہ بھی دیا گیا۔علماء سے کالجوں اور سکولوں میں لیکچر دلوائے گئے۔ دولتانہ صاحب نے اس مقصد کے لیے حکومتی سطح پر ایک محکمہ اسلامیات قائم کیا۔(سلسلہ احمدیہ جلد۲صفحہ۳۸۹، ۳۹۰) حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے دعاؤں اور استقامت کی تحریک پاکستان کے حالات کو بدلتے دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ نےقربانیوں اوردعاؤں کی تحریک کی۔۲۳؍جون ۱۹۵۰ءکے خطبہ میں فرمایا: ’’ہمارا یہ خیال کہ ہم صاحبزادوں کی طرح اپنی زندگیاں گزار دیں گے اور گزشتہ نبیوں کی جماعتوں کے سے حالات میں سے نہیں گزریں گے محض ایک دھوکا ہے۔مگر یہ نہایت ہی حیرت انگیز اور قابل افسوس بات ہے کہ میں اب دیکھتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ ہم میں اب یہ احساس پیدا ہو جاتا کہ ہمیں بھی آگ اور خون کی ندیوں میں سے گزرنا پڑے گا۔ہم اس واقعہ کو بھول گئے ہیں اور ہماری جماعت نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔‘‘(الفضل ۵؍جولائی ۱۹۵۰ء) پھر دعاؤں اورعبادات کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہماری جماعت پر یہ مصائب مختلف رنگ اور مختلف زمانوں میں آئے ہیں۔ہم پر وہ وقت بھی آیا کہ جب ہماری مخالفت اتنی شدید ہو گئی کہ اس کا مقابلہ ہماری طاقت سے بالا تھا۔ ایسے موقع پر ہم نے ہمیشہ خدا تعالیٰ سے رجوع کیا اور اسی سے مدد مانگی۔جب ہماری دعائیں اور گریہ و زاری اس مقام تک پہنچ گئی جب عرش بھی ہل جایا کرتا ہے تو وہ سنی گئی اور مخالفت ھباءمنبثاء ہو کر رہ گئی ۔‘‘ اس کے بعد حضور ؓنے ۴۰؍روز دعاؤں اورنوافل اور تہجد کی تحریک فرمائی۔ ہر احمدی کو سات روزے رکھنے کا حکم دیا۔(الفضل ۱۱؍جنوری ۱۹۵۱ء) اخبارات کے مخالف پراپیگنڈا کو دیکھتے ہوئے ۱۹۴۹ء کی ایک میٹنگ میں فرمایا کہ اخبار زمیندار میں شائع ہونے والے جھوٹے مضامین کی مکمل تحقیق کی جائے اورایک اخبار کراچی سے جاری کیا جائے جس میں ہم اپنےسیاسی نظریات پیش کریں۔ پنجاب حکومت اور ممتاز دولتانہ صاحب کے عزائم قیام پاکستا ن میں جماعت احمدیہ کے کلیدی کردار کے باوجود کچھ مسلم لیگی سیاستدان اینٹی احمدیہ فسادات میں مولویوں کے شانہ بشانہ تھے۔ سر فہرست ممتاز دولتانہ صاحب تھے جو مارچ ۱۹۵۱ء میں وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ لیاقت علی خان کے بعداکتوبر ۱۹۵۱ء میں خواجہ ناظم الدین وزیراعظم مقرر ہوئے۔ دولتانہ صاحب کے سیاسی عزائم بلند تھے۔وہ پنجاب کی بجائے مرکز یعنی وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہونا چاہتے تھے۔ اس کےلیےانہوں نے احرار کی تحریک کو بطور سیڑھی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’زمیندار‘‘ کے چیف ایڈیٹر نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ ان کی موجودگی میں دونوں(احراراورمسڑ دولتانہ ) کے درمیان ’’سمجھوتہ یہ ہوا تھا کہ احرار احمدیوں کے خلاف تحریک جاری رکھیں گے اور مسٹر دولتانہ صوبے میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔اس کے بدلے میں احرارکو انتخابات اور دوسرے معاملات میں مسٹر دولتانہ کی حمایت کرنی تھی۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحہ۴۴۳) جماعتی پروگراموں پر حملوں کی ابتدا ۱۹۵۱ء میں ملک بھر میں ختم نبوت کانفرنسز میں تیزی آگئی۔ جماعت کےخلاف بدزبانی کے ساتھ تشدّد پر اکسایا جانے لگا۔ مولویوں کی شرانگیزیوں سے پنجاب کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔مئی ۱۹۵۱ء میں سمندری میں احمدیہ مسجد جلا دی گئی۔ فروری۱۹۵۲ء میں سیالکوٹ جماعت کی طرف سے جلسہ کے انعقاد پر مخالفین جلسہ پر حملہ آور ہوگئے اورپتھراؤ کیا۔ متعدد لوگ زخمی ہو گئے۔۱۹۵۲ء میں کراچی جماعت کے جلسہ میں چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے تقریر کرنی تھی۔مخالفین نے پریس اور عوام میں طوفان اٹھا دیا۔ جلسہ گاہ کے باہر فتنہ و فساد برپا کیا۔ شاملین کو گندی گالیاں دیں اور جلسہ گاہ میں داخل ہو کر فساد کرنے کی کوشش کی۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۳۹اور۷۷)جماعت کی طرف سے متعدد بار کوشش کی گئی کہ متعلقہ سرکاری حکام سے مل کر احراریوں کو روکیں مگر کسی نے مولویوں کو لگام نہ ڈالی۔ مسلمان فرقوں کا اتحاد،مجلس عمل کی تشکیل ۲؍جون ۱۹۵۲ء کو کراچی میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے نام سے مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اجلاس ہوا اور جماعت کے خلاف اتفاق رائے سے مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ۱۳؍جولائی۱۹۵۲ء کو احرار نے لاہور میں مختلف مذہبی جماعتوں کے لیڈروں،پیروں،سجادہ نشینوں اور علماء کومدعو کیا۔ لاہور میں جلسوں کی ممانعت تھی مگر حکام نے عمداً کانفرنس کو نہ روکا۔ کانفرنس میں شامل مذہبی جماعتوں اور قائدین نے مل کر ’’مجلس عمل‘‘ قائم کی۔جنوری ۱۹۵۳ء میں کراچی میں شیعہ،سنی، بریلوی، اہل حدیث کی ۱۴ جماعتوں نے آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کی۔ ( رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ۷۹۔۸۳) جولائی۱۹۵۲ء میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ میں قرارداد منظور ہوئی کہ احمدیوں کو ذمی اقلیت قرار دیا جائے اور مطالبہ کیا کہ اسلامی دستور کو نافذ کیا جا ئے اور اس میں مسلمان اور ذمی کی تعریف کی جائے۔ اسی طرح قادیانیوں کی جداگانہ حیثیت کو واضح کیا جائے۔ مولویوں کے تین بنیادی مطالبات تھے۔ (۱)احمدی غیر مسلم اقلیت قرار دیے جائیں۔ (۲)چودھری ظفرا للہ خان صاحبؓ کو وزیر خارجہ کے عہدے سے ہٹایا جائے۔ (۳)احمدیوں کو تمام کلیدی آسامیوں سے ہٹایا جائے۔ لاہور میں خلاف قانون جلسہ کرنے پر گرفتاریاں ہوئیں تو مولویوں نے دوبارہ قانون شکنی نہ کرنے کے وعدے پر رہائی کی درخواست کی۔ دولتانہ صاحب نے فوراًمقدمات واپس لے لیے۔جس روز مقدمات واپس ہوئے، اسی دن ملتان میں جلوس کو منتشر کرنے والےایک سب انسپکٹر کے خلاف بلوائی جمع ہوئے۔ سب انسپکٹر پر توہین اور گستاخی کا الزام لگایا اور تھانے پر پتھراؤ کیا۔ عمارت کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ پولیس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی جس سے کچھ لوگ ہلاک بھی ہوئے۔(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۹۰،۳۱) مخالفین نے کہنا شروع کیا کہ اگر ہمارے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا گیا تو سرکار کو حکومت چھوڑنی پڑے گی۔ پنجاب حکومت اور ممتاز دولتانہ فسادیوں کے پس پشت ممتاز دولتانہ جو ابھی تک پس پردہ فسادیوں کی حمایت میں تھے اب کھل کر سامنے آ گئے۔لاہور میں انہوں نے کہا: ’’ختم نبوت کے مسئلے میں میرا وہی عقیدہ ہے جو ایک مسلمان کا ہونا چاہیے میرے نزدیک وہ تمام لوگ خارجِ اسلام ہیں جو حضرت رسول کریم ﷺکو آخری نبی نہیں مانتے۔…مرزائیوں کے خلاف جو نفرت پیدا کی گئی ہے اس کی ذمہ داری خود انہی لوگوں پر ہے کیونکہ ان کے رجحانات علیحدگی پسندانہ ہیں۔‘‘(تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء صفحہ ۲۵۔۲۶ )مسلم لیگ پنجاب کی مختلف شاخوں مثلاً سرگودھا،گجرانوالہ،گجرات، جھنگ،ملتان نے مطالبات کے حق میں قراردادیں منظور کیں۔ ان مشکل حالات میں۴ جولائی۱۹۵۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ نےپھر احمدیوں کو دعاؤں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ابتلا ء صبر و صلوٰۃ کے ساتھ دور ہو سکتے ہیں اور خوفِ خدا رکھنے والوں پر یہ بہت مشکل نہیں۔… پس ہماری جماعت کو بھی اس وقت صبر، دعا اور نماز کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔…اگر خدا ہے تو سیدھی بات ہے اس سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں۔اس لیے چاہے جتنی مخالفتیں ہوں، جلسے جلوس ہوں، قتل و غارت ہو، لعنت ملامت ہو،جیتے گا وہی جس کے ساتھ خدا ہوگا۔‘‘ (الفضل ۱۳؍جولائی ۱۹۵۲ء) مولویوں کے وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات اور دھمکی جولائی اور اگست میں مخالفین اختر علی خان کی قیادت میں خواجہ ناظم الدین سے ملے اور مطالبات پیش کیے۔ مخالفین کو اُمید تھی کہ ۱۴؍اگست کو وزیر اعظم ان کے مطالبات مان لیں گے۔مگر وزیر اعظم نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔مجلس عمل نے دوبارہ ملاقات کی مگر وزیر اعظم نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اب مولویوں نے وزیر اعظم کو بھی اپنے نشانہ پر رکھ لیا۔ بہاولپور کے جلسے میں ایک مقرّر نے کہا ’’تم ظفراللہ کو کہتے ہو مگر ناظم الدین کو نہیں کہتے جس نے ظفراللہ کو اپنی گود میں جگہ دے رکھی ہے۔…جب تک ناظم الدین ہے مرزائیت کا استیصال ناممکن ہے ‘‘(سلسلہ احمدیہ جلد۲ صفحہ۴۰۲)اس دوران چوھری صاحبؓ نے وزیراعظم کو ایک سے زائد مرتبہ اپنے استعفیٰ کی پیشکش کی مگر انہوں نے قبول نہ کیا۔ احمدیوں پر مظالم مجلس عمل کا وفد ۲۲؍جنوری ۱۹۵۳ء کو پھر وزیراعظم سے ملا اور اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئےایک مہینے کا نوٹس دیا۔ وزیراعظم کے انکار پر مولویوں نے حکومت کو’’ڈائریکٹ ایکشن‘‘ کی دھمکی دی۔ اپنے خلاف کارروائی نہ دیکھ کرفسادیوں کی جرأت بڑھ چکی تھی۔ پنجاب کے مختلف شہروں میں احمدیوں کا بائیکاٹ، گھروں پر پتھراؤ، احمدیہ مساجد پر حملے شروع ہوگئے۔ قبرستان میں احمدیوں کی تدفین روکتے، جلسے جلوس نکلتے اور لوگوں کو اُکساتے کہ احمدیوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا جائے۔احمدی دکان داروں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ان کی دکانوں کے سامنے ڈیوٹی لگائی جاتی کہ کوئی ان سے سودا سلف نہ خریدے۔ غیر از جماعت دکان داروں کو کہتے کہ احمدیوں کو سامان نہ بیچو۔ بازاروں میں جماعت مخالف بینرز لگائے جاتے۔ پنجاب کے کئی شہروں میں احمدیوں کو شدید مالی نقصان پہنچایا گیا۔ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے زبردستی ہڑتالیں کروائی جاتیں۔ لوگ احمدی گھروں کے باہر نعرے بازی اور بےہودہ ڈانس کرتے۔سکولوں میں اساتذہ اوردیگر بچے احمدی لڑکوں اور لڑکیوں کو مارتے۔ ہر طرف سے احمدیوں کو ارتداد کی پیشکش کی جاتی اور نہ ماننے کی صورت میں دھمکیاں، مارپیٹ اور نقصان پہنچایا جاتا۔ احمدی گھروں کا گھیراؤ ہوتا،تو موقع سےپولیس بھاگ جاتی۔اگر احمدی رپورٹ لکھوانے پولیس کے پاس جاتے تو پولیس ان کا مذاق اڑاتی۔ ان واقعات کی تفصیل الگ کتاب کی متقاضی ہے۔ تاریخ احمدیت جلد ۱۶ میں دو سو صفحات پر احمدیوں کے ساتھ پیش آنے والےدرد ناک واقعات مذکور ہیں۔ الفضل اور دیگر اخبارات پر پابندی حالات بدتر ہونے پروزیراعظم نے ۲۶؍فروری ۱۹۵۳ء کو کابینہ اجلاس میں سرحد اور پنجاب کے نمائندوں کو بھی بلایا۔پنجاب کے گورنر اور وزیر اعلیٰ شامل نہ ہوئے۔ اجلاس میں یہ تجاویز منظور کی گئیں کہ شورش کے لیڈروں کو گرفتار کیا جائے۔ اخبار آزاد، ذمہ دار اور الفضل کی اشاعت کو روکا جائے۔ حضرت مصلح موعودؓ کو تنبیہ کی جائے کہ ربوہ سے باہر نہ جائیں۔(رپورٹ تحقیقاتی عدالت،صفحہ۱۴۷) الفضل پر پابندی لگائی گئی تو حضور ؓنے جماعت کے نام پیغام ارسال فرمایا: ’’الفضل کو ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی۔ اس کا پانی روک دیا گیا ہے پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اس میں سب طاقت ہے۔ ہم مختلف اخباروں اور خطوں کے ذریعے سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاءاللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ … انشاءاللہ فتح ہماری ہے ۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحہ ۲۰۷) فسادات کے دوران جماعتوں سے رابطہ کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی بصیرت افروز کوششیں پُر فتن دور میں الفضل کی بندش کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے جماعت کو صحیح حالات سے آگاہ کرنے کے لیےمرکز میں دفتر اطلاعات قائم کیا گیا۔دفتر اطلاعات کو ہدایت تھی کہ جماعت کے حالات سے احمدیوں کو باخبر رکھے، حوصلے بڑھائے اور گھبراہٹ پھیلنےوالی خبریں نہ دے۔ الفضل کےبعد خطوط کے ذریعہ مختلف جماعتوں سے رابطہ کرنا شروع کیاگیا۔ ۳۰؍مارچ کو کراچی سے ’’المصلح ‘‘ جاری ہوا تو دفتر اطلاعات ختم کر دیا گیا۔ لاہور میں الفضل کے متبادل کے طور پر ہفت روزہ ’’فاروق‘‘ سے کام لینا شروع ہوا۔ اس کا ایک ہی شمارہ نکل سکاجس میں حضور کا پُر شوکت پیغام شائع ہوا۔ بیماری کےباوجود حضرت مصلح موعودؓ مسلسل چھ ماہ رات دو تین بجے تک کام کرتے،جماعتوں کوہدایات بھجواتے۔ جماعتوں کو ہدایت تھی کہ حضورؓ کے پیغامات آگے پھیلاتے جائیں۔ جماعتوں کے صدور اور ذمہ داران کو ہدایت تھی کہ اپنے اپنے علاقے کی خبریں فوری مرکز بھیجیں۔احمدیوں کو ہدایت تھی کہ ہر قسم کے فساد سے بچیں،محفوظ مقامات پر رہیں، ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں اور عند الضرورت مدد کریں۔ ۸؍مارچ کو حضور ؓنے جماعت کے نام اپنے پیغام میں ارشاد فرمایا: ’’ریلوے اورلاریوں میں احمدیوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اصل خطرناک بات یہ ہے کہ اب یہ لوگ اپنے اصل مقصد کی طرف آرہے ہیں۔سرکاری عمارتوں پر اور سرکاری مال پر حملہ کیا جا رہا ہے۔…اس سے ملک دشمنی اور غداری کی روح کا صاف پتہ چلتا ہے۔…خدائی جماعتوں پر یہ دن آیا کرتے ہیں۔پس گھبرانے کی بات نہیں اپنے لیے اور اپنے ملک کیلئے، حکومت کے لیے دعا کرتے رہو۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۶ صفحہ۲۱۳) لاہور اوردیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر فسادات فروری ۱۹۵۳ء میں پنجاب سے فسادی جتھے کراچی بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا جووزیر اعظم اور گورنر جنرل کے گھروں کے سامنے دھرنادیں۔ پولیس کارروائی کرے گی تو دارالحکومت میں فساد برپا ہو جائے گا۔ حسب فیصلہ شورش کے لیڈروں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ لاہور سے کراچی جانے والے فسادیوں کو بھی گرفتار کیا گیا اور کراچی میں بڑے پیمانے پر فساد کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ مفسدوں کا سارا زور اب پنجاب پر تھا جہا ں صوبائی حکومت ان کے پسِ پشت تھی۔ چنانچہ لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، فیصل آباد، منٹگمری (ساہیوال) وغیرہ میں لاقانونیت کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ۲۸؍فروری کو لاہور میں پانچ چھ ہزار کا جلوس نکلا۔ کچھ لوگ گرفتار ہوئے۔ جلسوں پر پابندی کے خلاف کئی شہروں میں ہڑتالیں کی گئیں۔ یکم مارچ کو لاہور میں تین بڑے جلوس نکلے۔پولیس نے روکنے کی کوشش کی تو ہجوم نے اینٹوں،ڈبوں اور بوتلوں کے ساتھ پولیس پر حملہ کر دیا۔ اندرون شہر میں بلوائیوں نے ٹریفک روک کر فسادکیا۔ پولیس نے فائرنگ کر کے ہجوم کو منتشر کیا۔ اسی دوران اخبارات کے ذریعہ خوب جھوٹ پھیلایا جارہا تھا۔ لاہور میں خبر پھیلائی گئی کہ’’پولیس نے توہین قرآن کی ہے۔‘‘، ’’سرگودھا اور جھنگ میں ایک ہزار لوگوں کوگولیاں مارکر ہلاک کر دیا گیا ہے۔‘‘، ’’احمدی موٹر کاروں میں سوار ہو کر گولیاں چلا رہے ہیں۔‘‘ اسی اثنا ء میں بلوائیوں نے دو پولیس افسروں کو اغوا کر لیا اور ان کو چھریاں مارکر ہلاک کر دیا۔ مسجد وزیر خان سے اعلان کیا گیا کہ سرکاری ملازموں نے ہڑتال کر دی ہے۔یہ صورتحال دیکھتے ہوئے لاہور میں کرفیو لگا دیا گیا۔بلوائیوں نے دفعہ ۱۴۴ کی خلاف ورزی کی۔پولیس نے جوابی فائرنگ کی تو جلوس کے چند شرکاء ہلاک ہو گئے۔‘‘(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۵۹۔۱۶۰)ایسے میں احمدی اپنے گھروں تک محصور ہو کر رہ گئے۔ بلوائی خاص طور پر احمدی گھروں، دکانوں، مسجدوں، سکولوں اور کاروباروں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ ۵ اور۶؍مارچ کو فسادات عروج پر پہنچ گئے۔لاہور شہر میں کرفیو کے باوجود بلوائی ہر طرف نکلے ہوئے تھے۔حکومت کی مشینری بے بس تھی۔فسادیوں نے حکومتی عمارتوں، ڈاک خانوں کو لوٹ لیا۔ گاڑیوں کو جلا دیا۔ کاروباری مراکز کو لوٹ لیا۔ بلوائیوں کی سہولت کے لیے یہ حکم جاری کیا گیا کہ پولیس کی طرف سےان پر ہرگز گولی نہ چلائی جائے۔