اصل حقیقت یوں ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے والے افراد کی تعداد ابھی ایک درجن سے بھی کم تھی، اُس وقت سے ہی مخالفت کی آندھیاں چل پڑی تھیں اور آپؑ کے سلسلہ کو ناکام و نابود کرنے کے لیے دشمنانِ حق نے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دی تھیں۔اسی ابتدائی زمانہ میں ہی قریباً ایک لاکھ سے زیادہ اشتہارات شائع کیے گئے جن میں احمدیوں کو کافر، دجال اور واجب القتل قرار دے کر عام عوا م کے مذہبی جذبات کو ابھارا گیا،غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو اکسایا گیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں،احمدیوں کے مال لُوٹ لینے جائز ہیں اور ان کی عورتوں کو بغیر نکاح کے گھر میں رکھ لینا درست ہے۔ ان کو قتل کر دینا ثواب کا کام ہے جماعت احمدیہ کی مخالفت اور معصوم احمدیوں پر ہونے والے کثیر جہتی مظالم کا ایک تجزیاتی جائزہ ’’انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ڈیسک‘‘ کی شائع کردہ سالانہ رپورٹ۲۰۲۵ء کی صورت میں نظر سے گزرا، جس میں صرف ایک سال یعنی ۲۰۲۴ء کے دوران ہونے والی مخالفت اور مظالم کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئیں ان میں احمدیوں کی شہادتوں، قید و بند کی صعوبتوں، تعلیمی و معاشی پابندیوں اور جسمانی، ذہنی و نفسیاتی تشدد جیسے اندوہناک واقعات کا ذکر اور بعض میسر اعداد و شمار شامل تھے۔ ان محدود اعداد و شمار سے ہی ابھرنے والی سنگینی اور مظالم کی چکی میں پسنے والوں کو دیکھ کراگر کوئی یہ رائے قائم کرے کہ جماعت احمدیہ کو صرف حالیہ دہائیوں میں مخالفت کا سامنا ہے اور اس سے قبل حالات بالکل سازگارتھے تو یہ قیاس ہی تاریخ فہمی میں سراسر غلطی ہوگی۔ اصل حقیقت یوں ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کرنے والے افراد کی تعداد ابھی ایک درجن سے بھی کم تھی، اُس وقت سے ہی مخالفت کی آندھیاں چل پڑی تھیں اور آپؑ کے سلسلہ کو ناکام و نابود کرنے کے لیے دشمنانِ حق نے اپنی تمام توانائیاں صرف کر دی تھیں۔اسی ابتدائی زمانہ میں ہی قریباً ایک لاکھ سے زیادہ اشتہارات شائع کیے گئے جن میں احمدیوں کو کافر، دجال اور واجب القتل قرار دے کر عام عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارا گیا،غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو اکسایا گیا کہ احمدیوں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں،احمدیوں کے مال لُوٹ لینے جائز ہیں اور ان کی عورتوں کو بغیر نکاح گھر میں رکھ لینا درست ہے۔ ان کو قتل کر دینا ثواب کا کام ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر مسلمان جن کا حق تھا اور جن کا فخر تھا کہ وہ امام مہدی اور مسیح موعودؑ کو قبول کرتے۔ انہوں نے بھی ہرطرف اسی بات پر زور دیا کہ یہ شخص کافر ہے، دجال ہے، بے ایمان ہے کوئی اس کی طرف رخ نہ کرے اور کوئی اس کی مدد نہ کرے بلکہ کوئی مصافحہ اور السلام علیکم نہ کرے۔ پہلے ان مخالف لوگوں نے معصوم احمدیوں کوبغیر دلیل کے کافر ٹھہرایا اورجماعت کے خلاف فتووں میں یہاں تک تشدد کیا گیا کہ بعض مولویوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ لوگ کفر میں یہود اور نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں اور عام طور پر یہ بھی فتوے دیے کہ اِن کے پیچھے نماز درست نہیں کافر جو ہوئے بلکہ چاہیے کہ یہ لوگ مساجد میں داخل نہ ہونے پاویں کیونکہ کافر ہیں۔ مسجدیں ان سے پلید ہو جاتی ہیں اور اگر داخل ہو جائیں تو مسجد کو دھو ڈالنا چاہیے اور ان کا مال چرانا درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں وغیرہ وغیرہ۔ الغرض اس ابتدائی زمانہ میں ہی ایسے سخت ترین اور انتہائی سفاکانہ فتاویٰ دیے گئے، جو بلاشبہ تاریخ کا سیاہ باب ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰، صفحہ ۲۵۹؛ قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۲۷؛ حقیقۃالوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۲۲-۱۲۳، وغیرہ) اس تناظر میں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے (۱۸۸۹ء تا ۱۹۰۸ء)میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک تاریخی جائزہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے جو زیادہ تر حضرت بانی جماعت احمدیہ کو براہ راست درپیش مشکلات کے ضمن میں ہے۔ اہل ایمان کے قلب و نظر کی دنیا میں ان کے امام سے بڑھ کر کوئی معزز نہیں ہوتا، اوروہ اپنے آقا و مطاع کو پہنچنے والی ہر چھوٹی بڑی تکلیف اور مخالفت پر سخت دکھ محسوس کرتے ہیں اور دشمن بھی جانتا تھا کہ اکیلے اکیلے احمدی کو ڈھونڈ کر تکلیف پہنچانے سے زیادہ آسان یہ ہے کہ اس کے دل اور مرکز کو نشانہ بنایا جائے۔ اُس ابتدائی دور میں احمدیت میں شامل ہونے والوں کو اِن مخالفتوں کی وجہ سے پہنچنے والی شدید اذیت کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٔ مثیل مسیح کرنے کے ساتھ ہی مخالفت میں کھڑا ہونے والا ایک شخص مولوی محمد حسین بٹالوی تھا۔ اس نے جماعت احمدیہ کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کرکے پہلے اس پر مولویوں کے سردار نذیر حسین دہلوی کے تصدیقی دستخط کروائے اور پھر سارے ملک میں پھر کر اُس فتویٰ پر دوصد علماء کی گواہیاں حاصل کیں اور اسے اخبار میں شائع کیا جس کے نتیجہ میں سارے ملک میں مخالفت کی آگ بھڑک اُٹھی۔ اس مولوی کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں: ’’اس ظالم نے بھی وہ فتنہ برپا کیا کہ جس کی اسلامی تاریخ میں گذشتہ علماء کی زندگی میں کوئی نظیر ملنی مشکل ہے…ایسا طوفان فتنہ کا اٹھا کہ گویا ایک زلزلہ آیا۔…‘‘(استفتاء،روحانی خزائن جلد ۱۲، صفحہ ۱۲۸) احمدیوں کےلیے مشکلات پیداکرنے والے اس انتہائی سرگرم اہل حدیث مولوی نے اگست ۱۸۹۷ء میں عیسائی پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے حضورؑکے خلاف قتل کے جھوٹے دعویٰ کی تصدیق میں انگریزی عدالت میں بیان بھی دیا۔یوں دنیا نے دیکھا کہ نوزائیدہ اور کمزور جماعت کی مخالفت میں عیسائیوں کے ساتھ آریہ بھی مل گئے اور مولوی بھی ان کے ساتھ جا کھڑے ہوئے۔ مگر خدا اپنے بھیجے ہوئے مسیح موعودؑ کے ساتھ رہا اور رہے گا۔ الغرض مولوی محمد حسین بٹالوی نے احمدیت کی مخالفت میں قادیان کے قریبی ریلوے سٹیشن بٹالہ آنے والی ہر ریل گاڑی کی آمد کے وقت ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر اُن لوگوں کو بہکانا اپنا وطیرہ بنالیا تھا جو حضورؑ کے دعویٰ کی تحقیق کے لیے قادیان جانا چاہتے تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے مخالفت اور دُشمنی میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھا، اپنے اخبار اشاعۃ السنہ میں احمدیوں کو غلیظ گالیاں دیں،انگریزی گورنمنٹ میں آپ کے خلاف جھوٹی مخبریاں کیں،حکومتِ وقت کو اشتعال دلایا اور آپ کو درپردہ باغی قرار دیااور پھر ڈپٹی انسپکٹر محمد بخش کی طرف سے حضورؑ پر بنائے جانے والے مقدمہ نقض امن کے وقت بھی اسی مولوی نے عدالت میں حضورؑ کی سیاق و سباق سے ہٹ کر، اور کچھ قطع و برید کرکے ایسی تحریریں پیش کیں جن سے ثابت ہو کہ حضورؑ کی یہ تحریریں امن عامہ کے لیے خطرہ ہیں۔ حتی کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس ابتدائی زمانہ میں اپنی مخالفت کی تمامتر بیرونی کوششوں کی ناکامی دیکھ کر حضورؑ کو قتل کرانے کی بھی متعدد بار سازش کی۔(تفصیل کے لیے دیکھیں، تاریخ احمدیت،جلد اول صفحہ ۳۸۹) الغرض اس مولوی اور دیگر علماء ظواہر کے فتویٰ تکفیر نے عامۃ المسلمین میں زبردست ہیجان پیدا کردیا تھا۔ دعویٰ مسیحیت کے بعد حضورؑ نے خدا کا پیغام پہنچانے اور بالخصوص مسلمانوں پر اتمام حجت کی غرض سے لدھیانہ، امرتسر، دلی، پٹیالہ، لاہور، سیالکوٹ، جلندھر اور کپورتھلہ کے سفر اختیار فرمائے۔ لیکن ان اسفار میں درپیش خطرات کا اندازہ کرنے کے لیے صرف ایک مثال لکھتے ہیں۔ مارچ ۱۸۹۱ء میں حضورؑ لدھیانہ میں تھےاور لدھیانہ کے علماء مولوی محمد صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب نے مشتعل ہوکر مخالفت کی آگ لگادی۔ کھلم کھلاقتل پر اکساتے۔ بازار میں کھڑے ہوکر واعظ جوش سے کہتے کہ مرزا کافر ہے، مسلمانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، جو کوئی اس کو قتل کرڈالے گا وہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا اور سیدھا بہشت کو جائے گا۔ ایسے میں ایک گنوار لٹھ لے کر آپؑ پر حملہ کی نیت سے قیام گاہ تک بھی پہنچ گیا۔ حضورؑ کے خلاف ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی کے ہر طبقہ کی طرف سے مخالفت دیکھی گئی، اہل دلی خلاف ِانسانیت حرکات میں مشغول تھے، شہر کی جامع مسجد میں خونی پروگرام مرتب کیا گیا جس میں مولویوں نے شہر کے شوریدہ سر، نادان اور جاہل کو مشتعل کرکے حملہ کا ارادہ تھا۔آشفتہ دماغ اور آتش مزاج اشخاص کو قیام گاہوں سے نکال کر میدان مخالفت میں کھڑا کردیا گیا۔مخالف علماء کے جھوٹ، غلط الزاموں اور باطل اتہاموں سے لوگ حضورؑ کے خلاف اتنے متاثر اور مشتعل ہوچکے تھے کہ شہر میں آپؑ کے خلاف ہنگامے برپا کرنے اور اشتعال پھیلانے کا ماحول عام کردیا گیا تھا۔تب ایک شخص مرزا حیرت دہلوی جو بہت سی کتابوں کا مصنف و مؤلف تھااور قرآن کریم اور بخاری شریف کے مترجم ہونے کا بھی دعویدار تھا وہ بھی جوش مخالفت میں بعض ذلیل اور شرمناک حرکتوں سے باز نہ رہ سکا تو عوام کالانعام کا مخالفت اور دشمنی میں کیا حال ہوگا۔ الغرض قادیان میں حضر و قیام ہو یا تبلیغ حق کے لیے اختیار کیے گئے شہروں کے اسفارہوں، ہر جا ایک سی دشمنی اور مخالفت کا ماحول تھا۔ مثلاً جنوری ۱۸۹۲ء کے تیسرے ہفتے میں حضورؑ لاہو روالوں پر اتمام حجت کے لیے اس شہر میں مقیم تھے کہ ایک فاتر العقل شخص نے آپؑ پر حملہ کیا۔نیز یہاں ایک اور شخص آیا جو مسلمان کہلاتا تھااور اُس نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار نہایت نا سزاوار الفاظ اور گالیوں کی صورت میں کیا۔اس کے بعد حضورؑ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو وہاں مساجد میں آ پؑ کے خلاف گمراہ کن وعظ کروائے گئے اور عوام کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی ہر رنگ میں کوشش کی گئی۔ حضورؑ کی انقلاب انگیز تحقیقات پر بجائے اتفاق کرنے کے مذہبی پروہتوں نے عوام کو اکسایا۔ مثلاً جب نومبر ۱۸۹۵ء میں ’’ست بچن‘‘ کی تصنیف و اشاعت ہوئی تو سکھ دانوں کا رد عمل حیران کن تھا کیونکہ بعض ناخوشگوار اور عجیب و غریب حرکات سامنے آئیں۔تب جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ہندوستان کی تمام بڑی بڑی مذہبی قوتیں متحد ہوچکی تھیں۔ صرف ایک سکھ علیحدہ نظر آتے تھے وہ اس تصنیف اور تحقیق سے بگڑ گئے اور عین اس وقت مقابلہ کے لیے میدان میں آئے جب مخالفین نے ملکی مطلع غبار آلود کررکھا تھا اور وحشت و جنون کے گھٹا ٹوپ بادل چھا رہے تھے۔ تب ’’خبط قادیانی‘‘ کتاب لکھ کر ایک سکھ صاحب نے انتہاکردی۔ الغرض تب جماعت احمدیہ کو کسی ایک مذہب اور کسی ایک فرقہ کی طرف سے بھی حمایت یا مدد نہ تھی بلکہ ہر کوئی مخالفت اور دشمنی پر اترا ہوا تھا۔مثلاً شیخ محمد رضا طہرانی نجفی ایک شیعہ مجتہد تھے جنہوں نے سستی شہرت اور اپنے علم و فضیلت کا سکہ جمانے کے لیے حضرت اقدسؑ کے خلاف فروری ۱۸۹۷ء میں اشتہار بازی کا سلسلہ شروع کردیا اور ایک مضحکہ خیز طریق فیصلہ بھی پیش کردیا۔ الغرض مسیح موعود اور اس کی جماعت کسی ایک فرقہ کی طرف سے بھی امن میں نہیں تھی۔ ۱۸۹۷ء میں لیکھرام کے قتل کا واقعہ ہوا تو ہندو اخبارات کی زہر افشانی نے جماعت احمدیہ کے خلاف شورش برپاکردی، عوام اور حکومت دونوں کو مشتعل کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھا گیا، الغرض مخالفت کی ایک زبردست آگ تھی۔ آپؑ کو برملا قتل کرنے کی دھمکیاں دیں اور شائع کی گئیں حتیٰ کہ اس درپردہ خونی منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایک خفیہ انجمن بھی قائم کی گئی۔ حضورؑ کی خدمت میں پنجاب کے مختلف مقامات سے بکثرت ایسی اطلاعات بھی پہنچیں۔ کوئی اور ہوتا تو قتل کا نام سنتے ہی دہشت زدہ ہوجاتا۔ مگر حضرت اقدسؑ تو خدا کے مامور تھے آپؑ تو ان مخالفتوں اور شورشوں کی آگ ہی میں خدا کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی نے آریوں کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے ان کے ہی نمائندہ بن کر اشاعۃ السنۃ میں ’’الہامی قاتل‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھا۔ اس قدر شورش اور اشتعال کا ماحول تھا کہ انگریزی حکومت کی مشینری حرکت میں آئی اور ۸؍اپریل ۱۸۹۷ء کو پولیس کے دستے قادیان آئے اور مکمل خانہ تلاشی لی، حضرت مسیح موعودؑ کے گھر کے مردانہ اور زنانہ حصوں کو چھانا گیا، ٹرنکوں کے قفل توڑے گئے۔