صبر مصیبت کے وقت شکایت کو چھوڑ دینے کا نام ہے۔لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کے مفہوم میں صرف اتنی بات شامل ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے پاس شکوہ نہ کرے(حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ) اللہ تعالیٰ کے افضال میں سے ایک فضل انبیاء کا وجودہے۔ اس لیے کہ وہ ایک ہمہ جہت وجود ہوتے ہیں۔ ایک طرف ان کے اقوال و ارشادات پیروکاروں کی روحانی اور جسمانی زندگی کی نشوونما کا جزو لا ینفک ہوتے ہیں۔دوسری طرف ان کی اپنی زندگی بھی ماننے والوں کے لیے نمونہ ہوتی ہے۔ آئیے آنحضرت ﷺ کے وجود کو ہی دیکھتے ہیں۔ عام معاشرے میں رہنے والے ہر فرد کے لیے آپؐ کا وجود ایک کامل نمونہ ہے۔ چاہے وہ بادشاہ ہے یا غلام ہے، امیر ہے یا غریب ہے۔ کیونکہ آپؐ پر زندگی میں ایسے تمام واقعات گزرے جو کسی بھی اور انسان پر جب گزرتے ہیں تو اسے لازماً ایک سہارے اور نمونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک تاجر آدمی ہے اور معاشرے میں دیکھتا ہے کہ دھوکا اور جھوٹ کا بازار گرم ہے تو اس کے لیے آنحضرت ﷺکے ارشادات (کہ اللہ ہی رزق دینے والا ہے، اور یہ کہ دھوکا اور جھوٹ سے نفع تو کما لیں گے مگر برکت نہ رہے گی ) کے ساتھ ساتھ آپؐ کا عملی نمونہ بھی حوصلہ کو بڑھانے والا ہوگا۔اسی طرح جب کسی کو محض للہ مخالفت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس مشکل وقت میں بھی اگر وہ آپؐ کی ذات کا مطالعہ کرے تو اسے نہ صرف تسکین قلب نصیب ہو بلکہ اسے ان مصائب سے نکلنے کا طریق بھی مل جائے۔ اس موضوع پر آپ ﷺ کی زندگی کو دیکھنے سے قبل ایک اور چیز بھی قابل وضاحت ہے۔ وہ ہے ’’صبر‘‘ کا لفظ۔ یہ لفظ کن معنوں پر محیط ہے ؟ جب تک ہمیں اس کی پوری شناسائی نہ ہو گی تب تک ہم اس مضمون کو سمجھ نہ سکیں گے۔ اس کی وضاحت حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں کچھ یوں فرمائی ہے :’’صبر مصیبت کے وقت شکایت کو چھوڑ دینے کا نام ہے۔لیکن یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کے مفہوم میں صرف اتنی بات شامل ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے پاس شکوہ نہ کرے۔اگر اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی شخص اپنی شکایات بیان کرتا ہے تو یہ بات صبر کے خلاف نہیں۔چنانچہ لغت میں لکھا ہے فَاِذَا دَعَا اللّٰہَ الْعَبْدُ فِیْ کَشْفِ الضُّـرِّ عَنْہُ لَا یُقْدَحُ یعنی جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کو پکارے اور اسے کہے کہ اے میرے رب میری فلاں مصیبت کو دُور کردے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے صبر کے خلاف حرکت کی(اقرب)۔ وَفِی الْکُلِّیَّاتِ: اَلصَّبْـرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ۔ ابوالبقا جو ایک بہت بڑے ادیب گزرے ہیں انہوں نے اپنی کتاب کلیات میں لکھا ہے کہ صبر کا لفظ جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے، اور دوسروں سے کہا جاتا ہے کہ صبر کرو،یہ صرف مصیبت کے وقت استعمال ہوتا ہے۔جب کسی حادثہ کے وارد ہونے پر دوسرے شخص سے کہا جائے کہ آپ صبر سے کام لیں تو اس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ آپ جزع فزع نہ کریں یا اللہ تعالیٰ کا شکوہ نہ کریں یا آہ و فغاں سے اپنی آواز بلند نہ کریں۔ وَ اَمَّا فِی الْمُحَارَبَۃِ فَشَجَاعَۃٌ۔ لیکن کبھی لڑائی کے لئے بھی صبر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔اس وقت اس کے معنے شجاعت اور بہادری کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح صبر کا لفظ کبھی اِمْسَاکُ النَّفْس کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔یعنی اگر انسان اپنے نفس کو لغو اور فضول کاموں میں مبتلا ہونے سے روکے تو اس وقت بھی صبر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔…صبر کے معنے جرأت اور بہادری کے بھی ہیں۔صبر کے معنے قناعت کے بھی ہیں۔صبر کے معنے عفت کے بھی ہیں اور صبر کے معنے رازداری کے بھی ہیں۔‘‘(تفسیر کبیر جلد ۱۴ صفحہ ۲۴۱و ۲۴۲) جبکہ استقامت لفظ کی وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد سے ہوتی ہے کہ ’’کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاؤں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرض خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجودنہ ہو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کردے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے۔ اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں۔ اور وفا داری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں۔ صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں۔ ذلت پر خوش ہوجائیں۔ موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰صفحہ ۴۲۰) جامع ترمذی میں ایک روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: انبیاء ورسل پر۔پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں۔ پھر جو ان کے بعد ہیں۔ بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے۔ اگربندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے۔ پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پراس حال میںچلتا ہے کہ اس پر کو ئی گناہ نہیں ہوتا۔(سنن ترمذی کتاب الزھد، باب مَا جَاءَ فِي الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاَءِ حدیث ۲۳۹۸) جبکہ اسی مفہوم کی روایت امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں بھی بیان کی ہے۔ آئیے اب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور اس میں آج سے ۱۴۰۰ سال قبل آنحضرتﷺ کی حیات مبارکہ کو دیکھتے ہیں کہ آپؐ کے اسفار میں کہاں کہاں ایسے نازک حالات پیش آئے جب چاروں اطراف سے بلائیں آئیں اور ان سب کے باوجود آپ نے نہ قول سے اور نہ فعل سے کوئی شکوہ کیا اور عظیم شجاعت اور حوصلہ کا نمونہ دکھایا۔ ۱۔ سفر طائف ۱۰؍نبوی میں، جس سال حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی، آپؐ نے طائف کے عمائدین کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے سفر اختیار فرمایا۔ طائف مدینہ سے جنوب مشرق کی جانب ۴۰؍میل کے فاصلہ پر ایک شہر تھا۔ یہ شہر اس حد تک اثر رسوخ والا تھا کہ مکہ کے مقابل کا تھا۔ اسی وجہ سے تو مخالفین نے جب کہا:لَوْلَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۲)کىوں نہ ىہ قرآن دو معروف بستىوں کے کسى بڑے شخص پر اتارا گىا۔ تو اس میں بھی مکہ اور طائف ہی مراد تھا۔طائف میں متعدد قبائل آباد تھے جن میں خاندان عمیر رئیس القبائل تھا۔ یہ تین بھائی تھے عبد یالیل، مسعود اور حبیب۔ آپؐ نے ان تینوں کو اسلام کا پیغام پہنچایا۔ ان تینوں نے درشتی سے انکار کیا۔ ایک نے کہا :‘‘اگر تجھ کو خدا نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تو وہ (یعنی وہ بھائی مکہ جا کر)کعبہ کا پردہ چاک کردے گا۔’’ دوسرے نے کہا :’’کیا خدا کو تیرے سوا اور کوئی نہیں ملا تھا ؟‘‘ اور تیسرے نے کہا :’’میں بہرحال تجھ سے بات نہیں کر سکتا۔تُو اگر سچا ہے تو تجھ سے گفتگو کرنا خلافِ ادب ہے اور جھوٹا ہے تو گفتگو کے قابل نہیں۔