https://youtu.be/Po_LehY6qtc محمد ﷺ کی مکی زندگی میں اسلام صرف توحید کا داعی تھا۔ لیکن جب آپؐ اور آپؐ کے ساتھی ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو اسلام ایک زبر دست سیاسی طاقت بن گیا۔محمدؐ نے قریش کے مطاعن اور مظالم کو صبر سے برداشت کیا اور با لآ خر آپؐ کو اذنِ الٰہی ملا کہ آپؐ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ پس مجبور ہو کر آپؐ نے تلوار کو بے نیام کیا۔…محمدﷺ کے الہامات میں یہ تعلیم ہوتی تھی کہ مظالم کو صبر سے برداشت کرنا چاہیے۔ صبر ایک اعلیٰ درجہ کا بنیادی خُلق ہے جس کے لغوی معنی اپنے آپ کو روک رکھنے کے ہیں اور یہ کئی اور اخلاق کا منبع و سرچشمہ اور جامع ہے۔ انسان کا مصیبت کے وقت ضبطِ نفس اور برداشت سے کام لینا صبر ہے تو میدانِ جنگ میں تلواروں اور تیروں کے سامنے اپنےآپ کو روک رکھنا شجاعت ہے۔ عیش وعشرت اور اسراف سے رُک جانا زُہد ہے تو شرمگاہ کی حفاظت عفّت ہے۔ کھانے پر ٹوٹ پڑنےسے اپنے آپ کو روک رکھنا وقار ہے تو غصہ کے اسباب سے رکنا حِلم ہےاورنماز میں توجہ کو قائم رکھنا استقامت ہے۔ یہ سب اخلاق صبر کی شاخیں ہیں ۔ انبیاءان تمام اخلاق کا عمدہ نمونہ ہوتے ہیں جو سب سے بڑھ کر یہ پاک نمونہ ہمارے آقا و مولاحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے دکھایا۔آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے آزمائشوں میں سے گزرنے کی پیشگی خبر دے کر صبر کی نصیحت فرمائی تھی:لَتُبۡلَوُنَّ فِیۡۤ اَمۡوَالِکُمۡ وَاَنۡفُسِکُمۡ ۟ وَلَتَسۡمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَمِنَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَاِنۡ تَصۡبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ (آل عمران: ۱۸۷) (اے مسلمانو!) تم ضرور اپنے اموال اور اپنى جانوں کے معاملہ مىں آزمائے جاؤ گے اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہىں تم سے پہلے کتاب دى گئى اور ان سے جنہوں نے شرک کىا، بہت تکلىف دِہ باتىں سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقوىٰ اختىار کرو تو ىقىناً ىہ اىک بڑا باہمت کام ہے۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایذا رسانی کےسلوک پر اللہ تعالیٰ آپؐ کو تسلی کے رنگ میں فرماتا ہے:تجھے کچھ نہىں کہا جاتا مگر وہى جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گىا۔ ( حٰم السجدۃ:۴۴)یعنی اُن کے ساتھ بھی اسی طرح کا تمسخرو استہزا ء اور اسی قسم کے اعتراض کیے جاتے تھے۔ مگر ان تمام اذیتوں پر آپؐ کو صبراور استقامت کی تلقین کی گئی۔ چنانچہ فرمایا: پس اِسى بنا پر چاہئے کہ تُو انہىں دعوت دے اور مضبوطى سے اپنے موقف پر قائم ہو جا جىسے تجھے حکم دىا جاتا ہے اور اُن کى خواہشات کى پىروى نہ کر۔ (الشوریٰ:۱۶) نیز فرمایا:پس (اے نبی!) صبر کر جىسے اُولوالعزم رسولوں نے صبر کىا۔ (الاحقاف:۳۶) زبانی ایذا رسانی پر صبر سلسلہ انبیاء کے سردار ہونے کے ناطے ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سب سے زیادہ آزمائے گئے۔ آپؐ نے زبانی اذیتیں بھی سن کر برداشت کیں اور جسمانی دکھ بھی سہے۔ اور یہ تمام مصائب خداکی راہ میں خوشی سے جھیلے۔کبھی ماتھے پر کوئی شکن یا زبان پر کوئی شکوہ نہیں لائے بلکہ بڑی شان اور وقار کے ساتھ اپنے مولیٰ کی راہ پر گامزن رہے اور اعلیٰ درجہ کی استقامت کا نمونہ دکھلادیا۔ ہمارے آقا ﷺ کیسے کوہِ وقار انسان ہیں جن کو معاذاللہ شاعر، دیوانہ، جادوگر اور کذّاب کہہ کر ہر گندی گالی دی جاتی ہے، مگر نہ وہ صرف یہ دشنام دہی برداشت کرتے ہیں بلکہ ان دشمنانِ دین کے لیے دعاگو ہیں کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے یہ جانتے نہیں۔ ( بخاری کتاب المغازی) شدائدوآلام کے اس زمانے میں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی کو تلقین صبرِ، تائیدونصرت کی یقین دہانی اور حفاظت کے وعدے نہ ہوتے تو وہ مشکلات کے پہاڑ کیسے عبور ہوتے۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو قدم قدم پر تسلی دیتا تھا۔کبھی استہزا کرنے والوں کے بارے میں یہ فرما کر کہ’’ىقىناً ہم استہزا کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافى ہىں۔‘‘(الحجر:۹۶) یعنی اللہ تعالیٰ نپٹ لے گا اور تجھے ان کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ تو کبھی یہ کہہ کر اطمینان دلایا جاتا کہ’’اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔‘‘(المائدہ:۶۸) وہ استہزا کرنے والے جب آپؐ کے پاک نام محمدؐ کو (جس کے معنے ہیں تعریف کیا گیا) بگاڑکر مذممّ( یعنی قابل مذمّت) کہا کرتے تو آپؐ فرماتے۔ دیکھو!اللہ تعالیٰ مجھے کس طرح ان کی گالیوں اور دشنام دہی سے بچا لیتاہے۔ یہ کسی مذمّم کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ میرا نام خدا نے محمدؐ رکھا ہے۔( بخاری کتاب المناقب) دیگر اذیتوں پر صبر کفارِ مکہ نے رسول اللہﷺ کو اذیت دینے کے لیے جو مختلف طریق آزمائے وہ نہایت ظالمانہ، شرمناک اور انسانیت سوز تھے مگر یہ تمام حربے رسول اللہؐ کےپائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے۔ ایک ہتھکنڈا دشمن نے یہ آزمانا چاہا کہ رسول اللہؐ کی بیٹیوں کو جن کے نکاح قریش میں ہو چکے تھے،طلاق دلوائی جائے۔ چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے عتبہ بن ابو لہب کو اس پر آمادہ کیا۔ جس نے رسول اللہؐ کی بیٹی حضرت رقیہؓ کو طلاق دے دی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ھشام جلد۲ صفحہ۲۹۶) ابو لہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کا نکاح رسول اللہؐ کی بیٹی ام کلثومؓ سے ہوا تھا۔ ابولہب نے اس پر بھی دباؤ ڈال کر طلاق دلوائی۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد۸ صفحہ ۳۷) رسول کریمؐ کو آزادانہ نماز پڑھنے کی بھی آزادی نہ تھی۔ چنانچہ نماز عصر کے وقت آپؐ مختلف گھاٹیوں میں جا کر اکیلے یا دو، دو کی صورت میں چھپ کر نماز ادا کرتے۔(مستدرک حاکم جلد۴ صفحہ۵۲) ان مظالم میں سردار مکہ ابوجہل پیش پیش تھا جو اپنی ریاست کے بل بوتے پر نو مسلموں کو ذلیل ورسواکرتااور طرح طرح کی دھمکیاں دیتا۔ اگر وہ نو مسلم تاجر ہوتا تو اسے بائیکاٹ کی دھمکی دی جاتی، اگر وہ بےچارہ کسی کمزور قبیلہ سے ہوتا تو اسے مارتے پیٹتے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد۱ صفحہ ۳۴۲) خود رسول اللہؐ کی ذات بابرکات بھی ان ظالموں کے تمسخر اور استہزا سے محفوظ نہ تھی۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھادیتی۔ ہاتھ میں پتھر لے کر رسول اللہؐ پر حملہ کرنا چاہتی مگر ہمیشہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق آپؐ کی حفاظت فرماتاتھا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد۱ صفحہ ۳۷۶) دشمنانِ اسلام رسول اللہؐ کو کسی پہلو چین نہ لینے دیتے۔ گھر میں چولہے پر ہنڈیا پک رہی ہوتی تو وہ اس میں غلاظت پھینک دیتے۔ حتیٰ کہ نماز پڑھتے ہوئے دشمن کے امکانی حملے سے بچنے کے لیے رسول اللہؐ ایک چٹان کو ڈھال بنا کر کھڑے ہوتے۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد۲ صفحہ ۸۵) اُم جمیل رسول اللہؐ کو گالیاں دیتی اور کہتی تھی ہم نے مذمّم کا انکار کردیا ہے۔ ہم اس کے دین سے بیزار ہیں اور اس کی نافرمانی کرتے ہیں۔( مستدرک حاکم جلد ۲ صفحہ ۳۶۱ بیروت) اُمیہ بن خلف رسول اللہؐ کو علانیہ بھی گالیاں دیتا اور اشاروں میں بھی ایسی حرکات کر کے آپؐ کو تمسخر کا نشانہ بناتا۔ اُبی بن خلف گلی سڑی ہڈی اٹھا کر لایا اسے ہاتھ سے مسل کر رسول اللہؐ کی طرف پھونک مار کر کہنے لگا اے محمدؐ تم کہتے ہو اس طرح گل سڑ جانے اور مٹی ہو جانے کے بعد ہم پھر اُٹھائے جائیں گے؟ آپؐ نے فرمایا :’’ہاں اللہ تعالیٰ تم سب کو اُٹھائے گا اور پھر آگ میں داخل کرے گا‘‘۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد۱صفحہ ۳۸۵) عاص بن وائل رسول اللہؐ کو بےاولاد ہونے کے طعنے دیتا۔ ولید بن مغیرہ کہتا اگر فرشتہ اترنا ہی تھا تو ہمارے جیسے شہر کے کسی بڑے سردار پر اترتا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد۱صفحہ ۳۸۴) جسمانی اذیتیں مکی دور میں مشرکین مکہ کی مخالفت اور انکار بالا صرار سے تنگ آکر جب ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمدؐ نے الٰہی ارشاد کےمطابق طائف کا قصد فرمایا تو آپؐ کو زندگی کی سب سے بڑی تکلیف اور اذیت وہاں اُٹھانی پڑی۔ حضرت عائشہؓ نے ایک دفعہ آپؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہؐ ! جنگ اُحد(جس میں آپؐ شدید زخمی ہوئے اور تکلیف اُٹھائی )سے زیادہ بھی کبھی آپؐ کو تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے؟ رسول اللہؐ نے فرمایا: اے عائشہ! میں نے تیری قوم سے بہت تکلیفیں برداشت کیں۔ مگر میری تکلیفوں کا سخت ترین دن وہ تھا جب میں طائف کے سردار عبدیالیل کے پاس گیا اور پیغام حق پہنچانے کے لیے اس سے اعانت اور امان چاہی مگر اس نے انکار کردیا بلکہ شہر کے اوباش میرے پیچھے لگا دئیے جو مجھے پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ میرے پاؤں سے خون بہنے لگا۔ تب میں افسردہ ہو کر وہاں سے لوٹا۔اس موقع پر ہمارے آقاومولیٰؐ نے دردوکرب میں ڈوبی ہوئی دعا کی۔ اس سے آپؐ کی اس جسمانی تکلیف اور اذیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اس موقع پر آپؐ نے برداشت کی۔ دعا سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور طائف والوں کے انکار اور ظلم کے مقابل پر اپنی بے بسی اور بے کسی کا عالم دیکھ کر اس اولوالعزم رسولؐ سیدالمعصومین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا۔ آپؐ نے اپنے مولیٰ کی غیرت کو یوں جوش دلایا کہ ’’اے خداوند! میں اپنے ضعف وناتوانی، مصیبت اور پریشانی کا حال تیرے سوا کس سے کہوں؟ مجھ میں صبر کی طاقت اب تھوڑی رہ گئی ہے۔ مجھے اپنی مشکل حل کرنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی۔ میں سب لوگوں میں ذلیل ورسوا ہو گیا ہوں۔ تیرا نام ارحم الراحمین ہے تو رحم فرما! کیا تو مجھے دشمن کے حوالے کردے گا جو مجھے تباہ وبرباد کردے۔ خیر! جو چاہے کر پر تو مجھ سے ناراض نہ ہونا۔ بس پھر مجھے کسی کی پروا نہیں ہے۔‘‘(المعجم الکبیر للطبرانی جلد ۱۱ صفحہ ۱۷) نبی کریمؐ کی سفر طائف کے ابتلا میں غیر معمولی استقامت کی گواہی مشہور مستشرق سرولیم میور نے خوب دی ہے:’’محمدؐ کے طائف کے سفر میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک تنہا شخص جس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور ردّ کر دیا، وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا اسی طرح وہ ایک بت پرست شہر میں جا کر ان کو توحید کی طرف بلاتا اور توبہ کا وعظ کرتا ہے۔ اس واقعہ سے یقیناً اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ محمدؐ کو اپنے صدق دعویٰ پر کس درجہ ایمان تھا۔ (life of Mahomet by Sir William Muir page: 117 new edition1877) حضرت ابو طالب کی وفات کے بعد تو رسول اللہؐ کی ایذادہی کا سلسلہ بہت تیز ہو گیا۔ یہاں تک کہ آپؐ کی ذات پر حملے ہونے لگے ایک بدبخت نے آپؐ کے سر پر خاک ڈال دی۔ رسول کریمؐ اس حالت میں گھر تشریف لائے۔آپؐ کی لخت جگر حضرت فاطمہؓ مٹی بھرا سر دھوتی تھیں اور ساتھ روتی جاتی تھیں اور رسول اللہؐ اسے تسلی دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ بیٹی! رونا نہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کا محافظ ہے۔ پھر فرمایا: قریش نے میرے ساتھ ابوطالب کی وفات کے بعد بدسلوکی کی حد کردی ہے۔ ( السیرۃ النبویۃ لابن ہشامجلد۲ صفحہ ۲۶) الغرض ابوطالب کی وفات کے بعد قریش رسول اللہؐ کو دکھ پہنچانے کا کوئی حیلہ یا بہانہ ضائع نہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہؐ نے ایک دفعہ ابوطالب کی کمی محسوس کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے چچا! آپؐ کی جدائی مجھے کس قدر محسوس ہوتی ہے۔ (مجمع الزوائدللھیشمی جلد ۶ صفحہ ۱۵) ایک روز تو قریش نے رسول کریمؐ پر مظالم کی حد کردی۔ آپؐ گھر سے باہر نکلتے تو جو بھی ملا خواہ وہ آزاد تھا یا غلام اس نے آپؐ کی تکذیب اور ایذارسانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ رسول اللہؐ مغموم ہو کر واپس لوٹے اور چادراوڑھ کر لیٹ رہے تب حکم ہوا کہ اے چادر اوڑھے ہوئے! اٹھ اور لوگوں کو انذارکر۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشامجلد ۱ صفحہ ۳۱۱) امر واقعہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے شدائدوآلام کا حال اصحاب رسولؐ نے بہت کم بیان کیاکیونکہ ایک طرف یہ مضمون سخت تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا تو دوسری طرف ادب رسولؐ کا بھی تقاضا تھا کہ یہ تذکرے عام نہ ہوں۔ خود نبی کریمؐ کمال صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے کبھی بھی ازخود ان شدائدوآلام کے قصّے نہیں سناتے تھے۔ گھریلو ماحول میں کبھی بات ہوگئی تو حضرت عائشہؓ کو ایک دفعہ اتنا بتایا: میں(مکہ میں) دو بدترین ہمسایوں ابولہب اور عتبہ بن ابی معیط کے درمیان رہتا تھا یہ دونوں گوبر اٹھا کے لاتے اور میرے دروازے پر پھینک دیتے، حتّٰی کہ اپنے گھروں کی غلاظت بھی میرے دروازے پر ڈال جاتے۔آپؐ باہر نکلتے تو صرف اتنا فرماتے اے عبد مناف کی اولاد! یہ کیسا حق ہمسائیگی تم ادا کرتے ہو؟پھر آپؐ اس گند کو خودراستہ سے ہٹادیتے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد۱ صفحہ ۲۹۵ بیروت) قاتلانہ حملہ رسول اللہؐ کو آزادی ضمیر ومذہب سے محروم کر کے جذباتی تکالیف سے دل آزاری کی جاتی تھی اور آپؐ کی ذات پر قاتلانہ حملے تک کیے گئے۔ رسول اللہؐ کو طواف کعبہ سے بھی روکا جاتا تھا۔ کبھی بیت اللہ میں داخل ہو کر دو رکعت نماز پڑھنا چاہی تو اس سے بھی منع کر دیے گئے۔ عروہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے کہا کہ قریش نے آنحضرتؐ کو جو سب سے بڑا دکھ پہنچایا اور آپؐ نے دیکھا ہو وہ سنائیں۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ نے بیان کیا کہ ’’ایک دفعہ خانہ کعبہ میں قریش کے سردار جمع تھے اور میں بھی موجود تھا۔ وہ کہنے لگے اس شخص کو جتنا ہم نے برداشت کیا ہے آج تک کسی اور کو نہیں کیا۔ اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے باپ دادا کو برابھلا کہا،ہمارے دین کو خراب قراردیا، ہماری جمعیت میں تفرقہ ڈال دیا اور ہمارے معبودوں کو گالیاں دیں، ہم نے اس کی باتوں پر حددرجہ صبرکیا۔ ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپؐ نے آکر حجراسود کو بوسہ دیاپھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے۔ اس دوران ان سرداروں نے رسول اللہؐ کے کسی دعوے کاذکر کر کے آپؐ پر اعتراض کے رنگ میں آنکھ سے اشارہ کیا، جس کا اثر مَیں نے آپؐ کے چہرے پر دیکھا۔ پھر جب آپؐ دوسری دفعہ گزرے تو انہوں نے اسی طرح طعن کیا اور میں نے رسول اللہؐ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے۔ طواف کے تیسرے چکر میں بھی سرداران قریش نے یہی حرکت کی۔ آپؐ نے بڑے جلال سے انہیں مخاطب کرکے فرمایاکہ ’’اے قریش کی جماعت! سن لو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے۔ میں تمہیں ہلاکت کی خبر دیتا ہوں۔‘‘میں نے دیکھا کہ اس بات کا لوگوں پر اتنا اثر ہوا جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ یہاں تک کہ ان میں سے سختی کی تحریک کرنے والا بھی نرمی سے کہنے لگاکہ ’’اےابوالقاسم! آپؐ تشریف لے جائیں۔ خدا کی قسم آپ جاہل نہیں ہیں۔‘‘ نبی کریمؐ تشریف لے گئے۔ اگلے دن سردارانِ قریش خانہ کعبہ میں پھر جمع ہوئے اور میں ان کے ساتھ تھا۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کل جو واقعہ گزراہے اس کے جواب میں محمدؐ نے جو کہا اس کے باوجود تم نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ رسول اللہؐ تشریف لائے۔ سب آپؐ کی طرف لپکے۔ آپؐ کو گھیر لیا اور کہنے لگے آپ ہمیں یہ یہ کہتے ہو۔ ہمارے معبودوں کو اور ہمارے دین کو خراب قرار دیتے ہو۔ رسول اللہؐ ہر بات کا جواب دیتے جا رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے آپؐ کی چادر کو پکڑا اور اس کو بَل دے کر آپؐ کا گلا گھونٹنے لگا۔ حضرت ابو بکرؓ آڑے آئے اور اس شخص کو پیچھے ہٹایا اور روتے ہوئے کہا:’’تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔‘‘یہ واقعہ سنا کر عبداللہ بن عمروؓ کہنے لگے: یہ ایک سخت ترین اذیت ہے جو میں نے رسول اللہؐ کو قریش سے پہنچتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔( مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۱۸) ایک روز سردارانِ قریش خانہ کعبہ کے پاس مقام حجر میں جمع ہوئے۔ لات و منات اور عزٰی کی قسمیں کھا کر کہا کہ آج کے بعد اگر ہم نے محمدؐ کو دیکھ لیا تو ایک شخص کی طرح سب مل کر حملہ آورہوں گے اور دَم نہ لیں گے جب تک کہ ان کو قتل نہ کردیں۔حضرت فاطمہؓ کو پتا چلا تو آپ روتی ہوئی اپنے بزرگ باپؐ کے پاس تشریف لائیں۔ عرض کیا کہ آپؐ کی قوم کے سرداروں نے ایسی قسمیں کھائی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص آپؐ کے خون کا پیاسا ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’اے میری بیٹی مجھے ذرا وضو کا پانی دینا۔‘‘پھرآپؐ وضو کر کے بیت اللہ تشریف لے گئے، جہاں وہ سب سرداربراجمان تھے۔ آپؐ کو دیکھتے ہی وہ سب بیک زبان ہو کر بولے:’’لو وہ آگیا‘‘۔مگر کسی کو کھڑا ہو کر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔سب کی آنکھیں جھک گئیں اور کوئی بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا، حتّٰی کہ آپؐ کی طرف آنکھ تک اٹھانے کی جرأت کسی کو نہ ہو سکی۔ تب رسول کریمؐ خود ان کی طرف متوجہ ہوئے اور جا کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے، عین ان کے سروں کے اوپر۔آپؐ نے مٹی کی ایک مٹھی بھر کر ان کی طرف پھینکی اور با آواز بلند فرمایا:’’شَا ھَتِ الوُ جُوہُ‘‘( یعنی رسوا ہو گئے چہرے)حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں:’’ان سرداران قریش میں سے جس تک بھی وہ خاک پہنچی وہ بدر کے روز قتل ہو کر ہلاک ہوا۔‘‘(دلائل النبوۃ للبیھقی جلد ۲۷۷، مستدرک حاکم جلد۱ صفحہ ۱۶۳) ایک دفعہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں آنحضرتؐ کو خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں تو آپؐ کی گردن دبوچ کے رکھ دوں۔ نبی کریمؐ نے عجب جلال کے ساتھ فرمایا: اگر وہ ایساکرے گا تو فوراً فرشتے آکر اس پر گرفت کریں گے۔( بخاری کتاب التفسیر سورۃالعلق) نبی کریمؐ کو آزادی سے خدا کی عبادت کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ آپؐ عبادت کرتے ہوئے بھی اذیتوں کا نشانہ بنائے گئے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے تھے۔ ان میں ایک دوسرے سے کہنے لگا تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے میں ذبح ہونے والی اونٹنی کی بچہ دانی اٹھالائے اور محمدؐ کی پشت پر اس وقت رکھ دے جب وہ سجدہ کرے۔ تب لوگوں میں سے بدبخت انسان عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ اونٹنی کی بچی دانی اٹھا لایا اور دیکھتا رہا جب نبی کریمؐ نے سجدہ کیا تو اس نے وہ گند بھری بچہ دانی آپؐ کے کندھوں پر رکھ دی۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ( جو ایک کمزور قبیلہ کے فرد تھے) کہتے ہیں، میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان سرداروں کی موجودگی میں رسول اللہؐ کی کوئی مددنہیں کر سکتا تھا۔ اے کاش! مجھے بھی طاقت حاصل ہوتی اور میں آپؐ کے لیے کچھ کر سکتا۔ ادھر سردارانِ قریش رسول اللہؐ کی یہ حالت زار دیکھ کر ہنستے ہوئے لوٹ پوٹ ہو کر ایک دوسرے پر گررہے تھے۔ رسول اللہؐ سجدہ کی حالت میں پڑے ہوئے سر نہ اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہؓ آئیں اور انہوں نے آپؐ کی پشت سے وہ گند ہٹایا تو آپؐ نے سر اٹھایا اور فرمایا:’’اے اللہ! تُو قریش پر گرفت کر‘‘۔(بخاری کتاب الوضوء) یہ تو ایک قاتلانہ حملے کا حال ہے روز رسول کریمؐ کی زندگی میں متعدد قاتلانہ حملے دشمن کی طرف سے کیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپؐ کو محفوظ و سلامت رکھا۔ انتہائی ایذارسانی پر صبر حضرت عمروؓ حضرت عثمانؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ نبی کریمؐ کو قریش سے پہنچنے والی اذیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ قریش نے رسول اللہؐ کو بہت ہی ایذائیں دیں۔ عمروؓ کہتے ہیں کہ وہ تکالیف یاد کر کے حضرت عثمانؓ کی آنکھوں میں آنسواُمڈ آئے۔پھر کچھ سنبھل کر اپنا چشمدید واقعہ بیان کرنے لگےکہ ایک دفعہ رسول کریمؐ خانہ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے۔ آپؐ کا ہاتھ ابوبکرؓ کے ہاتھ میں تھااور صحن کعبہ میں قریش کے تین سردار عقبہ بن ابی معیط، ابو جہل اور امیہ بن خلف بیٹھے تھے۔ رسول کریمؐ جب طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے رسول اللہؐ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ جس کا ناگوار اثر میں نے رسول اللہؐ کے چہرے پر محسوس کیا۔چنانچہ میں رسول اللہؐ کے قریب ہوگیا۔ رسول اللہؐ میرے اور ابو بکرؓ کے درمیان آگئے۔آپؐ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے ہاتھ میں ڈال لیں۔ ہم نے اکٹھے طواف کیا۔ جب اگلے چکر میں ہم ان کے پاس سے گزرے۔ ابوجہل کہنے لگا :’’ہماری تم سے مصالحت قطعی ناممکن ہے۔ تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتے ہو جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے‘‘۔ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’ہاں میری یہی تعلیم ہے‘‘۔طواف کے تیسرے چکر میں جب رسول اللہؐ ان کے پاس سے گزرے تو پھر انہوں نے ایسی ہی نازیبا حرکات کیں۔ چوتھے چکر میں وہ تینوں اٹھ کھڑے ہوگئے۔ پہلے ابوجہل لپکا وہ رسول اللہؐ کو گلے سے پکڑ کر دبوچنا چاہتا تھا۔میں نے اُسے سامنے سے روک کر دھکا دیا۔ وہ پشت کے بل پیچھے جاگرا۔حضرت ابو بکرؓ نے امیہ بن خلف کو پیچھے دھکیلا اور خود رسول اللہؐ نے عقبہ بن ابی معیط کو۔ اس کے بعد وہ وہاں سے چلے گئے۔ رسول اللہؐ وہاں کھڑے فرما رہے تھے:’’خدا کی قسم! تم باز نہیں آؤ گے یہاں تک کہ بہت جلد تم پر اللہ کی سزا اور گرفت اترے گی۔