ایک معاندمرزا امام الدین بھی شرارتاً پولیس کی جمیعت کے ساتھ ہوگیا۔ حضورؑ کے گھر کے بعد مہمانخانہ، مطبع، حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان کی تلاشی ہوئی۔دیواروں میں بنائی گئی الماریاں بھی کھول کھول کر دیکھی گئیں۔ پتھر کی ایک سل تک لوٹ پوٹ کر کے دیکھی گئی۔ حضرت مسیح موعودؑ اورآپ کی جماعت کے ساتھ انگریزی سلطنت کے ’’تعاون‘‘ کا تواحوال دیکھ لیا، اب سلطنت عثمانیہ کا سلوک بھی دیکھ لیں۔ سلطان عبدالحمید ثانی کے نمائندہ سفیر حسین کامی کی مئی ۱۸۹۷ء میں قادیان آمدہوئی اور حسب مطلب مفاد نہ ملنے پر ایسا بگڑا کہ عداوت کی ایک نئی بنیاد ڈالی اور مخالفین کو شوروشغب کرنے اور جماعت احمدیہ کے خلاف نئی اور سخت مہم جوئی کابہانہ ہاتھ آگیا۔ اگست ۱۸۹۷ء تو ہنگامہ خیزی میں نئی حدوں کو چھونے لگا جب مقدمہ ہنری مارٹن کلارک ہوا تب عیسائی پادریوں نے ایک گہری اور نہایت خطرناک سازش سے مذہب اور حکومت کے سہارے جماعت احمدیہ کو گویا ختم کرنے کی چال چلی۔ ۱۸۹۷ء میں حضور ؑنے ملتان اور لاہور کا سفر اختیار فرمایا، تب مخالفت کا یہ عالم تھا کہ نت نئے شوشے چھوڑ کر عوامی ذہن میں گویا بارود بھردی گئی تھی اس لیے حضرت اقدس جہاں جہاں سے گزرتے آپؑ کو گالیاں دی جاتی تھیں اور لوگ آپؑ کا نام لے لے کر غیرشائستہ حرکات کرتے اور آوازے کستے تھے۔ احمدیوں کو دکھ دینے کے لیے مخالفین جماعت تمام بےہودہ حربے اور ناواجب حرکتوں سے بھی نہ چوکتے تھے۔ مثلاً اپریل ۱۸۹۸ء میں ملامحمد بخش جعفرزٹلی نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی وفات کی مفتریانہ خبرایک اشتہار کی صورت میں شائع کر دی۔ جماعتی ترقی اور احمدیوں کی مالی قربانی سے حسد کرتے ہوئے معاندین نے تب جماعت کے خلاف انکم ٹیکس ادا نہ کرنے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا شاخسانہ گھڑ کر حکومت کو مخبریاں کیں اور وسط ۱۸۹۸ء میں حضورؑ پر حکومت پنجاب نے سات ہزار دو سو روپیہ پر ایک سو ستاسٹھ روپیہ آٹھ آنہ کا ٹیکس عائد کیے جانے کا مقدمہ دائر کردیا۔ ۱۸۹۸ء کے اواخر میں مخالفین نےحضورؑ کے گھر کے ایک بار پھر محاصرہ پر خوشیاں منائیں جب انگریز پولیس کپتان اور انسپکٹر پولیس سپاہیوں کا دستہ لے کر آن دھمکے، گھر کا محاصرہ کرکے مسجد کے طور پر استعمال ہونے والے چھت پر چڑھ آئے۔ لیکن خدا نے اپنے مسیح کی یہاں بھی توقیر و عظمت سلامت رکھی۔ مگر مخالفین احمدیت کہاں رکنے والے تھے، ماہ دسمبر میں ایک سنگین مقدمہ نقض امن کا دائر ہوا، تب بٹالہ کے تھانہ میں حضرت اقدسؑ کا ایک شدید مخالف ڈپٹی انسپکٹر محمد بخش نامی متعین تھا۔ اس شخص نے مولوی محمد حسین بٹالوی سے ساز باز کرکے سخت مقدمہ کی بنیاد رکھی، مخالفین نے مقدمہ جیتنے کے لیے زور و شور سے تیاری شروع کردی۔ وکیلوں کی فیس کے لیے شہروں میں چندہ کا اہتمام کیا گیا۔ تمام وہ مخالفین جو پہلے فوجداری مقدمہ میں منہ کی کھاچکے تھے اب پھر ان کے ساتھ میدان میں آگئے، غرضیکہ اس مقدمہ نے بھی ایک انتہائی خطرناک صورت اختیار کرلی۔ جب متعدد سماعتیں ہوچکیں تو ایک مکتوب میں حضورؑ نے اپنے ایک مخلص مرید کو لکھاکہ ’’دراصل بات یہ ہے کہ اب تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کی نیت بخیر نہیں۔…‘‘(مکتوبات احمد جلد ۴صفحہ ۲۱۲)لیکن حضور کو خدا کی طر ف سے جو خبر پہلے دی گئی تھی اسی کے مطابق پولیس کا بڑی محنت سے بنایا ہوا مقدمہ خارج ہوا۔ اور پشاور سے بنارس تک جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سرگرم مولوی کا ہاتھ روکا گیا۔ ۱۹۰۰ء یعنی بیسوی صدی کا آغاز ایک انتہائی درد انگیز اور رنج دہ واقعہ سے ہوا جس نےقریباً پونے دو سال تک حضورؑ اور آپؑ کی جماعت کو نہایت درجہ پریشانی اور بھاری مصیبت میں مبتلا کیے رکھاوہ مقدمہ دیوار تھا۔ اس بابت مدیر الحکم رپورٹ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے دعوے کے ابتدائی ایّام میں ہماری یہ حالت تھی کہ قادیان کی زمین باوجود فراخی کے ہم پر تنگ تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ قادیان کے مالکوں میں سے تھے۔ لیکن باوجود اس کے بھی آپ کی غریب اور قلیل جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی۔