https://youtu.be/75izKzCCC-4 ’’ آپ بھی دعا کرتے رہیں۔ مَیں بھی دعا کرتا ہوں۔ ان شاءاللہ فتح ہماری ہے کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا ہو؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ ان شاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا۔ سمجھ لو کہ وہ میری مد کے لیے دوڑا آرہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے۔ وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں۔ مگر اُس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔ ‘‘(المصلح الموعودؓ) انبیاء کی تاریخ گواہ ہے کہ اُنہیں اور اُن کی جماعتوں کو بہت سے ابتلاؤں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔الہٰی جماعتوں کے مخالفین آپس کے اختلافات بھلا کر اُن پرحملہ آور ہوتے ہیں اور اُن کے مشن کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ آج سے تقریباً ایک سوسال پہلےاحرار اور اُن کے ظاہروپوشیدہ مددگاروں نے جماعت کو مٹانے کے لیے جس قدر منصوبے بنائے اور لوگوں کو احمدیت سے دُور رکھنے کےلیے جو شرم ناک اور اخلاق سوز کوششیں کیں وہ تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔خلافت ثانیہ کے دَور میں جماعت احمدیہ کو ایک خطرناک بیرونی فتنہ کا سامنا کرنا پڑا۔جو فتنہ احرار کے نام سے جماعت کی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ اس مضمون میں اس فتنہ کے اہم محرکات کا جائزہ لیا جائےگا کہ کس طرح مختلف دشمنوں کے ذریعہ اسے پروان چڑھایا گیا۔نیزیہ کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی تائیدونصرت سے جماعت نے اپنے اولوالعزم امام حضرت خلیفۃ المسیح کی مہتم بالشان قیادت میں اس فتنہ کا مقابلہ کیا اور نمایاں فتح حاصل کی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک پیشگوئی مصلح موعود میں ایک علامت ’وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا‘ بیان ہوئی ہے۔حضورؓ خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ اسی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے قبل از وقت جماعت کو متنبہ کررہے تھے کہ وہ زمانہ قریب ہے جس میں رحمانی اور شیطانی طاقتوں کی آخری جنگ مقدر ہے۔ اس لیے جماعت کو بہت ہوشیار اور بیداررہنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت دشمن کا مقابلہ کیا جاسکے۔ چنانچہ حضورؓ نے ۱۹۲۷ءکی مجلس شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’آج سے دس سال کے اندر اندر ہندوستان میں اس بات کا فیصلہ ہوجانے والا ہے کہ کون سی قوم زندہ رہے اور کس کانام و نشان مٹ جائے۔ حالات اس سرعت اور تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں کہ جو قوم یہ سمجھے کہ آج سے ۲۰۔۲۵ سال بعد کام کرنے کے لئے تیار ہوگی وہ زندہ نہیں رہ سکے گی اور جو قوم یہ خیال رکھتی ہے وہ اپنی قبرآپ کھودتی ہے۔ اگر دس سال کے اندر اندر ہماری جماعت نے فتح نہ پائی اور وہ تمام راہیں جو ارتداد کی ہیں بند کرکے وہ دروازے جو اسلام قبول کرنے کے ہیں کھول نہ دیئے تو ہماری زندگی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یاد رکھو کبھی کسی قوم کی مدت خواہ وہ کتنے بڑے نبی سے وابستہ ہو غیر منتہی زمانہ تک نہیں چلتی۔ ‘‘(تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۳۱۶۔ایڈیشن ۲۰۰۷ء۔مطبوعہ قادیان) چنانچہ حضورؓ کے اس کھلے انتباہ کے چندسال بعد جماعت کے خلاف مخالفت کا ایک ایسا زبردست طوفان اٹھنا شروع ہوا جس کا دائرہ صوبہ پنجاب سے ہوتے ہوئے پورے ملک میں پھیل گیا۔ اس فتنہ سے پہلے زیادہ تر مذہبی حلقوں کی طرف سے انفرادی طور پر جماعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوا کرتی تھی لیکن اب احرار کی ملی بھگت سے کانگریس اور حکومت کے کچھ اہلکاروں نے مل کر جماعت کو کچل دینے کی منصوبہ بندی کی اور ہر جگہ فتنہ کی آگ لگا دی۔ کشمیری مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت اور احرار: اب ہم کشمیر تحریک کی بات کرتے ہیں کہ کس طرح دل کے حلیم مصلح موعود نے کشمیریوں کی ناگفتہ بہ اور نازک حالت کو محسوس کرتے ہوئے ڈوگرہ حکومت کے خلاف عملی جدوجہد کا آغازفرمایا تو کانگرس کی لے پالک اور ہمنوا جماعت احرار کو کشمیری مسلمانوں کے حقوق کی کوششیں بالکل پسند نہ آئیں اور انہوں نے کشمیریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا۔یہ بتانا بھی لازم ہے ریاست کشمیر میں مسلمان بہت بڑی اکثریت میں موجود ہیں۔اگر خالص کشمیر کی بات کی جائے تو نوے فیصدکے قریب مسلمان ہیں جبکہ جموں اور دوسرے علاقوں کو ملا کر بھی مسلمانوں کی آبادی کم وبیش ستر فیصدی ہے۔ یہ ریاست ایک عرصے سے ہندوفرمانرواؤں کے قبضہ میں چلی آرہی تھی۔ استبدادی حکومت کے غلبہ کی وجہ سے اس کی مسلمان آبادی بہت دبی ہوئی حالت میں تھی۔ زمینوں پر انہیں مالکانہ حقوق حاصل نہ تھے۔زمین کی فصلوں پر بھی ریاست کا قبضہ تھا وہ اپنی مرضی کے مطابق جو قیمت چاہتی وہ ادا کرتی۔تعلیم میں مسلمان بہت پیچھے تھے۔ ملازمتوں میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔لمبے عرصہ سے ڈوگرہ راج کے ظلم واستبداد کی چکی میں پسنے کی وجہ سے مسلمانوں کی اخلاقی حالت بھی بالکل پست ہوچکی تھی اور وہ غلاموں کی سی زندگی بسر کررہے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو تحریک کشمیر میں عدیم المثال اور معجز نما کامیابیاں عطا فرمائیں۔ کشمیر میں احرار کی فتنہ انگیزیاں:حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کشمیر کمیٹی کی خدمات اور اُس کے کارناموں کا تذکرہ بہت طویل اور ایمان افروز ہے جس کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہندومظالم کے خلاف حقوق کے حصول کی یہ جدوجہد بڑی کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے حوصلے بلند ہورہے تھے اور آزادی کی منزل اُنہیں قریب سے قریب تر دکھائی دینے لگی۔مگر ہندوؤں کو یہ بات کسی بھی طرح پسند نہ آئی اور اُنہوں نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے خلاف اپنے پروپیگنڈہ کا محاذ کھول دیا۔ ہندوؤں کی طرف سے ایسا پراپیگنڈا اگرچہ غیر متوقع بات نہ تھی مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں نے بھی اسلامی بہبود اور ترقی کی اس تحریک کے خلاف محاذ کھول دیا اور احمدیوں کی تبلیغ کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو سبوتاژ کرنا شروع کردیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’کشمیر میں نہایت عمدگی سے کام ہو رہا تھا احرار نے جونہی دیکھا کہ ہمیں کامیابی ہورہی ہے فوراً درمیان میں آکُودے اور اعلان کر دیا کہ کشمیر میں جتھے لے کر چلو۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں انہوں نے بہت کچھ فائدہ اٹھایا اور یقیناً اگر میری طرف سے سارے ہندوستان میں تنظیم نہ ہوئی ہوتی تووہ کبھی اتنے آدمی اکٹھے نہ کرسکتے۔ ‘‘(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۸۷۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍نومبر ۱۹۳۴ء) سیرۃ النبیؐ جلسوں میں فتنہ انگیزی: جماعت احمدیہ کے خلاف احرار کی فتنہ انگیزیاں اس حد تک پہنچ گئی تھیں کہ وہ ہر بات میں مخالفت اور شرارت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ حتٰی کہ اُن کی طرف سے جماعت کی طرف سے منعقد کیے جانے والے سیرت النبی ﷺ کے جلسوں کو روکنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا۔ الفضل قادیان دارالامان میں لکھا ہے:’’اس سال سیرت النبیؓ کے جلسوں کے لیے ۸؍نومبر ۱۹۳۱ءکا دن مقرر تھا۔ اگرچہ ’’زمیندار‘‘ پارٹی کے مسلمان کہلانے والوں نے کئی جگہ ان جلسوں کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ اور ایسی حالت میں کی جبکہ غیر مسلم اصحاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ صفات بیان کررہے اور آپؐ کی بے نظیر شان کے اعتراف میں مصروف تھے۔ لیکن امرت سر میں ان لوگوں نے جلسہ بالکل ہی نہ ہونے دیا۔ اس مقام کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ۲۲؍نومبر کو پھر جلسہ مقرر کیا گیا۔ اس دفعہ بھی ان لوگوں نے شرارت اور فتنہ پردازی کو انتہا تک پہونچا دیا۔ احمدیوں کو بڑی دھمکیاں دیں اور حکام کے آگے جلسہ بند کرنے کےلئے ناک رگڑے۔ لیکن مقررہ تاریخ اور مقررہ وقت پر خددا تعالیٰ کے فضل سے نہایت شاندار جلسہ ہوا۔ اور فتنہ پردازوں کو اپنے تمام منصوبوں سے ناکام ونامراد رہنا پڑا۔‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان ۲۹؍نومبر ۱۹۳۱ءصفحہ ۴کالم ۳) قادیان میں احرار کی فتنہ انگیزی کا آغاز:۱۹۳۴ء جماعت احمدیہ کے لیے بہت مصائب اور مشکلات کا سال تھا۔ جب مجلس احرار نے جماعت کے خلاف ایک نیا محاذ کھول کر فتنہ واَفْساد، سَبّ وشَتْم،ہَزْل واِبْتِذال اُن کی زندگی کا لُبِّ لباب اورلائحہ عمل تھا جس کے ساتھ انہوں نے احمدیت کو مٹانے کا خواب دیکھا۔ یہ دن احمدیوں کے لیے بہت پُر خطر اور نہایت سخت تھے جب دشمن قادیان میں آ داخل ہوا۔احرار کی دروغ گوئی اور فتنہ انگیزداستانوں سے اُس زمانے کےاخبارات ورسائل بھرے پڑے ہیں۔ جن کے مطالعہ سے ہر انصاف پسند اور صداقت کے دلدادہ انسان پر احرار کی حقیقت عریاں ہوجاتی ہے۔ قادیان میں احرار کی فتنہ انگیزی کے متعدد واقعات الفضل کے متعدد پرچوں میں بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔اخبار الفضل ۲۱؍اکتوبر ۱۹۳۴ءصفحہ ۸ پر رقمطراز ہے:قادیان میں احرار کی آمد محض فساد انگیزی کے لیے ہے۔ اور ان کی سرگرمیوں کا سابقہ ریکارڈ اس امر پر شاہد ہے کہ ہر جگہ ان کا مقصد فتنہ انگیزی اور فساد آرائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ قادیان میں جب سے تین چار احراری وارد ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے کئی طرح فساد برپا کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ جماعت احمدیہ کے پیشوا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (رضی اللہ عنہ۔ ناقل) کے خلاف بدزبانی کرنا۔ طرح طرح کے اتہام لگانا۔ احمدیوں کی پرائیویٹ املاک نیز صدرانجمن احمدیہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جائداد پر ناجائز تصرف کرنے کی کوشش کرنا۔ ایسی حرکات ہیں۔ جن سے ذمہ دار حکام ناواقف نہیں ہوسکتے۔ پولیس کے رپورٹروں کی موجودگی میں احراریوں کی طرف سے جس قدر بد زبانی کی جاتی ہے وہ اگر رپورٹروں کی دیانت داری کی نذر نہیں ہوگئی تو آج بھی ریکارڈ پر موجودہوگی۔مگر حیرت ہے کہ ذمہ دار حکام نے ان سب حرکات اور اشتعال انگیریزوں کو اس طرح نظر انداز کررکھا ہے۔ گویا سب کچھ ان کی ایماسے ہورہا ہے۔ جماعت احمدیہ امن وقانون کے احترام کے لیے ان سب باتوں کو انتہائی تحمل اور بردباری سے برداشت کررہی ہے۔اور آج تک فسادات کے بیسیوں مواقع کو جو خواہ مخواہ احراریوں نے پیدا کیے ٹالتی چلی آرہی ہے۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تکالیف میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اینٹی قادیان ڈے:تحریک کشمیر پر کاری ضرب لگانے کے بعداحرار دوبارہ کانگریس کی سول نافرمانی کی طرف متوجہ ہوئے تو انہوں نے سول نافرمانی کی سب سے بڑی مخالف مذہبی طاقت یعنی جماعت احمدیہ کے خلاف مورچہ بندی کا فیصلہ کرکے ’’اینٹی قادیان ڈے ‘‘ منانے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان احرار نے اپنے نئے جاری شدہ اخبار ’’احرار‘‘ کے ذریعہ سے کیا اور اس کی تائید میں صدر مجلس احرار لاہور اور صدر مجلس احرار ہنددونوں نے مضامین شائع کئے۔ (تاریخ احمدیت جلد ۶ صفحہ ۳۶۷۔ایڈیشن ۲۰۰۷ءمطبوعہ قادیان) ’’اینٹی قادیان ڈے‘‘ سے جماعت احمدیہ کے خلاف جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔احراری لیڈروں نے یہ وضاحت بھی کردی کہ قادیانیت کے خلاف ہماری جنگ مذہبی نہیں خالص سیاسی نوعیت کی ہے۔چنانچہ مولوی ثناءاللہ صاحب امرتسری نے ’’اہلحدیث‘‘ میں لکھا :’’احرار اب کھلے لفظوں میں کہتے ہیں کہ قادیانی گروہ کے ساتھ مسائل کا فیصلہ علماءکی طرف سے ہوچکا ہمارا مقابلہ ان کے ساتھ سیاسی رنگ میں ہے چنانچہ مولوی محمد داؤد غزنوی سیکرٹری مجلس احرار نے جلسہ اہلحدیث کانفرنس کی تقریر میں صاف کہہ دیا تھا کہ مرزائیوں کے ساتھ ہمارا مقابلہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ ‘‘(اہلحدیث ۲۹؍نومبر ۱۹۳۵ءصفحہ ۱۳ کالم ۱۔۲ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۶صفحہ ۳۶۹) احرار کی اشتعال انگیزی اور خلیفۃ المسیح کےقتل کی منصوبہ بندی: احراری خطیبوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات کو خاص طور پر اپنی مخالفت کا مرکز بنالیا اورآپ ؓکے قتل کے لیے اکساتے رہے۔ چنانچہ غزنوی خاندان کے ایک امرتسری مولوی نے ۷؍فروری ۱۹۳۵ء کو ویرووال میں تقریر کرتے ہوئے کہا:عنقریب چند یوم میں خلیفہ قادیان قتل کیا جائے گااور منارہ گرا دیا جائے گا۔ مولوی صاحب نے جوش میں یہاں تک کہہ دیا کہ پولیس اور گورنمنٹ سن لے کہ ہم جلدی خلیفہ قادیان کو قتل کردیں گے جو سنتا ہے وہ جاکر کہہ دے۔(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان ۹؍مارچ ۱۹۳۵ءصفحہ ۶) قتل و غارت کی یہ دھمکیاں رنگ لائے بغیر نہ رہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو قتل کرنے یا زہر دینے کی متعدد بار کوششیں کی گئیں۔ (تاریخ احمدیت جلد ۶صفحہ ۳۷۳۔ ایڈیشن ۲۰۰۷ء) اللہ تعالیٰ نے احرار کی اس دریدہ دہنی، ہنگامہ آرائی اور دھمکیوں کے جواب میں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے قلبِ مطہر پر تحریک جدید کا خیال نازل فرمایا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت سے جماعت احمدیہ ترقیات کے ایک نئے دور میں داخل ہوگئی۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ توخیر کوئی کیا بجاتا، خدا تعالیٰ کی توحید اور آنحضور ﷺ کی پاکیزہ تعلیمات قادیان کی مبارک بستی سےپھیلتے ہوئے زمین کے کناروں تک پہنچنے لگیں۔ دنیا کے مختلف براعظموں میں احمدیہ مشن قائم ہوئے، مساجد تعمیر ہونے لگیں اور مبلغین کے ذریعہ تبلیغ اسلام کادائرہ دنیا بھر میں پھیل گیا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی بصیرت افروزآسمانی قیادت پیشگوئی مصلح موعود میں ایک علامت یہ بیان ہوئی ہے کہ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جو خدا داد بصیرت اور قائدانہ صلاحیتیں عطا فرمائی تھی وہ اس الہام کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جماعت احمدیہ کے خلاف ۱۹۳۴ءمیں مختلف طبقوں کی طرف سے ایک منظم مخالفت کا آغازکردیا گیا۔اس مخالفت کے کئی اسباب تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ان اسباب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس وقت ہمارے خلاف جو فتنہ ہے یہ صرف مذہبی نہیں۔ نہ صرف سیاسی اور نہ صر ف اقتصادی ہے بلکہ یہ مذہبی بھی ہے اور اقتصادی بھی اور سیاسی فتنہ بھی۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۹۳۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶نومبر ۱۹۳۴ء) سیاسی مخالفت کا سبب:حضور رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ میں جماعت کی سیاسی مخالفت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’سیاسی مخالفت کی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہم ’’پین اسلام ازم‘‘ کے مخالف ہیں حالانکہ جب میں یورپ گیا تو راستہ میں عربی ممالک میں اتحادِ اُمَمِ اسلامیہ کی سکیم مَیں نے بنائی۔ جسے بعد میں شیخ یعقوب علی صاحب نے دوسرے سفر کے موقع پر اَور پھیلایا اور پھر ان کے لڑکے شیخ محمود احمد صاحب نے بلادِ اسلامیہ کے سفر میں لوگوں میں اس کی اشاعت کی جس کے نتیجہ میں مؤتمر اسلامی کا اجلاس ہوا۔ پس عالم اسلامی کے اتحاد کا میں بڑے زور سے قائل ہوں مگر میں اس اتحاد کا قائل نہیں جو لڑائیوں اور فتنہ وفساد کیلئے ہو، ہم اخلاق کو درست کرکے اتحاد رکھنے کے قائل ہیں۔ اس امر کے قائل نہیں کہ انگریزوں یا کسی دوسری قوم سے خواہ مخواہ لڑا جائے۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۹۵۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶نومبر ۱۹۳۴ء) مولویوں کی دشمنی کا سبب: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ مولویوں کو جماعت سے جو خدا واسطے کی بیر اور دشمنی ہے اس کاسبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’علاوہ سیاسی مخالفت کے موجودہ فتنہ کے تحت میں مذہبی مخالفت بھی کام کررہی ہے۔ علماء میدانِ دلائل میں شکست کھا چکے ہیں، وفات مسیح کے مسئلہ کو پیش کیا جائے تو جھٹ کہہ دیتے ہیں، اسلام کا اس سے کیا تعلق کہ مسیح ناصری زندہ ہیں یا مرچکے حالانکہ اگر اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں تو یہ لوگ اسی وجہ سے ہم پر کفر کے فتوے کیوں لگاتے رہے ہیں۔ اسی طرح نبوت کامسئلہ ہے سوائے شور مچانے کے اَور کوئی بات نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے پہلے بزرگ خود لکھ چکے ہیں کہ امت محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا سلسلہ جاری ہے اب وہ ردّ کس طرح کریں گالیاں دیں تو اپنے بزرگوں کو بھی پڑتی ہیں۔ غرض میدانِ دلائل میں علماء ہمارے سامنے مات کھا چکے ہیں۔ ‘‘(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۹۷۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶نومبر ۱۹۳۴ء) حضورؓ فرماتے ہیں:’’غرض علماءپر ایک عجیب مصبیت نازل ہے۔ ہم ان سے لڑیں یا نہ لڑیں لوگ جب سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں احمدیوں کے ذریعہ اتنے مسلمان ہوگئے، افریقہ میں اتنے اور امریکہ میں اتنے لوگ داخلِ اسلام ہوئے تو وہ مولویوں سے پوچھتے ہیں کہ تم سوائے کافر بنانے کے اور کیا کام کرتے ہو۔ مولوی جب یہ باتیں سنتے ہیں تو بجز اس کے انہیں کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کہتے ہیں ہم لٹھ تیار کرلیں کہیں احمدی نظر آیا تو اس کا سر پھوڑ دیں گے پھر نہ یہ کمبخت دنیا میں رہیں گے اور نہ لوگ ہمیں ستایا کریں گے۔‘‘ (خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۹۷۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶نومبر ۱۹۳۴ء) آریوں کی دشمنی کی وجہ: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’[جب ملکانا میں ارتداد شروع ہوا اور تھوڑے ہی عرصہ میں یعنی قریباً دو مہینہ کے اندر اندر انہوں نے بیس ہزار آدمی مسلمانوں میں سے مرتد کرلیے تو اس وقت لاہور میں ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ کیا کوئی مسلمان ملکانوں کی خبرگیری کرنے والا نہیں۔ پھر اشتہار دیئے گئے جن میں لکھا گیا تھا کہ احمدی لوگ کہا کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے محافظ ہیں بتائیں کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ بیدار ہوں اور اسلام کی حفاظت کریں۔ اس پر میں نے اپنی جماعت میں اعلان کیا توخدا تعالیٰ کے فضل سے تین سو آدمیوں نے اپنی جانیں پیش کردیں اور ایک ایک وقت میں سو سو مبلغ ہمارا ملکانا میں کام کرتا رہا، ایک لاکھ کے قریب ہمارا روپیہ خرچ ہوااور خدا تعالیٰ کے فضل سے نتیجہ یہ نکلا کہ آریوں کو ہر میدان میں شکست دے دی اور یہ جو اُن کا خیال تھا کہ وہ مسلمانوں میں ایک عام رَو ارتداد کی چلادیں گے غلط ثابت ہوئی۔ گاندھی جی کو جو اس وقت جیل میں تھے، جب یہ حالت معلوم ہوئی تو انہوں نے اس پر اظہارِ ناراضگی کرنا شروع کیا اور سیاسی لیڈروں نے کہنا شروع کیا کہ آپس میں صلح کرلو اور اپنے اپنے مبلغ واپس منگوالو۔ ‘‘(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۹۹،۳۹۸۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶؍نومبر ۱۹۳۴ء) احمدیت کو مٹانے کی ناکام تدبیر: احرار جماعت احمدیہ کی دشمنی میں اس حدتک پہنچے ہوئے تھے کہ اسے صفحہ ٔہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے۔