‘‘ حضرت عثمانؓ فرماتے تھے کہ خدا کی قسم میں نے دیکھا ان میں سے ہر ایک خوف سے کانپ رہا تھا اور رسول اللہؐ فر ما رہے تھے:’’تم اپنے نبی کی کتنی بُری قوم ثابت ہوئے ہو۔‘‘پھر رسول اللہؐ اپنے گھر تشریف لے گئے اور دروازہ میں داخل ہونے کے بعد کھڑکی سے ہماری طرف رُخ کر کے فرمایا: ’’تمہیں بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب اور اپنی بات پوری کر کے چھوڑے گا اور اپنے نبی کی مدد کرے گا اور یہ لوگ جن کو تم دیکھتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں بہت جلد تمہارے ہاتھوں سے ہلاک کرے گا۔‘‘ پھر ہم اپنے گھروں کو چلے گئے۔ حضرت عثمانؓ کہتے تھے پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں سے ہلاک کیا۔( فتح الباری جلد ۷ صفحہ ۱۶۷) جسمانی تکالیف پر صبر نبی کریمؐ عملی زندگی میں چھوٹی بڑی تکالیف پر غیر معمولی صبر کا مظاہرہ فرمارہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ا ٓپؐ سخت بخار میں مبتلا تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! آپؐ کو تو سخت بخار کی تکلیف ہے۔ آپؐ نے فرمایا:ہاں مجھے بہت شدید تکلیف ہے ایک عام آدمی کو بخار میں جتنی تکلیف ہوتی ہے اس سے دوگنا تکلیف ہے۔ ( مگر رسول اللہؐ نہایت صبر سے اسے برداشت کر رہے تھے) میں نے عرض کیا: آپؐ کو اجر بھی تو دوگنا ملے گا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: کسی مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچے حتّٰی کہ کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس طرح دور کردیتا ہے جیسے درخت کے پتے گر جاتے ہیں۔ (بخاری کتاب المرضٰی) حضرت جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں رسول کریمؐ کی انگلی زخمی ہو گئی آپؐ اسے مخاطب کر کے فرماتے ہیں:ھَلْ اَنتِ اِلَّا اِصْبَعٌ دَ مِیتِ وَ فِیِ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا لَقِیتِ۔ اے انگلی! تو صرف ایک انگلی ہی تو ہے جو زخمی ہوئی ہے تو کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں یہ تکلیف تجھے پہنچی ہے۔( بخاری کتاب الادب) نبی کریمؐ طبعاً بہت صابر وشاکر طبیعت رکھتے تھے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کی آخری بیماری میں آپؐ کی تکلیف سے زیادہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھی۔(بخاری کتاب المرضٰی) راہ مولیٰ میں قیدوبند کی صعوبت قریشِ مکہ کی طرف سے مظالم کے تمام حربے آزمالینے کے باوجود رسول اللہؐ کی استقامت ان کے لیے ایک حیران کن امر تھا۔ چنانچہ انہوں نے اجتماعی طور پر رسول اللہؐ کے قتل کا فیصلہ کیا اور اس سے اختلاف کی صورت میں رسول اللہؐ کا ساتھ دینے والے آپؐ کے سارے خاندان کے ساتھ بائیکاٹ طے کیا گیا کہ ان کے ساتھ شادی بیاہ، خریدوفروخت اور میل جول سب بند کردیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہؐ کو قتل کرنے کے لیے ان کے حوالے نہ کر دیں۔ ( الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ۱صفحہ ۲۰۸، دلائل ابی نعیم جلد ۱ صفحہ ۳۵۸) جب قریش نے دیکھا کہ بنو ہاشم کے تمام لوگ مسلمان اور کافر رسول اللہؐ کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں تو انہوں نے اپنے بازاراُن پر بند کر دیے۔ادھر ابو طالب اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔انہیں غلہ اور کھانے پینے کے سامان کی خریدوفروخت سے کلّی طور پر روک دیا گیا۔ ہر قسم کاسامانِ تجارت وہ ان سے پہلے جا کر خرید لیتے۔مقصد یہ تھا کہ وہ رسول اللہؐ کو ان کے سپرد کردیں ورنہ یہ ان کو فاقوں اور بھوک سے ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہ کریں گے۔شعب ابی طالب میں اس تین سالہ محصوری کے زمانہ میں بعض لوگ رقم لے کر غلہ خریدنے بازار جاتے اور کوئی انہیں سودادینے پر راضی نہ ہوتا اور وہ خالی ہاتھ لوٹ آتے یہاں تک کہ بعض لوگ فاقوں سے وفات پاگئے۔( دلائل ابی نعیم جلد ۱ صفحہ ۳۵۹) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں ایک رات میں پیشاب کرنے کے لیے اٹھا۔پیشاب کے نیچے کسی چیز کی آواز آئی دیکھا تو اونٹ کی خشک کھال کا ایک ٹکڑاتھا۔ جسے اٹھا کر میں نے دھویا، اسے جلایا پھر پتھر پر رکھ کر اسے باریک کیا اور پانی کے ساتھ نگل لیا اور تین روز تک اس کھانے پر گزارہ کیا۔جب مکہ میں قافلے غلہ لے کر آتے اور کوئی مسلمان غلہ خریدنے جاتا تو ابولہب انہیں کہتا محمدؐ کے ساتھیوں کے لیے قیمت بڑھادو۔چنانچہ وہ کئی گنا قیمت بڑھا دیتے اور مسلمان خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے ان کے بچے گھروں میں بھوک سے بلک رہے تھے مگر وہ انہیں کوئی کھانے کی چیز مہیا نہ کر پاتے تھے۔ اگلے دن ابو لہب ان تاجروں سے مہنگے داموں غلہ اور کپڑے خرید لیتا اور یوں مسلمان اس عرصہ میں بھوکے ننگے رہ کر نہایت دردناک حالت کو پہنچ گئے۔( الروض الانف جلد ۲ صفحہ ۱۲۷ مکتبہ المصطفی البابی الحلبی) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ شعب ابی طالب کے زمانہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فاقے سے تھے۔ رات کے اندھیرے میں اُن کے پاؤں کے نیچے کوئی نرم چیز آئی جسے اُٹھا کر وہ کھا گئے اور انہیں پتا تک نہ چلا کہ وہ کیا چیز تھی۔(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام جلد ۲ صفحہ ۱۷) جان کا خطرہ علاوہ ازیں مسلمان اس دور میں سخت خطرے کی حالت میں تھے۔ رسول کریمؐ اور مسلمانوں کی حفاظت اپنی ذات میں ایک اہم مسئلہ تھا۔ مسلسل تین سال تک یہ زمانہ خوف کے سایہ میں بسر ہوا۔ ابو طالب ہر شب رسول اللہؐ کو اپنے سامنے بستر پر سونے کے لیے بلاتے اور سلادیتے تاکہ اگر کوئی شخص بد ارادہ رکھتا ہے یا رات کو چپکے سے حملہ کرنا چاہتا ہے تو وہ آپؐ کو اس جگہ سوتے دیکھ لے، جب سب لوگ سو جاتے تو ابوطالب اپنے کسی بھائی، بیٹے یا چچا زاد کو رسول اللہؐ کی جگہ سونے کو حکم دیتے اور رسول اللہؐ کی سونے کی جگہ بدل کر کسی اور مخفی جگہ آپؐ کو سلادیتے۔ حفاظت کا یہ پر حکمت طریق مسلسل جاری رہا۔ (شرح العلامۃالزرقانی علی المواھب اللدنیہ للقسطلانی جلد۱ صفحہ۲۷۹) اپنے وطن اور پیاروں سے جدائی آج کے دور آزادی میں ذرا اس انسان کی مظلومیت کا تصوّر تو کریں جسے اس کے شہر کے باسی اپنے وطن میں ہی رہنے نہ دیں بلکہ اس کے جان لیوا دشمن بن کر شہر سے نکلنے پر مجبورکریں،بلاشبہ آج ایسے شخص کو دنیا کا مظلوم ترین انسان کہا جائے گا۔ مگر ہمارے پیارے رسولؐ نے تو خدا کی راہ میں یہ ظلم بھی راضی برضا ہو کر برداشت کیا۔پہلی وحی کے بعد جب نبی کریمؐ کو حضرت خدیجہؓ اپنے چچازادبھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کرآئیں تو انہوں نے وحی کی ساری کیفیت سن کر کہا تھا یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰؑ پر اترا تھا۔ کاش! میں اس وقت جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے اس شہر سے نکال دے گی۔ذرا سوچو اس وقت رسول کریمؐ کے دل کی کیا حالت ہو گی۔ جب آپؐ کے لیے اپنے دیس اپنے پیارے وطن سے نکالے جانے کا تصور ہی تکلیف دہ تھا جس کا کچھ اندازہ آپؐ کے اس تعجب آمیز جواب سے ملتا ہے جو آپؐ نے فرمایاکہ’’اَوَ مُخرِجِیَّ ھُم‘‘ کیا میری قوم مجھے اپنے وطن سے نکال باہر کرے گی۔( بخاری کتاب بدءالوحی) اور پھر وہی ہوا کہ وہ شاہِ دو عالم جس کی خاطر یہ ساری کائنات پیدا کی گئی۔ ان کو ایک دن اپنے وطن سے بے وطن کردیاگیا۔ذراسوچیں تو سہی وہ دن شاہ دو جہاںؐ پر کتنا بھاری ہو گا، جب آپؐ اپنے آبائی وطن مکہ کے ان گلی کوچوں سے نکل جانے پر مجبور کردیے گئے۔جس روز آپؐ مکہ سے نکلے ہیں اس روز آپؐ کا دل اپنے وطن مکہ کی محبت میں خون کے آنسورو رہاتھا۔ جب آپؐ شہر سے باہر آئے تو اس موڑ پر جہاں مکہ آپؐ کی نظروں سے اوجھل ہورہاتھا آپؐ ایک پتھر پر کھڑے ہو گئے اور مکہ کی طرف منہ کر کے اسے مخاطب ہو کر فرمایا:’’اے مکہ! تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا۔‘‘(مسند احمدجلد۴صفحہ ۳۰۵) مکہ سے ہجرت کے وقت آپؐ کو کئی عزیزوں کو چھوڑ کر جانا پڑا۔ جن میں آپؐ کے اہل خانہ، بیٹیاں اور داماد وغیرہ شامل تھے جو بعد میں ہجرت کر کے مدینہ آسکے۔ مگر صاحبزادی حضرت زینبؓ کو بعض مجبوریوں کی وجہ سے مکہ میں اپنے غیر مسلم خاوند کے ساتھ رہنا پڑا۔ حضرت زینبؓ کی مدینہ آمد پر آپؐ نے یہ الفاظ فرمائے: ’’میری اس بیٹی نے میری وجہ سے بہت دکھ اٹھائے ہیں اس لحاظ سے یہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘(تاریخ الصغیر ازامام بخاری زیر لفظ زینبؓ) رسول اللہؐ کو اپنے وطن مکہ سے جو گہری محبت تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے کہ جب غفارقبیلہ کا ایک شخص ہجرت کے بعد کے زمانہ میں مکہ سے مدینہ آیا تو حضرت عائشہؓ نے اس سے پوچھا کہ مکہ کا کیا حال تھا اس نے کمال فصاحت وبلاغت سے بھر پور یہ جواب دیا کہ ’’سر زمین مکہ کے دامن سرسبزو شاداب تھے اس کے چٹیل میدان میں سفید اِذخَر گھاس خوب جوبن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہاردکھارہے تھے۔‘‘نبی کریمؐ نے یہ سنا تو آپؐ کو مکہ کی یاد آئی اور وطن کی محبت نے جوش مارا۔فرمایا:’’ایسے دیس سے آنے والے ! بس بھی کرو اور ہمارے وطن کی یادیں تازہ کر کے اتنا بھی دل کو نہ دکھاؤ۔دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: تونے دلوں کو ٹھنڈا کر دیا۔‘‘( المقاصد الحسنہ ازسخاوی صفحہ ۲۹۸ بیروت) آخری بار نبی کریمؐ حجۃالوداع کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے۔ اس مرتبہ پھر وطن کی یادیں عود کر آئیں۔ عبدالرحمان بن حارثؓ کہتے ہیں میں نے آپؐ کو اپنی سواری پر بیٹھے یہ کہتے سنا کہ ’’اے مکہ! خدا کی قسم تو بہترین وطن اور اللہ کی پیاری زمین ہے۔ اگر میں تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہرگز نہ نکلتا۔‘‘(مستدرک حاکم علیٰ الصحیحین جلد ۳ صفحہ ۲۷۸) پیاروں کی جدائی پر صبر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے اخلاص و وفا کو آزمانے کے لیے کبھی خوف، بھوک،مصیبت سے اور کبھی جان ومال کی قربانی لے کر ان کا امتحان کرتا ہے۔ جو لوگ اس امتحان میں پورے اتریں اور کسی جزع فزع اور بے صبری کے اظہار کی بجائے کمال صبرووفا سے اِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (البقرة: ۱۵۷)(یعنی ہم بھی اللہ کی ہی امانت ہیں اور ہم نے اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے) کہہ کر اپنے مالک کی مرضی پر راضی ہوجائیں تو اللہ ان پر راضی ہوتا ہے اور اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا اور ان کو ہدایت یافتہ قرار دیتا ہے۔ نبی کریمؐ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہؐ! سب سے زیادہ ابتلا اور مصائب کن لوگوں پر آتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا نبیوں پر۔ پھر ان پر جو اُن سے قریب ہوں پھر ان سے قریب تر لوگوں پر۔( مسند احمد بن حنبل جلد ۶صفحہ ۳۶۹) ذاتی تکالیف تو انسان برداشت کر لیتا ہے مگر پیارے ساتھیوں کی جدائی پر صبر آسان نہیں ہوتا۔ آنحضرتؐ فرماتے ہیں کہ جب کسی مسلمان کو مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق ’’اِنَّا لِلّٰہِ‘‘ پڑھ کر پھر یہ دعا کرتا ہے :اَللّٰھُمَّ أُجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا کہ اے اللہ! مجھے اس مصیبت کا اجر عطا کر اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا کر تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے۔( مسلم کتاب الجنائز) حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ جب میں مومن بندے کی دنیا سے کوئی قیمتی اور محبوب چیز لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کی جزاسوائے جنت کے اور کچھ نہیں۔( بخاری کتاب الرقاق) ایک شخص کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس پر مصیبت بھی سخت آتی ہے اور اگر دین میں کچھ کمزوری ہو تو اسکے مطابق آزمایا جاتا ہے اور جب ایک انسان مصیبت پر صبر کے ساتھ اس سے سرخرو ہو کر نکلتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح بخشے جاتے ہیں کہ کوئی بدی بھی باقی نہیں رہتی۔( ترمذی کتاب الزھد) ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکا جتنا بڑا مقام تھا اسی مناسبت سے آپؐ پر ابتلا بھی آئے۔ دین کی راہ میں کفار اور مشرکین کے دکھ بھی آپؐ نے سہے۔ عزیزوں، پیاروں کی موت فوت کے صدمے بھی کمال صبر سے برداشت کیے۔ اپنے سچے غلاموں کو بھی اسی صبر جمیل کی تعلیم دی۔ چنانچہ نو مسلم خواتین سے عہد بیعت لیتے ہوئے آپؐ یہ الفاظ بھی دہراتے تھے کہ وہ مصیبت یا صدمہ کے وقت اپنا چہرہ نہیں نوچیں گی، نہ ہی ہلاکت کی بددعا اور واویلا کریں گی۔ نہ گریبان پھاڑیں گی اور نہ ہی بال بکھیر کر بین کریں گی۔(ابوداؤد کتاب الجنائز) رسول کریمؐ نے فرمایا:’’جب کسی کابچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ اللہ فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا ٹکڑاچھین لیا؟ وہ کہتے ہاں۔ اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں وہ تیری حمد کرتا تھا اور اِنَّا لِلّٰہِ کہہ کر تیری رضا پر راضی تھا۔ اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے کے لیے جنت میں گھر بناؤ اور اس کا نام ’’بیت الحمد‘‘رکھو۔‘‘( ترمذی کتاب الجنائز) نبی کریمؐ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ میری امت کو مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ کہہ کر اللہ کی رضا پر راضی ہونے کے اظہار کا جو سلیقہ دیا گیا ہے یہ مقام اور کسی امت کو اس سے پہلے نہیں دیا گیا۔ ( مجمع الزوائد للھیشمی کتاب الجنائز باب الاستر جاع) نبی کریمؐ نے بڑے مصائب پر صبر کیا، ماں کی وفات پر اپنے پیارے دادا اور چچا کی وفات پر، اپنی عزیزبیوی خدیجہؓ کی جدائی پر، اپنے کئی بیٹے اور بیٹیوں کی وفات پر جن کی تعداد گیارہ تک بیان کی گئی ہے۔ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے آپؐ کی نرینہ اولاد قاسمؓ، عبداللہؓ، طیبؓ، طاہرؓ، مطہرؓ، مطیبؓ، عبدمنافؓ کم سنی میں اللہ کو پیارے ہوگئے جبکہ بیٹیوں میں سے اُمّ کلثومؓ، رقیہؓ، اور زینبؓ نے آپؐ کی زندگی میں وفات پائی۔(السیرۃ الحلبیة جلد۳ صفحہ ۴۳۲، ۴۴۰ وتاریخ الخمیس جلد ۱ صفحہ ۲۷۲) حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے آخری عمر کی اولاد ابراہیمؓ پیدا ہوئے جو آپؐ کو بہت پیارے تھے ابو سیف کے گھر میں رضاعت کے لیے صاحبزادہ ابراہیمؓ کو رکھا گیا تھا، آپؐ وہاں اپنے اس لخت جگر سے ملاقات کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ آپؐ ابراہیمؓ کو اٹھا کر سینے سے لگاتے اور پیار کرتے۔ اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آپؐ نے اس بیٹے کی صلاحیتوں کے بارے میں فرمایا تھاکہ اگر صاحبزادہ ابراہیمؓ زندہ رہتے تو ضرور سچے نبی ہوتے۔( ابن ماجہ کتاب الجنائز) جب ابراہیمؓ کی وفات کا وقت آیا تو رسول کریمؐ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔ اپنے خدا کی رضا کے آگے، جو آپؐ کو ابراہیمؓ سے کہیں زیادہ پیاراتھا، یہ کہتے ہوئے سر جھکا دیاکہ اِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلَا نَقُوْلُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ۔ آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کلمہ زبان پر نہیں لائیں گے اور اے ابراھیم! ہم تیری جدائی پر سخت غمگین ہیں۔( بخاری کتاب الجنائز) حضرت ابو عمامہؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریمؐ کی صاحبزادی حضرت اُم کلثومؓ کا جنازہ قبر میں رکھا گیا تو آپؐ نے یہ آیت پڑھی (طٰہٰ:۵۶) کہ اس زمین سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا۔ اس میں دوبارہ داخل کریں گے اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالیں گے۔پھر جب ان کی لحد تیار ہو گئی تو نبی کریمؐ خود مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر دینے لگے اور فرمایا کہ اینٹوں کے درمیان سوراخ ان سے بند کردو۔ پھر فرمایا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت تو نہیں مگر زندوں کا دل اس سے مطمئن ہوتا ہے۔ (مجمع الزوائد للھیشمی کتاب الجنائز باب مایقول اذا دخل القبر) حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول کریمؐ کی دو بیٹیوں کے جنازہ میں شریک ہونے کا موقع ملا۔رسول اللہؐ قبر کے پاس تشریف فرما تھے اور میں نے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کی صاحبزادی رقیہؓ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں۔ حضرت عمرؓ کوڑے سے انہیں مارنے لگے تو نبی کریمؐ نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیچھے ہٹایا، فرمایا اے عمر! رہنے دو۔ پھر آپؐ نے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ تم شیطانی آوازوں( یعنی چیخ و پکار) سے اجتناب کرو۔ پھر فرمایا کہ بے شک ایسے صدمے میں آنکھ کا اشکبار ہو جانا اور دل کا غمگین ہونا تو اللہ کی طرف سے ہے، جو دل کی نرمی اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے۔ ہاتھ اور زبان سے ماتم شیطانی فعل ہے۔( مسند احمد جلد ۱ صفحہ ۳۳۵) حضرت اسامہ بن زیدؓ حضرت زینبؓ کے ایک صاحبزادے کی وفات کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحبزادی نے آپؐ کو پیغام بھجوایاکہ میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں آخری سانس لیتانظر آتاہے۔ آپؐ تشریف لے آئیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا ان کو جاکر سلام کہو اور یہ پیغام دو یہ اللہ کا ہی مال تھا، اس نے واپس لے لیا، اسی نے عطا کیا تھا اور ہر شخص کی اللہ کے پاس میعاد مقرر ہے۔ اس لیے میری بیٹی صبر کرے اور اللہ سے اس کے اجر کی امید رکھے۔ اس پر آپؐ کی صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھجوایا اور قسم دے کر کہلا بھیجا کہ آپؐ ضرور تشریف لائیں۔ آپؐ تشریف لے گئے۔سعد بن عبادہؓ، معاز بن جبلؓ، ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ اور کچھ اور اصحاب آپؐ کے ساتھ تھے۔ وہ بچہ آپؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔اس کی جان نکل رہی تھی۔ رسول اللہؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ حضرت سعدؓ نے تعجب سے کہا یا رسول اللہؐ! یہ کیا؟ آپؐ نے فرمایا :یہ محبت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے۔( مسلم کتاب الجنائز) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کی ایک کم سن بیٹی آخری دموں پر تھی۔ رسول کریمؐ نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا،اس کی روح پرواز کر گئی۔ بچی کی میّت رسول اللہؐ کے سامنے تھی۔رسول اللہؐ کی رضاعی والدہ اُم ایمن رو پڑیں۔ رسول کریمؐ نے اسے فرمایا: اے ام ایمن! رسول اللہ کی موجودگی میں تم روتی ہو؟ وہ بولیں جب خدا کا رسولؐ بھی رورہا ہے تو میں کیوں نہ روؤں۔رسول کریمؐ نے فرمایا میں روتا نہیں ہوں۔ یہ تو محبت کے آنسوہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: مومن کا ہر حال ہی خیر اور بھلا ہوتا ہے۔ اس کے جسم سے جان قبض کی جاتی ہے اور وہ اللہ کی حمد کررہا ہوتا ہے۔( نسائی کتاب الجنائز باب فی البکاء علی المیت) نبی کریمؐ کے بہت پیارےچچا حضرت حمزہؓ جو مکہ میں مصائب کے زمانہ میں آپؐ کی پناہ بنے تھے، احد میں شہید ہوئے۔ ان کی نعش کا مثلہ کر کے کان ناک کاٹے گئے اور کلیجہ چبا کر پھینکا گیا اور بے حرمتی کی گئی۔ نبی کریمؐ اپنے پیارے چچا کی نعش پر تشریف لائے، نعش کی حالت دیکھی اور فرمایا کہ اگر مجھے اپنی پھوپھی صفیہ کے غم کا خیال نہ ہوتا تو حمزہ کی نعش کو اسی حال میں چھوڑ دیتا کہ درندے اسے کھا جاتے اور قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اس کا حشر ہوتا۔ پھر آپؐ نے ایک چادر کا کفن دے کر انہیں دفن کردیا۔ رسول اللہﷺ نے دوستوں کی موت کے صدمے بھی دیکھے۔ اُحد میں ستّر صحابہ شہید ہوئے تھے مگر آنحضرتؐ کمال صبر سے راضی برضا رہے۔ غزوہ موتہ میں آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ، حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ شہید ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو وحی کے ذریعہ اطلاع فرمائی۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ مجلس میں تشریف فرما تھے اور چہرہ سے حزن وملال کے آثار صاف ظاہر تھے۔ کسی نے آکر عورتوں کے بین کرنے کا ذکر کیا تو آپؐ نےان کو سمجھانے کی ہدایت فرمائی۔( بخاری کتاب الجنائز) غیروں کے اعتراف مشہور مؤرخ گبن رسول اللہؐ کے صبر و استقامت کی داد یوں دیتا ہے: ’’ان سے پہلے کوئی پیغمبر اتنے سخت امتحان سے نہ گزرا تھا جیسا کہ محمد (ﷺ)۔‘‘( گبن، زوال سلطنت روماص ۱۰۸ بحوالہ نقوش رسولؐ نمبر جلد ۱۱ صفحہ ۵۴۸) مشہور اطالوی مستشرق ڈاکٹر و گلیری نے رسول اللہﷺ کے صبرو استقامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’محمدﷺ کی مکی زندگی میں اسلام صرف توحید کا داعی تھا۔ لیکن جب آپؐ اور آپؐ کے ساتھی ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو اسلام ایک زبر دست سیاسی طاقت بن گیا۔محمدؐ نے قریش کے مطاعن اور مظالم کو صبر سے برداشت کیا اور با لآ خر آپؐ کو اذنِ الٰہی ملا کہ آپؐ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں۔ پس مجبور ہو کر آپؐ نے تلوار کو بے نیام کیا۔…محمدﷺ کے الہامات میں یہ تعلیم ہوتی تھی کہ مظالم کو صبر سے برداشت کرنا چاہیے۔‘‘ (اسلام پر ایک نظر صفحہ۱۰-۱۲ ترجمہ An interpretation of Islam مطبوعہ ۱۹۵۷ء از مترجم شیخ محمد احمد مظہر) پرکاش دیوجی رسول اللہؐ اور آپؐ کے صحابہ کے مظالم پر صبرواستقامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ حضرتؐ کے اُوپر جو ظلم ہوتا تھا اُسے جس طرح بَن پڑتا تھا وہ برداشت کرتے تھے۔ مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر اُن کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا اور بیتاب ہو جاتا تھااُن غریب مومنوں پر ظلم وستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔‘‘( سوانح عمری حضرت محمدؐ صاحب صفحہ۲۵) ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: دنیا کی موجودہ صورتحال کے امن عالم پر اثرات