https://youtu.be/jBA8xlbrAlc ’’اگر تمہارے نفسانی جوش اور بد زبانیاں ایسی ہیں جیسے تمہارے دشمنوں کی ہیں پھر تم ہی بتاؤ کہ تم میں اور تمہارے غیروں میں کیا فرق اور امتیاز ہوا؟‘‘(حضرت مسیح موعودؑ) اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں الٰہی سلسلوں کا احوال بیان کر کے یہ بات واضح فرما دی ہے کہ جب بھی دنیا کی ہدایت کے لیے انبیاء کی بعثت ہوئی ہے ہمیشہ دنیا ان کی مخالفت میں کھڑی ہوئی ہے اور انبیاء اور ان کے ماننے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں اور ایذارسانی کو انتہا تک پہنچایا ہےلیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ الٰہی جماعتوں کو صبر اور استقامت دکھانے کی ہی تلقین فرمائی ہے۔ صبر و استقامت کے اس میدان میں سب سے آگے خود انبیاء ہی ہوتے ہیں ، اسی لیے روایات میں آیا ہے کہ أَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً الْأَنْبِيَاءُ (بخاری کتاب المرضیٰ) یعنی لوگوں میں سے سب سے زیادہ شدید ابتلا انبیاء پر وارد ہوتے ہیں۔ انبیاء میں بھی حضرت رسول کریم ﷺ کو سب سے زیادہ ابتلاؤں اور مشکلات کے طوفانوں سے گزرنا پڑا۔ بہرحال ہر نبی نے ان ابتلاؤں کے دور میں خود بھی صبر و استقامت کا عظیم نمونہ پیش کیا اور اپنی جماعت کو بھی اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ کا الٰہی پیغام پہنچاتے ہوئے انہیں بھی اسی راہ پر قدم مارنے کی تلقین فرمائی۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اپنے کلام و الہام سے مشرف فرمایا اور خلعت ماموریت سے سرفرازی بخشی۔ آپ کے اعلان کے ساتھ ہی مخالفت کا بازار گرم ہوا اور صحیح بخاری میں درج یہ قول لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُوْدِيَ، یعنی جب کبھی بھی کوئی شخص ایسا پیغام لے کر آیا تو ضرور ہی اس سے دشمنی کی گئی۔ (بخاری کتاب بدء الوحی)آپ کےحق میں بھی یہ قول سچا ثابت ہونے لگا۔ ابھی آپؑ نے دعویٰ ماموریت نہیں کیا تھا اور صرف اپنے الہامات شائع کیے تھے کہ آپ پر ضالّ، کافر، جہنمی وغیرہ جیسے فتوے لگنا شروع ہوگئے اور بعد ازاں وفات مسیحؑ کے اعلان اور اپنے مسیح موعود و مہدی معہود کے دعوے سے تو مخالفت اور عناد کی آگ ہر طرف بھڑکائی جانے لگی اور آپؑ کے خلاف تحریر و تقریر کے ذریعہ زہر اُگلا جانے لگا اور اعلانیہ آپؑ کی اور آپ کی جماعت کی تکفیر کی گئی چنانچہ اس معاندانہ برتاؤ کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ اپنی ایک عربی نظم میں تحریر فرماتے ہیں: تَنَکَّرَ وَجْہُ الْجَاھِلِیْنَ تَغَیُّظًا اِذَا اُعْثِرُوْا مِنْ مَوْتِ عِیْسیٰ وَ اُخْبِرُوْا وَ قَالُوْا کَذُوْبٌ کافِرٌ یَتَّبِعُ الْھَوٰی وَ حَثُّوْا عَلیٰ قَتْلِیْ عَوَامًا وَ عَیَّرُوْا فَضَاقَتْ عَلَیْنَا الْأَرْضُ مِنْ شَرِّ حِزْبِھِمْ وَ لَوْ لَا یَدُ الْمَوْلیٰ لَکُنَّا نُتَبَّرُ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱، صفحہ ۳۲۱) ترجمہ: جاہلوں کا منہ بگڑ گیا مارے غصہ کے جب ان کو حضرت عیسیٰؑ کے مرنے کی خبر دی گئی۔ اور انہوں نے کہا کہ جھوٹا ہے، ہوائے نفسانی کی پیروی کرتا ہے اور میرے قتل کے لیے عوام کو اٹھایا اور سرزنش کی۔ پس ان کے گروہ کی شرارت سے زمین ہم پر تنگ ہوگئی اور اگر خدا تعالیٰ کا ہاتھ نہ ہوتا تو ہم ہلاک ہو جاتے۔ آپؑ نے ہمیشہ سنت انبیاء کے مطابق صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جماعت کو بھی اس کی تلقین فرمائی۔ اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں: ’’اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو۔ خدا ہمیں اور تمہیں اُن باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے۔ آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلاء کا وقت تم پر ہے، اسی سُنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے۔ ہریک طرف سے کوشش ہوگی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہرطرح سے ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی باتیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے۔ اور کچھ آسمانی ابتلا بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ۔ سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو یا گالی کے مقابل پر گالی دو کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہےاور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کرلو ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی ….. خدا بڑی دولت ہے اس کے پانے کے لئے مصیبتوں کے لئے تیار ہو جاؤ۔ وہ بڑی مراد ہے۔ اس کے حاصل کرنے کے لئے جانوں کو فدا کرو۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۵۴۶ تا ۵۴۹) پس ابتدائے دعویٰ سے ہی آپؑ کے خلاف بدزبانی، ایذارسانی، فتویٰ تکفیر، فتویٰ قتل، اقدام قتل وغیرہ کا پُر خطر ماحول بنایا گیا اور مسلمانوں کو اس کام کے لیے مشتعل کیا گیا۔ آریوں اور عیسائیوں کی بدزبانیاں اور ایذارسانیاں اس کے علاوہ تھیں۔ بہرحال آپؑ نے کسی بھی موقع پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور سنت انبیاء کے مطابق ان کے حق میں دعا ہی کی۔ راہِ مولیٰ میں پہنچنے والی تکلیف کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں: ’’جس قدر انسان عالی ہمت اور صابر ہوتا ہے اُسی قدر تکالیف سے آزمایا جاتا ہے۔ بیگانہ جس میں زہر کا تخم ہے، اس لائق ہرگز نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ اُس کو ایسے ابتلا میں ڈالے جس میں صادقوں کو ڈالتا ہے۔ سو مبارک وہی ہیں جن کو خدا درجات عطا کرنے کے لئے دنیا کی تلخیوں کا کچھ مزہ چکھاتا ہے۔ دنیا کی حالت یکساں نہیں رہتی جس طرح دن گزر جاتا ہے، آخر رات بھی اسی طرح گزر جاتی ہے۔ سو جو شخص خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے وہ مصیبت کی رات کو ایسی کاٹتا ہے جیسے کوئی سونے کی حالت میں رات کو کاٹتا ہے۔ اگر پروردگار ایمان کو بچائے رکھے تو مصیبت کچھ چیز نہیں لیکن اگر مصیبت کچھ لمبی ہو اور مدد ایمانی منقطع ہو جائے تو نعوذ باللہ من ذالک۔‘‘(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ ۶۱۲۔ مکتوب بنام میر عباس علی لدھیانوی۔ ایڈیشن جولائی۲۰۰۸ء) دعویٰ مسیحیت کے بعد جولائی ۱۸۹۱ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کا مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا جو جماعتی تاریخ میں ’’الحق‘‘ مباحثہ لدھیانہ کے نام سے معروف ہے۔ اس مباحثہ میں مولوی صاحب اصل موضوع سے ہٹ کر غیر ضروری بحث میں الجھنے لگےاور حضرت صاحبؑ کے خلاف دل آزار کلمات استعمال کرتے رہے۔ حاضرین میں سے ایک صاحب نے اس مباحثہ کی مختصر روداد پیسہ اخبار لاہور میں شائع کرائی جس میں لکھا:’’… بٹالوی مولوی صاحب بمقام لودھیانہ جناب مرزا صاحب سے مباحثہ کیا بلکہ مجادلہ کیا۔ اصل امر زیر بحث کو چھوڑ کر تمہیدات و فروعات کے ذریعہ لیاقت نمائی پر سارا زور دے دیا۔ … مولوی صاحب ایسے غصہ میں آگئے کہ مجسم غصہ بن کر نہایت مکروہ الفاظ جناب مرزا کے بلکہ اپنے حق میں نکالنے لگے بلکہ ’’زن طلاق‘‘ کی گالی یا قسم کا ایسے مولوی صاحب کے منہ سے نکلنا، یہ پہلا موقعہ ہے کہ میں نے سنا ہے۔ … سبحان اللہ! مرزا صاحب کا حوصلہ و تحمل! کوئی بیجا لفظ زبان سے نہیں بولا بلکہ اپنے ساتھیوں کو ہر وقت غصہ اور فساد سے منع فرماتے رہے۔ …‘‘(پیسہ اخبار لاہور ۲۲؍فروری ۱۸۹۲ء صفحہ ۶ کالم ۲، ۳) حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف استہزا، فحش کلامی اور ایذا کا کیا ماحول تھا اس کا ایک نظارہ ہمیں سفر دہلی ۱۸۹۱ء میں دیکھنے کو ملتا ہے جس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت پیر سراج الحق نعمانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’… انہوں نے یہ التزام کیا کہ ’’مرزا کو مسجد میں ہی مار ڈالو۔ بلوہ عام میں کون پوچھتا ہے۔‘‘ … اس روز صبح سے لوگ حضرت اقدس علیہ السلام کے پاس یہ پیغام وقتاً فوقتاً لانے لگے کہ حضرت آپ جامع مسجد میں ہرگز نہ جاویں، فساد ہو جاوے گا …لوگ دہلی کے آپ کے قتل کے درپے ہیں، کسی کے ہاتھ میں چھریاں چاقو اور کسی کے ہاتھ اور دامن اور جیب میں نوکدار پتھر ہیں۔ پتھر ایک دم برسیں گے اور پھر چھریاں چلیں گی … مگر حضرت اقدس علیہ السلام بار بار فرماتے تھے کہ کوئی پرواہ نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے … … جب ہم جامع مسجد کے دروازہ پر جنوب کی جانب پہنچے تو دیکھا کہ مسجد اور مسجد کی سیڑھیاں ڈٹا ڈٹ لوگوں سے بھری ہوئی ہیں … لوگوں کے تیور بدلے ہوئے، آنکھیں سرخ و زرد جوشیلی، چہروں پر خون گویا چھڑکا ہوا۔ …میں نے بعض لوگوں کے دامنوں میں پتھر دیکھے اور یقین کامل ہوگیا کہ آج مسیح ناصری والا دن ہے اور مولوی بڑے بڑے جبے اور عمامے باندھے اور لباس فاخرہ پہنے فریسیوں فقیہوں کی طرح اکڑ اکڑ کے چلتے پھرتے تھے ….‘‘(تذکرۃ المہدی مؤلفہ حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ صفحہ ۲۵۰ تا ۲۵۲) حضرت میاں چراغ الدین صاحب لاہوری رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کے وسعت حوصلہ کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’ایک شخص لاہور میں تھا جو کہ مہدی بنا پھرتا تھا۔ لوگوں نے جو شریر الطبع تھے، اُسے اُکسایا۔ حضرت صاحب لاہور تشریف لے گئے تھے اُس نے پیچھے سے آکر حضرت صاحب کو جپھی ڈال کر گرانا چاہا۔ ہم مارنا چاہتے تھے۔ حضور نے روک دیا اور فرمایا۔ اس کو مت مارو، اس کا کیا قصور ہے، اس کو بصیرت ہی نہیں۔ ایک دفعہ حضور لاہور میں تھے۔ ایک شخص سراج الدین نامی بازار میں سامنے آیا اور گالیاں دینی شروع کیں اور گالیاں بھی فحش گالیاں۔ حضورؑ کے ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا، اُسے سونگھتے رہے۔ وہ گالیاں نکالتا رہا حتیٰ کہ آپ قیام گاہ پر آگئے۔ وہ بھی وہاں آگیا اور تقریباً آدھ گھنٹہ وہاں روبرو کھڑا ہوکر سخت فحش بکتا رہا۔ آپ خاموش بیٹھے رہے۔ جب چُپ ہوگیا آپ نے فرمایا بس! اور کچھ فرمائیے۔ وہ شرمندہ ہو کر چلا گیا۔ جس سال میلا رام کے منڈوہ میں حضور کا لیکچر لاہور میں ہوا تھا۔ اس سال حضرت صاحب میرے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ سامنے آکر ہزاروں مخالف لوگ کھڑے ہوتے، بعض بدمعاش برا بھلا کہتے۔ حضور سنتے مگر کچھ نہ کہتے۔ ایک بد معاش مولوی جس کا نام ہم نہیں جانتے تھے، جب حضرت کوٹھے پر ہوتے سامنے سڑک پر ایک درخت ٹالی کا تھا، وہ اس پر چڑھ کر سخت گالیاں دیتا تھا (لوگ اس کو مولوی ٹالی کہنے لگے) مگر حضرت کچھ نہ کہتے بلکہ کسی دوست کو بھی کچھ نہ کہنے دیتے۔ ورنہ اگر حضور اشارہ فرماتے تو نہ معلوم کیا سے کیا ہوتا کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں حضور کے غلام موجود ہوتے تھے۔‘‘(سیرت احمدؑ از حضرت قدرت اللہ سنوری صاحبؓ صفحہ ۱۵) ایک مرتبہ ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ صاحب حضرت صاحبؑ کے مکان کی تلاشی کے لیے قادیان آئے۔ اُن کے آنے سے پہلے ہی صبح حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کو کسی طرح اس کی اطلاع مل گئی، وہ گھبرائے ہوئے حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؑ نے مسکرا کر فرمایا: ’’میر صاحب! لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا ہی کرتے ہیں، ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لیے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۷۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) گو کہ آپؑ کے گھر کی تلاشی تو ہوئی لیکن اس کے علاوہ اور کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ مقدمہ جہلم پر بعض خلاف واقعہ باتیں اخبارات نے لکھی تھیں۔ ان پر فرمایا کہ اس شور و غوغا کا جواب بجز خاموشی کے اَور کیا ہے ۔ اُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ۔ (ملفوظات جلد ۵صفحہ ۴۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء) حضرت اقدس علیہ السلام کے خلاف پیدا کردہ مشکل حالات میں سے ایک مقدمہ مارٹن کلارک بھی ہے جس میں حضورؑ کے خلاف اقدام قتل کا جھوٹا مقدمہ کر کے آپؑ کو سزا دلوانے کی کوشش کی گئی اور اس کوشش میں عیسائیوں کے ساتھ مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس کٹھن اور مشکل وقت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صبر و استقامت کا عظیم نمونہ دکھایا، آپؑ ’’کتاب البریہ‘‘ میں اس کے مقدمہ کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں:’’یہ بات بھی اس جگہ بیان کر دینے کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے محض ظلم اور جھوٹ کی راہ سے اپنے بیان میں کئی جگہ میرے چال چلن پر نہایت شرمناک حملہ کیا تھا …. اگرچہ ڈاکٹر صاحب کے اکثر کلمات جو نہایت دل آزار اور سراسر جھوٹ اور افترا اور کم سے کم ازالہ حیثیت عُرفی کی حد تک پہنچ گئے تھے۔ مجھے یہ حق دیتے تھے کہ ان بے جا اور باطل الزاموں کا عدالت کے ذریعہ سے تدارک کروں۔ مگر میں باوجود مظلوم ہونے کے کسی کو آزار دینا نہیں چاہتا اور ان تمام باتوں کو حوالہ بخدا کرتا ہوں۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۳) دشمن کو تُرکی بہ تُرکی جواب دینے کی بجائے اپنے ایمان میں مضبوطی اور یقین محکم پیدا کرکے دشمن کو اس کی چالوں میں ناکامی کا احساس دلانا چاہیے۔ دشمن کے مقابل پر یہ نسخہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام کا بیان فرمودہ ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’مومن مومن کبھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ کفر اس سے مایوس نہ ہو جاوے۔ فتح مسیح کو ایک بار ہم نے رسالہ بھیجا، اس پر اُس نے لکیریں کھینچ کر واپس بھیج دیا اور لکھا کہ جس قدر دل آپ نے دُکھایا ہے کسی اور نے نہیں دُکھایا۔ دیکھو رسول کریمﷺ کے دشمن نے خود اقرار کر لیا کہ ہمارا دل دُکھا۔ پس ایسی مضبوطی ایمان میں پیدا کرو کہ کفر مایوس ہو جاوے کہ میرا قابو نہیں چلتا۔ أَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے یہ معنی بھی ہیں۔‘‘(الحکم جلد۸نمبر۱۹ مورخہ۱۰جون۱۹۰۴ء صفحہ۱۔ بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعودؑ جلد۷صفحہ۲۴۳) حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ سابق سردار جگت سنگھ بیان کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ حضرت صاحب امرتسر گئے، وہاں لیکچر کی تجویز ہوئی۔ جب حضور لیکچر دینے کے لئے گئے وہاں باوجود پولیس کے انتظام کے لوگ نہ ہٹے بلکہ پتھر مارنے شروع کئے۔ آخر پولیس نے کہا ہمارے قابو سے بات باہر ہوگئی ہے، آپ تشریف لے چلیں چنانچہ حضور کو بند گاڑی میں بٹھایا گیا اور لوگ زور زور سے پتھر پھینکتے تھے۔ اس قدر زور سے لوگ ادھر ادھر سے پتھر مارتے تھے کہ گاڑی کی طاقی کو زور سے ہم کھینچ کر اوپر لے جاتے مگر لگائی نہ جاتی، پتھروں کے مارے نیچے گر جاتی۔ مگر یہ عجیب خدا کا فضل تھا کہ بارش کی طرح پتھر برسے مگر احمدی جماعت کے کسی فرد کو کوئی پتھر نہ لگا بلکہ جب بھی کسی مخالف نے مارا یا زمین پر گرا یا گاڑی پر یا کسی دوسرے مخالف کے ہی لگا۔ جس وقت پتھر پڑ رہے تھے، ایک آدمی نے زور سے السلام علیکم کہا۔ آپ نے فرمایا و علیکم السلام۔ اس نے کہا میں نے وہ سلام پہنچایا ہے جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب مسیح مہدی آوے اس کو میرا السلام علیکم پہنچانا۔ آپ نے تبسم لب ہوکر فرمایا الحمد للہ یہ پیشگوئی رسول کریم ﷺ کی تھی، پوری ہوگئی۔ پتھر بھی قوم نے برسائے، السلام علیکم بھی پہنچ گیا۔ آپ اس وقت ذرہ بھی نہیں گھبرائے۔‘‘(سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحبؓ۔ صفحہ ۱۸، ۱۹) حضرت مولوی قطب الدین بدوملہوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’کلانور سے ایک مضمون خلاف واقعہ شائع کیا گیا اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ذمہ خواہ مخواہ بہت سے گناہ منسوب کیے گئے اور وہ تحریر ایک نہایت گندی تحریر تھی جس کو مومن پڑھ بھی نہیں سکتا تھا۔ کسی احمدی نے حضور سے عرض کیا اگر حکم ہو اس پر دعویٰ کیا جائے، اس خبیث نے خواہ مخواہ خلاف واقعہ حضور کی ہتک کی ہے۔ آپؑ نے فرمایا : نہیں! یہ انبیاء کی سنت ہے کہ ان کے ساتھ دنیا اسی طرح کا سلوک کرتی رہی ہے۔ مگر دعویٰ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘(سیرت احمد از حضرت مولوی قدرت اللہ سنوریؓ صفحہ ۱۲۴ ،۱۲۵) اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جو آپ کے عظیم الشان صبر اور بے مثال تحمل کو ظاہر کرتے ہیں کہ دشمن کی بد زبانی اور استہزا پر اختیار ملنے کے باوجود آپ نے ان سے در گزر کیا اور اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا۔ پس نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے بھی آپؑ نے ہمیشہ نرمی اور برداشت کی تعلیم دی۔ ایک جگہ آپؑ اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یہ بھی یاد رکھو ہمارا طریق نرمی ہے۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنے مخالفوں کے مقابل پر نرمی سے کام لیا کرے۔ تمہاری آواز تمہارے مقابل کی آواز سے بلند نہ ہو، اپنی آواز اور لہجہ کو ایسا بناؤ کہ کسی دل کو تمہاری آواز سے صدمہ نہ ہووے۔ ہم قتل اور جہاد کے واسطے نہیں آئے بلکہ ہم تو مقتولوں اور مُردہ دلوں کو زندہ کرنے اور اُن میں زندگی کی روح پھونکنے کو آئے ہیں۔ تلوار سے ہمارا کاروبار نہیں، نہ یہ ہماری ترقی کا ذریعہ ہے۔ ہمارا مقصد نرمی سے ہے اور نرمی سے اپنے مقاصد کی تبلیغ ہے، غلام کو وہی کرنا چاہیے جو اُس کا آقا اس کو حکم کرے۔ جب خدا نے ہمیں نرمی کی تعلیم دی ہے تو ہم کیوں سختی کریں۔ ثواب تو فرماں برداری میں ہوتا ہے اور دین تو سچی اطاعت کا نام ہے نہ یہ کہ اپنے نفس اور ہوا و ہوس کی تابعداری سے جوش دکھاویں۔‘‘(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۲۳۲، ۲۳۳، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) در اصل یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اپنے پیاروں کا امتحان لیتا ہے اور انہیں آزمائشوں میں ڈالتا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُّتْرَكُوْٓا أَنْ يَّقُوْلُوْٓ اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (العنکبوت: ۳) یعنی کیا لوگ یہ گمان کر بیٹھے ہیں کہ یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور آزمائے نہیں جائیں گے؟اس امتحان میں سب سے آگے انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں۔ پس اس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان امتحانوں سے گزرے تو آپؑ نے بھی سنت انبیاء کے مطابق ان امتحانوں میں سرخروئی دکھائی۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پاکر جسمانی سختی کشی کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجا لانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا یہ تو سب کچھ ہوا لیکن روحانی سختی کشی کا حصہ ہنوز باقی تھا۔ سو وہ حصہ اِن دنوں میں مجھے اپنی قوم کے مولویوں کی بدزبانی اور بدگوئی اور تکفیر اور توہین اور ایسا ہی دوسرے جہلاء کے دشنام اور دل آزاری سے مل گیا۔ اور جس قدر یہ حصہ بھی مجھے ملا میری رائے ہے کہ تیرہ سو برس میں آنحضرت ﷺ کے بعد کم کسی کو ملا ہوگا۔ میرے لئے تکفیر کے فتوے طیّار ہوکر مجھے تمام مشرکوں اور عیسائیوں اور دہریوں سے بدتر ٹھہرایا گیا اور قوم کے سفہاء نے اپنے اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ سے مجھے وہ گالیاں دیں کہ اب تک مجھے کسی دوسرے کے سوانح میں ان کی نظیر نہیں ملی۔ سو میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ دونوں قسم کی سختی سے میرا امتحان کیا گیا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۲۰۰، ۲۰۲ حاشیہ) انبیاء کو اللہ تعالیٰ اس لیے امتحان میں ڈالتا ہے تا ان کے صبر اور برداشت اور راضی برضائے الٰہی کو دیکھ کر ان کے متبعین کو ایک اسوہ حسنہ ہاتھ آوے اور وہ اپنے تئیں ویسا ہی بنائیں جیسا کہ اُن کے متبوع نے اپنے آپ کو بنایا۔ اسی لیے حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا : ’’غلام کو وہی کرنا چاہیے جو اُس کا آقا اس کو حکم کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد۴ صفحہ۲۳۲تا۲۳۳۔ایڈیشن۲۰۲۲ء) جب حضرت اقدس علیہ السلام نے بار بار جماعت کو صبر کرنے اور حلم دکھانے کی تعلیم دی اور اپنا نمونہ بھی ان کے سامنے رکھا تو بفضلہ تعالیٰ احباب جماعت نے بھی اپنے آقا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صبر و برداشت کے حسین نمونے پیش کیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۸؍ستمبر ۱۹۴۵ء میں حضرت مولوی برہان الدین جہلمی رضی اللہ عنہ (وفات: دسمبر ۱۹۰۵ء) کے متعلق بیان فرماتے ہیں: ’’جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام سیالکوٹ سے واپس آ رہے تھے تو لوگوں نے آپؑ پر پتھر پھینکے۔ جب آپؑ گاڑی میں سوار ہوگئے لوگوں نے وہاں بھی پتھر پھینکے لیکن گاڑی میں تو وہ زیادہ نقصان نہ پہنچا سکے اور نہ ہی ایسا کرسکتے تھے لیکن جب لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو چھوڑ کر واپس آ رہے تھے تو انہیں لوگوں نے طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دق کیا۔ مولوی برہان الدین صاحب انہی میں سے ایک تھے۔ جب وہ واپس جا رہے تھے تو کچھ غنڈے ان کے پیچھے ہوگئے اور اُن پر گند وغیرہ پھینکا۔ آخر بازار میں اُن کو گرا لیا اور ان کے منہ میں گوبر ڈالا۔ دیکھنے والوں نے بعد میں بتایا کہ جب مولوی برہان الدین صاحب کو جبرًا پکڑ کر ان کے منہ میں زبردستی گوبر اور گند ڈالنے لگے تو انہوں نے کہا الحمد للہ ، ایہہ نعمتاں کتھوں۔ مسیح موعودؑ نے روز روز آنا وے؟ یعنی الحمدللہ یہ نعمتیں انسان کو خوش قسمتی سے ہی ملتی ہیں۔ کیا مسیح موعودؑ جیسا انسان روز روز آ سکتا ہےکہ انسان کو ہمیشہ ایسا موقع ملے۔‘‘(الفضل ۱۰؍اکتوبر ۱۹۴۵ء صفحہ ۲) حضرت میر قاسم علی دہلوی رضی اللہ عنہ (وفات: ۲۱؍اپریل ۱۹۴۲ء) دہلی میں یتیم خانہ انجمن مؤید الاسلام کے سپرنٹنڈنٹ تھے۔ احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے آپ کو ممبرانِ انجمن کی طرف سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔ آپؓ نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے بیعت تو نہ چھوڑی ہاں ملازمت چھوڑ دی اور لکھا: ’’یہ بالکل درست ہے کہ میں حضرت تقدس مآب مرزا صاحب ممدوح کا نہایت ہی ادنیٰ خادم ہوں جو فی نفسہٖ کوئی جرم نہیں مگر اس کی بناء پر مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں خود اپنا ستعفاء داخل کردوں۔ لہٰذا باکراہ تعمیل حکم کے لیے استعفاء پیش کرتا ہوں۔