چنانچہ الفضل قادیان نے یہ خبر شائع کی کہ:نہایت موثق ذریعہ سے اطلاع پہونچی ہے کہ ایک سرکردہ احراری نے ایک موقعہ پر کہا:’’ہم نے ایسا انتظام سوچا ہے۔ اور اسے جلد جاری کرنے والے ہیں کہ ہم احمدیوں کو سیاسی طور پر اس قدر تنگ کردیں گے کہ وہ پانچ سال کے اندر یا تو احمدیت کو چھوڑ دیں گے۔ یامٹ جائیں گے۔ بڑے بڑے آدمی اس کام میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۷فروری ۱۹۳۵ءصفحہ۳) روزہ رکھنے اور دعاؤں کی تحریک: حضور رضی اللہ عنہ نے ۸؍مارچ ۱۹۳۵ءکے خطبہ جمعہ میں جہاں جماعت کو مالی جہاد کے ذریعہ شر پسند احرارکے مقابلہ کی دعوت دی،وہیں احباب جماعت کو ہر جمعرات کو روزہ رکھنے اور دعاؤں کی خصوصی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:’’میرا دیر سے ارادہ تھا کہ مَیں جماعت کے لیے ایک اعلان کروں مگر آج ایک الہٰی بشارت کے ماتحت میں چاہتا ہوں کہ فوری طورپر اس کے متعلق اعلان کردیا جائے۔ اس فتنہ کے متعلق جو آج کل ہماری جماعت کے خلاف برپا ہے۔… آج الہٰی بشارت کے ماتحت میں اپنی جماعت کے مخلصین سے کہتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے اور اپنی تکالیف کے متعلق اپیل پیش کرنے کے لیے۔… ہر جمعرات کو روزہ رکھیں۔… سات ہفتوں تک جماعت کے افراد کو چاہئے کہ وہ ہر جمعرات کے دن روزہ رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ ہمیں سچا تقویٰ اور طہارت نصیب کرے اور ان لوگوں کو جو آج کل ہمارے خلاف کھڑے ہیں ہدایت دے یا ان کے ہاتھ بند کردے۔ میں تمہیں دعا بھی بتا دیتا ہوں۔ یہ دعا ان ایام میں خصوصیت سے پڑھو۔اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ یعنی اے خدا!ہم اپنے دشمنوں کی شرارتوں اور ان کی ایذاءرسانیوں کے بد نتائج سے تیری پناہ چاہتے ہیں تو ہی ہمیں ان کے حملوں سے بچا۔وَنَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ اور اے خدا! جب وہ ہم پر حملہ کریں تو تُو ہمارے اور اس حملہ کے درمیان حائل ہوجا اور ہمیں خود اپنی نصرت اور تائید سے اس حملہ سے محفوظ رکھ۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۶صفحہ ۱۹۰۔خطبہ جمعہ فرمودہ ۸؍مارچ ۱۹۳۵ء) ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا جب زمین پر کہرام مچ جاتا ہے تو آسمان پر بھی شور پڑجاتا ہے:حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۲۲؍مارچ ۱۹۳۵ءکے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ دعاؤںمیں لگ جاؤ اور دعاؤں میں وہ رنگ پیدا کرو جس کے بعد اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔…پس سب دعاؤں میں لگ جاؤ اور خصوصاً ہر جمعرات کی رات کو جس دن روزہ رکھنا ہے، سب اُٹھیں خواہ انہوں نے روزہ نہ رکھنا ہو، عورتیں اور بچے بھی دعائیں کریں، جو حائضہ عورتیں نماز نہ پڑھ سکتی ہوں وہ بھی اُٹھ کر دعائیں کریں، گر یہ کریں اور کہیں کہ اے خدا ! ہم ذلیل ہوگئے، ہمیں کچل دیا گیا اس لیے کہ ہم رسول کریم ﷺکا نام بلند کرتے ہیں ہماری عزت پر حملہ کیا گیا ہماری سچائی کی قدر نہیں کی گئی اب ہم تجھ ہی سے التجاء کرتے ہیں کہ ہماری مدد کے لیے اُتر۔راتوں کو بھی اُٹھو جس طرح قیامت خیز زلزلہ کے وقت لوگ اُٹھ بیٹھتے ہیں اور خوب دعائیں کرو۔ جب زمین پر کہرام مچ جاتا ہے تو آسمان پر بھی شور پڑجاتا ہے اور جب ملاءِ اعلیٰ میں اللہ تعالیٰ تحریک کرتا ہے تو زمین اُس کی تابع ہوجاتی ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۶صفحہ ۲۲۲،۲۲۱۔خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍مارچ ۱۹۳۵ء) تحریک جدید کا اجرا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے عین اس وقت جبکہ احراری فتنہ اپنے نقطۂ عروج پر تھا اور احرار معاذاللہ اپنے زعم میں قادیان اور احمدیت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔خد ا تعالیٰ کی مشیّتِ خاص اور اُس کے القاءسے تحریک جدید کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی دینی واشاعتی سرگرمیاں جو پہلے صرف چند ممالک تک محدود تھیں، عالمگیر صورت اختیار کرگئیں اور اس ذریعہ سے تبلیغ اسلام کا ایک زبردست نظام معرضِ وجود میں آگیا۔اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک زبردست شر کے زمانہ میں اپنے موعود بندے کے ذریعہ ایک عظیم الشان تحریک کا آغاز کرواکر اپنا پیارا چہرہ جماعتِ مومنین پر ہُوَیدا کردیا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’عام طور پر دوست یہ خیال کرتے ہیں کہ احراری فتنہ کو دیکھ کر اس کے استیصال کے لیے چند وقتی باتیں میں نے بیان کردی ہیں۔حالانکہ اس کا موجب احراری فتنہ نہیں۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ احرار تو اللہ تعالیٰ نے ایک بہانہ بنا دیا ہے کیونکہ ہر تحریک کے جاری کرنے کے لیے ایک موقع کا انتظار کرناپڑتا ہے۔اور جب تک وہ موقع میسرنہ ہو جاری کردہ تحریک مفید نتائج نہیں پیداکرسکتی۔ ‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان ۸؍فروری ۱۹۳۶ءصفحہ ۱۰کالم ۳،۲) کشتیٔ احمدیت کے کپتان کی عظیم الشان پیشگوئی:حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےخطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍نومبر ۱۹۳۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف احراریوں کے فتنے کے تناظر میں بعض سرکاری افسروں کے غیر منصفانہ رویے کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ اسی خطبہ کے دوران آپؓ نے تحریک جدید کے کامیاب ہونے کی عظیم الشان پیشگوئی فرمائی۔ حضور فرماتے ہیں:’’ہم قانون شکنی بھی نہ کریں گے اور اپنے گزشتہ اصولوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، پھر بھی اپنی ہتک کا ازالہ کراکے چھوڑیں گے۔ لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایسے مقام پر کھڑا کیا جو دنیا کی اصلاح کا مقام ہے اللہ تعالیٰ اسے مسٹر گاندھی اور ان کے ساتھیوں سے زیادہ عقل دیتا اور اس کی تدابیر کو دنیا میں خود کامیاب کرتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ کو آخر تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اس کی غلطی تھی اور ہم حق پر تھے۔ باوجودیکہ ہم نہ تشدد کریں گے اور نہ سول نافرمانی، باوجودیکہ ہم گورنمنٹ کے قانون کا احترام کریں گے، باوجود اس کے کہ ہم ان تمام ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو احمدیت نے ہم پر عاید کی ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ ہم ان تمام فرائض کو پورا کریں گے جو خدا اور اس کے رسول نے ہمارے لئے مقرر کئے پھر بھی ہماری سکیم کامیاب ہوکر رہے گی۔ کشتیٔ احمدیت کا کپتان اس مقدس کشتی کو پُر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچادے گا۔ یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ جن کے سپرد الہٰی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے ان کی عقلیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ سے نور پاتے ہیں۔ اور اس کے فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی رحمانی صفات سے وہ مؤیّد ہوتے ہیں اور گو وہ دنیا سے اُٹھ جائیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے جائیں مگر ان کے جاری کئے ہوئے کام نہیں رکتے اور اللہ تعالیٰ انہیں مفلح اور منصور بناتا ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۵صفحہ ۳۱۹۔فرمودہ ۲؍نومبر ۱۹۳۴ء) تحریک جدید کا اجرازندگی کی بہترین گھڑی: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کے اجراءکواپنی زندگی کی بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی قرار دیتے ہوئے فرمایا:’’بے شک مخلص لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ جب بھی ان کے سامنے بات پیش کی جائے۔ وہ اُس پر توجہ کرتے ہیں مگر عام جماعت میں بیداری پیدا کرنے اور کمزوروں کو بھی متوجہ کرنے کے لیے کسی خاص موقع کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مجھے بھی سالہا سال سے یہ انتظار تھا کہ کوئی ایسی آگ لگے جب ہماری جماعت کا ہر چھوٹا بڑا بیدار ہوجائے اور اس موقعہ پر میں وہ تحریک پیش کروں جو جماعت کو بہ حیثیت جماعت تیرہ سو سال پیچھے لے جائے۔…چنانچہ فتنہ احرار سے فائدہ اُٹھاکر میں نے جماعت کے سامنے تحریک جدید پیش کردی اور میں سمجھتا ہوں۔ تحریک جدید کے پیش کرنے کے موقع کا انتخاب ایسا اعلیٰ انتخاب تھا جس سے بڑھ کر اور کوئی اعلیٰ انتخاب نہیں ہوسکتا۔ اور خدا تعالیٰ نے مجھے اپنی زندگی میں جو خاص کامیابیااں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں ان میں ایک اہم کامیابی تحریک کو عین وقت پر پیش کرکے مجھے حاصل ہوئی۔اور یقیناً میں سمجھتا ہوں جس وقت میں نے یہ تحریک کی۔وہ میری زندگی کے خاص مواقع میں سے ایک موقع تھا۔ اور میری زندگی کی ان بہترین گھڑیوں میں سے ایک گھڑی تھی جبکہ مجھے اس عظیم الشان کام کی بنیاد رکھنے کی توفیق ملی۔ ‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۸؍فروری ۱۹۳۶ءصفحہ۱۱،۱۰) انتہائی تکلیف دہ دَور میں تحریک جدید کا اجرا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ ۱۹۴۳ء کے موقع پر تحریک جدید کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ تحریک ایسی تکلیف کے وقت شروع کی گئی تھی کہ یُوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری طاقتیں جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لیے جمع ہوگئی ہیں۔ ایک طرف احرار نے اعلان کردیا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو مٹادینے کا فیصلہ کرلیا ہے اور وہ اُس وقت تک سانس نہ لیں گے جب تک مٹا نہ لیں۔ دوسری طرف جو لوگ ہم سے ملنے جلنے والے تھے اور بظاہر ہم سے محبت کا اظہار کرتے تھے اُنہوں نے پوشیدہ بغض نکالنے کے لیے اِس موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں روپوں سے اُن کی امداد کرنی شروع کردی۔ اور تیسری طرف سارے ہندوستان نے ان کی پیٹھ ٹھونکی۔ یہاں تک کہ ایک ہمارا وفد گورنر پنجاب سے ملنے کے لیے گیا تو اُسے کہا گیا کہ تم لوگوں نے احرار کی اِس تحریک کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگایا۔ ہم نے محکمہ ڈاک سے پتہ لگایا ہے پندرہ سو روپیہ روزانہ اُن کی آمدنی ہے۔ تو اُس وقت گورنمنٹ انگریزی نے بھی احرار کی فتنہ انگیزی سے متاثر ہوکر ہمارے خلاف ہتھیار اُٹھالیے اور یہاں کئی بڑے بڑے افسر بھیج کر اور احمدیوں کو رستے چلنے سے روک کر احرار کا جلسہ کرایا گیا۔…غرض کیا احرار اور کیا دوسرے مسلمان، کیا گورنمنٹ اور کیا دوسری اقوام سب لوگ ہمارے خلاف کھڑے ہوگئے۔ دوسری اقوام کے اخبارات بھی احرار کی تائید اور حمایت کرتے تھے۔ ایسے وقت میں تحریک جدید کو جاری کیا گیا۔‘‘(بعض اہم اور ضروری باتیں، انوارالعلوم جلد ۱۷صفحہ ۳۳تا۳۵۔ تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۳ء) امانت فنڈ کے ذریعہ احرار کا مقابلہ: تحریک جدید کے ضمن میں ایک اہم سکیم امانت فنڈ کا قیام ہے۔ امانت فنڈ کی تحریک بھی جماعت میں بہت مقبول ہوئی اور مخلصین نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا۔ امانت فنڈ کی تحریک نے احرار اوراس کے بعد آنے والے دوسرے فتنوں کا سر کچلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’امانت فنڈ کے ذریعہ احرار کو خطرناک شکست ہوئی۔ اتنی خطرناک شکست کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ اُن کی شکست میں ۲۵فیصدی حصہ امانت فنڈ کا ہے لیکن باوجود اس قدر فائدہ حاصل ہونے کے دوستوں کا تمام روپیہ محفوظ ہے۔ ‘‘(روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۱۸؍فروری ۱۹۳۸ء صفحہ ۲) تحریک جدید کے لیے دعائیں اور کامیابی:تحریک جدید کی کامیابی کا تمام تر سہرا اُن دعاؤں کے سر ہے جو اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے نے اس کی کامیابی کے لیے مانگیں اور اُن دعاؤں کے نتیجہ میں جماعت میں غیر معمولی اخلاص پیدا ہوا اور وہ تمام مالی مطالبات میں حصہ لینے کے لیے سرگرم ہوگئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’میں نے جب تحریک جدید جاری کی تو مَیں نے جماعت کے دوستوں سے ۲۷؍ہزار کا مطالبہ کیا تھا اور میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا نفس ا س وقت مجھے یہ کہتا تھا کہ ۲۷؍ہزار روپیہ بہت زیادہ ہے یہ جمع نہیں ہوگا مگر میرا دل کہتا تھا کہ اس قدر روپیہ کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ چنانچہ گو میں یہی سمجھتا تھا کہ اتنا روپیہ جمع نہیں ہوسکتا، دینی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے میں نے تحریک کردی اور ساتھ ہی دعائیں شروع کردیں کہ خدایا! ضرورت تو اتنی ہے مگر جن سے میں مانگ رہا ہوں ان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے میں امید نہیں کرتا کہ وہ اس قدر روپیہ جمع کرسکیں تُو خود ہی اپنے فضل سے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کر کہ وہ تیرے دین کی اس ضرورت کو پورا کریں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت نے بجائے ستائیس ہزار کے ایک لاکھ دس ہزار کے وعدے کردیئے۔