۶مارچ کوبلوائیوں نے مختلف علاقوں کا محاصرہ کر لیا اور اعلان کیا جن پولیس افسران نے گولی چلائی تھی انہیں ان کے حوالے کیا جائے۔ گورنر ہاؤس کی بجلی کاٹ دی گئی۔ ریلوے روک دی گئی۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ ۱۶۶۔۱۶۸) لاہور میں مارشل لاء اور فسادات کا خاتمہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور گورنر نے حالات سنبھالنے کی بجائے وزیراعظم کو فون کال کی کہ حالات بے قابو ہو گئے ہیں۔ لاہور کو بچانے کا واحد راستہ یہی ہے کہ فسادیوں کے مطالبات مان لیے جائیں۔ممتاز دولتانہ چاہتے تھے کہ تحریک ختم نبوت کے مطالبات منوا کر بطور ہیرو سامنے آ ئیں، تاکہ لوگ سمجھیں کہ ان کے دباؤ پر حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔پھر وہ وزیراعظم بن سکیں گے۔ فون کال کے وقت کابینہ کی میٹنگ جاری تھی۔ وزیراعظم نے لاہور میں جنرل اعظم صاحب سے رابطہ کر کے حالات معلوم کیے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حالات خراب ہیں لیکن اگر حکومت ہدایت دے تو فوج ایک گھنٹے میں مارشل لا ءلگا کر حالات قابو میں کر سکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی حکومت کی ہدایت پر لاہور میں مارشل لا ءلگایا گیا۔فوج کے سامنے آتے ہی حالات تیزی سے بہتر ہو گئے،بلوائیوں کے حوصلے پست ہوگئے،متعدد گرفتاریاں ہوئیں۔۸؍مارچ تک لاہور میں امن و سکون بحال ہو گیا۔ جب دولتانہ صاحب کی رپورٹ ریڈیو پر نشر ہوئی توپنجاب میں تاثر لیا گیا کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ چنانچہ سیالکوٹ، گجرانوالہ، فیصل آباد، راولپنڈی، اوکاڑہ وغیرہ میں مزید چند روز فسادات جاری رہے۔تاہم چند ہفتوں میں فوج نے ہر طرف کنٹرول کر لیا۔ دیگر صوبوں اور خاص طور پر سرحد میں حالات پر سکون رہے۔سندھ میں چند ایک واقعات ہوئے مگر عمومی طور پَر امن رہا۔ سرکردہ لیڈروں کی گرفتاری جب شورش کے قائدین کی گرفتاریاں ہونے لگیں تو بڑے بڑے دعوے کرنے والے لیڈر بھاگنے لگے۔ اختر علی خان ایڈیٹر اخبار زمیندارنے وارنٹ گرفتاری دیکھا تو لکھ کر دیا ’’میراشورش سے کوئی تعلق نہیں،مجھے گرفتار نہ کریں اور اپنے گاؤں چلے گئے۔ ‘‘(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ۱۵۳) بعدازاں لوگوں نے لعنت ملامت کی اوراِن کے گھر کا گھیراؤکیا تو واپس لاہور آ کر گرفتاری دی۔ مولانا عبد الستار نیازی وارنٹ گرفتاری کی خبر سن کر چھپ گئے۔ پھر اپنی داڑھی سے نجات حاصل کی اور باہر نکلے تو گرفتار ہو گئے۔ ایک اخبار نے داڑھی کے ساتھ اور بغیر کی تصاویر after اور before کے عنوان سے شائع کر دیں۔ حکومت کی طرف سےامام جماعت پر قدغن اور سلسلہ کے بزرگان کی گرفتاری، ربوہ میں تلاشیاں ۲۷؍مارچ کو گورنر پنجا ب کی طرف سے حضرت مصلح موعود ؓکو حکم دیا گیا کہ وہ احرار اور احمدیوں کے اختلافات اور مخالف تحریک سے متعلق کوئی بیان نہ دیں۔ایک طرف حکومت مفسدوں کی مدد کر تے ہوئے خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ دوسری طرف امام جماعت پر پابندی لگا دی کہ آپ نے کچھ نہیں کہنا۔جب گورنر کا پیغامبر آپؓ کے پاس آیا تو آپؓ نے بڑے جلالی الفاظ میں اس کو فرمایا: ’’بے شک میری گردن آپ کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کرنا تھا کرلیا۔ اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد ۱۶صفحہ۲۴۲) چند روز بعد گورنر کو بر طرف کر دیا گیا۔ آنے والےگورنر نے حضرت مصلح موعودؓپر پابندی کا حکم واپس لے لیا۔ یکم اپریل کو فوج نے لاہور رتن باغ میں خاندان حضرت مسیح موعودؑکے گھروں کی تلاشی لی اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؓ کو خاندانی مرصّع خنجر رکھنے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کو فوج کی طرف سےآرڈر پر بندوقیں بنانے کے لیے ’’بندوق کا سیمپل ‘‘ رکھنے کے مضحکہ خیز الزامات لگا کر گرفتار کرلیا۔ فوجی عدالت نے دونوں بزرگان کو قید بامشقت اور جرمانہ کی سزا سنائی۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو ماہ کے بعد دونوں بزرگان اور دیگر احمدیوں کو بھی رہا کر دیا گیا۔ یکم اپریل کو ہی ڈی ایس پی ضلع جھنگ پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ربو ہ آئے۔ قصر خلافت اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کی تلاشی بھی ہوئی۔ (تاریخ احمدیت جلد ۱۶صفحہ ۲۵۲۔۲۵۴) سیاسی مخالفین کا انجام، مولویوں کی رسوائی حضرت مصلح موعودؓنےفسادات کے دوران ہی مخالفین کے بُرےانجام کی پیشگوئی فرما دی تھی۔فرمایا: ’’یاد رکھو اگر تم نے احمدیت کو سچا سمجھ کرمانا ہےتو تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ احمدیت خدا تعالیٰ کی قائم کی ہوئی ہے۔ مودودی،احراری اور ان کے ساتھی اگر احمدیت سے ٹکرائیں گے تو ان کا حال بھی اس شخص کا سا ہو گا جو پہاڑ سے ٹکراتا ہے۔اگر یہ لوگ جیت گئے تو ہم جھوٹے ہیں۔ اگر ہم سچے ہیں تو یہی لوگ ہاریں گے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد ۱۵صفحہ۴۸۷) جماعت کی مخالفت کو سیاسی سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کا ممتاز دولتانہ کا خواب کبھی پورا نہ ہوا۔ ۲۴؍مارچ ۱۹۵۳ء کو وزیراعظم نے دولتانہ صاحب کو برطرف کر دیا۔ بعدازاں انہوں نے سیاسی جماعت بھی بنائی مگر انتخابات میں عبرتناک شکست ملی۔ زندگی کے آخری ایام میں ان کی سیاسی حیثیت بالکل ختم ہو گئی۔ ۲۲؍اپریل کوگورنر جنرل پاکستان نے گورنر پنجاب چندریگرصاحب کو بھی برطرف کر دیا۔ بعد ازاں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو بھی بر طرف کر دیا گیا۔ احراری مولویوں کا حال اِس سے زیادہ برا ہوا۔ مجلس احرار کا شیرازہ بکھر گیا۔ ۱۹۵۴ءمیں اُس پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔عطاء اللہ شاہ بخاری کے رفقاء اُن کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شامل ہو گئے۔ آخری عمر اور بیماری میں عطا ءاللہ شاہ بخاری کی ناگفتہ بہ حالت قابل عبرت تھی۔تمام ساتھی چھوڑ چھاڑ گئے اوربڑی حسرت میں ان کا انتقال ہوا۔اختر علی خان فرزند مولوی ظفر علی خان بھی بڑی کس مپرسی کی حالت میں دارفانی سے کوچ کر گئے۔ختم نبوت کے نام پراختر علی خان نے بہت سارا چندہ جمع کیا تھا۔بعدا زاں اُن پرساتھیوں نے خرد برد کے الزامات لگائے۔ آخری عمر میں سب جائیدا د برباد ہوگئی۔ بیس تیس سے زائد لوگ بھی جنازہ پڑھنے نہ آئے۔ بہت سے مولو ی گرفتار ہوئے۔