https://youtu.be/u3G67ANOdQg?si=L5xUM5CpPfapr2_L&t=1771 جون اور جولائی کے مہینے میں اٹلی، سوئٹزرلینڈ، فرانس، امریکہ اور کینیڈا میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوچکے ہیں اور دو ہفتے بعدجلسہ سالانہ برطانیہ کا انعقاد ہوناہے جس کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں۔ جماعت احمدیہ کے تمام افراد، چھوٹے ہوں یا بڑے، سب ایک نیک مقصد کے لیے دل و جان سے مصروف ہیں۔ گھروں میں، مساجد میں، اور سنٹرز میں ہر جگہ وقارِ عمل ہو رہے ہیں۔ کہیں صفائیاں ہو رہی ہیں،کہیں کرسیاں سیدھی کی جا رہی ہیں، تمام تنظیمیں اپنے اپنے طور پر تیاریوں میں بھرپور حصہ لے رہیں ہیں۔کہیں مہمانوں کے ناموں کی فہرستیں تیار ہورہیں تھیں تو کہیں وقار عمل کے کام میں بھر پور حصہ لیا جارہا ہے۔گڑیا کے ابو بھی وقار عمل کے کاموں میں مصروف ہیں اور اکثر ہی احمد اور محمود کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں کیونکہ ان کی موسم گرما کی تعطیلات کا آغاز ہوچکا تھا۔ان سب سرگرمیوں کے باعث گڑیا گھر میں تنہائی اور بوریت محسوس کررہی تھی۔چنانچہ اس نے بھی مصمم ارادہ کیا کہ اس سال وہ بھی جلسہ سالانہ پر ڈیوٹی کے لیے اپنا نام پیش کرے گی۔ وہ دادی جان کے پاس آئی اور بولی۔ دادی جان! میں نے فیصلہ کیا ہے، اس سال میں بھی جلسہ سالانہ میں ڈیوٹی دوں گی۔ دادی جان : ارے واہ! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ مگر تمہیں یہ خیال کیسے آیا ؟ گڑیا : میں نے کل ایم ٹی اے پر جلسہ سالانہ کی تیاریوں کی ویڈیو دیکھی تھی۔ وہاں چھوٹے چھوٹے بچے بھی وقار عمل کر رہے تھے۔ کوئی پانی دے رہا تھا، کوئی دوسرے چھوٹے موٹے کام سر انجام دے رہا تھا۔ میں نے سوچا، میں بھی تو یہ سب کر سکتی ہوں۔ میں اب دس سال کی ہو گئی ہوں۔ دادی جان مسکرائیں اور بولیں :جی ہاں، تم اب بڑی ہو گئی ہو۔ اور ڈیوٹی دینا واقعی بہت بڑا اعزاز ہے۔ مگر کیا تم جانتی ہو، ڈیوٹی کیا ہوتی ہے؟ کیا ہوتی ہے ؟گڑیا نے بھی سوال کیا۔ دادی جان : ڈیوٹی اصل میں خدمتِ خلق کا دوسرا نام ہے۔ یہ صبر، خوش اخلاقی، نرمی اور عاجزی کا مظاہرہ ہے۔ گڑیا:تو کیاپہلے وقتوں کے لوگ بھی اسی جذبے سے کام کرتے تھے ؟ دادی جان : جی بیٹا یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ جلسہ سالانہ کا باقاعدہ آغاز حضرت مسیح موعودؑ کے دور میں ہی ہو گیا تھا اور مہمان نوازی کی بہترین مثالیں ہمیں آپؑ کی سیرت سے ملتی ہیں۔ چلو میں آپ کو ان کی پاکیزہ سیرت سے واقعات سناتی ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت منشی ظفر احمدصاحبؓ کپورتھلوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے۔ جن کے پاس سردیوں کے بستر نہ تھے۔ ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگانے شروع کیے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؑ بغلوں میں ہاتھ دئیے ہوئے بیٹھے تھے۔ اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ تھے پاس لیٹے تھے۔ اور ایک شتری چوغہ انہیں اُڑھا رکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لیے بھیج دیا۔( منشی صاحب کہتے ہیں ) میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہااور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہے اور ہمارا کیا ہے، رات گزر ہی جائے گی۔ نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو بہت بر ابھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے۔ وہ شرمندہ ہوا۔ اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں؟ پھر میں مفتی فضل الرحمٰن صاحب یاکسی اور سے ٹھیک یا دنہیں رہا۔ لحاف بچھونا مانگ کراوپر لے گیا۔ آپؑ نے فرمایاکسی اور مہمان کو دے دو۔ مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی۔ اور میرے اصرار پر بھی آپؑ نے نہ لیا۔ اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو۔ پھر میں لے آیا۔ گڑیا :کہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خفا تو نہیں ہوگئے تھے خادم سے ؟ دادی جان : نہیں بیٹا، ناراضگی کی بات کہاں بلکہ آپؑ نے فرمایا کہ مہمان کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، ہمارا کیا ہے، رات گزر جائے گی۔ یہ ہے سچی خدمت۔ پھر صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ایک بار جلسہ سالانہ کے اخراجات کے لیے حضرت اماں جانؓ کے زیور تک فروخت کردئیے کہ مہمانوں کی خدمت میں کسی قسم کی روک نہ ہو۔حضرت منشی ظفر احمدصاحب ؓکپور تھلوی نے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر خرچ نہ رہا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کے لیے چندہ نہیں لیا جاتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے پاس سے ہی خرچ فرماتے تھے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ مرحوم نے آکر عرض کی کہ رات کومہمانوں کے لیے کوئی سامان نہیں ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ بیوی صاحبہ سے کوئی زیور لے کر اس کو فروخت کر کے سامان خرید لیں۔ چنانچہ زیور فروخت کر کے میر صاحب روپیہ لے آئے اور مہمانوں کے لیے سامان خرید لیا۔ پھر ایک اور روایت میں ہے کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب انچارج نور ہسپتال قادیان بیان کرتے ہیں کہ خاکسار1907ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے قادیان حاضر ہوا۔ ایک رات میں نے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اور مہمان بھی تھے۔ جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا۔ اس وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو یہ الہام ہوا: یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اَطۡعِمُوا الْجَائِعَ وَالۡمُعۡتَرَّ۔یعنی اے نبی! خالی پیٹ والے اور سوال کرنے والے کو کھانا کھلاؤ۔ گڑیا : حضورؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود یاد دلایا کہ مہمان بھوکے ہیں؟ دادی جان: جی ہاں! اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی راہنمائی فرماتا ہے جو اُس کے بندوں کی فکر کرتے ہیں۔ گڑیا:تو کیا انتظامیہ کو جگایا گیا؟ دادی جان:بالکل! انتظامیہ کو رات ساڑھے گیارہ بجے جگا کر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا۔ گڑیا پُرجوش انداز میں : دادی جان میں سب کام کروں گی اور ہر کسی کو السلام علیکم کہوں گی سب سے مسکرا کر ملوں گی ہر ایک کی مدد کروں گی سب کو پانی پلاؤں گی اور ہر کام خوش دلی سے کروں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ دادی جان نے خوش ہو کر گڑیا کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، مجھے خوشی ہے کہ تمہیں خود سے خدمت کا شوق پیدا ہوا ہے اگر اچھی نیّت سے اور ایمانداری سے خدمت بجا لاؤگی تو یاد رکھو، اللہ تعالیٰ تمہیں کامیاب فرمائے گا۔ بس خلافت سے دعا لینی ہے اور دل میں سچّا جذبہ رکھنا ہے۔ خدمت صرف ہاتھ سے نہیں، دل سے کی جاتی ہے۔ اگر تم اخلاص سے کرو گی تو اللہ تعالیٰ تمہاری ڈیوٹی کو ضرور قبول کرے گا۔ چند دن بعد گڑیا نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ایک خط لکھا،’’پیارے حضور انور! السلام علیکم۔ میرا نام گڑیا ہے اور میں دس سال کی ہوں۔ میں جلسہ سالانہ انگلینڈ میں ڈیوٹی دینا چاہتی ہوں۔ برائے کرم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے خدمت کا موقع دے اور میری ڈیوٹی قبول فرمائے۔ آمین۔‘‘ جب گڑیا نے دادی جان کو وہ خط دکھایا تو اُن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ یاد رکھو بیٹا! ڈیوٹی کی اصل کامیابی دل کے اخلاص اور دعا سے حاصل ہوتی ہے۔ خلیفۂ وقت سے دعا لو اور سچے دل سے خدمت کرو۔ ان شاء اللہ، اللہ تمہیں بہت عزت دے گا۔ گڑیا کی پیشانی پر پیار دیا اور خط پوسٹ کرنے کے لیے لفافہ نکالنے لگیں۔ (درثمین احمد۔ جرمنی)