بعض اوقات باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کے دامن میں قادیان کے شریر اور خبیث مخالفوں نے پاخانہ ڈلوادیااور ایک ٹوکری مٹی کی بھی غریب مہاجرین کو اُٹھانی مشکل ہو جاتی تھی اور کوئی دن ہم پر ایسا نہ گزرتا تھا کہ ہماری کہیاں اور ٹوکریاں قادیان کے ظالم طبع دُشمن نہیں لے جاتے۔ اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ چونکہ خود حضرت اقدسؑ کے اقارب اور عمّ زاد بھائی (جن کا سردار مرزا امام الدین تھا) دُشمن تھے۔ اس لیے ان کی حمایت اور شہ سے ایسا ہوتا تھا۔ سید احمد نور مہاجر جب اپنے ملک سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تو انہوں نے ڈھاب میں ایک موقع پر حضرت اقدسؑ کی اجازت سے اپنا مکان بنانا چاہا۔ چنانچہ جب انہوں نے تعمیر مکان شروع کی تو قادیان کے سِکھّوں اور بعض برہمنوں نے اس پر حملہ کردیا اور اس کو اور اس کے بھائی کو مارا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین کو حضرت صاحب اور سلسلہ کے ساتھ عداوت اور عناد تھا اور وہ کوئی دقیقہ تکلیف دہی کا اُٹھانہ رکھتے۔ ایک مرتبہ اس نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جوبازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا۔ وہ ایّام عجیب تھے۔ ابتلاؤں پر ابتلا آتے تھے اور جماعت ان ابتلاؤں کے اندر ایک لذیذ ایمان کے ساتھ اپنی ترقی کی منزلیں طے کرتی تھی۔ غرض وہ دیوار چن دی گئی اور اس طرح ہم سب کے سب پانچ وقت کی نمازوں کے لیے مسجد مبارک میں جانے سے روک دیے گئےاورمسجد مبارک کے لیے حضرت صاحب کے مکانات کا چکر کاٹ کر آنا پڑتاتھا۔ یعنی اس کوچہ میں سے گزرنا پڑتا تھا جو حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اوّل ؓ کے مکان کے آگے سے جاتا ہے اور پھر منور بلڈنگ کے پاس سے بازار کی طرف کو حضرت مرزا بشیر احمد ؓکے مکان کی طرف چلا جاتا ہے۔ جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے۔ بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دن تھے۔ راستہ میں کیچٹر ہوتا تھا اور بعض بھائی اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور نماز کے لیے جاتے ہوئے گر پڑتے تھے اور ان کے کپڑے گارے کیچٹر میں لت پت ہو جاتے تھے۔ اُن تکلیفوں کا تصور بھی آج مشکل ہے۔ ( الحکم ۲۴اگست ۱۹۰۱ء) جب ۱۹۰۲ء میں مولوی کرم دین جہلمی نے حضرت مسیح موعودؑکے خلاف ازالۂ حیثیت عرفی کا مقدمہ بنایا تو دو آریہ مجسٹریٹوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اپنے بغض و کینہ کا ہر طرح سے اظہار کیا۔ ان میں سے پہلا ضلع گورداسپور کا مجسٹریٹ لالہ چندولال تھا۔بعد میں اس کی جگہ آنے والے آریہ مجسٹریٹ مہتہ آتمارام نے بھی آتے ہی اوچھے ہتھیار استعمال کرنے شروع کردیے۔ پہلے اُس نے حضورؑ کو کرسی دینے سے انکار کیا بلکہ بعض اوقات شدید پیاس کے باوجود بھی آپؑ کو پانی پینے کی اجازت نہ دی۔ کیا تب اس بالکل ابتدائی زمانہ احمدیت قبول کرنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی اذیت اور تکلیف ہوسکتی تھی؟کیونکہ آج ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اس روایت کو پڑھ کر افراد جماعت کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور روح اذیت سے بھر جاتی ہے۔ اس نام نہاد مولوی کرم دین نے جھوٹ اور مکروہ حرکتیں کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں قریباً چار سال تک جماعت کے لیے گویا ایک زلزلہ برپا کیے رکھا۔ اس مقدمہ اور مخالفت کی منظم مہم کا پس منظر اور تفصیل لکھنے کی توگنجائش نہیں، اوپر درج تفصیل پر اکتفا کرتے ہوئے اتنا بتانا ضروری ہے کہ اس مخالفت اور ایذادہی میں قریباً تمام مخالفوں نے اکٹھ کر لیا تھاجن میں نامی گرامی پیروں فقیروں سے لے کر چھوٹے بڑے چوروں اور نوسربازوں تک سب شامل تھےاوریہ عجیب بات ہے کہ اس تکلیف دہ مقدمہ میں جو چیز ماتحت عدالت کے دونوں آریہ ججوں کو دو سالوں میں معلوم نہ ہو سکی،وہ عدالت عالیہ کے انگریز جج کو مقدمہ کی فائل دیکھتے ہی معلوم ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مقدمہ کی سماعت کے آخر پرماتحت عدالت کو اس سلسلہ میں نا اہلی اور وقت کے ضیاع کا مرتکب قرار دیتے ہوئے فاضل جج نے لکھا: ’’بہت ہی افسوس ہے کہ ایسے مقدمہ میں جو کارروائی کے ابتدا ئی مراحل میں ہی خارج کیا جانا چاہئے تھا، اس قدر وقت ضائع کیا گیا ہے۔