مولانا مودودی اور عبد الستارنیازی کومقدمہ کے بعد سزا ئےموت سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔ جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار منیر انکوائری رپورٹ حکومت کی طرف سے فسادات کی وجوہات اور ذمہ داران کی نشاندہی کے لیے جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی عدالت قائم کی گئی۔ کمیشن نے ۸؍ماہ بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔ متعلقہ فریقین اورجماعت احمدیہ کو بھی مدعو کیا گیا۔ جماعت کی طرف سے بزرگان اوروکلاء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے حضرت خلیفۃالمسیحؓ کی زیر نگرانی بڑی محنت سے کام کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔جماعت کے موقف اور حضورؓ کے بیان کی ملکی سطح پر بہت تعریف کی گئی۔عدالت نے جماعت اور غیر احمدیوں سے مسئلہ کفر و اسلام، نبوت مسیح موعودؑ،مسئلہ جنازہ،جہاد،اسلامی حکومت کے متعلق بھی سوالات کیے۔ مولویوں کے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے۔جس پر بعد ازاں نام نہاد علماء کی بہت سبکی ہوئی۔ نمونہ کے طور پر ایک بات بیان کرنا ہی کافی ہے کہ تمام مسلمان مولوی اور فرقے عدالت کے سامنے’’مسلمان ‘‘ کی متفقہ تعریف ہی پیش نہ کر سکے۔یہ رپورٹ بعد ازاں ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔رپورٹ کے مطابق (۱)مجلس احرار(۲) صوبائی مسلم لیگ (۳)جماعت اسلامی(۴)صوبائی حکومت (۵) مجلس عمل (۶) اخبارات(۷)مرکزی حکومت وغیرہ ان فسادات کی ذمہ دار تھی۔ جماعت احمدیہ کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والے ان اولین فسادات اور شورش کا پاکستان پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ریاست اور حکومت کی بنیادیں ہل گئیں اورکئی پہلوؤں سے شدید نقصان پہنچا۔ سیاست میں مذہب کو داخل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا،آج تک جاری ہے۔ مساجد کا تقدس پامال ہوا۔ اولین مارشل لاء کے بعد فوج کا سیاست میں عمل دخل شروع ہو گیا۔ معاشرے میں شدت پسندی اور سڑکوں پر فیصلے کرنے کی روش جاری ہو گئی جوکہ اب ایساجنّ بن چکی ہے جس کو بوتل میں بند کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل فسادات میں جماعت احمدیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت کے بے پناہ نشانات نظر آئے۔ احمدیوں کی غیر معمولی قربانیوں،صبر و استقامت کے واقعات نے ایمان کو چٹانوں کی طرح مضبوط کر دیا۔جان کے خوف کے باوجود معدودے چند واقعات کے سوا کوئی ارتداد کی طرف نہیں گیا۔اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بہت سے احمدیوں کو محفوظ رکھا۔ تاریخ احمدیت کے مطابق بہت تھوڑے احمدی شہید ہوئے۔البتہ مالی نقصانات بہت زیادہ ہوا۔لیکن اسی سال جماعت مالی قربانی میں پہلے سے بڑھ گئی۔ عدالت کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخالف نام نہاد مولویوں کی علمیت کا پردہ چاک کردیا، ان کے مابین ایسی پھوٹ پڑی کہ بین الاقوامی طور پربھی ان کو ملامت کی گئی۔ خدا کے نبی اور اس کی جماعت کی توہین کا ارادہ کرنے والوں کو خدا ئے قادر نے ذلیل و رسوا کر دیا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: جماعت احمدیہ کی وجہ تسمیہ