… اور پھر وصولی بھی ہوگئی۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۰۴،۱۰۳ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ ۳۶) نہایت معاملہ فہم، دُور اندیش اور ہمدرد بزرگ: اب تحریک جدید کی برکات کاکچھ تذکرہ غیروں کی زبان سے سنتے ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرماکراپنے فضلوں کی موسلا دھار بار ش نازل کی کہ اُس نے غیروں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ چنانچہ اخبار ’’رنگین ‘‘امرتسر کے سکھ ایڈیٹر جناب ارجن سنگھ عاجز نے حضور کی اس تحریک پر ایک طویل تبصرہ کیا جس کا ایک حصہ درج ذیل ہے:’’احمدیوں کا خلیفہ اُن کی گھریلو زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور وقتاً فوقتاً ایسے احکام صادر کرتا رہتا ہے جن پر عمل کرنے سے خوشی کی زندگی بسر ہوسکے۔…یُوں تو ہر ایک ریفارمر اور عقلمند اپنے پیروؤں کو اس قسم کا حکم دے سکتا ہے لیکن کونسا ریفارمر ہے جو دعویٰ سے کہہ سکے کہ اس کے سو فیصدی مرید اس کے ایسے حکم کی پوری پوری تعمیل کرنے کے لیے حاضر ہوں گے۔ صرف خلیفہ قادیان کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ایسے مریدوں نے جن کے دستر خوانوں پر درجنوں کھانے ہوتے تھے اپنے خلیفہ کے حکم کے ماتحت اپنے رویّہ میں فوری تبدیلی کرلی ہے۔…ترکِ خواہشات کی سپرٹ ان کے خلیفہ نے جس تدبّر اور دانائی سے اُن کے اندر پھونک دی ہے وہ قابل صدہزار تحسین و آفرین ہے اور ہندوستان میں آج صرف ایک خلیفہ قادیان ہی ہے جو سر بلند کرکے یہ کہہ سکتا ہے کہ اُس کے لاکھوں مرید ایسے موجود ہیں جو اس کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہیں۔ اور احمدی نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ اُن کا خلیفہ ایک نہایت معاملہ فہم، دُور اندیش اور ہمدرد بزرگ ہے جس نے کم ازکم اُن کی دنیاوی زندگی کو بہشتی بنا دیا ہے اور اس کے عالیشان مشوروں پرعمل کرنے سے دنیا کی زندگی عزت و آبرو سے کٹ سکتی ہے۔‘‘(سیر قادیان صفحہ ۱۷تا ۲۰ بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ ۴۱تا ۴۲) صدر مجلس احرار کا اقرار: اخبار ملاپ لاہور نے نام نہاد مسلمان لیڈروں کو احمدیت کے مقابل پر خدمت اسلام کے لیے جس مقابلہ و مسابقہ کی تجویز پیش کی تھی۔ اُس مقابلہ و مسابقہ کا جوحال ہوا وہ احراری لیڈروں ہی کی زبانی سُن لیجئے۔ مولوی حبیب الرحمٰن صاحب لدھیانوی صدر مجلس ِ احرار نے ۲۳؍اپریل ۱۹۳۵ء کومسجد خیر دین (امرتسر) میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’جب تک قادیان میں ہماری مسجد سکول اور جلسہ گاہ نہ ہوگی۔ اس وققت تک میاں محمود پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ اگر تین سال تک مسلمان مجلس احرار کی مدد کریں۔ تو مرزائی تختہ ٔ دنیا سے نیست و بابود ہوجائیں گے۔… ہمارے پاس ایک ایک کوڑی کا حساب ہے۔ اور اگر ہم حساب نہیں دکھلاتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے پاس حساب نہیں ہے۔ ہم نے جو گھر کو اجاڑا۔ بال بچوں کو چھوڑا۔ دنیا برباد کرلی تو کیا ہم اب عاقبت کو بھی برباد کرلیں۔…جہاں ہم میاں محمود کے دشمن ہیں وہاں ہم اس کی تعریف بھی کرتے ہیں۔ دیکھو اس نے اپنی اُس جماعت کو جو کہ ہندوستان میں ایک تنکے کی مانند ہے کہا کہ مجھے ساڑھے ستائیس ہزار روپیہ چاہیئے جماعت نے ایک لاکھ دے دیا ہے۔ اس کے بعد گیارہ ہزار کا مطالبہ کیا تو اُسے دُگنا تگنا دے دیا۔…قادیان میں جائیداد خریدو۔اور مرزائیوں کو وہاں سے نکال دو۔ ہمیں قادیان میں کانفرنس کرنے کے لیے ۵۰ کنال زمین چاہیئے۔ ہماری اسلام کی جنگ نہیں ہے بلکہ روپے کی جنگ ہے۔‘‘(روزنامہ الفضل قادیان ۲۶؍اپریل ۱۹۳۵صفحہ ۴کالم ۴) اللہ تعالیٰ نے احرار کو ہر میدان میں نمایاں شکست دی: احرار ی لیڈروں کی مکروفریب اور دجل سے عوام الناس خوب آگاہ تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اُن کے کاسۂ گدائی میں کچھ ڈالنے کو تیار نہ تھے۔ جبکہ فتنہ و ابتلاء کے اس دَور میں جہاں اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت خلافت احمدیہ کے ساتھ تھی وہیں احبابِ جماعت اُن تائیدات الہٰی کو آسمان سے نازل ہوتا دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اُن کے ایمان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جارہے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدادادفہم و فراست اور بروقت فیصلہ جات کی وجہ سے احرار کو ہر میدان میں نمایاں شکست ہوئی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے خطبہ جمعہ۱۸؍نومبر ۱۹۳۸ءمیں سیاسی میدان میں احرار کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’قادیان کے متعلق دشمن نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ ہم نے اسے فتح کرلیا ہے اور احمدیوں کو بالکل کُچل کر رکھ دیا گیا ہے۔…اور لوگ خیال کرنے لگے تھے کہ شاید یہ لوگ سچ ہی کہہ رہے ہیں اور اب جماعت احمدیہ ختم ہورہی ہے اور اس اثر کا دور کرنا نہایت ضروری تھا۔ پس میں نے چاہا کہ اس علاقہ میں احرار کا ممبری کے لیے کھڑا ہونا ایک خدا تعالیٰ کا پیدا کردہ موقع ہے جسے ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اور ہمیں چاہئے کہ ہم اس موقع پر دنیا کو بتادیں کہ اس علاقہ میں ہماری طاقت باوجود اقلیت ہونے ان سے زیادہ ہے اور اس خیال سے میں نے احمدی امیدوار، باوجود ہمارے بعض دوستوں کے شدید اصرار کے کہ ایسا نہ کیا جائے کھڑا کیا اور یہی جواب دیا کہ اس وقت ہمارے لیے یہ ایک اصولی سوال ہے اور ہم اس ذریعہ سے احرار کے جھوٹے پروپیگنڈہ کو باطل ثابت کرنا چاہتے ہیں اس لیے باوجود آپ لوگوں کے اصرار کے ہم اپنے آدمی کو نہیں بٹھا سکتے۔ چنانچہ جب الیکشن کا نتیجہ نکلا تو بیشک سنت والجماعت کا ایک نمائندہ کامیاب ہوگیا مگر دوسرے نمبر پر احمدی نمائندہ تھا۔ تیسرے نمبر پر احراری اور چوتھے نمبر پر دوسرا سُنّی اب اس نتیجہ کو احرار کہاں چھپا سکتے تھے۔ یہ پبلک کی آواز تھی جو ووٹوں کے ذریعہ ظاہر ہوئی اور اس نے دنیا پر ثابت کردیا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو قادیان کے علاقہ میں کُچل دیا گیا ہے بالکل بے معنیٰ دعویٰ ہے۔ حقیقت اس میں کچھ نہیں۔ پس اس نتیجہ نے احرار کی آواز کو بالکل مدھم کر دیا اور اس کے بعد قادیان کی فتح کا نقارہ بجتے کم ازکم میں نے نہیں سنا۔