https://youtu.be/XsPjMYjpFbg ’’وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی ﷺ پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا۔ اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پرتوکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اور اپنے کام میں سست نہ ہونااور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلادیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کرسکتا۔اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ، تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا۔ دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا۔ ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کردیا اور قابو پاکر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک خدا کی طرف سے اور حقیقةً راستباز نہ ہو یہ اخلاق ہرگز دکھلا نہیں سکتا۔‘‘(حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام) ابتلاؤں میں تری زندگی پروان چڑھی تیری جاں آگ میں پڑ کر بھی سلامت آئی سچائی اور وفاداری کو جانچنے کا ذریعہ ابتلا اور امتحان ہیں۔ اسی لیے انبیاء اور صلحاء اور ابتلاؤں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ سوقرآن کریم اور تاریخ انبیاء استقامت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے جن کو رسول اللہﷺ نے کمال تک پہنچا دیا۔اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللّٰهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ (النحل: ۱۲۸)اے رسول تو صبر سے کام لے اور تیرا صبر کرنا اللہ کی مدد سے ہی ہو سکتا ہے اور تُو ان کی حالت پر غم نہ کھا اور جو تدبیریں وہ کرتے ہیں ان کی وجہ سے تکلیف محسوس نہ کر۔پھر فرماتا ہے۔ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِيْنَ وَالْمُنَافِقِيْنَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ وَكَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا (احزاب: ۴۹) یعنی ہر دکھ کے باوجود کافروں اور منافقوں کی بات ہرگز نہ مان اور ان کی ایذا دہی کو نظر انداز کر دے اور اللہ پر توکل کر اور اللہ کار سازی میں کافی ہے۔ فَاسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ(ہود: ۱۱۳) تو استقامت دکھا جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی جنہوں نے تیرے ہاتھ پر توبہ کی ہے یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر واستقامت، تحمل و برداشت، توکل علی اللہ اور قرب الٰہی کا خوبصورت اور دلکش نقشہ کھینچتی ہیں جس پر رسول اللہﷺ نے خود اس طرح روشنی ڈالی ہےکہ اللہ کی راہ میں جتنا مجھے ڈرانے کی کوشش کی گئی کسی اور کے لیے ایسی کوشش نہیں ہوئی اور راہ مولیٰ میں جتنی اذیت مجھے دی گئی اور اتنی کسی اور کو نہیں دی گئی۔ (جامع ترمذی کتاب صفة القیا مة۔ حدیث نمبر۲۳۹۶) امر واقعہ یہ ہے کہ ابتلا کی جتنی بھی قسمیں تصور میں آسکتی ہیں رسول اللہ ﷺکو کامل اسوہ بنانے کے لیے خدا نے سب حالات سے گزارا۔ جن میں آپ نے صبر واستقامت کے لازوال نمونے قائم فرمائے۔ خاکسار کی تحقیق کے مطابق یہ ۴۰؍قسم کے ابتلا ہیں۔اور انسان پر کوئی ایسا ابتلا نہیں جو ان سے باہر ہو۔انسان پر جو سب سے بڑے ابتلا ممکن ہیں وہ جان،مال،وقت اور عز ت کے ابتلا ہیں۔ باقی سب ابتلا اور مشکلات ان کی ذیل اور تفاصیل میں آ جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سب ابتلا آئے اور بڑی قوت اور شدت سے آئے مگر ہمارے سید و مولیٰ نے ان سب حالات میں اللہ سے وفا اور استقامت کا بے نظیر مظاہرہ فرمایا اور خلقِ عظیم کی تجلیات دکھاتے رہے۔ ۱۔جان کا ابتلا سب سے بڑا خوف اور ابتلا جان کا ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری عمر دشمنوں سے خطرہ رہا۔ اور وہ حتی الامکان آپ کی جان لینے کی کوشش کرتے رہے مگر آپ کبھی خوفزدہ نہ ہوئے اور کبھی توکل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ حضرت مسیح موعودؑ پانچ خاص مواقع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ پانچ موقعےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے (۱)ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھا لی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے۔ (۲)دوسراوہ موقعہ تھا جب کہ کافر لوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت ﷺ مع حضرت ابوبکر کے چھپے ہوئے تھے۔ (۳)تیسرا وہ نازک موقعہ تھا جب کہ احد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلواریں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا (۴)چوتھا وہ موقعہ تھا جبکہ ایک یہود یہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اس کا دیا گیا تھا (۵) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسر و پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لیے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے۔ پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُرخطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد۲۳صفحہ ۲۶۳ حاشیہ) ایک غزوہ سے واپسی پر آپ تنہا سوئے ہوئے تھے کہ ایک دشمن نے آپ کی تلوار درخت سے اتار لی اور پوچھا کہ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچائے گا آپ نے بغیر کسی تامل کے فرمایا۔اللہ۔ اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع حدیث نمبر۳۸۲۲) جنگ حنین میں دشمن آپؐ کی جان لینے کے درپے تھا اور آپؐ پوری شجاعت اور حوصلہ سے بآواز بلند فرما رہے تھے۔ انا النبی لا کذب۔ انا ابن عبدالمطلب (صحیح بخاری کتاب المغازی باب یوم حنین حدیث نمبر:۳۹۷۳)یہ اس بات کا اعلان عام تھا کہ میرے صحابہ کا تعاقب نہ کرو۔ اصل دشمنی میرے سے ہے تومیری طرف آؤمگر خدا تمہیں مجھ پر غالب نہیں کرے گا۔ جان کے اس پر خطر ابتلا سے رسول اللہ جس طرح کامران گزرے اس پر تاریخ شجاعت ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔ ۲۔ مال کی کمی کا ابتلا جان کے بعد سب سے بڑا اور مہیب ابتلا مال کا ہوتا ہے اور اس کا ہر پہلو انسان کے اوسان خطا کر دیتا ہے۔ بعض لوگ مال کی کمی سے آزمائے جاتے ہیں اور بعض مال کی کثرت سے اور بعض خدا کی راہ میں مال کی قربانی سے آزمائے جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام میدانوں میں ابنائے آدم کے لیے ہر پہلو سے بہترین نمونہ چھوڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد تو آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے۔ اور آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کا ساتھ جلد ہی چھوڑ دیا اور آپ کے لیے کوئی خاص ترکہ بھی نہ چھوڑا۔ مگر آپ نے کبھی قلت مال کا شکوہ نہ کیا۔ آغاز جوانی میں ہی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرا کر محنت کی حلال کمائی حاصل کی۔ (صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب رعی الغنم۔ حدیث نمبر ۲۱۲۰) پاکیزہ تجارت کی۔ حضرت خدیجہؓ نے بھی آپ کو مال دے کر بھیجا۔ مگر آپ کو خدا نے غربت اور مال کی کمی کے سارے ابتلاؤں میں سرخرو کیا۔ کوئی حرص کوئی بددیانتی یا ناجائز مال کی خواہش آپ کا دامن نہ چھو سکی۔ لوگ آپ کے پاس دعویٰ نبوت سے پہلے بھی امانتیں رکھا کرتے تھے اور قوم میں آپ صادق اور امین کے نام سے مشہور تھے اور دعویٰ نبوت کے بعد بھی باوجود دشمنی کے یہ سلسلہ جاری رہا اور مکہ سے ہجرت تک لوگ آپ کے پاس امانتیں رکھواتے رہے اور آپ ہجرت کے وقت حضرت علی ؓکو گویا موت کے منہ میں مکہ چھوڑ گئے تاکہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کر کے مدینہ آ جائیں۔ ۳۔کثرت مال کا ابتلا حضرت خدیجہؓ نے شادی کے بعد اپنا سارا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ مگر آپ نے وہ سارا مال راہ مولیٰ میں لٹا دیا۔مدینہ میں فتوحات کے بعد آپ کی خدمت میں ڈھیروں ڈھیر اموال آئے مگر آپ نے ایک ایک پائی کے متعلق امانت و دیانت کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے اور خدا کے دین کی سر بلندی اور مخلوق کی خدمت کے لیے ذرہ ذرہ صرف کر دیا۔ آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ بسااوقات گھر میں بستر پر یا کسی اور جگہ کوئی کھجور پڑی ملتی ہے میں اٹھاتا ہوں اور (بھوک کی وجہ سے ) کھانے لگتا ہوں مگر معاً خیال آتا ہے کہ کہیں صدقہ کی نہ ہو تب اس کے کھانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب اللقطہ باب اذا وجد تمرة فی الطریق حدیث نمبر۲۲۵۳) ایک دفعہ باہر سے کچھ مال آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو تقسیم کرنے کا ارشاد فرمایا۔ سارے مستحقین مال لے گئے کچھ مال پھر بھی بچ گیا۔ آپؐ نے فرمایا میں اس وقت تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا جب تک اس کا ذرہ ذرہ تقسیم نہیں ہو جاتا۔ مجھے اس مال سے نجات دلاؤ۔ مگر کوئی لینے والا نہ آیا تو رسول اللہؐ نے وہ رات مسجد میں گزاری۔ اگلے دن وہ مال حضرت بلالؓ نے کسی مستحق کو دے دیا تو آپؐ اطمینان سے گھر تشریف لے گئے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الخراج باب فی ا لامام یقبل ھدایا المشرکین حدیث نمبر۲۶۵۶) آپؐ فرماتے تھے:۔’’خدا کی قسم میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین پر بھی امین ہوں۔‘‘ (شفاء عیاض جلد ۱ صفحہ ۵۰) حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’جب مدت مدید کے بعد غلبہ اسلام کا ہوا تو ان دولت اور اقبال کے دنوں میں کوئی خزانہ اکٹھا نہ کیا۔ کوئی عمارت نہ بنائی۔ کوئی بارگاہ طیار نہ ہوئی۔ کوئی سامان شاہانہ عیش و عشرت کا تجویز نہ کیا گیا۔ کوئی اور ذاتی نفع نہ اٹھایا۔ بلکہ جو کچھ آیا وہ سب یتیموں اور مسکینوں اور بیوہ عورتوں اور مقروضوں کی خبر گیری میں خرچ ہوتا رہا اور کبھی ایک وقت بھی سیر ہو کر نہ کھایا۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد۱ صفحہ ۱۰۹) پھر فرمایا:’’خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دئیے۔ سو آنجناب نے ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیااور کسی نوع کی تن پروری میں ایک حبہ بھی خرچ نہ ہوا۔ نہ کوئی عمارت بنائی، نہ کوئی بارگاہ طیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کوٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی۔ اپنی ساری عمر بسر کی۔ بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جودلآزار تھے ان کو ان کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی۔ سونے کے لیے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا جھونپڑا ۔ اور کھانے کے لیے نان جَو یا فاقہ اختیار کیا۔ دنیا کی دولتیں بکثرت ان کو دی گئیں پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا۔ اور ہمیشہ فقر کو تو نگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد۱صفحہ ۲۸۹) ۴۔مال چھوڑنے کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت مکہ میں اپنے تمام اموال برضا و رغبت خدا کی خاطر چھوڑ دیے اور کبھی بھول کر بھی ان کا تذکرہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب آپؐ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے اور آپ سے کہا گیا کہ آپ اپنے آبائی مکان میں قیام فرمائیں گے تو آپؐ نے فرمایا:۔ھل ترک لنا عقیل من منزل۔کیا عقیل (بن ابی طالب) نے ہمارے لیے کوئی مکان چھوڑا ہے اور آپ نے وہ سابقہ جائیداد واپس لینا تو درکنار اس میں ٹھہرنا بھی پسند نہیں کیا۔ اور خیف بنی کنانہ میں فروکش ہوئے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی حدیث نمبر۳۹۴۶-۳۹۴۷) راہ خدا میں اور خدمت مخلوق میں آپ کا سارا مال اور جائیداد وقف رہی۔ کبھی دین کے لیے جہاد بالسیف کی ضروریات کی خاطر کبھی مہمان نوازی کی شکل میں کبھی بھوک مٹانے کے لیے کبھی ننگ ڈھانپنے کے لیے کبھی تبرک کے حصول کی درخواست کرنے والوں کے لیے۔ اپنے بعد چھوڑ ے جانے والے مال کے متعلق فرمایا ماترکنا فھو صدقة ہم نے نہ کوئی ورثہ پایا اور نہ کوئی ورثہ چھوڑا۔ ہم نے جو بھی چھوڑا ہے وہ صدقہ یعنی قومی مال ہے۔ (صحیح بخاری کتاب فرض الخمس۔ حدیث نمبر ۲۸۶۲) حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت نہ درہم چھوڑا نہ دینار۔ نہ غلام نہ لونڈی، نہ کوئی اور چیز سوائے ایک سفید خچر کے، کچھ اسلحہ کے اور زمین کے جسے آپ نے صدقہ کردیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب الوصایا باب الوصایا۔ حدیث نمبر ۲۵۳۴) ۵۔وقت کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام ایک لحاظ سے غیرمحدود تھے۔ مگر آپ کے پاس وقت بہت محدود تھا۔ دعویٰ نبوت کے بعد آپ نے ۲۳؍سال زندگی پائی۔ جو انتہائی مصروف اور معمور الاوقات تھی۔ اللہ تعالیٰ خود گواہی دیتا ہے۔ اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبۡحًا طَوِیۡلًا (المزمل:۸)یقیناً تیرے لیے دن کو بہت لمبا کام ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپ کے دن اگر ایک عالم کو زندہ کرنے، ایک نئے زمین وآسمان کی تخلیق کرنے اور اسے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے میں صرف ہوتے تھے تو آپ اپنی راتوں کو دعاؤں اور گریہ وزاری سے زندہ کرتے تھے۔ا تنا کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔اس پس منظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح وقت کے ایک ایک لمحے کا استعمال بے پناہ کامیابی سے کیا اس کے نتیجہ میں آسمان سے اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ (المائدۃ:۴) اور زمین سے بلغت کی صدا آئی۔اتنے مختصر عرصہ میں یہ بے نظیر کامیابی صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی۔ آپ کا ہر آنے والا دن پہلے سے بڑھ کر عظمتوں کا پیغام لاتا رہا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی(الضحیٰ :۵) یعنی تیری ہر بعد میں آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہوتی ہے۔ باوجود نہایت مصروفیت کے آپ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حسین توازن کی لازوال مثالیں قائم فرمائیں۔ عبادات کا قیام، قیام اللیل، نزول وحی اور اس کی تلاوت وحفاظت کا انتظام، دعوت الی اللہ، جہاد کی ہر قسم کی بروقت ادائیگی، مسلمان ہونے والوں کی تربیت، لٹ پٹ کر آنے والوں اور اصحاب الصفہ (جو بعض اوقات ۳۰۰؍تک پہنچ جاتے تھے )کے قیام و طعام کاانتظام، غیر قوموں سے معاہدات اور تعلقات، مہمان نوازی، ان تمام بڑے بڑے امور کے ساتھ اہل وعیال کی پوری دلداری اور حقوق کی ادائیگی، گھر کے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت حتٰی کہ غریب لونڈی کی بات سننے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑنا۔ (شفاء عیاض۔ باب تواضعہ)یہ صرف محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی جگر تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ انتہائی کم وقت میں آپ کی بے نظیر کامیابی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’ آپ دنیا میں اس وقت آئے جب کہ دنیا کی حالت بالطبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپ اس وقت اٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی۔ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ(المائدۃ:۴)کی صدا کسی دوسرے کو نہیں آئی اور اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ وَرَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا (النصر: ۲ ،۳) پوری کامیابی کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ (ملفوظات جلد۳ صفحہ۱۰۲، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) ۶۔عزت کا ابتلا دشمنوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو اپنی طرف سے پامال کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آپؐ کو ہر قسم کی گالیاں دینے کے علاوہ آپ کا نام بگاڑنے کی کوشش کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ، بشاشت اور اولوالعزمی نہ چھین سکے۔ جب دشمن نے آپ کو مذمم قرار دے کر بر ا بھلا کہنا شروع کیا تو آپؐ نے کس لطافت سے فرمایا:۔کیا تم اس بات پر تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ مجھے قریش کی گالیوں سے کس طرح بچاتا ہے۔ وہ کسی مذمم کو گالیاں دیتے اور لعنت ملامت کرتے ہیں جبکہ میں تو محمد ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب فی اسماء الرسول حدیث نمبر۳۲۶۹) اسی صبر کے نتیجہ میں حضرت حمزہؓ کو اسلام نصیب ہوا۔ایک دفعہ ابوجہل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو راستہ میں روک لیاآپ کو سخت گالیاں دیں اور جسمانی اذیت بھی پہنچائی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کوئی جواب نہ دیا۔ عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔حضرت حمزہؓ اس وقت شکار کے لیے گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو لونڈی نے انہیں سارا حال سنایا۔ حضرت حمزہ اس وقت مشرک تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مظلومیت اور ابوجہل کا ظلم سن کر حضرت حمزہ غصہ سے بھر گئے۔ اس وقت ابوجہل صحن کعبہ میں تھا۔ حضرت حمزہ نے جاتے ہی ابوجہل کے سر پر اپنی کمان دے ماری جس سے اس کا سرزخمی ہو گیا۔ کئی آدمی ابوجہل کی مدد کے لیے آئے اور کہا لگتا ہے تم بھی صابی ہو گئے ہو۔ حضرت حمزہ نے کہا جب اس کی حقانیت مجھ پر ظاہر ہو گئی ہے تو پھر کون سی چیز مجھے باز رکھ سکتی ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدخدا کے رسول ہیں۔ اگر تم میں ہمت ہے تو مجھے روک کر دکھاؤ۔ ابو جہل بھی آپ کا جوش اور بہادری دیکھ کر مرعوب ہو گیا اور اپنے ساتھیوں کو جوابی کارروائی سے روک دیا۔ (اسد الغابہ جلد ۲صفحہ ۴۶) آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ پر ناپاک الزام لگانے والے کے بیٹے نے اس جرم میں اپنے باپ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی مگر رسول اللہ نے انکار فرمایا۔ (اسد الغابہ جلد ۳صفحہ ۱۹۷) یہی بدباطن شخص جب فوت ہوا تو رسول اللہ نے اس کو اپنا کرتہ بطور کفن پہنایا اور باوجود صحابہ کے روکنے کے آپ نے اس کا جنازہ پڑھایا اور مغفرت کی دعاکی۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر باب استغفرلھم حدیث نمبر۴۳۰۲) عزت کے ابتلا میں رسول اللہ کی طرح کون سرخرو ہو سکتا ہے؟ ان چارمرکزی ابتلاؤں کی کوکھ سے بے شمار دکھ اور مصائب جنم لے رہے تھے اور زندگی کے رنگوں میں سے ہر رنگ اور باغ حیات کا ہر پتا اذیت رسانی پر تل گیا تھا۔ ساری دنیا بھڑوں کا چھتہ بن گئی تھی۔ مگر ہمارے آقا و مولیٰ کے دل کی وسعت دیکھیے کہ ہر زہر کو سینے میں اتارتے چلے گئے اور اس پاکیزہ سینے میں جا کر وہ زہر ہلاہل میٹھے اور خوشبودار شہد میں تبدیل ہوتا چلا گیا۔ وہ ابتلازمینی اور ابنائے دنیا کے ہوں یا آسمانی اور آفات سماوی سے تعلق رکھتے ہوں ہر ایک نے پورا پورا سر پٹکا مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر جھکا نہ سکا۔ ہاں جھکا تو اسی ایک خالق و مالک کے آگے جس نے وہ سر اسی لیے بنایا تھا۔ آئیے اس خارزار کا کچھ مزید تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ ۷۔یتیمی کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنے والد کا چہرہ نہیں دیکھا کیونکہ وہ آپ کی پیدائش سے قریباً۶ماہ قبل فوت ہو چکے تھے۔ یتیمی خود ایک بہت بڑا ابتلا ہے۔ والد کے سایہ شفقت سے محرومی تربیت کے بے شمار نقص پیدا کر سکتی ہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام خرابیوں سے محفوط رکھے گئے۔ اس ابتلا سے کامیاب گزرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر ایک خاص انعام تھا۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے۔ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَاٰوٰى (الضحٰی :۷) یعنی کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا۔پس پناہ دی۔اس یتیمی کے دور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ لاج رکھی اور اپنی امت کو یتامیٰ کی خبر گیری کی ہمیشہ خصوصی تلقین فرماتے رہے یہاں تک فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (ابن ماجہ کتاب الادب باب حق الیتیم حدیث نمبر۳۶۷۰) ۸۔والدہ سے جدائی اور وفات کاابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے تھوڑے عرصہ بعد آپؐ کو حضرت حلیمہ سعدیہ کے سپرد کیا گیا جو آپ کو دودھ پلانے کے لیے اپنے قبیلہ میں لے گئیں۔ دو سال بعد آپ چند دن اپنی والدہ کے پاس آئے اور پھر حضرت حلیمہ کے ساتھ چلے گئے۔ او رپھر دو سال کے بعد والدہ کے پاس آئے اس وقت حضورﷺ کی عمر ۴سال کی تھی۔ ۶سال کی عمر میں والدہ کے ساتھ مدینہ کے سفر سے واپسی پر حضرت آمنہ فوت ہوگئیں۔اس طرح آپ کو اپنی والدہ کے ساتھ رہنے کا بہت کم موقع ملا۔ والد کے بعد والدہ کی وفات کے ساتھ پوری طرح یتیم کی حالت میں آ گئے۔ مگر آپ کے لب پر کوئی شکوہ نہ آیا۔ آپ اس ابتلا سے بھی عظیم کامیابی سے گزرے اور آپ کا بچپن ہر لحاظ سے ایک مثالی بچپن قرار پایا۔ ۹۔بچپن کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوئے جو راگ رنگ اور رقص و سرود کا دلدادہ تھا۔ مگر آپؐ کی لطیف ترین اور نفیس ترین فطرت کو اس سے کوئی مناسبت نہ تھی۔ اور اگر کبھی بھولے سے کوئی خیال آ بھی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آ پؐ کی حفاظت کی۔ اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ رات کے وقت لوگ کسی مکان پر جمع ہو کر کہانیاں سناتے اور غزل کا شغل کیا کرتے تھے اور ساری ساری رات اس میں گزار دیتے تھے۔ بچپن کے شوق میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ تماشا دیکھنے گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنے ساتھی سے جو بکریاں چرانے میں آپ کا شریک تھا فرمایا تم میری بکریوں کاخیال رکھو میں ذرا شہر جا کر لوگوں کی مجلس دیکھ آؤں۔ راستے میں شادی کی کوئی تقریب تھی جہاں گانے بجانے کا کام زوروں پر تھا۔ آپ وہاں تعجب سے کھڑے ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو اس لغو کام میں آپ کی شرکت پسند نہ آئی اور آپ پر فوراً نیند طاری کر دی اور صبح تک سوتے رہے یہاں تک کہ مجلس ختم ہو گئی۔ ایک دفعہ اَور یہی خیال آیامگر پھر دست غیبی نے روک دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس سال کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس میں جانے کا ارادہ کیا مگر دونوں دفعہ روک دیا گیا۔ (تاریخ طبری جلد۱صفحہ ۵۲۰از محمد بن جریر طبری۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۴۰۷۔ طبع اول) ۱۰۔بے گھر ہونے کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور پھر والدہ کی وفات کے بعد عملاً آپ کا گھرانہ ختم ہو گیا اور آپ کو اپنا گھر چھوڑ کر پہلے دادا اور پھر چچا کی کفالت میں آنا پڑا۔ اس دور میں بھی آپ کی طرف سے بے صبری اور شکوہ شکایت کا کوئی کلمہ نہیں ملتا۔ دادا اور چچا کے گھر میں آپ نے بہترین اور عالی کردار کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے دونوں آپ کو بے حدمحبوب رکھتے تھے۔ ۱۱۔سرپرستوں کی وفات کا ابتلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۸سال کی تھی جب آپ کے دادا عبدالمطلب وفات پا گئے اور آپ اپنے چچا حضرت ابوطالب کے زیر کفالت آ گئے۔ انہوں نے آپ پر بہت شفقت کی۔ دعویٰ نبوت کے بعد بھی دشمنوں کے مقابل پر ہمیشہ آپ کی حمایت میں کمربستہ رہے۔یہاں تک کہ شعب ابی طالب میں وہ خود اپنی خوشی سے محصور رہے اور اسی کی سختیوں اور تنگیوں کی وجہ سے وفات پا گئے۔والدین اور دادا کی وفات کے بعد یہ آپ کے لیے بہت بڑا صدمہ اور ابتلا تھا۔ جسے آپ نے کامیابی سے جھیلا۔ ۱۲۔عزیزوں کی وفات کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو والدین اور سر پرستوں کی وفات کے علاوہ متعدد عزیزوں اور پیاروں کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ بیویوں میں سے حضرت خدیجہؓ کی وفات ہجرت سے قبل ہوئی۔ تمام بیٹے جن کی تعداد ۴سے زیادہ بیان کی جاتی ہے اور آخری عمر کی اولاد میں حضرت ابراہیم بھی ۹؍ہجری میں فوت ہوئے جن کی وفات پر آپؐ نے فرمایا ہمارا دل غمگین ہے آنکھیں آنسو بہاتی ہیں لیکن ہم وہی کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول النبی انا بفراقک حدیث نمبر۱۲۲۰) بیٹیوں میں سے حضرت رقیہؓ عین جنگ بدر کے ایام میں فوت ہو ئیں۔حضرت زینبؓ نے ۸ھ میں اور حضرت ام کلثوم ؓنے ۹ھ میں ا نتقال کیا۔بعض روایات کے مطابق آپ کے ۱۱؍بیٹے،بیٹیاں فوت ہوئے۔چچا حمزہؓ جنگ احد میں شہید ہوئے اور ان کا مثلہ کیا گیا۔ مگر آپؐ نے کمال ضبط و تحمل کامظاہرہ فرمایا اور دیگر صبر نہ کر سکنے والوںاور واویلا کرنے والوںکو روک دیا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت حدیث نمبر۱۵۸۰) آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر جنگ موتہ میں ۸ھ میں شہید ہوئے ان کی شہادت کی خبر دیتے وقت بھی آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں مگر زبان پر کوئی شکوہ نہ تھا (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ موتہ حدیث نمبر۳۹۲۹) رسول اللہؐ کے منہ بولے بیٹے جو ایک زمانہ میں زید بن محمد کہلاتے تھے مگر بعد میں خدا نے اس نسبت سے ر وک دیا وہ بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔قریبی رشتہ داروں کے علاوہ بیسیوں صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مختلف غزوات میں خدا کو پیارے ہوئے۔ یہ سب آپ کو بہت پیارے تھے بہت محبوب تھے مگر خدا ان سے بڑھ کرمحبوب تھا۔ ان سب کی شہادت دیکھنا ایک روح فرسا منظر تھا مگر خدا کی رضا کی خاطر آپ نے اس ابتلا کو بخوشی قبول کیا۔بہت سے صحابہ اور صحابیات طبعی عمر پا کر رخصت ہوئے۔ ان سب کے لیے بھی رسول اللہؐ کے دل میں بے انتہا درد تھا۔ مگر کوئی شکوہ اور بےصبری کا کلمہ آپ کے منہ سے نہیں نکلا۔ ۱۳۔جوانی کے ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے حال میں جوان ہوئے کہ والدین اور بزرگوں کا سایہ سر پر نہ تھا۔آپ کے کفیل چچا ابوطالب سرداران قریش میں سے تھے اور آپ ان کے لاڈلے تھے۔ عرب کا ماحول جہاں ہر قسم کی بدکاری اور گناہ عروج پر تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی پاکیزگی اور طہارت کا شاہکار تھی۔اس علاقے میں لڑکے اور لڑکیاں بہت جلد جوان ہو جایا کرتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کا کسی کو خیال نہ تھا یہاں تک کہ آپ کی ذہانت اور دیانت دیکھ کر حضرت خدیجہؓ نے خود ہی آپ سے شادی کی درخواست کی۔ ۲۵؍سال کے تہی دست خوبرو مرد کے ساتھ ۴۰؍سالہ دولت مند بڑی عمر کی خاتون کی شادی جس کے پہلے دوشوہر فوت ہو چکے تھے اور اولاد بھی تھی گھریلو اور ازدواجی مسائل پیدا کرنے کے لیے کافی امور تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقویٰ اور فراست کے نتیجہ میں حضرت خدیجہؓ پہلے سے بڑھ کر آپ کی گرویدہ ہوتی گئیں بلکہ آپؐ کے عشق میں سرشار ہوگئیں۔ خدا نے جب آپؐ پر پہلی وحی نازل فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کا اظہار فرمایا تو حضرت خدیجہؓ نے سب سے پہلے آپ کی صداقت کی گواہی دی اور آپ کے جوانی کے سارے کردار کا خلاصہ ان الفاظ میں نکالا کہ خدا تعالیٰ آپ کو کس طرح ضائع کرسکتا ہے۔ آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں مظلوموں کے بوجھ ہلکے کرتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں صداقت اور امانت کے اعلیٰ معیاروں پر قائم ہیں۔ گمشدہ اخلاق کو زندہ کرتے ہیں اور زمانے کے پسے ہوئے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر۳) اسی دور میں آپ نے قوم سے صادق اور امین کا خطاب حاصل کیا۔اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت آپ نے بطور امین قوم کی پسندیدگی سے حجر اسود نصب کیا۔ (سیرت ابن ہشام حدیث بنیان الکعبہ جلد اول صفحہ ۱۹۷) قیصر روم کے دربار میں ابو سفیان نے اس بات کا اقرار کیا کہ ہم نےمحمد پر دعویٰ نبوت سے قبل کبھی جھوٹ کا الزام نہیں لگایا۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر۶) اور کوہ صفا پر بھی قوم نے متفقہ طور پر گواہی دی کہ مَا جَرَّبْنَا عَلَیْکَ اِلَّا صِدْقًا۔ہم نے آپ سے صداقت کے علاوہ اورکچھ نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورة الشعراء حدیث نمبر۴۳۹۷) یہی وہ بے داغ جوانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دعویٰ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صداقت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا۔کہو میں رسالت سے پہلے بھی تمہارے درمیان ایک لمبی عمر گزار چکا ہوں تو کیا تم عقل نہیں کرتے۔فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ (یونس :۱۷)۔اسی پُر بہار جوانی کے گواہ حضرت ابو بکرؓ اور دیگر سعید روحیں تھیں جنہوں نے آپ کے دعویٰ کو سنتے ہی قبول کر لیا تھا ایسی جوانی کب کسی کونصیب ہوتی ہے۔ ۱۴۔کثرت اہل وعیال کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا اور اس کی لذتوں سے پہلو بچانا چاہتے تھے اور جہاں تک ہو سکا آپ نے ایسا کیا لیکن خدا تعالیٰ کی منشا اور اسوہ بننے کی خاطر دنیا کی سب ضروری ذمہ داریاں نبھائیں اور ان معنوں میں یہ بھی ابتلا تھاکہ اللہ کے حکم سے آپ نے شادیاں کیں اور سب حقوق ادا فرمائے اور بلند ترین معیار قائم کیے۔ آپ نے خدا کے منشا کے ماتحت ۱۲کے قریب شادیاں کیں اور ایک وقت میں۹؍بیویاں بھی رہیں یہ کوئی معمولی مجاہدہ نہیں تھا۔ ان سب کی رہائش، معیشت، خورونوش اور آرام وسکون کا بندوبست کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پناہ روحانی ذمہ داریوں کے دوران ایک اضافی کام تھا۔خصوصاً جب کہ سب بیویوں کے قبائل،ذوق، مزاج اور ضروریات مختلف ہوں ان میں سے صرف حضرت عائشہؓ اور ماریہ قبطیہ کنواری تھیں باقی سب بیوہ تھیں۔ بعض کی سابقہ خاوندوں سے اولاد بھی تھی اس لیے ان کے حقوق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ادا کرنے تھے۔ان سب کے ساتھ محبت اور تربیت کے جائز تقاضے پورے کرنا اور کسی کی حق تلفی نہ ہونے دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم وسعت حوصلہ کو خراج تحسین پیش کرنے پرمجبو رکر دیتا ہے۔ ۱۵۔قوم کی مخالفت کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ نبوت کے بعد قوم میں سب سے مقہور قرار دیے گئے۔ وہ جو صادق اور امین تھا اس پر ہر طرح کے گندے الزام لگائے گئے وہ جو آپ کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے انہوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے۔ وہ جو پیار کرتے تھے نفرت سے دیکھنے لگے۔ سارے مکہ میں سوائے چند کے تمام خون کے پیاسے ہو گئے۔بلاشبہ جتنے کچوکے رسول اللہ کے دل پر ان کی قوم نے لگائے کسی اور نبی کی قوم کو یہ موقع نہیں ملا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہرنبی پر اس کی ہمت کے مطابق ابتلا وارد کرتا ہے۔ اور اس میدان کے شہسوار حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ ۱۶۔