‘‘(بدر ۸؍دسمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۶) حضرت مرزا کبیر الدین احمدی رضی اللہ عنہ بھی نہایت مخلص صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے معاندین کے دلوں کو مفتوح کر لیا۔ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دارالیمن ربوہ میں ایک لیکچر کے دوران آپ کا ایک دلچسپ اور مفید ایمان واقعہ سناتے ہوئے فرمایا:’’مجھے ایک دفعہ لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی مرزا کبیرالدین ؓ صاحب بھی تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ایک دن بازار میں سے گذر رہے تھے کہ کسی شخص نے انہیں آواز دے کر بلایا اور کہا کہ مجھے ذرا مرزا صاحب کے متعلق ضروری بات تو سمجھادو، مرزا کبیرالدین صاحب فرماتے ہیں کہ مَیں اس دکاندار کے ساتھ ابھی اس سلسلہ میں مصروف گفتگو ہی تھا کہ اتنے میں کسی شخص نے میری پیٹھ اور سرین پر زور زور سے ڈنڈے مارنے شروع کیے، میں نے دیکھا کہ اس علاقہ کے ایک مشہور مولوی صاحب سخت غضبناک حالت میں یہ حرکت کر رہے ہیں، ساتھ ساتھ گالیاں بھی دے رہے ہیں انہوں نے مجھے اتنا مارا کہ میری کمر اور سرین زخمی ہوگئے جب وہ ذرا مدھم ہوئے تو مَیں نے ان سے دست بدست عرض کیا کہ مولوی صاحب! آپ نے مجھے آپ کے بھائی کی خدمت کا یہ صلہ دیا ہے مجھے تو آپ کے ایک بھائی نے ایک خدمت کے لیے بلایا تھا مَیں ان کو بتا کر ان کی ایک خدمت بجا لا رہا تھا اگر اس خدمت کا صلہ یہی ہے تو اس میں بھی مَیں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اگر آپ حقیقۃً اس خدمت کا میرے لیے یہی صلہ سمجھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس صلہ کی اور توفیق دے اور اگر میں آپ کی خدمت اس طرح کر سکتا ہوں کہ آپ سیر ہوکر مجھے زد و کوب کرلیں تو مَیں حاضر ہوں، اس پر مولوی نے او رگالیاں دیں اور کہا تم یہاں مرزا صاحب کا نام ہی کیوں لیتے ہو؟ بہر حال مرزا صاحبؓ گھر آگئے اور آکر خیال کیا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مصرعہ ’’گالیاں سن کے دعا دو پاکے دکھ آرام دو‘‘کے ایک حصہ پر تو عمل کر لیا ہے دوسرے حصہ پر عمل کرنا باقی ہے جب میں نے دکھ پایا ہے تو حضور علیہ السلام کی تعلیم کے مطابق آرام پہنچانا بھی ضروری ہے چنانچہ مرزا کبیرالدین صاحب نے پھلوں کی ایک ٹوکری لی اور مولوی صاحب کے دروازہ پر دستک دے دی، اندر سے مولوی صاحب نے گرج کر کہا کہ کون ہے؟ اور دروازہ کھولنے کے لیے باہر آگئے جب انہوں نے دروازہ کھولا تو میں نے عرض کیا خادم کبیرالدین جناب کی خدمت میں یہ نذرانہ لے کر حاضر ہوا ہے۔ مرزا صاحب نے بیان فرمایا کہ مولوی صاحب نے وہ پھل تو ہاتھ میں لے لیے لیکن ان کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا اور فوراً رو پڑے اور کہا کہ مرزا صاحب مَیں بہت گنہگار ہوں، مَیں بہت بد دیانت ہوں، مَیں بہت شیطان اور بدکار ہوں (بہت سی گالیاں اپنے آپ کو دیں) مَیں نے آپ پر بہت ظلم کیا ہے آپ مجھے معاف کردیں مَیں توبہ کرتا ہوں مجھ سے بہت غلطی ہوئی، یہ کہہ رہے تھے اور بے تحاشا رو رہے تھے اور کہتے تھے کہ جس شخص نے ایسے پاکباز لوگ تیار کیے ہوں وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا مرزا کبیرالدین! تم واقعی سچے ہو، مرزا صاحب واقعی سچے ہیں، تمہارا نمونہ واقعی اسلام کا نمونہ ہے مَیں ہی کافر ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد مولوی صاحب نے مخالفت بند کردی اور مدّاح ہوگئے، شہر کے علماء کو بھی یہ علم ہوگیا کہ مولوی صاحب کی طبیعت نصیبِ دشمناں کچھ خراب ہے انہوں نے ایک اجلاس عام کیا جس میں سرِفہرست مولوی صاحب کا نام لکھا اور مولوی صاحب سے یہ درخواست کی کہ وہ اس اجلاس میں مرزا صاحب کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں، مولوی صاحب نے کہا کہ بے شک تم لوگوں نے میرا نام رکھا ہے سو دفعہ رکھو لیکن میں مرزا صاحب کے متعلق کچھ نہ کہوں گا وہ میرے نزدیک سچے ہیں اُنہوں نے جو جماعت قائم کی ہے اس نے نہایت اعلیٰ نمونہ قائم کیا ہے۔