یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سےسب دنیا پر چھا جانے والی ہے۔ پس جو کچھ تم سے ہو رہا ہے ، اس کا بدلہ تاریخ لے گی اور آج جو لوگ تمہارے حقوق تلف کر رہے ہیں، ان کی نسلیں انہیں گالیاں دیں گی، کیونکہ کون ہے جو اپنے آباء کی شرارتوں کا ذکر تاریخوں میں پڑھ کر شرمندہ نہیں ہوتا۔ بے شک! آج لوگ ہم پر ظلم کرکے ہنستے ہیں، جس طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اونٹوں کی اوجھڑی ڈالنے والے ہنستے تھے، ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی اس حرکت کو ہزار ہاسال تک یاد رکھا جائے گا اور یہ ہمیشہ کے لیے ان کی ناک کاٹنے کا موجب ہو جائے گی۔(حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) تاریخِ انسانی کے اوراق اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ جب بھی ربِّ کائنات نے اپنی مخلوق کی راہنمائی اور فلاح کے لیے کسی برگزیدہ ہستی، نبی، رسول یا مصلح کو مبعوث فرمایا، تو وہ صرف ایک فرد نہیں ہوتا، بلکہ ایک عہد ساز پیغام کا حامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ ایک نیا نور لے کر آتا ہے، جو دلوں کو منوّر کرتا ہے، ایک تازہ روحانیت لے کر آتا ہے، جو انسانیت کو نئی زندگی عطا کرتی ہے اور ایک ہمہ گیر انقلابی پیغام لے کر آتا ہے، جو معاشروں کی کایا پلٹ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ مگر افسوس! انتشارِ روحانیت کے ایسے ہر دَور میں انسانی معاشرہ اپنے تعصّبات، خود غرضی اور جمود کے زیرِ اثر اس الٰہی نور سے نظریں چرا لیتا ہے۔ وہ آسمانی پیغام کو جھٹلانے میں دیر نہیں کرتا، اور اس پیغامبر کو جو کہ محض اور محض خیر و بھلائی کا منادی ہوتا ہے، طنز و تمسخر، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے جو بار بار تاریخ نے دُہرایا ہے، مگر ساتھ ہی یہ ایک ایسی سنّتِ الٰہی کی شہادت بھی ہے، جس میں ابتلا کے بعد فتح، انکار کے بعد قبولیت اور ظلم کے بعد نصرت کا وعدہ شامل ہے۔ مگر الٰہی جماعتوں کی فطرت ہی کچھ ایسی ہوتی ہے کہ وہ مخالفتوں کی تُند و تیز آندھیوں، طعن و تشنیع کے تیر و نشتر اور اذیتوں کے خارزاروں سے گزرتے ہوئے بھی صبر و استقلال اور دعا و رجوعِ الٰہی کا دامن کبھی نہیں چھوڑتیں۔ بظاہر ان کے پاس دنیاوی وسائل، طاقت اور ظاہری اسباب کا فقدان ہوتا ہے، مگر اُن کے ساتھ وہ قوت ہوتی ہے کہ جو ہر طاقت پر غالب آجاتی ہے اور وہ خدائے لم یزل کی تائید و نصرت ہوتی ہے۔ یہی وہ ابدی سچائی ہے، جس کا اعلان خدائے ذوالجلال نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّالَّذِیۡنَ ھُمۡ مُّحۡسِنُوۡنَ(النّحل:۱۲۹)یعنی یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے، جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔ یہی الٰہی وعدہ ان جماعتوں کا حقیقی سرمایہ اور اصل قوت ہوتا ہے، جو انہیں ہر ابتلا میں ثابت قدم رکھتا ہے، اور بالآخر فتح و نصرت کی بشارت بن کر جلوہ گر ہوتا ہے۔ پس ہر سچے الٰہی سلسلے کی تاریخ میں ایک باب ایسا ضرور آتا ہے جو مخالفتوں، انکاروں اور اذیتوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ مگر یہ داستان یہیں ختم نہیں ہوتی، کیونکہ اس کے بعد کا باب نصرتِ الٰہی کا ہوتا ہے، جو ہر ظلمت کے بعد ایک نئی روشنی لے کر آتا ہے۔ وقت کا پہیہ یوں گھومتا ہے کہ یہی درد آخرکار دوا بن جاتا ہے اور یہی طعن و تشنیع، جو ابتدا میں نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں، بعد ازاں ہدایت کے چراغ بن کر قوموں کی راہنمائی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے آقا و مطاع حضرت ِاقدس محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کا مبارک وجود تاریخِ انسانی کی سب سے درخشاں، جامع اور عظیم المرتبت شخصیت ہے۔ آپؐ نے جب مکّہ کی شرک آلودہ فضاؤں میں توحید کا پرچم بلند کیا، تو وہی قوم جن کی مجلسیں آپؐ کی صداقت، امانت اور دیانت کی مثالیں دیا کرتی تھیں، یکایک آپؐ کی جان کی دشمن بن بیٹھی۔ طائف کی سنگ باری سے لے کر شعبِ ابی طالب کی سختیوں تک، بدر و اُحد کی خونچکاں وادیاں ہوں یا دیگر غزوات و سرایا کی آزمائشیں، ہر ایک منظر آپؐ کے صبر واستقامت اور خدا پر کامل توکّل کا زندہ گواہ ہے۔ لیکن تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ وہی مکّہ، جو آپؐ کے خون کا پیاسا تھا، ایک دن عاجزی سے آپؐ کے قدموں میں جھکا دیا گیا اور بدترین دشمنانِ اسلام آپؐ کی زبانِ رحمت سے معافی پا گئے۔ ربِّ کریم نے آپؐ کی دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشا اور آپؐ کی ذاتِ اقدس اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا کی مجسم تصویر بن کر اُبھری۔ خدا تعالیٰ کے پیار کا یہ سلوک محض آنحضرتؐ کی ذاتِ مبارکہ تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ ذرا تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیگر انبیاء و مرسلین کی حیاتِ مقدسہ پر بھی نظر دوڑائیں، تو یہی حقیقتِ حال نمایاں ہوتی ہے کہ مخالفتوں کی آندھیاں ان پر بھی ٹوٹ کر چلیں، ظلم و ستم کے پہاڑ ان پر بھی توڑے گئے، مگر ان اولوالعزم ربّانی فرستادوں نے کبھی نہ ہمت ہاری، نہ پیچھے ہٹے اور نہ ہی ان کے سچے پیروکاروں نے وقت کے فرعونوں، نمرودوں اور جابروں کے سامنے حق و صداقت کا عَلم سرنگوں ہونے دیا۔ یہ انبیاءؑ اور ان کے ماننے والے مسلسل صبر، دعا اور عزم کی چٹان بن کر کھڑے رہے، بالآخر وہ بھی وقت آیا کہ ظلم کی تمام قوتیں خس و خاشاک کی مانند ہوا میں بکھر گئیں اور حق کی صدا فلک شگاف بن کر گونجی۔ یہی سنّتِ الٰہی ہے اور یہی تاریخ کازندہ و جاوید سبق ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی مثال کون بھلا سکتا ہے؟ وہ صابر و مستقل مزاج نبی، جن کی قوم نے انہیں طعن و تمسخر کا نشانہ بنایا، ان پر طغیانی کی حدّ تک انکار و استہزا کی مہر ثبت کی۔ حضرت موسیٰؑ اور فرعون کا قصّہ آج بھی تاریخِ انسانی میں ظلم و جبر کے مقابل پر نصرتِ الٰہی کی سب سے بڑی اور عبرت انگیز مثال کے طور پر زندہ و تابندہ ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰؑ، جنہیں بنی اسرائیل نے موعود مسیح ماننے سے انکار کر دیا، بلکہ انہیں صلیب پر چڑھانے تک کا منصوبہ بنا ڈالا۔ مگر ان تمام واقعات میں ایک قدر مشترک اور غالب نظر آتی ہے کہ جب مخالفت اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو خدا کی مدد اور نصرت بھی اُسی شدت سے قریب آتی ہے، یہ تاریخ کا بیّن اصول ہے اور سنّتِ الٰہی کا اٹل وعدہ ۔ اب ذرا تاریخ کی روشنی میں قریب کے زمانے کی طرف آئیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ فیج ِاعوج کے زمانے کے بعد جب الٰہی نوشتوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر کھڑے ہوئے، تو قیامت خیز مخالفت کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ علماء کی ایک بڑی جماعت نے آپؑ کے خلاف فتوے صادر کیے، انگریز حکومت کے دربار میں شکایات کا انبار لگا دیا گیا، اور عامّۃ الناس کو آپؑ سے بدظن کرنے کے لیے بے بنیاد الزامات، افترا پردازی اور گمراہ کن پروپیگنڈا کا سہارا لیا گیا۔ نعوذباللہ! آپؑ کو کذّاب، دجّال ، کافر اور مفتری جیسے دل آزار القابات سے پکارا گیا اور مخالفین کا شر آپؑ کی جان، مال اور عزت تک دراز ہوا۔ مگر ان تمام آزمائشوں کے باوجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا داروں کے ان تمام ہتھکنڈوں اور ایذا رسانیوں کا سامنا صبر، استقلال اور سب سے بڑھ کر دعا کے روحانی ہتھیار سے کیا۔ آپؑ نے قلم سےسیف کا کام لیا اور علم و معرفت کے ایسے روحانی خزائن پیش کیے جو نہ صرف علمی سطح پر مخالفین کے اعتراضات کا مسکت جواب تھے بلکہ ان میں نورِ الٰہی کی تجلّی اور روحانی تاثیر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ایسی کھلی کھلی تائیدِ الٰہی جو کہ صرف ایک صادق مامور کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ پس آپؑ کا جہاد، قلم اور دعا کا جہاد تھا، جو آج بھی اہل دانش کے لیے ایمان، عزم اور ہدایت کا منارۂ نور ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں، خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے، جو کچھ ہوگا دعا کے ذریعے ہی ہوگا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں ہے، جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں، خدا اس کو ظاہر کرکے دکھا دیتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کے زمانے میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی، مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں، اس واسطے اس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لیے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ نادان دشمن جو سیاہ دل ہے وہ کہتا ہے کہ اُن کو سوائے سونے اور کھانے کے اور کچھ کام ہی نہیں ہے۔ مگر ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے۔(ملفوظات، جلدنہم، صفحہ۲۷تا۲۸؍ ایڈیشن ۱۹۸۴ء) اور آپؑ نے عملاً یہی کر کے دکھایا۔ صبر، دعا اور خدا پر کامل توکّل کے ساتھ آپؑ نے ہر مخالفت کا سامنا کیا اور پھر دنیا نے وہ حیرت انگیز نظارے دیکھے کہ خدا نے اپنی تائید و نصرت کی زبردست ہوائیں چلائیں اور آپؑ کی سچائی کو آفتاب کی طرح روشن کر دیا۔ آپؑ کی ایک ایک پیشگوئی وقت کی عدالت میں کما حقہ پوری ہوئی۔ زلزلے، وبائیں، آسمانی نشان اور مخالفین کے عبرتناک انجام، یہ سب خدا کی تائید و نصرت کے وہ زندہ و جاوید مظاہر بن گئے، جنہیں دنیا نظرانداز نہ کر سکی اور ان شاء الله نہ کبھی کر سکے گی۔ لیکھرام کی پیشگوئی ہو یا ڈوئی کا المناک انجام، پادری عبداللہ آتھم کا معاملہ ہو یا مولوی رشید احمد گنگوہی کی عبرتناک موت، یہ سب واقعات اس ایک ہی حقیقت کے ابدی گواہ بنے کہ خدا اپنے سچے مامور کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔ ایک موقع پر کچھ لوگ جو بغرضِ بیعت قادیان دارالامان آئے ہوئے تھے، ان کو مختلف نصائح فرماتے ہوئے، آپؑ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کے واسطے مامور کیے گئے ہیں۔ (ملفوظات، جلدپنجم، صفحہ۳۰۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء) پس سیّدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جس کام کے لیے مامور کیے گئے ہیں، وہ صبر ہے ، اور یقیناً اور یقیناً ہماری بھی کامیابی اسی میں پنہاں ہے کہ ہم آپؑ کے نقشِ قدم پر چلیں۔ پھر آپؑ کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق قدرتِ ثانیہ کا دائمی بابرکت دَور شروع ہوا، اور خلافتِ اُولىٰ سے لے کر خلافتِ خامسہ تک خلفائے عظّام عزم و استقامت کی ایسی چٹان بن کر اُبھرے کہ اُن کی روحانی قیادت میں جماعتِ احمدیہ ہر طوفان، ہر ابتلا اور ہر مخالفت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنی رہی اور بنی ہوئی ہے۔ الغرض خلافت کی پُرشفقت چھاؤں میں جماعت کا ہر فرد مصائب، تکالیف اور آزمائشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے ثابت قدمی کی درخشاں مثال بنا ہوا ہے۔ پس امرِ واقعہ یہ ہے کہ خلفائے احمدیت نے عملی طور پر مجسم ثابت قدم رہتے ہوئے اپنی پیاری جماعت کے حوصلے کبھی پست نہیں ہونے دیے اور ہر مشکل کی گھڑی میں یہی عملی درس دیا ہے کہ مشکلات اور آزمائشوں میں صبر، استقامت اور خدا سے مدد طلب کرنا ہی کامیابی اور ترقی کا واحد اور حقیقی راستہ ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ جماعتِ احمدیہ کو ہمیشہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق، بارگاہِ ایزدی میں اپنے عملی نمونے پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوتی رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق روز افزوں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ جماعت نے ہر ابتلا، ہر چیلنج اور ہر نازک مرحلے پر جس صبر، استقلال اور غیر معمولی روحانی وابستگی کا مظاہرہ کیا، وہ اس عظیم الشّان قرآنی ارشاد کی روشن اور جیتی جاگتی عملی تصویر ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ(البقرہ:۱۵۴)یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! (اللہ سے) صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اسی مقصدِ عظیم کے تحت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے قرآنِ کریم کی پاکیزہ تعلیمات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوۂ حسنہ کی روشنی میں ہدایت اور راہنمائی کا کامل اور ابدی سامان مہیا فرما دیا۔ آج بھی جب ہماری الٰہی جماعت مخالفین کی سازشوں، تکالیف اور مسلسل آزمائشوں کی لپیٹ میں ہے، تو ایسے پُرآزمائش حالات میں ہمارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں بھی آپؑ نے نہایت بصیرت افروز، حکمت سے بھرپور اور ایمان افروز راہنمائی عطا فرمائی، جو ہمارے لیے ہر دَور میں مشعلِ راہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظررکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں۔نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے، جب نماز پڑھوتو اس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو۔ اور ہرایک بدی سے خواہ وہ حقوقِ الٰہی کے متعلق ہو، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو۔‘‘(ملفوظات، جلدپنجم، صفحہ۳۰۳، ایڈیشن۱۹۸۴ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کی روشنی میں ہمارے موجودہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز تلقین فرماتے ہیں کہ ’’پس یہ وہ نصائح ہیں جو ہماری کامیابی اور ترقی کی بنیادہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق اگر ہم صحیح رنگ میں استغفار، توبہ، دینی علوم سے آگاہی اور پانچ وقت کی نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہیں گے، تو ہماری کامیابی ہے۔ دشمن جتنا شور و فغاں میں بڑھ رہا ہے، اتنا ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا ہو گا، یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔ اسی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار تلقین فرمائی ہے، نہ کہ کسی قسم کے ردّعمل دکھانے کی، ہماری کامیابی بہرحال مقدر ہے جیساکہ آپؑ نے فرمایا۔ ان شاءاللہ! ہاں! یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حکمت سے ہم نے اپنے کام کو بھی جاری رکھنا ہے، بہت سے کام حکمت سے ہوسکتے ہیں، اس لیے حکمت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہر احمدی اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لے تو بہت سے مسائل کا حل ہمارے رویّوں اور دعاؤں سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر عطا فرمائے اور دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کے لیے ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۳ء) ان تمام تاریخی حقائق اور روحانی پسِ منظر کی روشنی میں ہم پر بطور احمدی مسلمان نہایت عظیم اور بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے اُس روحانی ورثے کی حفاظت کریں، جس کی بنیاد صبر، قربانی اور دعا جیسے سنہری اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آج بھی ہمارے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے جاتے ہیں، معصوم احمدیوں کو شہید کیا جاتا ہے، ہمیں ہماری مساجد میں جانے سے روکا جاتا ہے، ہمارے خلاف سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز اور نفرت انگیز مہمات چلائی جاتی ہیں یا ہمارے بچوں کو تعلیمی اداروں میں ذہنی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو یہ سب تکالیف وقتی اور ناپائیدار ہیں۔ یہ آزمائشیں ہمیں جھکا نہیں سکتیں، بلکہ یہ ہمارے ایمان کو اَور نکھارتی ہیں، ہمیں دعا کی طرف جھکاتی ہیں اور ہمیں خلافت سے وابستگی میں مزید مضبوط کرتی ہیں۔ایسے کٹھن وقتوں میں بھی ہمارا ردّعمل صبر و استقامت کا نمونہ ہونا چاہیے، کیونکہ صبر ہی وہ چابی ہے جو مشکلات اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھولتی ہے۔بایں ہمہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ بھی انہی کی مدد کرتا ہے کہ جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے ہماری ہر عبادت، ہر قربانی اور ہر سجدہ مکمل صدق اور اخلاصِ نیّت کے ساتھ محض اور محض اللہ تعالیٰ کے لیے ہی وقف ہونا چاہیے۔ یہی تقویٰ اور خلوصِ نیّت ہی ہمیں نصرتِ الٰہی کے قریب لے جاتا ہے اور ہماری جماعت کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ ہماری نظریں تو دنیا داروں کی طرح دنیاوی طاقتوں کی طرف تو نہیں، ہمارے ردّعمل تو دنیاوی ردّعمل نہیں، کیونکہ ہم تو آسمانی بادشاہت کے موسیقار ہیں۔ ہم تو بادشاہوں کے بادشاہ کے دربار میں جاتے ہیں اور اپنی عاجزانہ آہیں بلند کرتے ہیں۔ ہماری نظریں تو ہمیشہ سے ایک ہی ذات پر مرکوز ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی واحد لاشریک ذات ہے۔ ہماری تعلیم میں تو سختی کے بالمقابل نرمی ، بدی کے بالمقابل اخلاقِ حسنہ دکھانے اور گالیاں سن کر دعا دینا شامل ہے۔ حلم اور فراست ہمارا شعار ہیں۔ مخالفتیں تو ہمارے لیے کھاد کا کام کرتی ہیں۔ ہاں! ہماری گریہ و زاری، مناجات، حزن اور اشک اپنے مولیٰ کے حضور پیش کرنے کے لیے ہیں کہ جوسب طاقتوں اور قوتوں کاواحد مالک ہے اور وہی اس دنیا اور آخرت میں ہمارا والی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله نےدشمنانِ احمدیت کو مخاطب کرتے ہوئے کیا ہی خوب فرمایا ہے کہ ’’جماعت احمدیہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے، جماعت احمدیہ کا ایک مولا ہے اور زمین و آسمان کا خدا ہمارامولا ہے ، لیکن مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں۔ خدا کی قسم! جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا، تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا، خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکرے ٹکرے کرے گی تو تمہارے نام و نشاں مٹا دیےجائیں گے اور ہمیشہ دنیا تمہیں ذلّت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ، عاشقِ محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم، کا نام ہمیشہ روز بروز زیادہ سے زیادہ عزت اور محبّت اور عشق کے ساتھ یاد کیا جایا کرےگا۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ ۱۴؍دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد مبارک، ہیگ، ہالینڈ) ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس امام الزّمان کے متبعین ہیں کہ جو اس مقصد ِعظیم کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے کہ آپس میں ہمدردی اور محبّت کا ایسا نمونہ دکھایا جائےکہ جو غیروں کے لیے ایک کرامت ہو۔ ہم تو دلوں کو جوڑنے والے ہیں۔ ہم تو روحانی بیماروں کے لیے قسم ہا قسم کی جہنموں سے نجات کا ایک ذریعہ ہیں۔ دنیا کی قیادت تو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کی بنا پران شاء الله ہم مسیحِ محمدی صلی الله علیہ وسلم کے عاجز غلاموں نے کرنی ہے۔ ہم نے تو مختلف قوموں اور ملل کو خدا کی توحید کا پرستار بناتے ہوئے حضرت محمد رسول الله کے جھنڈے کے نیچے لانا ہے اور ایک پُل کا کام کرنا ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہمیں دلوں کی عمارتیں بنانے کےلیے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے، ہمیں اینٹ پتھر کی عمارتوں سے کیا غرض؟آئندہ لوگ آئیں گے جو سنگِ مرمر کی عمارتیں بنائیں گے، ان میں سونے کا کام کریں گے، یہ کام ان کے لیے رہنے دو۔آؤ ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں۔‘‘(رپورٹ مجلسِ مشاورت ۱۹۲۷ء، صفحہ ۱۸۶) پھر آج ہماری اور ہماری جماعت کی بقا، ترقی اور سلامتی کا راز صرف اور صرف خلافتِ احمدیہ کی اطاعت میں ہی مضمر ہے۔ یہی اطاعت ہماری روحانی طاقت اور وحدت کا منبع ہے۔ خلافت سے وابستگی ہی ہماری اصل روحانی شناخت ہے، جو ہمیں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور نصرتوں سے روشناس کراتی ہے، یہی وہ رشتہ ہے جو ہمیں ہر آزمائش اور مصیبت میں مضبوطی بخشتا ہے اور جماعت کو دنیا بھر میں ایک منظم، متحد اور کامیاب اکائی کی صورت میں قائم رکھتا ہے۔لہٰذاہمارا فرض یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح کے ہر ایک ارشاد کو اپنا حرضِ جان بنائیں اور آپ کی نصائح کی روشنی میں ہمیں معاشرے میں نہایت حسنِ سلوک، نرمی اور حکمت کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ انجام دینا ہے۔ اپنے عمل کی پاکیزگی، کردار کی بلندی اور حسنِ اخلاق سے ہمیں دوسروں کے دلوں کوجیت کر جماعت کی سچائی کی طرف راغب کرنا ہے۔ اور حقیقتاً یہی وہ روشنی ہے جو ان شاء الله تاریکیوں کو مٹا دے گی اور دلوں میں ایمان کی جڑیں مضبوط کر دے گی۔ حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے حالیہ دنوں میں ہی سوشل میڈیا پر جماعتِ احمدیہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی بیہودہ گوئی اور جھوٹ پر مبنی منافرت آمیز مہم کے ردّعمل سے متعلق نہایت بصیرت افروز اور اصولی راہنمائی عطا فرمائی ہےکہ ’’ہمارا کام یہ نہیں کہ غلط زبان استعمال کریں یا اس رنگ میں جواب دیں کہ جس سے نادانستگی میں ہمارے منہ سے ایسے الفاظ نکل جائیں جو کسی بھی رنگ میں کسی کی بھی ہتک کا موجب بنیں اور اس سے فائدہ اُٹھا کر مخالفین یہ کہتے رہیں کہ ہم نعوذباللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین یا صحابہ رضوان اللہ علیہم کی توہین کرنے والے ہیں۔‘‘ اسی طرح حضور انور نے ایسے افراد کو بھی توجہ دلائی کہ جو خودساختہ عالم بن کر سوشل میڈیا پر نام نہاد مخالف ملّاؤں کے اعتراضات کا ازخود جواب دینے لگتے ہیں، ان کو اس چیز سے بچنا چاہیے۔ نیز تاکید فرمائی کہ اوراگر جواب تلاش کرنے ہیں تو جماعت کے علماء سے ، گہرا علم رکھنے والے جماعتی لٹریچر سے، ان سے پوچھا جائے اور ان کے جواب ایسے دیے جائیں جو واقعی ٹھوس ہوں اور ان کی دلیلوں اور ان کے الزاموں کو ردّ کرنے والے ہوں۔نیز آخر پر ہدایت فرمائی کہ اگر ہم سوشل میڈیا پر ان جوابوں کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں۔ اپنی نمازوں کو سنوار کر ادا کریں۔ اپنے سجدوں میں وہ درد پیدا کریں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کی غیرت جلد جوش میں آئے، تو ہم بہت جلد اس سے بہت بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں، جو نتائج یہ لوگ اپنے جواب دینے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔(ماخوذ ازخطبہ جمعہ فرمودہ ۶؍جون ۲۰۲۵ء) پس وہ لوگ جو آج معاند بن کر خدا کے قائم کردہ نظامِ خلافت اور سچائی کے پیغام کو دبانے کے درپے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ خدا کی تقدیر کا قلم حرکت میں آ چکا ہے، اب نہ کوئی سازش اس کاروانِ حق کو روک سکتی ہے، نہ کوئی ظلم اس کے قدموں کو متزلزل کر سکتا ہے۔ وقت گواہی دے گا، تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون تھا ، جو حق کے ساتھ کھڑا تھا اور کون باطل کے ہم رکاب نکلا۔ فیصلہ ہو کر رہے گا کہ کون لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ کا سچا علمبردار تھااور کون اس کے انکار میں اندھی مخالفت پر اُترا ہوا تھا۔ بالآخر سچائی ہی کو غالب آنا ہے اور باطل کے مقدر میں تو اَزل ہی سے مٹ جانا لکھ دیا گیا ہے، تاریخ تمہیں ہمیشہ ذلّت اور رسوائی کے الفاظ میں یاد رکھے گی۔ اسی تناظر میں حضرت مصلح موعود رضی الله عنہ نے قادیان دارالامان میں مورخہ ۱۲؍جولائی ۱۹۳۵ءکے خطبہ جمعہ میں نہایت پُر شوکت الفاظ میں جماعت کے حوصولوں کو بڑھاتے ہوئے یہ خوشخبری عطا فرمائی تھی کہ ’’ہماری جماعت تاریخی جماعت ہے، آئندہ کوئی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی، جب تک وہ جماعت ِاحمدیہ کی تاریخ کا ذکر نہ کرے۔ یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سےسب دنیا پر چھا جانے والی ہے۔ پس جو کچھ تم سے ہو رہا ہے ، اس کا بدلہ تاریخ لے گی اور آج جو لوگ تمہارے حقوق تلف کر رہے ہیں، ان کی نسلیں انہیں گالیاں دیں گی، کیونکہ کون ہے جو اپنے آباء کی شرارتوں کا ذکر تاریخوں میں پڑھ کر شرمندہ نہیں ہوتا۔ بے شک! آج لوگ ہم پر ظلم کرکے ہنستے ہیں، جس طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اونٹوں کی اوجھڑی ڈالنے والے ہنستے تھے، ان لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ ان کی اس حرکت کو ہزار ہاسال تک یاد رکھا جائے گا اور یہ ہمیشہ کے لیے ان کی ناک کاٹنے کا موجب ہو جائے گی۔ آج بھی ہمارے دشمن اور بعض حکام خوش ہوتے ہیں اور اسے ایک کھیل سمجھتے ہیں، مگر انہیں کیا معلوم ہے کہ یہ باتیں تاریخوں میں آئیں گی۔ بڑے سے بڑے مؤرّخ کے لیے یہ نا ممکن ہو گا کہ ان واقعات کو نظر انداز کر دے کیونکہ ان کے بغیر اس کی تاریخ نامکمل سمجھی جائے گی۔ پڑھنے والے ان باتوں کو پڑھیں گے اور حیران ہوں گے، ان لوگوں کی انسانیت پر ، جنہوں نے یہ افعال کیے اور حیران ہوں گے ، ان حکام کے روّیہ پر، جنہوں نے علم کے باوجود کوئی انتظام نہ کیا اور آنے والی نسلوں کی رائے ان کے خلاف ہو گی۔ ان کی وہ چیز جس کے لیے انسان جان کی قربانی بھی کر سکتا ہے یعنی نیک نامی بر باد ہو جائے گی۔‘‘(خطباتِ محمود جلد ۱۶، صفحہ۴۰۸ بحوالہ روزنامہ الفضل قادیان۔ مطبوعہ ۲۰؍ جولائی ۱۹۳۵ء ) یہ وہ پختہ ایمان، الٰہی تائید اور سچائی کا حقیقی یقین و عرفان ہے، جس نے جماعت کو ہر طوفان میں ثابت قدم رکھا، اور ہر مخالف کو ناکامی و نامرادی کی دھول میں گم کر کے قصۂ پارینہ بنادیا۔الغرض! الٰہی سلسلے کبھی دبائے نہیں جا سکتے، ان کے دشمن جتنے بھی ہوں، آخر کار نیک انجام ہمیشہ خدا کے خاص بندوں کا ہی مقدر ہوتا ہے۔ الحمدلله ثمّ الحمدلله! ہم ہی وہ خوش نصیب ہیں کہ جو ایک سچے مسیح و مہدی کے ماننے والے ہیں اور خلافتِ احمدیہ کے سائے تلے پروان چڑھ رہے ہیں۔ آئیں! ہم ہر مخالفت کو دعوتِ فکر سمجھیں، ہر طعن و تشنیع کو نصرتِ الٰہی کا ایک زینہ جانیں، اور ہر ظلم کے جواب میں صرف اور صرف صبر و دعا کو اپنا ہتھیار بنائیں۔یہی صبر و استقامت ہماری کامیابی کا راز ہے اور یہی دعا ہماری طاقت کا سرچشمہ ہے۔ کامیابی تو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور وعدوں کے مطابق اسلام احمدیت کے نام لکھ دی گئی ہے، یہ وہ اٹل سچائی ہے، جسے نہ کوئی طوفان مٹا سکتا ہے اور نہ کوئی ظلم دبا سکتا ہے۔ یقیناً فتح و نصرت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام احمدیت کے لیے مقدر کررکھا ہے، اور یہی وہ حتمی انجام ہے، جس کی طرف تاریخ بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسی حوالے سے سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صادق تو ابتلاؤں کے وقت بھی ثابت قدم رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ آخر خدا ہمارا ہی حامی ہوگا۔ اور یہ عاجز اگرچہ ایسے کامل دوستوں کے وجود سے خداتعالیٰ کا شکر کرتا ہے، لیکن باوجود اس کے یہ بھی ایمان ہے کہ اگرچہ ایک فرد بھی ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں، تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں۔ مَیں جانتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے ساتھ ہے ، اگر مَیں پیسا جاؤں اور کچلا جاؤں اور ایک ذرّے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں ، تب بھی مَیں آخر فتح یاب ہوں گا۔ مجھ کو کوئی نہیں جانتا، مگر وہ جو میرے ساتھ ہے، مَیں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا، دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لاحاصل ہیں۔ اَے نادانو اور اندھو ! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا، جو مَیں ضائع ہو جاؤں گا، کس سچے وفادار کو خدا نے ذلّت کے ساتھ ہلاک کر دیا ، جو مجھے ہلاک کرے گا۔ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں، مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے، جس کے آگے پہاڑ ہیچ ہیں۔ مَیں کسی کی پرواہ نہیں رکھتا، مَیں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں۔ کیا خدا مجھے چھوڑ دے گا، کبھی نہیں چھوڑے گا، کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا، کبھی نہیں ضائع کرے گا۔ دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں فتح دے گا۔ مَیں اس کے ساتھ، وہ میرے ساتھ ہے، کوئی چیز ہمارا پیوند توڑ نہیں سکتی اور مجھے اس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظمت ظاہر ہو، اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو۔ کسی ابتلا سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگرچہ ایک ابتلا نہیں کروڑ ابتلا ہو۔ ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے من نہ آنستم کہ روز جنگ بینی پشت من آں منم کاندرمیان خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا، تو مجھ سے الگ ہو جائے، مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پرخار بادیہ درپیش ہیں، جن کو مَیں نے طے کرنا ہے۔ پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں، وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں۔ جو میرے ہیں، وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے، نہ مصیبت سے، نہ لوگوں کے سب و شتم سے، نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے اور جو میرے نہیں، وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں، کیونکہ وہ عنقریب الگ کیے جائیں گے اور ان کا پچھلا حال، ان کے پہلے سے بدّتر ہو گا۔ کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں، کیا ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں ابتلاؤں سے خوفناک ہو جائیں گے، کیا ہم اپنے اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے مگر محض اس کے فضل اور رحمت سے۔ پس جو جدا ہونے والے ہیں، جدا ہو جائیں، ان کو وداع کا سلام۔ لیکن یاد رکھیں کہ بدّ ظنی اور قطع تعلق کے بعد اگر پھر کسی وقت جھکیں تو اس جھکنے کی عندالله ایسی عزت نہیں ہو گی، جو وفادار لوگ عزت پاتے ہیں، کیونکہ بدّظنی اور غدّاری کا داغ بہت ہی بڑا داغ ہے۔(انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد۹، صفحہ۲۳ تا۲۴) پس آج بھی اگر الله تعالیٰ کے فضل کے نظارے کرنے ہیں اور جلد تر مصائب و آلام کے زمانے سے فتح و ظفر کی کلید پانی ہے تو ہمیں اس کے لیے اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں اور اپنی جماعت سے کیا توقعات رکھتے ہیں؟ اس کی بابت آپؑ نے توجہ دلائی کہ ہماری جماعت کو ایسا ہونا چاہیے کہ نری لفّاظی پر نہ رہے، بلکہ بیعت کے سچے منشاکو پورا کرنے والی ہو، اندرونی تبدیلی کرنی چا ہیے۔ صرف مسائل سے تم خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے۔ اگر اندرونی تبدیلی نہیں تو تم میں اور تمہارے غیر میں کچھ فرق نہیں۔ اگر تم میں مکر، فریب، کسل اور سستی پائی جائے تو تم دوسروں سے پہلے ہلاک کیےجاؤگے۔ اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات، خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلے سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: ۷۰) میں شامل ہوجاؤ۔(ملفوظات۔جلدہشتم، صفحہ۱۸۸، ایڈیشن ۱۹۸۴ء ) پس امرِ واقعہ یہی ہے کہ ہماری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں۔ یہ محض کوئی زبانی دعویٰ نہیں، بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہم اس جماعت کے متبعین ہیں کہ جس کی بنیاد خالصتاًتقویٰ،طہارت اور خدائی تائید پر رکھی گئی۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں کہ جن کی راہوں کو ایک عاشقِ صادق کی مقبول دعاؤں کا نور روشن کرتا ہے اور ہمارے سروں پر وہ سایہ ہے، جسے قدرتِ ثانیہ کی چادر نے ڈھانپ رکھا ہے، ہمارا ہر زخم ایک نئی کامیابی کی بشارت ہے اور راستے کی ہر رکاوٹ ہمارے عزم کو جِلا بخشتی ہے۔ ہم گرتے نہیں، بلکہ ہر آزمائش کے بعدپہلے سے زیادہ بلند ہو کر اُٹھتے ہیں، کیونکہ ہماری سرشت میں ناکامی کا خمیر رکھا ہی نہیں گیا۔ ہم حق کے وارث ہیں اور حق بھی کبھی کیا باطل کے ساتھ خلط ملط ہوا؟ ہرگز اور ہرگز نہیں! لہٰذامخالفت کی گرد تو ان شاء اللہ جلد ہی چھٹ جائے گی، مگر خدا کے وعدوں کا امین ہمارا یہ قافلہ خلافتِ احمدیہ کی قیادت میں ان شاء الله پوری آب و تاب کے ساتھ تا قیامت رواں دواں رہے گا۔ آخر میں دعا ہے کہ الله تعالیٰ کرے کہ ہم اپنی بیعت کا حق ادا کرتے ہوئے ، ان تمام توقعات کو کما حقہ پورا کرنے والے ہوں، جو سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پیاری جماعت سے وابستہ فرمائی ہیں۔ اور ہم کبھی اس سلسلے کی بد نامی کا باعث نہ بنیں۔ ہم خدا کے اور خدا ہمارا ہو جائے۔ الله تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں صبر، استقامت اور ثابت قدمی کی جیتی جاگتی مثال بنا دے۔ ہر قسم کی مخالفتوں اور آزمائشوں کےبالمقابل ہمارے ردّعمل ایسے ہوں کہ جن سے اخلاقِ فاضلہ کا عملی مظاہرہ ہو اور ہمارا ہر ایک عمل خدا اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرنے والا بن جائے اور الله تعالیٰ ہمیں اس بات کی بھی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے پیارے آقا کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب کی سکینت بننے والے ہوں۔آمین ثمّ آمین! ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: خوفِ خدا