اس لیے کہ یہ نتیجہ سرکاری افسروں کے سامنے نکلا اور انہوں نے بھی دیکھ لیا کہ احرار کی نسبت جماعت احمدیہ کے نمائندہ کو ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ ایسے بیّن اور کھلے نتیجہ کو کوئی کہاں چھپا سکتا ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے دَور میں زمین صاف کرنے کا موقع دیا اور اِدھر تو حکام پر حقیقت کھل گئی اور اُدھر پبلک پر حقیقت کھل گئی ہمیں جو خدشہ تھا کہ جماعت کی سبکی اور بدنامی نہ ہو وہ جاتا رہا۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۹صفحہ ۷۹۶، ۷۹۷۔سال ۱۹۳۸ء) احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی: اللہ تعالیٰ کے کام بڑے پُر حکمت اوربہت نرالےہوتے ہیں کوئی انسان اُن کو کنہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ جب کُنکا محسور کن نقارہ بجتا ہے تو فیکونکی صدائیں خود بخود بلند ہونے لگتی ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے زعم میں جماعت کو مٹانے کے کھوکھلے نعرے لگا رہے تھے اور اُن کا لیڈر ببانگ دہل یہ اعلان کررہا تھا کہ’’جس نے رسول اللہ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا وہ کبھی نہیں پھولا پھلا۔یہی انجام مرزائیوں کا ہوگا۔‘‘(حیات بخاری صفحہ ۱۰۴۔مصنف خان غازی کابلی۔ناشر احرار فاؤنڈیشن پاکستان طبع سوم ۲۰۰۳ء) ہاں یہ وہی عطاءاللہ شاہ بخاری ہے جس نے ایک جلسہ عام میں یہ جھوٹی پیشگوئی کی تھی کہ’’مرزائیت کے مقابلہ کے لیے بہت سے لوگ اُٹھے۔ لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ یہ میرے ہاتھوں تباہ ہو۔‘‘(حیات بخاری صفحہ ۱۲۷۔مصنف خان غازی کابلی۔ناشر احرار فاؤنڈیشن پاکستان طبع سوم ۲۰۰۳ء) زمین وآسمان کے مالک نے عطاءاللہ شاہ بخاری اور اُس کی جماعت کی تمام رعونت خاک میں ملا کر اُن کا دجل طشت از بام کردیا۔وہ حکومت اور کانگریس کی پشت پناہی کے باوجود ہر میدان میں ناکام ونامراد رہے۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے سامنے اُن کے مکر کچھ کام نہ آئے۔’’مسجد شہید گنج ‘‘ کے معاملہ میں احرار ایسے پھنسے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب بندے سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ کو سوفیصد پورا کردیا۔ احرار کے پاؤں تلے سے زمین ایسی نکلی کہ اُن کے قدم باوجود انتہائی کوشش اور ہزار جدوجہد کے دوبارہ زمین پر نہ جم پائے۔ سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے بلند وبانگ نعروں اوراُن کی پیشگوئی کا جو حشر ہوا۔اُس کاکا فی و شافی جواب اُنہیں کے ایک مشہور احراری لیڈر جناب شورش کاشمیری مدیر چٹان کی تحریر کردہ ایک ڈیڑھ سطر میں موجود ہے۔وہ لکھتے ہیں:’’حقیقۃً احراری اپنی تمام تر صلاحیتوں اور عظیم قربانیوں کے باوجود بدقسمت تھے ان کی مثال بدقسمت جرمن قوم کی سی ہے کہ جان نثاری کے باوجود ہر معرکہ میں ہار اُن کا نوشتہ تقدیر رہی ہے۔‘‘(سید عطاءاللہ شاہ بخاری صفحہ ۱۶۲مؤلفہ شورش کاشمیری طبع اوّل ستمبر ۱۹۵۶ءبحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۶صفحہ ۵۳۰) یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ دنیا ہمارے ہاتھ پر فتح ہوگی: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۱۷؍جنوری ۱۹۳۶ءکے خطبہ جمعہ میں افراد جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:’’دوست احراریوں کے پروپیگنڈہ سے ہوشیار رہیں کیونکہ ایک طرف تو وہ بلا وجہ جماعت کو مایوس کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ فتح ہماری ہے اور جس طرح ہائی کورٹ سے ڈگری حاصل ہوجانے کے بعد کوئی نہیں گھبراتا اسی طرح تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ شہید گنج ایجی ٹیشن شروع ہوئی تو حکومت نے کہہ دیا کہ ہائیکورٹ نے سکھوں کے حق میں فیصلہ کیا ہوا ہے تم اس فیصلہ بدلوالو ہم تمہیں دلادیں گے۔ پس کیا تمہیں خدا کے فیصلہ پر اتنا بھی اعتماد نہیں جتنا ہائی کورٹ کے فیصلہ پر ہوتا ہے اور یہ خدا کا فیصلہ ہے کہ دنیا ہمارے ہاتھ پر فتح ہوگی۔ پس کوئی چِیں کرے یا پِیں، دنیا اسلام کے نام پر ہمارے ہاتھوں فتح ہوگی اور جو لوگ آج مخالف ہیں کَل اسلام اور احمدیت کی صداقت کے قائل ہوکر اسلام اور احمدیت کی شان کے بڑھانے والے ہوں گے۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۷صفحہ ۵۶۔ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍جنوری ۱۹۳۶ء) احرارنے اپنی شکست کو تسلیم کر لیا: روزنامہ اخبار ’’ہندو‘‘ جو بھائی پر مانند جی ایم۔اے کی زیرسرپرستی لاہور سے شائع ہوتا ہے۔ اُس کے ۲۰؍فروری ۱۹۳۶ء کے پرچہ میں جماعت احمدیہ سے احرار کے بغض وکینہ کے متعلق لکھاہے:’’مجاہد‘‘ احرار پارٹی کا آرگن ہے۔ اس کے بس کی بات ہو تو مرزائیوں کو ایک دن کے لیے زمین پر زندہ رہنے کی اجازت نہ دے۔ احمدیوں کے مٹانے کیلئے احرار نے بہتیری کوششیں کیں۔ مولانا مظہر علی اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے ’’مجاہد‘‘ کے ایک پرچہ میں لکھ چکے ہیں۔ ’’کافی انتظار کے بعد میں نے ضروری سمجھا ہے کہ اپنے کارکنوں اور ہمدردوں سے آج (یکم فروری مجاہد) کچھ گزارش کروں۔ تاکہ وہ عین خطرہ کے وقت میں محض اس لئے خواب خرگوش میں مبتلا نہ ہورہیں کہ ان کو یہ گمان ہو کہ ہم کامیاب ہوچکے ہیں۔ مخالف جماعت کے پاس زر اور زور سب کچھ موجود ہے۔ اس کو ایسے حلیف ملے ہیں۔ جو ہر حال میں اس کا ساتھ دیں گے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں اس کی پشت پر ہیں۔‘‘احرار نے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس پر ’’الفضل‘‘ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’خدا تعالیٰ کی بخشی ہوئی توفیق اور اس کے عطا کئے ہوئے اخلاص سے جماعت احمدیہ نے اس جوانمردی اور ایسے استقلال و اخلاص سے اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے کہ ان کے دانت کھٹے کردیئے ہیں۔ معاندین اپنی کثرت پر اپنی دنیوی طاقت پر اپنی چالبازیوں اور فریب کاریوں پر اپنی خفیہ سازشوں اور منصوبہ بازیوں پر نازاں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی مجموعی مخالفت اور معاندت کے سیلاب عظیم میں جماعت احمدیہ تنکے کی طرح بہہ جائے گی۔ اور کہیں اس کا نام ونشان نہ رہے گا۔ مگر اب وہ اپنے آپ کو خطرہ میں سمجھتے ہیں۔اور اپنی ناکامی پر سینہ کوبی کررہے ہیں۔ (روزانہ اخبار ’’ہندو‘‘ ۲۰؍فروری ۱۹۳۶ءبحوالہ روزنامہ الفضل قادیان دارالامان مورخہ ۲۲؍فروری ۱۹۳۶ءصفحہ ۱۲) احرار نے اپنی ناکامی اور نامرادی کی جو وجہ گھڑی ہے وہ اورانہی کی قماش کے لوگوں کا وطیرہ ہے کیونکہ زمینی کیڑے روحانی اُمور اور آسمانی اسرار کو کیوں کر جان سکتے ہیں۔ اُنہیں کیا معلوم کہ جماعت احمدیہ کی پشت پناہی میں نہ تو دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں کھڑی ہیں اور نہ ہی بڑے بڑے سرمایہ دار بلکہ ہماری طاقت کا راز اس نظام میں پنہاں ہے جوزمین وآسمان کے مالک کی مرضی اوراُسی کی منشاسے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی صورت میں جاری ہوا ہے۔ حضورؓ کا وجود مجسم تحریک جدید بن گیا:گزشتہ سطور پر تحریک جدید کی بنا پر ملنے والی جن کامیابیوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن کا تعلق صرف مالی قربانیوں سے ہے جبکہ حقیقت یہ ہےکہ تحریک جدید کے متعدد مطالبات اس کے علاوہ تھے جن پر بڑی تیزی اور سرعت کے ساتھ کام ہورہا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک جدید کے مطالبات پر پوری شان سے عمل کرکے دکھایا اور آپ کی پوری زندگی تحریک جدید کو کامیاب بنانے میں صَرف ہوئی حتّٰی کہ آپ کا مقدس وجود مجسّم تحریک جدید بن گیا تھا۔ تحریک جدید کے ابتدائی ایام میں حضورؓ کی مصروفیات کا یہ عالم تھا کہ کبھی ایک بجے رات سے پہلے سو نہیں سکے اور بعض اوقات صبح تین چار بجے تک کام میں منہمک رہتے۔ حضورؓ کی بے پناہ مصروفیات کی کسی قدر تفصیل آپؓ کے اپنے الفاظ میں درج ذیل کی جارہی ہے:’’۱۸،۱۷؍اکتوبر۱۹۳۴ء سے لے کر آج تک سوائے چار پانچ راتوں کے میں کبھی ایک بجے سے پہلےنہیں سوسکا اور بعض اوقات دو تین چا ر بجے سوتا ہوں۔ بسا اوقات کام کرتے کرتے دماغ معطّل ہوجاتا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب اسلام کا باطل سے مقابلہ ہے تو میرا فرض ہے کہ اسی راہ میں جان دے دوں اور جس دن ہمارے دوستوں میں یہ بات پیدا ہوجائے وہی دن ہماری کامیابی کا ہوگا۔ کام جلدی جلدی کرنے کی عادت پیدا کرو۔ اُٹھو تو جلدی سے اُٹھو۔ چلو تو چُستی سے چلو کوئی کام کرنا ہو تو جلدی جلدی کرو اور اس طرح جو وقت بچے اسے خدا کی راہ میں صَرف کرو۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۶صفحہ ۹۲۔ خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری ۱۹۳۵ء) پس حکومتیں آئیں اور چلی گئیں۔ اندرونی وبیرونی فتنے اُٹھے اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا قافلہ اپنے قافلہ سالاروں کی قیادت اور نگرانی میں ایک بعد دوسری اور بے شمار کامیابیاں سمیٹتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رَواں دَواں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے ساتھ ہے کہ جب جب جماعت کے خلاف کوئی فتنہ اُٹھا وہ اپنی لگائی آگ میں بھسم ہوگیا اور آگ لگانے والے حسرت و ناکامی کی تصویر بنا دیئے گئے۔احرار نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر خود غرض سرمایہ داروں اور کینہ پرور حکام کی مدد سے عوام الناس کو اپنا آلہ کار بنا کر جماعت احمدیہ پر جو جو حملے کیے اُن کی شدت سے کوئی انسان انکار نہیں کرسکتا۔ اُن کے تمام حملے گویامخالف قوتوں کے اجتماعی حملوں کے مترادف تھے جن میں جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا یا جاتا رہا۔ ان حملوں کے دوران ہر ناروا سلوک اورتمام معیوب طریق اختیار کیے گئے۔جماعت کو جانی اور مالی نقصانات پہنچائے گئے۔ یہاں تک کہ بانی جماعت احمدیہ، امام جماعت احمدیہ اور بزرگانِ جماعت کی عزت و آبرو پر شرمناک حملے کئے گئے اوراُن کے خلاف انتہا درجہ بدزبانی سے کام لیا گیا۔ احرار کے بڑے بڑے لیڈروں نے بار ہا یہ اعلان کیا کہ احمدیت جسے وہ مرزائیت کہتے ہیں۔ دم توڑ چکی ہے۔ اس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ پچاس فیصدی احمدی علیحدگی اختیار کرچکے ہیں اور باقی اپنے مرکز سے بد ظن ہوچکے ہیں۔ ۱۹۳۹ءمیں مجلس احرار کے صدر افضل حق صاحب نےفخریہ انداز میں احمدیت کے بارے میں یہ اعلان کیا تھاکہ:’’احرار کا وسیع نظام با وجود مالی مشکلات کے دس برس کے اندراندر اس فتنہ کو ختم کر کے چھوڑے گا۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ جانباز احرار نے کس طرح مرزائیت کو نیم جان کر دیا ہے۔ موجودہ وزارت کے بدلنے کے ساتھ حالات بھی بدلیں گے۔ ملک میں انگریزی اثر و رسوخ جوں جوں کم ہوگا توں توں سرکار کا یہ خود کاشتہ پودا مرجھاتا چلا جائے گا۔‘‘(خطبات احرار جلد اوّل صفحہ ۳۷۔مرتبہ شورش کاشمیری۔شائع کردہ مکتبہ احرار مارچ ۱۹۴۴ء) پس مکار دشمن نے مختلف حیلوں بہانوں اور مکروہ ہتھکنڈوں کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے خلاف ہر شیطانی حربہ استعمال کیا اورتمام شاطرانہ چالیں چلیں لیکن وہ خدا جو ہمیشہ سے اپنے بندوں کی تائیدونصرت فرماتا آرہا ہے اُس نے قدم قدم پر جماعت کو سہارا دیا اور اُس کی تائیدو نصرت کا ہاتھ اُس پر سایہ فگن رہا۔دشمن ناکام ونامراد ہوگئے،حاسد اپنے حسد کی آگ میں جلتے رہے اور احمدیت کا قافلہ اپنی حقیقی منزل کی طرف رواں دَواں رہا اور اکناف عالم میں پھیل گیا۔ حق اور سچ بات یہی ہے کہ تمام فیصلے اللہ ربّ العالمین کے دربار میں ہوتے ہیں اور وہی سب سے بہتر فیصلہ ساز ہے۔ وَمَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (التکویر:۳۰) اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہ جو اللہ چاہے، تمام جہانوں کا ربّ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں رسول کریم ﷺ کی صداقت کی ایک دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے اَفَلَا یَرَوۡنَ اَنَّا نَاۡتِی الْاَرْضَ نَنۡقُصُہَا مِنۡ اَطۡرَافِہَا ؕ اَفَہُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ (الانبیاء:۴۵) پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں ؟تو کیا وہ پھر بھی غالب آسکتے ہیں؟اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل بیان فرمائی ہے کہ دیکھو! ہم مخالفوں کی شرارتوں اور فتنہ وفساد کی آندھیوں کے باوجود سعید روحوں کو نکال نکال کر اپنے مرسل سے وابستہ کررہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا جب ہمارے رسول مقبول ﷺ کو قبول کرنے والوں میں زیادتی نہیں ہورہی اوراسلام کے مخالف دن بدن گھٹتے جارہے ہیں اور مٹے جارہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان کردہ یہی دلیل آنحضرت ﷺ کے ظلّ کامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت پر چسپاں کرکے دیکھیں تو کس صفائی کے ساتھ آپ کی صداقت ثابت ہورہی ہے۔ خدا تعالیٰ روز بروز آپ پر ایمان لانے والوں میں اضافہ کررہا ہے اور آپ کے مخالفین کو گھٹا رہا ہے۔الحمدللہ علیٰ ذالک پڑھ چکے اَحرار بس اپنی کتابِ زندگی ہوگیا پَھٹْ کر ہوا اُن کا حُباب ِ زندگی لُوٹنے نکلے تھے وہ اَمن و سکونِ بیکساں خود اُنہی کے لُٹ گئے حُسن و شبابِ زندگی غفلتِ خوابِ حیاتِ عارضی کو دُور کر ہے تجھے گر خواہشِ تَعْبِیرِ خوابِ زندگی (کلام محمود مَع فرہنگ صفحہ ۲۱۹) مزید پڑھیں: انسان کی پیدائش کا مقصد