…‘‘(بحوالہ ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ۔ جنوری تا مارچ ۲۰۱۱ء ۔ حضرت مسیح موعودؑ کے بعض مخالفین کا عبرتناک انجام ۔از مولانا فضل الٰہی انوری صاحب) کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب دشمنان اور مخالفین تو ہندوستان کے طول و عرض میں بستے تھےاور کبھی کبھار کوئی دل آزار بات اہل قادیان تک پہنچ بھی جاتی ہوگی،مگر لوگ نہیں جانتے کہ عین قادیان کے اندر حضرت مسیح موعودؑ کی اپنے اصحاب کے سامنے عملی تقاریر کے دوران بھی مقامی سکھ آکر گالیاں دینا شروع کر دیتے تھے۔اسی طرح قادیان میں ایک شخص نہال چند(نہالا) بہاروراج ایک برہمن تھا۔ اپنی جوانی کے ایّام میں وہ ایک مشہور مقدمہ باز تھا۔ آخر عمر تک قریباً اُس کی ایسی حالت رہی۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو حضرت اقدسؑ کے خاندان کے ساتھ عموماً مقابلہ اور شرارتیں کرتے رہتے تھے۔ پھر سلسلہ کے دُشمنوں کے ساتھ بھی رہتا اور مخالفین کی دریدہ دہنی کا یہ عالم تھا کہ ہندوستانی مولوی قادیان آکر آپؑ کے الفاظ کے تلفّظ پر بھی تمسخر کیا کرتے تھے۔ اسی طرح جب ۱۹۰۰ء میں منارۃ المسیح بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکایتیں کیں کہ اِس مینارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پَردہ دری ہو گی۔ چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے حکام آئے اور لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اسی موقع پر حضرت صاحبؑ نے انگریزی حکومت کے افسر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’یہ بڈھا مَل بیٹھا ہے آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے موقع ملا ہو اورمَیں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو اور پھراس سے پوچھ لیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ ۱۳۹،۱۳۸) یہ ایک مثال قادیان میں ہمسایوں کے ہاتھوں پہنچنے والی تکالیف، مشکلات اور مخالفت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہندوؤں میں سے مسلمان ہونے والے سکول ٹیچر سعداللہ لدھیانوی نے یاوہ گوئی اور دشنام طرازی سے کام لیتے ہوئے آپؑ کو کذّاب اور مفتری قرار دیا، گالیاں دیتا، کبھی چوری کا الزام لگاتا اور کبھی بغاوت کا۔ نیز دعویٰ کیا کہ یہ یعنی حضرت اقدسؑ ذلّت کی مَوت مرے گا اور اِس کی جماعت متفرق اور منتشر ہو جائے گی، وغیرہ۔لدھیانہ میں اسی انگیخت کا نتیجہ تھا کہ ایک روز مخالفین کے بہکانے پر پانچ آدمی حضورؑ کے مکان پر حملہ کرنے پہنچ گئے، مگر خدا نے اپنے مسیح کی حفاظت فرمائی۔ آپؑ ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں فرماتے ہیں:’’مَیں باور نہیں کرسکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہےکسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مُرسل کو دی ہوںجیسا کہ اس نے مجھے دیں۔ چنانچہ جس شخص نے اس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لیے اور نیزمیر ی ذلّت اور نامرادی دیکھنے کے لیے کس قدر حریص تھا۔‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۳۶) اسی طرح کے دیگر بدنصیب اور بدزبان لوگوں میں عبدالقادر نام ساکن طالب پور پنڈوری ضلع گورداسپور اور پنج گرائیں،تحصیل پسرور،ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا محمد جان المعروف مولوی محمد ابوالحسن نامی وغیرہ تھے۔ان لوگوں کو افراد جماعت سے سخت عناد اور بغض تھااور ہمیشہ گندی گالیاں دیتے تھے۔ شوخی اور بے حیائی کا یہ حال تھاکہ حضرت اقدسؑ کی نسبت بہت ہی گندے اور طعن و تشنیع سے بھرے ہوئے اشعار لکھے۔اور سب سے بڑی شرارت یہ تھی مؤخرالذکر مولوی نے ایک بیہودہ نظم کی صورت میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں آپؑ کی فرضی مَوت کا سیاپا لکھا۔ پھراکتوبر۱۹۰۲ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ سے احمد حسین شوکت نامی ایک شخص نے ایک اخبار شحنہ ہند جاری کیا ہوا تھا۔ یہ شخص اپنے آپ کو مجدد السنہ مشرقیہ کہا کرتا تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا۔جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتااور اس طرح جماعت کی دِلآزاری کرتا۔ میرٹھ کی جماعت کو اس سے خصوصیت سے تکلیف ہوتی۔ یہ داستان الم تو طویل ہوتی جاتی ہے،بات کو سمیٹتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب مئی ۱۹۰۸ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی لاہور میں وفات ہوئی تو بعض شرفاء نے ہمدردی کا اظہار کیا مگرمخالفین کا افسوس ناک مظاہرہ بھی سامنے آیا۔ بعض مخالفین اس موقع پر احمدیہ بلڈنگ لاہور کے گرد جمع ہوگئے، مولویوں کے اشتعال دلانے پر احمدیوں کے زخم رسیدہ دلوں کی نمک پاشی کے لیے شہر کے آوارہ مزاج بھی بڑی تعداد میں وہاں آگئے اور انہوں نے نہایت بے شرمی کے ساتھ سامنے کھڑے ہوکر خوشی کے گیت گائے، مسرت کے ناچ ناچے اور شادمانی کے نعرے لگائے اور فرضی جنازے بنا بنا کر نمائشی ماتم کے جلوس نکالے۔ یہ تو اوباشوں کی حرکات تھیں جو عین نعش کے سامنے کی گئیں لیکن اس کے بعد بعض کم ظرف اخبار نویسوں نے بھی اپنے اخبارات میں اپنے کم ظرف ہونے کا ثبوت دیا اور عوام کو یقین دلایا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد یہ سلسلہ تباہ ہوجائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہؓ نے ان مخالفتوں کے مقابلہ کی ایک تاریخ چھوڑی ہے،ان میں سے جان قربان کرنے والوں کی بات کریں تو ۱۹۰۱ء میں حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی اور پھرجولائی ۱۹۰۳ءمیں کابل میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ جیسے بزرگ اور متدین انسان بھی محض احمدی ہونے کے جرم میں دردناک طور پر شہید کردیے گئے اور ان کے اہل و عیال نے قبول احمدیت کی پاداش میں برسہابرس سخت اذیت ناک حکومتی مظالم کا مردانہ واراور مومنانہ شان سے مقابلہ کیا۔ حضورؑ کے غلاموں پر حملوں کے ضمن میں مولوی برہان الدین جہلمی صاحبؓ پر ہونے والے اوباشوں کے حملہ کی مثال ہی کافی ہے۔ان کا ایک بہت ہی مشہور واقعہ حضرت مسیح موعودؑ کے سفر سیالکوٹ کے وقت پیش آیا جب حضورؑ واپس جانے لگے تو الوداع کہنے کے لیے حضرت مولوی صاحبؓ بھی ساتھ گئے، تب مخالفین نے احمدیوں کو طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کیں اور دِق کیا۔ مولوی برہان الدین صاحبؓ کو تو کچھ غنڈوں نے گھیر لیااور زبردستی پکڑ کر ان کے منہ میں گوبر اور گند ڈالنے لگے جس پر حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمیؓ نے فرطِ جذبات سے کہا:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ’’او برہانیہ ایہہ نعمتاں کتھوں۔ مسیح موعود نے روز روز آناں وے؟؟‘‘ اسی طرح ایک اور راوی بتاتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو حضورؑ اپنے خدّام کے ہمراہ جا رہے تھے کہ کھڑکی سے کسی عورت نے حضورؑ پر راکھ ڈالی۔ حضور تو (بحفاظت) گزرگئے مگر راکھ مولوی برہان الدین صاحب کے سر پہ پڑی۔آپ پر محویّت طاری ہو گئی اور نہایت خوشی سے فرمانے لگے۔ ’’پا، اے مائے پا‘‘ یعنی اے بوڑھی ماں اور راکھ ڈال۔ حضرت مولانا محمد ابرہیم بقا پوریؓ نے مدرسّہ رحیمیہ نیلاگنبد لاہور سے اپنی دینی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۰۵ء میں قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑکے دست مبارک پہ بیعت کا شرف حاصل کیا اور واپس آئے اور نماز پڑھانے کے بعد اپنی بیعت کا اعلان کر دیاتو لوگوں نے شدید مخالفت کی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک تھانیدار (جو نماز پڑھنے آیا تھا) کہنے لگا کہ بس خبردار اب جو تو ہمارے مصلّیٰ پہ کھڑا ہوا۔ میرے خلاف قصبہ میں شور پڑ گیا اور میری مخالفت شروع ہو گئی۔…مولویوں نے میرا بائیکاٹ کروادیا عوام کالانعام مجھے اعلانیہ گالی گلوچ دینےپر اتر آئے۔میرا ماموں جو میرا خسر بھی تھا میرے خلاف ہو گیا اور کہنے لگا میرے گھر سے نکل جاؤ۔…اپنے خسر (آپؓ کے ماموں بھی تھے) کے گھر سے نکال دینے کے بعد آپؓ اپنے گاؤں موضع بقا پور آگئے تو گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سب گھر والے بھی مخالف ہو گئے۔اور برا بھلا کہتے رہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ’’بقا پور میں ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء تک تین سال ہر طرح کی مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گزرے۔ کئی کئی دن فاقہ کشی بھی کرنی پڑی۔…‘‘(حیات بقاپوری صفحہ ۱۹) حضرت مولوی حسن علی بھاگلپوریؓ نے جنوری ۱۸۹۴ء میں بیعت کی۔آپؓ انگریزی، عربی، فارسی، اردو، ہندی اور بنگلہ زبانوں کے ماہر اور ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔بیعت کے بعد جب واپس مدراس پہنچے تو وہی کچھ ہوا جو عاشقان صدق و وفا کے ساتھ ہوتا ہے۔مسجد میں وعظ کرنے سے روکا گیا۔ ہر مسجد میں اشتہار کیا گیا کہ حسن علی سنّت الجماعت سے خارج ہے۔ کوئی اس کا وعظ نہ سنے۔ پولیس کو اطلاع دی گئی کہ فساد پھیلانے والا ہے،غرضیکہ پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھے جاتے تھے اورپھر شیطان سے بھی بڑھ کر۔ جدھر جاتے انگلیاں اُٹھتیں۔ سلام کرتےجواب نہ ملتا۔ حضرت مولوی عبداللہ بوتالویؓ نے فروری ۱۹۰۱ء کو بیعت کی۔اس کے ساتھ ہی گاؤں میں آپ کی مخالفت کا شور پڑ گیا۔آپؓ کی مخالفت میں تیزی لانے کے لیے ایک مخالف مولوی کو بلایا گیا۔ پانی بھرنے والے ماشکیوں کو پانی بھرنے سے روک دیا گیا اور ہر طرح کا بائیکاٹ کر کے تکلیف دینا چاہی۔مخالفت میں شدّت آجانے اور نت نئے مسائل کے پیدا ہونے پہ آپؓ کو اپنا گاؤں بوتالہ چھوڑنا پڑا۔ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ نے حفظِ قرآن اور ابتدائی تعلیم کے بعد کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ لیا۔ ایام طالبعلمی میں ہی قبولِ احمدیت کی سعادت پائی۔مگر قبول احمدیت کی پاداش میں آپؓ کونہایت قیمتی اپنی آبائی جائیداد سے محروم ہونا پڑا۔ اختتامیہ یہ تاریخی جائزہ محض چند نمایاں مثالوں اور جھلکیوں پر مشتمل ہے، ورنہ روزِ اوّل سے لے کر آج تک جماعت احمدیہ پر جو مظالم ڈھائے گئے، ان کی مکمل تصویر کشی انسانی بساط سے باہر ہے۔ جس طرح آج کے دور میں جدید ذرائع اور میڈیا کے باوجود تمام واقعات مکمل طور پر رپورٹ نہیں ہو پاتے، ویسے ہی ابتدائی زمانے میں تو ایسی کوئی سہولت موجود ہی نہ تھی۔ نہ ریکارڈنگ کا کوئی نظام تھا، نہ خبر رسانی کا کوئی منظم ذریعہ، نہ ہی ایسی تنظیمی سطح پر رپورٹنگ ممکن تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے عہدِ مبارک میں اور اس کے بعد خلفائے احمدیت کے ادوار میں جس انداز سے مخالفت کی آندھیاں چلیں اور جس شدّت سے احمدیوں کو ان کے عقائد، شناخت اور دعوتِ حق کے جرم میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، وہ ایک ایسی مسلسل داستان ہے جس کے ورق صداقت، صبر، قربانی اور الٰہی تائید سے لبریز ہیں۔حضورؑ فرماتے ہیں کہ ’’ہم خود دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نےہمارے ساتھ کیا کای ہےکوئی دُکھ اور تکلیف جو وہ پہنچا سکتے تھے اُنہوں نے پہنچایا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد ۷صفحہ ۶۶، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اس کے باوجود ایک اور موقع پر حضورؑ نے اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ہمارے مخالف تو محض دل دُکھانے اور توہین کی نیت سے … میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لاتے ہیں اور مجھے لوگوں کا دغابازی سے مال کھانے والا قرار دیتے ہیں اورخود مجھے اور میری جماعت کی نسبت سؤر اور کتےّ اور مُردار خور اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھتے ہیں۔ (ماخوذ از نسیمِ دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۳۶۴) لیکن اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ ’’اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو ۔‘‘ (کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۱۵) حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ان سب تُرش تجربات کے باوجود جماعت احمدیہ کی ترقی، فتوحات اور عالمی وسعت، اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ یہ سلسلہ کسی انسانی سہارے کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ہے۔ وہی خدا جو فرماتا ہے: وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ، وہی آج بھی اس جماعت کی حفاظت اور نصرت فرما رہا ہے۔ مزید پڑھیں: مغربی معاشرے میں تربیت اولاد کے مسائل اور ان کا حل