‘‘(ماہنامہ مصباح فروری ۱۹۵۳ء صفحہ ۳۰ ،۳۱) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ سے صبر و تحمل کے انہی عظیم الشان نمونوں کو آج بھی اپنانے کی ضرورت ہے، یہی وہ قدم ہے جس کے نقش پر چلنے کی حضور علیہ السلام نے تاکید فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے ؎ من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندر میان خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار بادیہ درپیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب و شتم سے نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں۔‘‘ (انوارالاسلام، روحانی خزائن جلد ۹ صفحہ ۲۳ ،۲۴) ایک اور مقام پر آپؑ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’آخر کار مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم دشمن کے مقابلہ پر صبر اختیار کرو۔ تم گالیاں سُن کر چُپ رہو۔ گالی سے کیا نقصان ہوتا ہے، گالی دینے والے کے اخلاق کا پتا لگتا ہے۔ مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم کو کوئی زد وکوب بھی کرے تب صبر سے کام لو۔ یہ یاد رکھو اگر خدا کی طرف سے ان لوگوں کے دل سخت نہ ہوتے تو وہ کیوں ایسا کرتے؟ یہ خدا کا فضل ہے کہ ہماری جماعت امن جُو ہے۔ اگر وہ ہنگامہ پرداز ہوتی تو بات بات پر لڑائی ہوتی اور پھر اگر ایسے لڑنے والے ہوتے اور ان میں صبر برداشت نہ ہوتی تو پھر ان میں اور ان کے غیروں میں کیا امتیاز ہوتا؟ ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں۔ یہی گھر جو سامنے موجود ہے اس کے متعلق میرے لڑکے مرزا سلطان احمد نے مقدمہ کیا تھا۔ باوجود یکہ میرے لڑکے نے مقدمہ کیا تھا اور یہ سخت ایذا دینے والے دشمن تھے مگر مَیں نے کہا کہ میں اظہار نہیں دوں گا۔ کیا اس وقت مَیں نے سلطان احمد کی رعایت کی تھی یا اُن کی؟ اور اُن کی دشمنیوں کا خیال رکھا یا ان کے ساتھ نیکی کی؟ یہ ایک ہی بات نہیں۔ جب جب ان کو میری مدد کی ضرورت ہوئی مَیں نے اُن کو مدد دی ہے اور دیتا رہتا ہوں۔ جب ان کو مصیبت آئی یا کوئی بیمار ہوا تو مَیں نے کبھی سلوک اور دوا دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ایسی حالت میں کہ ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں تم اُن کی بد سلوکیوں کو خدا پر چھوڑ دو۔ وہ خوب جانتا ہے اور اچھا بدلہ دینے والا ہے۔ مَیں تمہیں بار بار کہتا ہوں کہ ان سے نرمی کرو اور خدا سے دُعا کرو ۔… مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کروگے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہوگا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا کے حوالہ کرو۔ قیامت نزدیک ہے تمہیں اُن تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو اُن سے بہت دکھ اُٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہوجاتے ہیں اُن کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پُل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پُھوٹ نکلتا ہے۔ پس دیندار کو چاہیے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے۔ … لوگ مجھے کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہمیں مارا اور مسجد سے نکال دیا۔ مَیں یہی جواب دیتا ہوں کہ اگر تم جواب دو تو میری جماعت میں سے نہیں۔ تم کیا چیز ہو۔ صحابہؓ کی حالت کہ اُن کے کس قدر خون گرائے گئے۔ پس تمہارے لیے اُسوہ حسنہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے۔(ملفوظات جلد ۹صفحہ۶۵تا ۶۸، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) مزید پڑھیں: میدانِ کربلا:وحدتِ امت کی قتل گاہ