‘‘(سیرت النبی ﷺ از شبلی نعمانی جلد ۱ صفحہ ۱۶۹) ان تینوں نے اس گفتگو کو عوام میں اشتعال کا ذریعہ بنایا اور آوارہ لوگوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا جو آپؐ پر پتھر برساتے اور گالیاں دیتے رہے۔ بعض کتب میں آتا ہے کہ جب آپؐ کو پتھر لگتے اور تکلیف سے آپ بیٹھ جاتے تو یہ شریر لوگ آپؐ کو بازو سے پکڑ کر پھر کھڑا کردیتے اور پھر ہنسی کرتے اور آپؐ پر پتھر برساتے۔(المواھب اللدنیہ جلد ۱ صفحہ ۱۹۸) یہاں تک کہ آپؐ طائف سے تین میل کے فاصلہ پر عرب سردار عتبہ بن ربیعہ کے انگوروں کے باغ میں پہنچے۔ یہی وہ سفر تھا جس کے بارے میں صحیح بخاری میں روایت ملتی ہے۔اس روایت میں طائف سے نکلنے کے بعد کا واقعہ ان الفاظ میں ملتا ہے کہ ’’پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے ردّ کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد ﷺ ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ( جن سے وہ تباہ و برباد ہوجائیں )۔ آپﷺ نے فرمایا، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو ا یک اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق روایت نمبر۳۲۳۱)ایک طرف مخالفین کا درشت رویہ تھا دوسری طرف آپؐ کا رحمة للعالمین وجود تھا جس نے اس حد تک تکلیف کو بھی برداشت کیا اور زبان پر شکوہ نہ لائے اور اس موقع پر بھی ان کے لیے فلاح کی دعا کی۔ ۲۔ایام حج میں تبلیغ جب حج کے ایام آتے تو عرب کے قبائل ہر طرف سے آکر مکہ کے آس پاس اترتے تو آپؐ ایک ایک قبیلہ کے پاس جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے۔ عرب کے مختلف مقامات پر میلے لگتے تھے جن میں دُور دُور سے قبائل آتے تھے۔ آپؐ ان میلوں میں جاتے اور تبلیغ اسلام فرماتے۔ ان میلوں میں عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز کے نام اکثر مؤرخین نے ذکر کیے ہیں۔ ان مواقع پر جن قبائل کے نام کتب میں ملتے ہیں ان میں بنو عامر، محارب، فزارہ، غسان، مرہ، حنیفہ، علیم،عبس، بنو نضر، کندة، کلب، حارث بن کعب، عذرہ اور حضارمہ ہیں۔ مسند احمد بن حنبل میں ایک روایت ملتی ہے جس میں ان قبائل کے پڑاؤ میں آپؐ کے تبلیغی دورہ کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ حدیث کچھ یوں ہے ’’حضرت ربیعہؓ سے مروی ہے کہ میں نے نوجوانی میں اپنے والد کے ساتھ نبی ﷺ کو ذو المجاز نامی بازار میں لوگوں کے مختلف قبیلوں میں جاجا کر ان کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے دیکھا۔آپؐ کے پیچھے ایک بھینگا آدمی بھی تھا۔اس کی رنگت اجلی اور بال لمبے تھے۔نبیﷺایک قبیلے کے پاس جاکر رکتے اور فرماتے: اے بنی فلاں !میں تمہاری طرف اللہ کا پیغمبر ہوں،میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کر و، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کر وتا کہ اللہ کا پیغام پہنچاسکوں۔آپؐ جب اپنی بات سے فارغ ہوتے تو وہ آدمی پیچھے سے کہتا اے بنوفلاں! یہ شخص چاہتا ہے کہ تم سے لات و عزیٰ (دو بتوں کے نام ہیں ) اور تمہارے حلیف قبیلوں کو چھڑا دے اور اپنے نئے ایجاد کردہ دین کی طرف تمہیں لے جائے۔اس لیے تم اس کی بات نہ سننا اور نہ اس کی پیروی کرنا۔ حضرت ربیعہؓ کہتے ہیں(جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے ) کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ یہ پیچھے والا بھینگا آدمی کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ نبی ﷺ کا چچا ابولہب ہے۔‘‘(مسند احمد بن حنبل حدیث ربیعہ بن عباد ) پھر ایک اور روایت ہے کہ ’’بنومالک بن کنانہ کے ایک بزرگ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو ذوالمجاز نامی بازار میں چکر لگاتے ہوئے دیکھا۔ آپؐ فرما رہے تھے لوگو! لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لو تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ جبکہ ابوجہل مٹی اچھالتے ہوئے کہتا جاتا تھا لوگو! یہ تمہیں تمہارے دین سے بہکا نہ دے، یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے معبودوں کو اور لات وعزٰی کو چھوڑ دو۔ لیکن نبی ﷺ اس کی طرف توجہ نہ فرماتے تھے۔‘‘(مسند احمد بن حنبل، حدیث شیخ من بنی مالک ) ان تبلیغی دوروں میں صرف یہ نہ تھا کہ مکہ کے مخالفین ساتھ ساتھ اپنی ایذا رسانی کو جاری رکھے ہوئے تھے بلکہ وہ قبائل بھی آپؐ کے ساتھ درشتی کا رویہ برقرار رکھتے تھے۔ بنی حنیفہ جو یمن کا قبیلہ تھا، انہوں نے سخت درشتی سے جواب دیا۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۴۳) یہ وہی قبیلہ تھا جس کا رئیس بعد میں مسیلمہ کذاب بنا۔ ان سب مخالفتوں کے باوجود آپؐ صبر اور استقامت سے قبائل کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ صبر کرنے والے آخر فلاح پائیں گے انہی ملاقاتوں میں آپ کی ایک ملاقات انصار کے قبیلہ بنی خزرج کے چھ افراد سے عقبہ گھاٹی میں ہوئی اور یہ لوگ آپؐ پر ایمان لے آئے۔ (سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۴۹) ۳۔سفر ہجرت؍ ہجرت مدینہ آپﷺ کی زندگی میں بہت اہم سفر، ہجرت مدینہ کا سفر کا ہے۔ یہ سفر ابتدا سے ہی مصائب میں گھرا ہوا تھا۔ مخالفت کا یہ عالم تھا کہ دار الندوہ میں یہ مشورہ ہو رہا تھا کہ ’’محمد کو آہنی زنجیروں میں جکڑ کر ایک کمرہ میں بند کر دو تا وہیں پڑا پڑا مر جائے ‘‘ اور تمام کفار قریش اس بات پر راضی ہو گئے کہ سب نوجوان مل کر ایک حملہ میں ہی نعوذباللہ محمد ؐکو قتل کر دیں۔ پھر جب گھر سے نکل کر غار ثور میں پہنچے تو وہاں بھی کفار سر پر تھے۔ اس سخت مشکل میں بھی جب حضرت ابو بکرؓ نے عرض کی کہ اب تو کفار غار کے سر پر آ گئے ہیں اور اگر وہ جھانکیں تو ہمیں دیکھ سکتے ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا:لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (کہ غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے )۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ اے ابو بکر !ایسے دو بندوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا خدا ہو۔(صحیح بخاری کتاب اصحاب النبیﷺ باب مناقب المہاجرین ) غار ثور سے نکلے اور عام راستے سے ہٹ کر سمندر کا راستہ اختیار کیا تو بھی کفار کا خطرہ سر پر تھا۔ اس موقع پر یہ خطرہ سراقہ بن مالک کی شکل میں سامنے آیا جو انعام کے لالچ میں ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی نیت سے سرپٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا آ رہا تھا۔ اس موقع پر بھی یہی واقعہ ملتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے مگر کسی بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ آپؐ نے سراقہ کو تعاقب میں دیکھ کر گھبراہٹ کا اظہار کیا ہو۔ یہی وہ استقامت تھی جو اللہ تعالیٰ پر کامل یقین کی وجہ سے آپ نے عملاً دکھائی۔ صحیح بخاری میں ایک روایت ہے سراقہ بن مالک خود روایت کرتے ہیں کہ میں جب آپؐ کے تعاقب میں گھوڑے پر سوار آپﷺ کے قریب پہنچا تو آپؐ قراءت فرما رہے تھے اور آپؐ ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے جبکہ حضرت ابو بکرؓ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھتے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرة النبیﷺ)۔آپؐ کا نمونہ اس سفر میں صبر اور استقامت کا عملی نمونہ تھا۔ آپؐ نے خدائی وعدوں پر کامل یقین رکھا اور مشکلات کو صبر اور استقامت سے برداشت کیا۔ ۴۔ بدر کی طرف سفر اسلام اور آپؐ کی زندگی میں ایک نہایت اہم سفر بدر کے میدان کی طرف سفر تھا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنی وحی میں فرما چکا تھا کہ تمہیں ایک چیز ضرور ملے گی۔ آیت قرآنی ہے کہ اور (ىاد کرو) جب اللہ تمہىں دو گروہوں مىں سے اىک کا وعدہ دے رہا تھا کہ وہ تمہارے لئے ہے اور تم چاہتے تھے کہ تمہارے حصہ مىں وہ آئے جس مىں ضرر پہنچانے کى صلاحىت نہ ہو اور اللہ چاہتا تھا کہ وہ اپنے کلمات کے ذرىعہ حق کو ثابت کر دکھائے اور کافروں کى جڑ کاٹ دے۔ تاکہ وہ حق کو ثابت کر دے اور باطل کا بطلان کردے۔ (الانفال ۷، ۸) آپؐ جانتے تھے کہ کفار کا لشکر آ رہا ہے اس کے باوجود خدائی وعدوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے استقامت دکھائی اور بظاہر بے سروسامانی کی سی کیفیت میں کفار کے مقابلہ کے لیے نکلے۔ اسی دوران راستے میں ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اس کی تفصیل صحیح مسلم کی روایت میں ملتی ہے حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدر کی طرف نکلے، جب آپؐ حرة الوبره مقام پر پہنچے، تو آپ کو ایک آدمی ملا، جس کی جرأت اور شجاعت و دلیری کا چرچا تھا، اسے دیکھ کرصحابہ خوش ہو گئے، جب وہ آپ کو ملا، تو اس نے آپؐ سے کہا میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ کا ساتھ دوں اور آپ کو جو کچھ ملے، اس سے حصہ لوں۔ رسول اللہؐ نے اس سے پوچھا:’’تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہو ؟‘‘ اس نے کہا، نہیں۔ آپؐ نے فرمایا:’’واپس چلے جاؤ، میں مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا۔‘‘پھر وہ چلا گیا۔ آپؐ چلتے رہے، حتیٰ کہ شجرہ (نامی مقام) پر پہنچ گئے۔ وہ آدمی دوبارہ آپؐ کو ملا اور اس نے آپ سے وہی بات کہی، جو پہلی دفعہ کہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے پہلی جیسی ہی بات فرمائی اور فرمایا:’’لوٹ جاؤ، میں ہرگز مشرک سے مدد نہیں لوں گا۔‘‘پھر وہ لوٹ گیا اور آپؐ کو بیداء کے مقام پر ملا۔ آپؐ نے اسے پہلی دفعہ والی بات فرمائی کہ ’’تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟‘‘اس نے کہا، جی ہاں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا ’’اب بڑی خوشی کے ساتھ ہمارے ساتھ چلو۔‘‘(صحیح مسلم کتاب الجھاد باب کراھة الاستعانة فی الغزو بکافر) یہ واقعہ آپؐ کی کمال استقامت کا عملی نشان ہے۔ آپؐ کو لوگوں کی طاقت اور شجاعت سے بڑھ کر خدا کے وعدوں پر یقین کامل تھا۔ اور ایک لمحہ کے لیے بھی اس میں کمی نہ آنے پائی ورنہ کوئی دنیاوی لیڈر ہوتا اور اپنی بے سروسامانی کی حالت سے آگاہ ہوتا تو کبھی بھی ایسے شخص کو انکار نہ کرتا۔ اور پھر اسی استقامت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جنگ میں فتح عطا فرمائی۔ ۵۔سفر احد شوال ۳؍ہجری میں کفار قریش تین ہزار کی تعداد میں مکہ سے لشکر لے کر مدینہ آئے اور احد پہاڑ کے پاس پڑاؤ ڈالا۔ اس کے مقابلہ کے لیے ۱۵؍شوال کو آپؐ مدینہ سے نکلے۔ اس موقع پر عبد اللہ بن ابی نے غداری کی اور تین سو افراد کے ساتھ واپس مدینہ لوٹ گیا اور یہ کہتا گیا کہ محمد (ﷺ) نے میری بات نہیں مانی اور ناتجربہ کار نوجوانوں کے کہنے پر باہر نکل آئے ہیں۔ پھر جب جنگ ہوئی تو اس میں مسلمانوں کو بھی تکلیف پہنچی اور آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک کو بھی تکلیف پہنچی۔ مگر اس مشکل کے باجود آپؐ نے صبر اور استقامت کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ آپؐ نے دن وہیں گزارا اور شہید صحابہؓ کی تدفین کے بعد ہی واپس مدینہ تشریف لائے۔ اب دیکھئے کہ ایک طرف تو بدر میں مکہ والوں کا نمونہ تھا کہ اپنے مرنے والوں کو میدان میں ہی چھوڑ کر بھاگ گئے اور جنہیں صحابہؓ نے اٹھا اٹھا کر بدر کے خشک کنویں میں ڈالا، مگر یہاں مسلمانوں کو بظاہر تکلیف بھی پہنچی مگر اس کے باجود آپ نے شہداء کی تکفین کے بعد ہی واپسی کا سفر شروع کیا۔ پھر جب رات کو مدینہ پہنچے تو کفار کے لشکر کے حملہ کا ڈر تھا۔ جس کے باعث آپؐ نے حمراء الاسد کا سفر اختیار فرمایا۔ یہ مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپؐ نے مدینہ میں چلنے سے قبل اعلان فرمایا کہ سوائے ان لوگوں کے جو احد میں شریک ہوئے تھے اَور کوئی ہمارے ساتھ نہ نکلے۔ (سیرت ابن ہشام) ان میں اکثر صحابہؓ زخمی تھے مگر وہ اس جوش سے نکلے کہ قبیلہ خزاعہ کے رئیس کا بیان ہے کہ مسلمان اس رعب سے نکلے تھے کہ وہ لشکر قریش کو دیکھ کر ہی بھسم کر دیں۔ اس بیان کو سن کر کفار مرعوب ہو گئے اور واپس مکہ چلے گئے۔ اب دیکھیں کہ آپؐ کا کمال صبر اور استقامت کا نمونہ تھا اور خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تھا۔ ورنہ کوئی دنیاوی لیڈر ہوتا تو یقیناً نئے اور تازہ دم سپاہیوں کو لے کر نکلتا نہ کہ زخمی اور تھکے ہوئے سپاہیوں کے ساتھ میدان میں اترتا۔ ۶۔ نجد کی طرف سفر آپؐ کو اطلاع ملی کہ بنی ثعلبہ اور محارب کی ایک جماعت نجد کے ایک مقام ذوامر میں اکٹھی ہو رہی ہے اور ان کا ارادہ مدینہ کے نواہی علاقوں میں حملہ کرنا ہے۔ ان کے مقابلہ کے لیے آپؐ صحابہؓ کے ساتھ نجد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس سفر میں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔ دشمن مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر پہاڑوں پر بھاگ گئے۔ اس سفر میں بھی ایک واقعہ ہوا جو آپؐ کی کمال استقامت کا عملی نمونہ ہے۔ صحیح بخاری میں اس واقعہ کی تفصیل درج ہے۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ نجد کی طرف جنگ کے لیے نکلے۔ جب رسول اللہ ﷺ لوٹے تو وہ بھی آپ کے ساتھ لوٹے۔ آپ کو ایک وادی میں جس میں کثرت سے ببول (جسے کیکر بھی کہا جاتا ہے)کے درخت تھے دوپہر آگئی۔ رسول اللہؐ اُتر پڑے اور لوگ اِدھر اُدھر بکھر کر درختوں کے سائے میں چلے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ببول کے درخت کے نیچے ڈیرہ لگایا اور اپنی تلوار اس سے لٹکا دی اور ہم تھوڑی دیر کے لیے سوگئے۔ تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں بلا رہے ہیں اور آپ کے پاس ایک بدوی ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس شخص نے میری تلوار مجھ پر سونت لی، جبکہ میں سو رہا تھا۔ میں جاگ اُٹھا اور وہ تلوار اس کے ہاتھ میں ننگی تھی۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے تین بار کہا اللہ۔(صحیح بخاری کتاب الجھاد باب من علق سیفہ بالشجر فی السفر) اس نے تلوار نیام میں کرلی، پھر بیٹھ گیا۔ حضرت جابرؓ نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اسے سزا نہ دی۔(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بنی مصطلق) اب دیکھیں کہ ایک طرف مخالفت کی انتہا تھی کہ مخالف جان سے مارنے کا کوئی موقع جانے نہ دیتے تھے اور دوسری طرف آپؐ کی کمال استقامت تھی کہ خدا کی ذات پر ایسا یقین تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ ۷۔ عمرہ کے لیے مکہ کی جانب سفر آپؐ نے ذو القعدہ ۶؍ہجری میں مدینہ سے مکہ کی جانب سفر کیا۔ جب آپؐ عسفان مقام پر پہنچے تو آپؐ کو اطلاع ملی کہ کفار پورے جوش میں ہیں اور انہوں نے اپنے جوش اور وحشت کے اظہار کے لیے چیتوں کی کھالیں پہن رکھی ہیں۔ جس پر آپؐ معروف راستے کو چھوڑ کر کٹھن پہاڑی راستہ سے حدیبیہ پہنچے جو کہ مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر تھا۔ یہاں پر کفار اور آپؐ کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے سے قبل جب ابھی گفت و شنید جاری تھی کفار نے ارادہ کیا کہ چالیس پچاس (اور بعض کتب میں ان کی تعداد ۸۰؍تھی) افراد کی پارٹی کو بھیجا جائے کہ وہ اسلامی کیمپ کے اردگرد چکر لگاتے رہیں تا موقع پا کر نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں۔ ان کا راز کھل گیا اور یہ سب پکڑے گئے۔ان سب کو آپؐ نے معاف فرمایا اور ان کو رہا کر دیا۔ کفار آپؐ کو اور مسلمانوں کو پوری طرح نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے تھے۔جب وہ اس حربہ سے کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے دوسری راہ اختیار کی۔ ہوا کچھ یوں کہ جب آپؐ نے حضرت عثمان ؓ کو مکہ بطور ایلچی بنا کر بھیجا تو انہوں نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو روک لیا اور مشہور کر دیا کہ ان سب کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے کمال استقامت کا نمونہ دکھایا۔ اور خدائی وعدوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے باوجود دنیاوی سامان حرب کے نہ ہونے کے صحابہ سے بیعت لی جو بیعت رضوان کے نام سے موسوم ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے فرمایا :’’اگر یہ اطلاع درست ہے تو خدا کی قسم ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ٹلیں گے کہ عثمان کا بدلہ نہ لے لیں ‘‘ پھر صحابہؓ سے فرمایا :’’آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ عہد کرو کہ تم میں سے کوئی شخص پیٹھ نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘قریش کو جب اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت عثمان ؓ اور ان کے ساتھیوں کو چھوڑ دیا اور وہ بخیریت مسلمانوں کے کیمپ میں واپس آ گئے۔( ماخوذ از سیرت خاتم النبیینﷺ صفحہ ۷۵۶ تا ۷۶۳) ۸۔ سفر تبوک جب رسول اللہﷺ تبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو منافقین کے ایک گروہ نے یہ منصوبہ بنایا کہ آپؐ کو نعوذ باللہ سفر کے دوران رات کے اندھیرے میں گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے سواری سے نیچے پھینک کر قتل کر دیا جائے۔بعض کتب میں ہے کہ یہ منافقین تعداد میں ۱۲؍تھے۔(الرحیق المختوم صفحہ ۵۸۷) آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی جس کی وجہ سے آپؐ نے صحابہ کو وادی کے اندرون کا راستہ اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا جبکہ خود آپؐ نے پہاڑی درے کا راستہ اختیار کیا۔ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت عمارؓ تھے جو اونٹ کی نکیل تھامے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمانؓ اونٹنی کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔اس دوران ان منافقین نے اپنے چہرے ڈھانپ کر آپؐ کا منتخب کردہ راستہ اختیار کیا۔ جب وہ قریب آنے لگے تو آپؐ نے حضرت حذیفہ بن یمانؓ کو ان کی طرف بھیجا جنہوں نے اپنی ڈھال سے ان منافقین کے اونٹوں کو ڈرا کر واپس بھیج دیا۔ جب ان منافقین نے دیکھا کہ آپؐ کے ساتھ تو اور افراد بھی ہیں تو وہ لوگ لوٹ گئے۔ جب آپؐ اس پہاڑی درے سے گزر گئے تو وہاں باقی لوگوں کو آپ کے انتظار میں پایا۔ وہاں آپؐ نے حضرت حذیفہؓ سے فرمایا کہ کیا تمہیں علم ہے وہ رات کو جو سوار آئے تھے وہ کون تھے ؟ آپؐ نے نہ صرف ان کے نام بتائے بلکہ یہ بھی بتایا کہ ان کا ارادہ کیا تھا۔ ( سیرت النبویہ از ابن کثیر جلد۴ صفحہ۳۴) جبکہ ایک اور کتاب میں درج ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ ان کا ارادہ تھا کہ وہ میرے ساتھ پہاڑ کی چوٹی تک سفر کریں اور وہاں سے مجھے نیچے پھینک دیں۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد۵ صفحہ ۴۶۶) الغرض آپؐ کی حیات مبارکہ کو دیکھیں تو جہاں بھی ہمیں ایسے حالات نظر آتے ہیں وہیں پر آپؐ کی کمال استقامت اور صبر کا نمونہ ہی ہمیں ملتا ہے۔ چاہے وہ اس وقت کے حالات ہوں جب آپ تنہا تھے اور آپ نے اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا تھا کہ ’’خدا کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم اس کی مخلوق کو نہ پہنچاؤں، میں ہرگز اس کے لیے آمادہ نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں‘‘ اور چاہے حنین میں وہ وقت کہ جب ۱۲؍ہزار مسلمانوں کا لشکر دشمن کی تیر انداز ی سے بوکھلا گیا تو آپ بلند آواز سے فرما رہے تھے کہ ’’ انا النّبی لا کذب، انا ابن عبد المطلب‘‘(میں اللہ کا نبی ہوں اور اس میں کوئی جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ) یہ تھا خدا کے وعدوں پر کامل یقین۔ جس کے باعث مخالفت اور مشکل کے باوجود ہر موقع پر آپؐ نے صبر و استقامت کے پہلو کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں مایوس و غمزدہ کوئی اس کے سوا نہیں قبضے میں جس کے قبضۂ سیفِ خدا نہیں آپؐ نے عملی نمونہ سے دکھایا کہ چاہے جو بھی حالات ہو جائیں، جس کے ہاتھ میں سیف خدا ہے اسے کیا غم اور کیا خوف۔ پس آج جو مسیح زماں کو ماننے کی وجہ سے احمدیوں پر مصائب اور تنگی کے حالات ہیں ان سب کے لیے آپؐ کا اسوہ اور یہ شعر ایک قطبی ستارہ ہے کہ چاہے جتنی بھی اندھیری رات ہو یہ ستارہ بہر حال پیروی کرنے والے کو منزل مقصود تک پہنچا دے گا۔ (ان شا ءاللہ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :’’ایک اور آیت قرآن شریف میں ہے اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَآئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا۔ (حٰم السجدہ:۳۱)۔ اس سے بھی مراد متقی ہیں۔ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔ یعنی ان پر زلزلہ آئے، ابتلا آئے، آندھیاں چلیں مگر ایک عہد جو اس سے کر چکے اس سے نہ پھرے۔پھر آگے خدا فرماتا ہے کہ جب انہوں نے ایسا کیا اور صدق اور وفا دکھلایا تو اس کا اجر یہ ملا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلَآئِکَۃُ۔ یعنی ان پر فرشتے اترے اور کہا کہ خوف اور حزن مت کرو تمہارا خدا متولّی ہے۔ وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حٰم السجدہ:۳۲) اور بشارت دی کہ تم خوش ہو اس جنت سے اور اس جنّت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے جیسے ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔ (الرحمٰن: ۴۷) پھر آگے ہے نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُ کُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (حٰم السجدہ:۳۲)۔دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے ولی اور متکفّل ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۲۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’خدا پر سچا ایمان لاؤ اس سے سب کچھ حاصل ہو گا استقامت چاہئے۔ انبیاؤں کو جس قدر درجات ملے ہیں استقامت سے ملے ہیں۔‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۷۹، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) اللہ ہم سب کو مشکلات میں صبر اور استقامت کی توفیق عطا فرمائے آمین ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: نرم اور پاک زبان کا استعمال