تضحیک اور تمسخر کا ابتلا نام بگاڑنے کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل تضحیک اور استہزا کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی ساحر کہا گیا کبھی مجنون کبھی صابی اور بے دین۔ آپ کے بارہ میں ہر قسم کی غلط افواہیں پھیلائی گئیں تاکہ باہر سے آنے والے آپ کے قریب نہ آسکیں یہاں تک کہ طفیل بن عمرو دوسی ؓ کانوں میں روئی ڈال کر مکہ میں پھرتے رہے۔ (طبقات ابن سعد جلد۴ صفحہ۲۳۷) مگر یہ تمام ابتلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ کی ضربوں سے پارہ پارہ ہو تے رہے۔ اورسعید فطرت آپ کو پہچان کر آپ کے دست حق پرست پر اکٹھے ہوتے رہے۔ ۱۷۔ بدہمسایوں اور دشمنوں کا ابتلا وہ شخص جو اپنی پوری قوم کا معتوب تھا اور صبح سے شام تک طعن وتشنیع کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا وہاں مظلوم کو گھر میں بھی چین کے چند لمحے میسر نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ابو لہب اور عقبہ بن ابی معیط حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی تھے جو آپ کے دونوں طرف آباد تھے اور ان کی شرارتوں میں گھرے ہوتے تھے۔ یہ لوگ بیرونی مخالفت کے علاوہ گھر میں بھی ایذا پہنچانے سے باز نہ آتے تھے۔اور تنگ کرنے کے لیے غلاظت کے ڈھیر حضور کے دروازے پر ڈال دیتے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر نکلتے تو خود اس غلاظت کو راستے سے ہٹاتے اور صرف اتنا کہتے! اے عبد مناف کے فرزندو! یہ تم کیا کر رہے ہو؟ کیا یہی حق ہمسائیگی ہے؟ (طبقات ابن سعد جلد۱صفحہ ۲۰۱بیروت ۱۹۶۰ء داربیروت للطباعة وا لنشر) مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین یہودی قبائل قیام پذیر تھے جنہوں نے ہر موقع پر ڈسنے کی کوشش کی۔ بنو قینقاع، بنو نضیراور بنوقریظہ تینوں کے ساتھ امن اور صلح کے معاہدے تھے مگر سب نے غداری کی او ر چھرا گھونپا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ابتلا سے بھی کامیابی سے گزر گئے۔ بعض کو ان کی شریعت کے مطابق سزائیں دی گئیں اور جنہوں نے معافی مانگی ان کو معاف کر دیا گیا۔ ۱۸۔جسمانی دکھوں کا ابتلا دشمن نے قلبی اور ذہنی اذیتوں کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی تکایف پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کا ذکر فرما رہے تھے آپؐ نے فرمایا اس نبی کو اس کی قوم نے اتنا مارا کہ اسے لہولہان کر دیا۔ وہ نبی اپنے چہرہ سے خون پونچھتا جاتا اور کہتا تھا۔اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ نہیں جانتے۔ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حدیث الغار حدیث نمبر۳۲۱۷) آنحضرتﷺ کی زندگی میں کتنے ہی مواقع آئے جب قوم نے آپ کو سر سے پاؤں تک لہولہان کر دیا۔ مثلاً سفر طائف سے واپسی پر اوباش غنڈوں نے آپ کا خون بہایا جنگ احد میں آپ سخت زخمی ہو کر لاشوں کے انبار میں جا گرے مگر ہمیشہ صبر و تحمل اور عفو ودرگزر آپ کا شیوہ رہا اور انکساری کی حد یہ ہے کہ اپنے ساتھ بیتنے والا یہ مذکورہ بالا واقعہ اپنی طرف منسوب نہیں کرتے بلکہ صیغہ غائب میں ذکر کرتے ہیں گویا کسی اور کے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط غصہ میں اٹھا اور آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر اس زور کے ساتھ بھینچا کہ آپ کا دم رکنے لگ گیا۔ حضرت ابوبکر ؓکو علم ہوا تو وہ دوڑے آئے اور آپ کو اس بدبخت کے شر سے بچایا اور قریش سے مخاطب ہو کر کہا : اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ کیاتم ایک شخص کو صرف اس لیے قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مالقی النبی واصحابہ حدیث نمبر۳۵۶۷) ایک دفعہ آپ صحن کعبہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سر بسجود تھے اور چند رؤساء قریش بھی وہاں مجلس لگائے بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے کہا کہ ’’ اس وقت کوئی شخص ہمت کر ے تو کسی اونٹنی کی بچہ دانی لا کر محمدکے اوپر ڈال دے۔‘‘ چنانچہ عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور ایک ذبح شدہ اونٹنی کی بچہ دانی لا کر جو خون اور گندی آلائش سے بھرا ہوا تھا آپؐ کی پشت پر ڈال دیا اور پھر سب قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔فاطمة الزہرا کو اس کا علم ہوا تو وہ دوڑی آئیں اور اپنے باپ کے کندھوں سے یہ بوجھ اتارا۔ تب جا کر آپ نے سجدہ سے سر اٹھایا۔ روایت آتی ہے کہ ایک موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان رئوساء قریش کے نام لے لے کر جو اس طرح اسلام کو ذلیل کرنے اور مٹانے کے درپے تھے بد دعا کی۔ اور خدا سے فیصلہ چاہا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب لوگ بدر کے دن مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہو کر وادیٔ بدر کی ہوا کو متعفن کر رہے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب ما لقی النبی حدیث نمبر۳۵۶۵: وکتاب المغازی باب دعاء النبی علی کفار قریش حدیث نمبر۳۶۶۵) ایک اور موقع پر آپ نے صحن کعبہ میں تو حید کا اعلان کیا تو قریش جوش میں آ کر آپ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ آپ کے ربیب یعنی حضرت خدیجہ کے فرزند حارث بن ابی ہالہ کو اطلاع ہوئی تووہ بھاگے آئے اور خطرہ کی صورت پا کر آپ کو قریش کی شرارت سے بچانا چاہا۔ مگر اس وقت بعض نوجوانان قریش کے اشتعال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی بدباطن نے تلوار چلا کر حارث کو وہیں ڈھیر کر دیا۔ اور اس وقت کے شور و شغب میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ تلوار چلانے والا کون تھا۔ (الاصابہ ذکر حارث) ایک دفعہ آپؐ ایک راستہ پر چلے جاتے تھے کہ ایک شریر نے برسر عام آپ کے سرپر خاک ڈال دی۔ ایسی حالت میں آپ گھر تشریف لائے۔ آپؐ کی ایک صاحبزادی نے یہ دیکھا تو جلدی سے پانی لے کر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر دھویا۔ اور زار زار رونے لگیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور فرمایا: ’’بیٹی رو نہیں۔ اللہ تیرے باپ کی خود حفاظت کرے گا اور یہ سب تکلیفیں دو ر ہو جائیں گی۔‘‘ (تاریخ طبری جلد۲صفحہ ۸۰ مطبع استقامہ قاہرہ ۱۹۳۹ء) جنگ احد میں عتبہ بن ابی وقاص کا ایک پتھر آپ کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور ایک ہونٹ بھی زخمی ہوا۔ (سیرت ابن ہشام جلد۲صفحہ ۷۹) ایک اور پتھر جسے عبداللہ بن شہاب نے پھینکا تھا اس نے آپ کی پیشانی کو زخمی کیا۔ایک تیسرا پتھرجسے ابن قمۂ نے پھینکا تھا آپ کے رخسار مبارک پر آلگا جس سے آپ کے مغفر(خود) کی دو کڑیاں آپ کے رخسار میں چبھ گئیں۔ (سیرت ابن ہشام جلد۲صفحہ ۸۰) آپ کے ناک پر بھی زخم آیا۔ جسم مبارک کا دایاں پہلو مجروح ہو گیا۔ اور دائیں شانہ مبارک پر تلوار کا اتنا گہرا زخم آیا جو ایک مہینہ میں جا کر ٹھیک ہوا۔ آپ کے دونوں گھٹنوںپر سخت زخم آئے اور چہرہ مبارک سے خون بہنے لگا۔آپ زخم کھا کر کھڑے نہ رہ سکے اور ایک گڑھے کے اندر گر گئے۔ شعب ابی طالب کی سختیاں جھیلنے کے بعد حضرت ابوطالب فوت ہو گئے تو ابو لہب قبیلہ کا سردار بن گیا اس نے آتے ہی رسول اللہ کو قبیلہ بدر کر دیا (رسول اللہ کی سیاسی زندگی مصنفہ ڈاکٹر حمید اللہ صفحہ ۸۰)اس لیے شوال ۱۰؍نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے یہ ایک طرح کی ہجرت تھی بعض روایتوں کی رو سے زید بن حارثہ بھی ساتھ تھے وہاں پہنچ کر آپ نے دس دن قیام کیا اور شہر کے بہت سے رؤساء سے یکے بعد دیگرے ملاقات کی۔ مگر اس شہر کی قسمت میں بھی مکہ کی طرح اس وقت اسلام لانا مقدر نہ تھا۔چنانچہ سب نے انکار کیا بلکہ ہنسی اڑائی۔ آخر آپ نے طائف کے رئیس اعظم عبدیا لیل کے پاس جا کر اسلام کی دعوت دی مگر اس نے بھی صاف انکار کیا بلکہ تمسخر کے رنگ میں کہا کہ ’’ اگر آپ سچے ہیں تو مجھے آپ کے ساتھ گفتگو کی مجال نہیں اور اگر جھوٹے ہیں تو گفتگو لاحاصل ہے۔‘‘ اور پھر اس خیال سے کہ کہیں آپ کی باتوں کا شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو جائے، آپ سے کہنے لگا۔ بہتر ہو گا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ یہاں کوئی شخص آپ کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔اس کے بعد اس بدبخت نے شہر کے آوارہ لڑکے آپ کے پیچھے لگا دیے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہر سے نکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپ کے پیچھے ہو لیے اور آپ پر پتھر برسانے شروع کیے جس سے آپ کا سارا بدن خون سے تر بتر ہو گیا۔ کئی میل تک یہ لوگ آپ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھر برساتے چلے آئے۔(سیرت ابن ہشام جلد۱صفحہ ۴۱۹) ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: لوگوں کا تشدد اس قدر بڑھا کہ میں شدت غم اور تھکاوٹ کی وجہ سے یہ بھی نہ جان سکا کہ میں کس طرف جا رہا ہوں یہاں تک کہ قرن ثعالب (ایک پہاڑی چٹان) کی اوٹ میں کچھ سستانے کے لیے بیٹھ گیا وہاں پر جب میں نے اپنا سراوپر اٹھایا تو دیکھا کہ بادل سایہ کیے ہوئے ہے اور اس میں جبرئیل ہے۔ جبرئیل نے کہا کہ اللہ نے وہ تمام باتیں سن لی ہیں جو تیری قوم نے تجھے کہی ہیں اور جو تکالیف تجھے پہنچائی ہیں۔ میرے ساتھ اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے تاکہ جو بھی تم اس قوم کے بارہ میں فیصلہ کرووہ اس کو بجالاوے۔ پھر پہاڑ کے فرشتے نے بھی مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمدؐ!میں ملک الجبال ہوں اللہ نے تمہاری قوم کی باتیں جو اس نے تجھے کہی ہیں اور وہ تکالیف جو تجھے پہنچائی ہیں سن لی ہیں اور مجھے تمہاری مدد کے لیے بھیجا ہے۔ آپ مجھے جو بھی حکم دیں گے وہ میں بجا لائوں گا۔ اگر آپ کہیں کہ ان دو پہاڑوں کو (جن کے درمیان طائف کا شہرآباد ہے) آپس میںملا دوںاور اس کے درمیان رہنے والوں کو پیس دوں تو میں ایسا کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑوں کے فرشتے کو کہا مجھے امید ہے کہ ان لوگوں کی نسل سے شرک سے بچنے والے اور خدائے واحد کی عبادت کرنے والے افراد پیدا ہوں گے اس لیے میں ان لوگوں کو نیست و نابو د کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد مالقی النبی من اذی المشرکین حدیث نمبر۳۳۵۲) ۱۹۔ حکومت کی مخالفت کا ابتلا اہل مکہ نے محض انفرادی طور پر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی نہیں کی بلکہ اجتماعی طور پر بھی ہر ممکن عداوت کا مظاہرہ کیا۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق اہل مکہ کے متعدد وفود حضرت ابو طالب سے ملے اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دستبردار ہونے کا مشورہ دیا اور اس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کے متعلق تاریخی ریکارڈ کی گواہی یہ ہے کہ سب سے پہلی کوشش قریش کی یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کی ہمدردی اور حفاظت سے محروم کر دیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک ابوطالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اس وقت تک وہ بین القبائل تعلقات کو خراب کیے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔ ابوطالب قبیلہ بنو ہاشم کے رئیس تھے اور باوجود مشرک معاشرہ کے فرد ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مربی اور محافظ تھے اس لیے ان کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہاتھ اٹھانا بین القبائل سیاست کی رُو سے بنو ہاشم کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے متراد ف تھا جس کے لیے دوسرے قبائل قریش ابھی تک تیار نہ تھے۔ لہٰذا پہلی تجویز انہوں نے یہ کی کہ ابوطالب کے پاس دوستانہ رنگ میں ایک وفد بھیجا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اشاعت اسلام سے روک دیں۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ،عاص بن وائل عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام اور ابوسفیان وغیرہ جو سب رؤساء قریش میں سے تھے ابوطالب کے پاس آئے او رنرمی کے طریق پر کہا کہ آپ ہماری قوم میں معزز ہیں۔ اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی اشاعت سے روک دیں اور یا پھر اس کی حمایت سے دستبردار ہو جاویں۔اور ہمیں اور اس کو چھوڑ دیں کہ ہم آپس میں فیصلہ کر لیں۔ ابو طالب نے ان کے ساتھ بہت نرمی کی باتیں کیں اور ان کے غصہ کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر انہیں ٹھنڈا کر کے واپس کر دیا۔ لیکن چونکہ ان کی ناراضگی کا سبب موجود تھا بلکہ دن بدن ترقی کرتا جاتا تھا اور قرآن شریف میں بڑی سختی سے شرک کے رد میں آیات نازل ہو رہی تھیں۔ اس لیے کوئی لمبا عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ لوگ پھر ابو طالب کے پاس جمع ہوئے اور ان سے کہا کہ اب معاملہ حد کو پہنچ گیا ہے اور ہم کو رجس اور پلید اور شرالبریہ اور سفہاء اور شیطان کی ذریت کہا جاتا ہے اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے اور ہمارے بزرگوں کو لایعقل کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس لیے اب ہم صبر نہیں کرسکتے اور اگر تم اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے تو پھر ہم بھی مجبور ہیں۔ ہم پھر تم سب کے ساتھ مقابلہ کریں گے حتیٰ کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ہلاک ہو جاوے۔ ابوطالب کے لیے اب نہایت نازک موقع تھا اور وہ سخت ڈر گئے۔ اور اسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ جب آپ آئے تو ان سے کہاکہ اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی۔ تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا۔ ان کے بزرگوں کو شرالبریہ کہا۔ ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقود النّار رکھا اور خود انہیں رجس اور پلید ٹھہرایا میں تجھے خیرخواہی سے کہتا ہوں کہ اس دشنام دہی سے اپنی زبان کو تھام لو اور اس کام سے باز آجاؤ۔ ورنہ میں تمام قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا کہ اب ابو طالب کا پائے ثبات بھی لغزش میں ہے اور دنیاوی اسباب میں سے سب سے بڑا سہارا مخالفت کے بوجھ کے نیچے دب کر ٹوٹا چاہتا ہے۔ مگر آپ کے ماتھے پر بل تک نہ تھا۔ نہایت اطمینان سے فرمایاچچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو وہ کام ہے جس کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں کہ لوگوں کی خرابیاں ان پر ظاہر کر کے انہیں سیدھے رستے کی طرف بلائوں اور اگر اس راہ میں مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لیے اس موت کو قبول کرتاہوں۔میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا۔ اور اے چچا! اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا خیال ہے تو آپ بے شک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جاویں۔ مگر میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا اور خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا اور میں اپنے کام میں لگا رہوں گا حتیٰ کہ خدا اسے پورا کرے یا میں اس کوشش میں ہلاک ہوجاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر فرما رہے تھے اور آپ کے چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں تھی اور جب آپ تقریر ختم کر چکے تو آپ یکلخت چل پڑے اور وہاں سے رخصت ہونا چاہا مگر ابوطالب نے پیچھے سے آواز دی۔ جب آپ لوٹے تو آپ نے دیکھا کہ ابوطالب کے آنسو جاری تھے۔ اس وقت ابو طالب نے بڑی رقت کی آواز میں آپ سے مخاطب ہو کر کہا ’’بھتیجے جا اور اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔‘‘(ماخوذ از ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۱۱۱) جب اس دفعہ بھی قریش ناکام رہے تو انہوں نے ایک اور چال چلی اور وہ یہ کہ قریش کے ایک اعلیٰ خاندان سے ایک ہونہار نوجوان عمارہ بن ولید کو ساتھ لے کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ’’ہم عمارہ بن ولید کو اپنے ساتھ لائے ہیں۔ اور تم جانتے ہو کہ یہ قریش کے بہترین نوجوانوں میں سے ہے۔ پس تم ایسا کرو کہ محمدؐکے عوض میں تم اس لڑکے کو لے لو اور اس سے جس طرح چاہو فائدہ اٹھاؤ۔ اور چاہو تو اسے اپنا بیٹا بنا لو۔ ہم اس کے حقوق سے کلیتہً دستبردار ہوتے ہیں اور اس کے عوض تم محمدؐ کو ہمارے سپرد کردو جس نے ہمارے آبائی دین میں رخنہ پیدا کر کے ہماری قوم میں ایک فتنہ کھڑا کر رکھا ہے۔ اس طرح جان کے بدلے جان کا قانون پورا ہوجائے گا اور تمہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی ابوطالب نے کہا ‘‘یہ عجیب انصاف ہے کہ میں تمہارے بیٹے کو لے کر اپنا بیٹا بناؤں اور اسے کھلاؤں او رپلاؤں اور اپنا بیٹا تمہیں دے دوں کہ تم اسے قتل کر دو۔ واللہ یہ بھی کبھی نہیں ہوگا۔‘‘قریش کی طرف سے مطعم بن عدی نے کہا کہ’’اے ابوطالب تمہاری قوم نے تم پر ہر رنگ میں حجت پوری کر دی ہے اور اب تک جھگڑے سے اپنے آپ کو بچایا ہے مگر تم ان کی کوئی بات بھی مانتے نظر نہیں آتے‘‘ ابوطالب نے کہا ’’واللہ میرے ساتھ انصاف نہیں کیا جا رہا اور مطعم میں دیکھتا ہوں کہ تم بھی اپنی قوم کی پیٹھ ٹھونکنے میں میرے ساتھ بے وفائی کرنے پر آمادہ ہو۔ پس اگر تمہارے تیور بدلے ہوئے ہیں تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ تم نے جو کرنا ہو وہ کرو۔‘‘ (سیرت ابن ہشام مباراة رسول اللہ قومہ جلد۱صفحہ۲۶۲) ۲۰۔مقامات مقدسہ کی توہین کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ ۳۶۵ بتوں کی آماجگاہ تھا۔ یہ وہ گھر تھا جسے خدا نے توحید کے اعلان کے لیے قائم کروایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں جا کر عبادت کرتے اور توحید کا پیغام دیتے مگر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ یہ معاملہ واقعتاً آپ کے لیے جذباتی طور پر ابتلا تھا لیکن آپ نے کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو دشمن کو مشتعل کرتا۔ ان کے بتوں کو بھی کبھی گالی نہ دی مبادا وہ خدا کو گالیاں دینے لگیں۔ عرب ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور اسی طرح کئی بدرسومات میں مبتلا تھے مگر آپ ان کی اصلاح کی امن و آشتی سے کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو فاتحانہ شان سے مکہ میں داخلہ کی توفیق عطا کی تو آپ نے بتوں کی نجاست سے خانہ کعبہ کو پاک کر دیا اور ببانگ بلند توحید کا نعرہ بلند کیا۔ ۲۱۔بیٹیوں کی طلاق کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے قبل آپ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور ام کلثوم ؓکے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتیبہ اور عتبہ سے ہو چکے تھے۔ جب رسول اللہﷺ نے توحید کا اعلان فرمایا تو ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دے کر رخصتانہ سے پہلے رسول اللہﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی۔ (اسد الغابہ جلد۵صفحہ ۶۱۲از محمد بن عبدالکریم جزری مکتبہ الامیہ طہران) ۲۲۔سوشل بائیکاٹ کا ابتلا مکہ میں محرم ۷؍نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اورنہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا۔ جب تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر آپ کو ان کے حوالے نہ کردیں۔ یہ معاہدہ جس میں قریش کے قبائل بنو کنانہ بھی شامل تھے۔ باقاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا) شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درہ کی صورت میں تھا، محصور ہوگئے اور اس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلے مکہ کی تمدنی زندگی سے عملاً بالکل منقطع ہوگئے اور شعب ابی طالب میں جو گویا بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیے گئے چند گنتی کے دوسرے مسلمان جو اس وقت مکہ میں موجود تھے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔جو جو مصائب اور سختیاں ان ایام میں ان محصورین کو اٹھانی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے صحابہ ؓکابیان ہے کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا۔ سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤںکسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی (غالباً کھجور کا ٹکڑا ہوگا) اس وقت ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتا نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔ ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سوکھا ہوا چمڑہ زمین پر پڑا ہوا مل گیا تو اسی کو انہوں نے پانی میں نرم اور صاف کیااور پھر بھون کر کھایا اورتین دن اسی غیبی ضیافت میں بسر کیے۔ بچوں کی یہ حالت تھی کہ محلہ سے باہر ان کے رونے اور چلانے کی آواز جاتی تھے جسے سن سن کر قریش خوش ہوتے۔ لیکن مخالفین اسلام سب ایک سے نہ تھے بعض یہ دردناک نظارے دیکھتے تھے تو ان کے دل میں رحم پیدا ہوتا تھا۔ چنانچہ حکیم بن حزام کبھی کبھی اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لیے خفیہ خفیہ کھانے لے جاتے تھے۔ مگر ایک دفعہ ابوجہل کو کسی طرح اس کا علم ہو گیا تو اس کم بخت نے راستہ میں بڑی سختی سے روکا اور باہم ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ مصیبت برابر اڑھائی تین سال تک جاری رہی اور اس عرصہ میں مسلمان سوائے حج وغیرہ کے موسم کے جبکہ اشہر حرم کی وجہ سے امن ہوتا تھا باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ (سیرت ابن ہشام حالات شعب ابی طالب۔ طبقات ابن سعد ذکر حصر قریش۔ السیرة المحمدیہ صفحہ ۱۲۹باب اجتماع المشرکین علی منابذة بنی ہاشم۔ الروض الانف جلد دوم صفحہ ۱۶۰ حالات نقض الصحیفہ۔ تاریخ ابن کثیر جلد ۲ صفحہ ۵۰،۴۷) ۲۳۔پیاروں کی تکالیف کا ابتلا اسلام لانے کے جرم میں مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہؓ دشمنوں کے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنتے رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ظلم و ستم دیکھنے پر مجبور تھے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپؐ کے اور آپؐ کے ذریعہ دیگر صحابہ کے ہاتھ تلوار اٹھانے سے روک رکھے تھے۔ ان عظیم عاشقان توحید کے سروں سے گزرنے والے ظلم کی ہر لہر یقیناً محمد مصطفی ٰؐکے دل کو چھیدتی ہوتی گزرتی ہوگی نہ جانے کس طرح آپ کی روح ان کے دکھوں کو دیکھ کر پگھلتی ہو گی مگر زبان سے ان کے لیے سوائے صبر کے اور مستقبل کی خوشخبریوں کے کوئی پیغام نہ تھا۔ ایک دفعہ آل یاسر کو سخت اذیت دی جا رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا اے آل یاسر! صبر کرو اور خوش ہو جاؤکیونکہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے۔ (مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ ذکر مناقب عمار جلد۳صفحہ ۳۸۳مکتبہ النصر الحدیثہ ریاض) حضرت عمار ؓکو قریش عین دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے اور پانی میں غوطے دیتے۔ ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ نے حضرت عمار کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا کی کہ اے آگ عمار کے لیے اسی طرح ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جا جس طرح ابراہیم کے لیے بنی تھی۔ (طبقات ابن سعد جلد۳صفحہ ۲۴۶دار بیروت۔ بیروت ۱۹۵۷ء) رسول اللہؐ کے فدائیوں اور عاشقوں پر اترنے والی قیامتوں کا یہ ایک طویل سلسلہ تھا۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ان کے چھلنی جسم اور لہولہان وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو پارہ پارہ کر دیتے تھے۔ بعض معزز گھرانوں کے مظلوم صحابہ نے جب جوابی کارروائی کی اجاز ت مانگی تو آپ نے صبر کا ارشاد فرمایا۔ ( سنن نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد۔ حدیث نمبر ۳۰۳۶) اور جب بعض صحابہ نے بددعاکی درخواست کی تو آپ نے انہیں پہلے نبیوں کی قوموں پر آنے والے ابتلاؤں کی خبر دے کر انہیں راہ وفا میں نئی چوٹیاں سر کرنے کی تلقین کی اور اپنے دین کے غلبہ کی خبر دے کر انہیں صبر واستقامت کے بلندمینار پر فائز ہونے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مالقی النبی۔ حدیث نمبر ۳۵۶۳) ۲۴۔جلا وطنی کا ابتلا مکہ کے رؤسا اور برسر اقتدار نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کے لیے تیار نہ تھے بلکہ مکہ میں آپؐ کا رہنا دوبھر کر دیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے کہ شاید وہاں کوئی حق کو قبول کر لے اوروہاں اسلام کے قدم جم جائیں مگر وہ سارے ہی بد نصیب نکلے واپسی پر مکہ کے دروازے آپ کے لیے بند ہو چکے تھے اور اس زمانہ کے دستور کے مطابق آپ جلا وطن ہو گئے تھے مگر آپ پھر بھی اپنی عظیم ذمہ داریوں اور قوم کی محبت میں مطعم بن عدی کی پناہ لے کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ مگر تھوڑے عرصہ بعد ہی خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ آپ کو وطن چھوڑنے کا جو دکھ اور قلق تھا اس کا اندازہ ان دو جملوں سے ہو سکتا ہے جو آپ نے مکہ چھوڑتے وقت ارشاد فرمائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔اے مکہ تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کی زمینوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کی قسم اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ نکلتا۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب المناسک باب فضل مکہ حدیث نمبر۳۰۹۹) ۲۵۔تعاقب کا ابتلا سفر ہجرت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لی۔ قریش پہلے تو آپ کو مکہ میں ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر ناکام رہے۔ آخر انہوں نے عام اعلان کیا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا،اس کو ایک سو اونٹ انعام دیے جاویں گے۔(فتح الباری جلد ۷ صفحہ۲۴۰ زیر حدیث بخاری ۳۹۰۶ ) چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکہ کے چاروں طرف ادھر ادھر نکل گئے۔ خود رؤساء قریش بھی سراغ لیتے لیتے آپ کے پیچھے نکلے اور عین غار ثور کے منہ پر جا پہنچے۔قریش اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ ان کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قریش اتنے قریب ہیں کہ ان کے پائوں نظر آرہے ہیں۔ اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:۔ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ یعنی ’’ہرگزکوئی فکر نہ کروا للہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ پھر فرمایا:اے ابوبکر تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔ (بخاری کتاب المناقب باب مناقب المہاجرین حدیث نمبر۳۳۸۰) ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے منہ کے پا س پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ سخت گھبرا گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے رقت بھری آواز میں کہا:’’یا رسول اللہؐ! اگر میں مارا جاؤں تو میں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امت کی امت مٹ گئی۔‘‘ اس پر آپؐ نے خدا سے الہام پا کر یہ الفاظ فرمائے کہ اے ابوبکر! ہرگز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اس کی حفاظت میں ہیں۔ یعنی تم تو میری وجہ سے فکر مندہو اور تمہیں اپنے جوش اخلاص میں اپنی جان کا کوئی غم نہیں۔ مگر خداتعالیٰ اس وقت نہ صرف میرا محافظ ہے بلکہ تمہارا بھی۔ اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ (شرح المواہب زرقانی جلد اول صفحہ ۲۳۶) غار ثور سے نکل کر مدینہ کے رستہ میں آپ تھوڑی ہی دُور گئے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ان کے پیچھے آ رہا ہے اس پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر کہا ’’یارسول اللہ! کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آ رہا ہے‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ کوئی فکر نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘(بخاری کتاب المناقب باب مناقب المہاجرین حدیث نمبر۳۳۷۹) یہ تعاقب کرنے والا سراقہ بن مالک تھا جو اپنے تعاقب کا قصہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ میں گھوڑے کو تیز کر کے محمد اور ان کے ساتھیوں کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر گیا، لیکن میں جلدی سے اٹھا اور اپنا ترکش نکال کر میں نے ملک کے دستور کے مطابق تیروں سے فال لی۔ فال میرے منشا کے خلاف نکلی۔ مگر (اسلام کی عداوت کا جوش اور انعام کا لالچ تھا) میں نے فال کی پرواہ نہ کی اور پھر سوار ہو کر تعاقب میں ہو لیا اور اس دفعہ اس قدر قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ( جو اس وقت قرآن شریف کی تلاوت کرتے جا رہے تھے)قرا ء ت کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک دفعہ بھی منہ موڑ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔ مگر ابوبکر (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر کی وجہ سے) باربار دیکھتے تھے۔ میں جب ذرا آگے بڑھا تو میرے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور اس دفعہ اس کے پائوں ریت کے اندر دھنس گئے اور میں پھر زمین پرآ رہا۔ میں نے اٹھ کر گھوڑے کو جو دیکھا تو اس کے پائوں زمین میں اس قدر دھنس چکے تھے کہ وہ انہیں زمین سے نکال نہیں سکتا تھا۔ آخر بڑی مشکل سے وہ اٹھا اور اس کی اس کوشش سے میرے اردگرد سب غبار ہی غبار ہو گیا۔ اس وقت میں نے پھر فال لی اور پھر وہی فال نکلی۔ جس پر میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صلح کی آواز دی۔اس آواز پر وہ ٹھہر گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچا۔ اس سرگزشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گزری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غالب رہیں گے۔چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کر نے یا پکڑلانے کے لیے اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اورمیں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب میں واپس جاتا ہوں اس کے بعد میں نے انہیں کچھ زاد راہ پیش کیا مگر انہوں نے نہیں لیا اور نہ ہی مجھ سے کوئی اور سوال کیا۔ صرف اس قدر کہا کہ ہمارے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اس کے بعد میں نے (یہ یقین کرتے ہوئے کہ کسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک میں غلبہ حاصل ہو کر رہے گا) آپ سے عرض کیا کہ مجھے ایک امن کی تحریر لکھ دیں جس پر آپ نے عامر بن فہیرہ کو ارشاد فرمایا اور اس نے مجھے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امن کی تحریر لکھ دی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آگے روانہ ہو گئے۔ (بخاری کتاب المناقب باب ہجرة النبی حدیث نمبر۳۶۱۶) جب سراقہ واپس لوٹنے لگا۔ تو آپؐ نے اسے فرمایا: ’’ سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے؟ ‘‘سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ ’’کسریٰ بن ہرمز شہنشاہ ایران‘‘؟ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں!‘‘سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدوی اور کہاں کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ! مگر قدرت حق کا تماشا دیکھو کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو کسریٰ کے کنگن بھی غنیمت کے مال کے ساتھ مدینہ میں آئے۔ حضرت عمرؓنے سراقہ کوبلایا جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکا تھا۔ اور اپنے سامنے اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن جو بیش قیمت جواہرات سے لدے ہوئے تھے پہنائے۔ (اسدالغابہ، ذکر سراقہ) ۲۶۔جنگوں کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمةللعالمین تھے۔ کائنات کے ہر ذرہ کے لیے آپ کا دل محبت اور شفقت سے بھرپور تھا۔ایسا درد تو کسی بچے نے اپنی ماں سے بھی نہیں دیکھا تھا۔مگر دشمن نے آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ مکہ میں ۱۳سال آپ اور آپ کے ساتھیوں نے دکھ اٹھائے مگر دم نہ مارا اور باوجود صحابہ کی خواہش کے رسول اللہؐ نے انہیں عفو ہی کی تعلیم دی یہاں تک کہ خدا نے آپ کو مدینہ ہجرت کر جانے کی اجازت دی۔ مگر دشمنوں نے وہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تب مجبوراً خدا کے حکم پر آپ کو تلوار اٹھانا پڑی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اور شخصیت کے لحاظ سے یہ یقیناً بہت بڑا ابتلا تھا کہ آپ جن کے غم میں راتوں کو ہلکان رہتے تھے دن کو ان پر تلوار اٹھائیں جن کے لیے آپ سراپا خیر ہیں ان کے خون بہائیں۔ مگر تقدیر الٰہی کے اس ابتلا میں بھی آپ سرخرو ہو کر گزرے رحمت کا حق بھی ادا کیا اور شجاعت اور جوانمردی کے نظارے بھی دکھائے۔کم و بیش ۸۲غزوات و سرایا آپ کو پیش آئے۔ جن میں سے ۱۹؍کے قریب غزوات میں آپ کو بنفس نفیس شرکت کرنا پڑی۔رسول اللہؐ کی خواہش تھی کہ کم سے کم قتل و غارت ہو اس لیے امن کے قیام کے لیے ہر ممکن جدوجہد فرماتے تھے۔چنانچہ عملاً جن جنگوں میں آپ کی موجود گی میں قتال ہوا وہ آٹھ نو سے زیادہ نہیں اور آپ نے ان تمام مواقع پر اپنے ہاتھ سے جو قتل کیا وہ صرف ایک تھا۔ جو اپنی بدبختی سے اس محسن کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔کہ جنگ احد میں آپ شدید زخمی ہوئے۔چہرہ مبارک لہولہان تھا۔دو دانت ٹوٹ گئے تھے ابی بن خلف ایک کافر مدت سے تیاری کر رہا تھا۔ اس نے ایک گھوڑا پالا ہی اس لیے تھا۔ اس کو روزانہ جوار کھلاتا کہ اس پر چڑھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کروں گا۔ اس بدبخت کی نظر جب رسول اللہؐ پر پڑی تو گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے آیا اور یہ نعرہ لگایا کہ اگر محمدؐ بچ جائیں تو میری زندگی عبث ہے۔ صحابہ نے یہ دیکھا تو رسول اللہﷺ اور ا س کے درمیان حائل ہونا چاہا۔مگر رسول اللہ نے فرمایا ہٹ جاؤ اسے آنے دو اور میرے زخمی آقانے جن کے زخم سے ابھی خون رس رہا تھا نیزہ تھام کر اس کی گردن پر وار کیا۔ وہ چنگھاڑتا ہوا واپس مڑا۔ کسی نے کہا بھئی معمولی زخم ہے کیا چیختا اور واویلا کرتا ہے۔ اس نے کہا یہ معمولی زخم نہیں محمد کالگایا ہوا ہے۔اسی زخم سے وہ بعد میں ہلاک ہو گیا۔ (سیرت ابن ہشام زیر عنوان قتل ابی خلف جلد۳ صفحہ ۸۹) ۲۷۔سفروں کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دعویٰ نبوت سے قبل تجارت کے لیے اور دعویٰ کے بعدتبلیغ حق کے لیے کثرت سے سفر کرنے پڑے غزوات کے سفر ان کے علاوہ ہیں۔ سفر تو عذاب کا حصہ ہوتا ہے اور عرب جیسے گرم اور صحرائی علاقے کا سفر آسان نہیں ہوتا مگر آپ کے سفروں کے ابتلا نے آپ کے اخلاق کو اجاگر کیا۔حضرت خدیجہ ؓ کا مال لے کر سفر کیا تو وہ آپ کی امانت ودیانت کی گرویدہ ہو گئیں۔ایک سفر میں پڑاؤ کے دوران صحابہ نے مختلف ڈیوٹیاں اپنے ذمہ لیں تو آپؐ نے فرمایا میں بھی لکڑیاں اکٹھی کر کے لاؤں گا۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد ۴ صفحہ ۲۶۵ دارالمعرفہ بیروت) ایک سفر میں پانی ختم ہو گیا تو آپؐ کی دعا سے سوکھا چشمہ ابل پڑا۔ کبھی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی ابلنے لگا۔ایک سفر میں پانی کی کمی تیمم کے احکامات کے نزول کا موجب بن گئی۔غزوہ ذات الرقاع میں صحابہ کو پاؤں پر پٹیاں باندھنی پڑیں۔تبوک کا فاصلہ مدینہ سے کم و بیش ۴۰۰میل ہے اور آپ کو ۹ھ میں ۶۱سال کی عمر میں یہ لمبا سفر اختیار کرنا پڑا جو ۳ماہ کے عرصہ پر مشتمل تھا۔ موسم خراب تھا۔ خشک سالی تھی اور تیس ہزار کا لشکر لے کر نکلنا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شجاعت اور حسن انتظام کے ساتھ نکلے مگر دشمن کو مقابل پر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ ۲۸۔جسمانی مشقت کا ابتلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک پیاس اور ذہنی اذیت کے علاوہ جسمانی مشقت کا ابتلا بھی برداشت کرنا پڑا اور یہ بھی دو پہلوؤں میں منقسم ہے۔ ۱۔ وہ مشقت جو آپ نے اپنی عاجزی وا نکساری کی بنا پر اختیار کی۔ مثلاً گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کے ساتھ شریک رہے یا صحابہ کے ساتھ مل کر اجتماعی کاموں میں پورا پورا حصہ لیا اور مشقت اٹھائی۔ حضور اکرمﷺ گھر کے جو کام کرتے تھے ان کا نقشہ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح کھینچا ہے کہ حضور اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے اور اپنا کپڑا سی لیا کرتے تھے۔ (مسند احمد حدیث نمبر۲۴۱۷۶) دوسری روایات میں ہے کہ آپ اپنے کپڑے صاف کر لیتے، ان کو پیوند لگاتے بکری کا دودھ دوہتے، اونٹ باندھتے، ان کے آگے چارہ ڈالتے، آٹا گوندھتے اوربازار سے سودا سلف لے آتے۔(شفاعیا ض باب توا ضعہ) مزید بیان کیا گیا ہے کہ ڈول مرمت کر لیتے خادم اگر آٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے اور بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے میںشرم محسوس نہ کرتے تھے۔(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد۴ صفحہ۲۶۴۔اسد الغابہ) بازار جاتے تو اپنی خرید کردہ اشیاء خود اٹھاتے۔ (شفاء عیاض باب تواضعہ) طواف کے وقت آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا تو خود مرمت فرمائی۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللد نیہ جلد۴صفحہ ۲۶۵) حضرت سلمان فارسی ؓ نے جب اسلام قبول کیا اس وقت وہ مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے۔ اور اس نے حضرت سلمان فارسیؓ کی آزادی کی یہ قیمت مقرر کی کہ وہ کھجور کے تین سو درخت لگائیں۔ نلائی گوڈی کر کے پانی دے کر انہیں تیار کریں اور مالک کے حوالے کر دیں نیز چالیس اوقیہ (ایک پیمانہ) چاندی اس کو اداکریں۔حضرت سلمان نے جب حضور کو یہ اطلاع دی تو آپ نے صحابہ سے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو۔ چنانچہ صحابہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کھجور کے پودے لے آئے۔کوئی تیس کوئی بیس کوئی دس۔ یہاں تک کہ تین سو پودے جمع ہو گئے۔پھر رسول اللہﷺ نے ان کے لیے گڑھے کھودنے کا حکم دیا چنانچہ صحابہ نے اپنے بھائی کی پوری پوری مدد کی اور تمام گڑھے اجتماعی وقار عمل سے کھود لیے گئے۔جب رسول اللہﷺ کو اطلاع کی گئی تو آپ نے تمام پودے اپنے ہاتھوں سے گڑھوں میں لگائے۔ صحابہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ایک پودے کو حضور کے قریب لاتے اور آپ اسے اپنے دست مبارک سے گڑھے میں رکھ دیتے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں خدا کی قسم ان پودوں میں سے ایک بھی نہیں مرا اور سارے کے سارے پھولنے پھلنے گئے۔اس طرح اس یہودی کی شرط پوری ہو گئی۔ اسی طرح آپ کو کسی نے سونا پیش کیا جو آپ نے حضرت سلمان کو دے دیااور انہوں نے آزادی حاصل کر لی۔ (سیرت ابن ہشام باب اسلام سلمان جلد۱صفحہ ۲۳۴مطبعة مصطفی البابی الحلبی مصر ۱۹۳۶ء) مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی تعمیر کی طرف توجہ فرمائی۔خاندان بنو نجار کے دو یتیم بچوں سے زمین خریدی گئی اور شہنشاہ عالم اپنے قدوسیوں کے ساتھ پھر مزدوروں کے لباس میں آ گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔ اور صحابہ کو دعا دیتے یہ اشعار پڑھتے۔ ھذا الحمال لا حمال خیبر ھذا ابر ربنا و اطہر اللھم ان الاجر اجرالاخرة فاغفر الانصار و المہاجرة (صحیح بخاری کتاب المناقب باب ہجرة النبی حدیث نمبر۳۶۱۶:) یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں جو جانوروں پر لد کر آیا کرتا ہے بلکہ اے ہمارے مولیٰ یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں۔ اے ہمارے اللہ اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے۔ پس تو اپنے فضل سے انصار و مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔ مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام قبا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل کئی مہاجرین مکہ سے آکر اس بستی میں ٹھہر گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود ہجرت فرمائی تو مدینہ جانے سے قبل اس بستی میں قیام فرمایا۔یہاں آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جسے مسجد قبا کہتے ہیں۔مسجد کی تعمیر میں آپ نے خود صحابہ کے ساتھ مزدوروں کی طرح حصہ لیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا قریب کی پتھریلی زمین سے پتھر جمع کر کے لاؤ۔ پتھر جمع ہوگئے تو آپ نے خود قبلہ رخ ایک خط کھینچا۔اور خود اس پر پہلا پتھر رکھا۔ پھر بعض بزرگ صحابہ سے فرمایا اس کے ساتھ ایک ایک پتھر رکھو۔ پھر عام اعلان فرمایا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر رکھے۔صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آپ خود بھاری پتھر اٹھا کر لاتے یہاں تک کہ جسم مبارک جھک جاتا۔ پیٹ پر مٹی نظر آتی صحابہ عرض کرتے۔ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ یہ پتھر چھوڑ دیں ہم اٹھا لیں گے مگر آپؐ فرماتے نہیں تم ایسا ہی اور پتھر اٹھا لاؤ۔ (المعجم الکبیر للطبر انی جلد۲۴صفحہ ۳۱۸مکتبة ابن تیمیة قاہرہ) حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اس موقع پر جوش دلانے والے شعر پڑھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافیہ کے ساتھ بلند آواز سے آواز ملاتے تھے۔ (وفاء الوفاء جلد اول صفحہ ۱۷۹تا۱۸۱ نورالدین سمہودی۔ مطبع آداب مصر ۱۳۲۶ھ) ۲۹۔جبری جسمانی مشقت کا ابتلا یعنی وہ جسمانی مشقت جو دشمنوں کی اذیتوں کے تسلسل میں آپ کو برداشت کرنی پڑی۔شوال ۵ھ میں کفار مکہ کی سرکردگی میں پندرہ ہزار کا لشکرمدینہ پر حملہ آور ہوا۔ جس کی روک تھام کے لیے مدینہ کے غیر محفوظ حصہ کے سامنے خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی نگرانی میں موقع پر نشان لگا کر پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں کو دس دس صحابہ کے سپرد فرما دیا۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد۷صفحہ ۳۹۷۔ازابن حجر عسقلانی دارنشرا لکتب الاسلامیة لاہور ۱۹۸۱ء) ان ٹولیوں نے اپنے کام کی تقسیم اس طرح کی کہ کچھ آدمی کھدائی کرتے تھے اور کچھ کھدی ہوئی مٹی اور پتھروں کو ٹوکریوں میں بھر کر کندھوں پر لاد کرباہر پھینکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیشتر وقت خندق کے پاس گزارتے اور بسااوقات خود بھی صحابہؓ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے تھے۔اور ان کی طبائع میں شگفتگی قائم رکھنے کے لیے بعض اوقات آپ کام کرتے ہوئے شعر پڑھنے لگ جاتے جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ سُرملا کر وہی شعر یا کوئی دوسرا شعر پڑھتے۔ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے وقت میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا کہ آپ کا جسم مبارک مٹی اور گردوغبار کی وجہ سے بالکل ڈھکا ہوا تھا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق حدیث نمبر۳۷۹۳) سخت فاقے اور سردی کے ان ایام میں صحابہ تھکن سے چور تھے اور ایک پتھر توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ نے بھی صحابہ کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپ نے کدال لے کر تین دفعہ اس پتھر پر ماری تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ہر ضرب کے ساتھ ایک شعلہ نکلا اور عظیم فتوحات کی خوشخبریاں آپ کو دی گئیں۔ (سیرت ابن ہشام جلد۳صفحہ ۷۰۴مکتبہ محمد علی صبیح۔ مصر۱۹۶۳ء) ۳۰۔اہل خانہ کے مطالبات کا ابتلا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سادہ اور مشکل زندگی گزاری اور ہمیشہ اپنی ازواج اور اولاد کو بھی سادگی اور قناعت کی تعلیم دی۔ فتوحات کے دور میں ازواج نے متفق ہوکر آپ سے دنیاوی اموال مانگے تو آپؐ نے قرآنی حکم کی روشنی میں فرمایا اگر دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مالی فائدہ پہنچاؤں اور رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو خوشی سے میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔ (الاحزاب: ۳۰،۲۹)حضرت فاطمہ کی طرف سے ایک غلام مانگنے پر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ تم ذکر الٰہی کیا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب علی حدیث نمبر ۳۴۲۹) حضرت حسنؓ نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈال لی تو آپ نے فوراً اسے ان کے منہ سے نکال لیا اور فرمایا کہ آل محمدؐ صدقہ نہیں کھاتے۔ (بخاری کتاب الزکوٰة باب اخذ صدقة التمرحدیث نمبر۱۳۹۰) ۳۱۔ایفائے عہد کا ابتلا وعدہ وفائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی صفت تھی لیکن بعض مواقع آپ کی زندگی میں ایسے بھی آئے جب وعدہ وفا کرنا قانونی طور پر ممکن نہ تھا اور بعض حالات میں ایفائے عہد کی کوشش کے نتیجہ میں سوائے تمسخر اور بدنامی کے اور کچھ حاصل ہونے کا امکان نہ تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حالت میں وعدہ وفا کرنے کی عظیم مثالیں قائم فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوانی میں معاہدہ حلف الفضول میں شرکت کی تھی جس کے سب شرکاء نے وعدہ کیا کہ ہم ہمیشہ ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔اس عہد کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی پاسداری کی۔ بلکہ سب سے بڑھ کر کی اور حقیقت میں ایفائے عہد کے شاندار نظارے بعثت کے بعد دکھلائے جب شدید دشمنوں اور ظالموں کے مقابل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان اور عزت کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے معاہدہ حلف الفضول کے تحت مظلوموں کا حق دلوانے کی بھرپور سعی کی۔اس کی تائید میں یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔ اراش قبیلہ کا ایک فرد مکہ میں اونٹ بیچنے کے لیے لایا۔ ابوجہل نے اس سے ایک اونٹ خریدا اور رقم ادا کرنے کے لیے ٹال مٹول کرنے لگا۔وہ شخص دہائی دیتا ہوا قریش کے سرداروں کی مجلس میں پہنچ گیا۔ اور بلند آواز سے کہنے لگا۔اے سردارو مجھ غریب مسافر کا حق ابوالحکم نے مار لیا ہے۔ مجھے اونٹ کی قیمت دلادو۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے۔اور وہ سب سردار جانتے تھے کہ ابوجہل رسول اللہؐ سے سخت دشمنی رکھتا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے استہزا کرتے ہوئے رسول اللہ ؐکی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ شخص تجھے حق دلا سکتا ہے۔وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور اپنی داستان سنائی۔ رسول اللہؐ اس کی بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کی طرف جانے لگے۔ قریشی سرداروں نے ایک شخص سے کہا کہ تو ان کے پیچھے جا اور دیکھ کیا ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے ساتھ ابوجہل کے دروازہ پر پہنچے۔ دستک دی۔ اس نے پوچھا کون ہے؟ فرمایا میں محمدؐ ہوں تم باہر آؤ۔ابوجہل باہر آیا تو فرمایا اس شخص کا حق ادا کرو۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی اس کی رقم لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور رقم لے آیا۔ وہ شخص واپس جاتے ہوئے اہل قریش کی اسی مجلس کے پاس ٹھہرا اور کہا اللہ محمد کو جزا دے مجھے میرا حق مل گیا۔اتنی دیر میں وہ شخص جو رسول اللہؐ کے تعاقب میں بھیجا گیا تھا واپس آ گیا اور ابوجہل کے متعلق سارا واقعہ بیان کیا تو سب سخت حیران ہوئے۔تھوڑی دیر بعد ابوجہل آیاتو سب نے اسے لعن طعن کی۔اس نے کہا جب میں محمدؐ کے بلانے پر باہر آیا تھا تو میں نے دیکھا کہ محمدؐ کے پیچھے قوی الجثہ خوفناک زبردست جبڑوں والا اونٹ ہے اور اگر میں انکارکرتا تووہ مجھے نگل جاتا۔(السیرة النبویہ ابن کثیر جلد اول صفحہ ۴۶۹ قصة الاراشی داراحیاء التراث العربی بیروت) صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا عین اس وقت جب معاہدہ کی شرطیں زیر تحریر تھیں اور آخری دستخط نہ ہوئے تھے حضرت ابوجندل پابہ زنجیر اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریادی ہوئے۔ تمام مسلمان اس درد انگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باطمینان تمام ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ’’اے ابوجندل! صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد حدیث نمبر۲۵۲۹) حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا ایک ساتھی ابوحُسیَل سفر میں تھے کہ کفار مکہ نے ہمیں پکڑ لیا کہ تم محمدؐ کے پاس جا رہے ہو (تاکہ آپ کے لشکر میں شامل ہو جاؤ) ہم نے کہا ہم تو مدینہ جا رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے ہم سے یہ عہد لے کر چھوڑا کہ ہم مدینہ چلے جائیں گے اور کفار کے خلاف لڑائی میں شامل نہ ہوں گے۔ یہ عہد گو جارحانہ حملہ آوروں نے جبراً لیا تھا اور کسی معروف ضابطہ اخلاق میں اس کا ایفاء لازمی نہیں تھا مگر رسول اللہﷺ کو عہدکا اتنا پاس تھا کہ ایسے نازک وقت میں جبکہ ایک ایک سپاہی کی ضرورت تھی آپؐ نے فرمایا ’’تو پھر تم جاؤ اور اپنے عہد کو پورا کرو۔ ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی کی نصرت پر ہمارا بھروسہ ہے۔‘‘(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد حدیث نمبر۳۳۴۲) ۳۲۔بھوک پیاس کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قریباً ساری زندگی بھوک کے ابتلا سے دوچار ہونا پڑا۔ اور یہ دو قسم کا ہے۔ ۱۔وہ ابتلا جب دشمن نے بھوک و پیاس کے ذریعہ آپ کو ختم کرنے کی کوشش کی۔اس کے کچھ واقعات گزر چکے ہیں ۲۔وہ ابتلا جو معاشی حالات کی تنگی کے نتیجہ میں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رنگ میں آنے والے ان ابتلائوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھ پر تیس دن ایسے گزرے کہ میرے اور بلال کے لیے کوئی کھانا نہیں تھا جسے کوئی زندہ وجود کھا سکے سوائے معمولی سے کھانے کے جو بلال کی بغل کے نیچے آ سکتا تھا۔ (جامع ترمذی کتاب صفة القیامہ حدیث نمبر۲۳۹۶) مکہ میں شعب ابی طالب کا ابتلا تین سال جاری رہا۔ جس کی تفاصیل بہت درد ناک ہیں۔۷ھ کے بعد کا واقعہ حضرت ابوہریرؓہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ سخت بھوک کا شکار تھےاورباوجود بعض اشاروں کے صحابہ ان کی کیفیت کو نہ سمجھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حالت دیکھ کر گھرلے گئے۔ وہاں دودھ کا ایک پیالہ تھا۔ رسول اللہ کو خود بھی کافی بھوک کا سامنا تھا مگر آپ یہ کیسے برداشت کر سکتے تھے کہ اصحاب صفہ بھوکے رہیں رسول اللہ نے ابوہریرہ سے فرمایا اصحاب صفہ کو بلا لاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کا یہ فرمان کہ میں ان کو بلا لاؤں، مجھے ناگوار گزرا کہ ایک پیالہ دودھ ہے یہ اہل صفہ میں کس کس کے کام آئے گا۔ میں اس کا زیادہ ضرورت مند تھا تاکہ پی کر کچھ تقویت حاصل کرتا۔ بہرحال رسول اللہؐ کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ میں اہل صفہ کو بلا لایا۔ جب سب آ گئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ ان کو باری باری پیالہ پکڑاتے جاؤ (میں نے دل میں خیال کیا مجھ تک تو اب یہ دودھ پہنچنے سے رہا) بہرحال میں پیالہ لے کر ہر آدمی کے پاس جاتا۔ جب وہ سیر ہو جاتا تودوسرے کے پاس، اور جب وہ سیر ہو جاتا تو تیسرے کے پاس، یہاں تک کہ آخر میں میں نے پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کہ سب کے سب سیر ہو کر پی چکے ہیں۔ پیالہ میں نے آپؐ کے ہاتھ پر رکھا۔ آپؐ نے میری طرف دیکھا اور تبسم فرمایا پھر کہا اب تو صرف ہم دونوں رہ گئے ہیں۔ پھر فرمایا کہ بیٹھو اور خوب پیئو۔ جب میں نے بس کیا تو فرمایا۔ ابوہریرہ اور پیئو۔ میں پھر پینے لگا۔ چنانچہ جب بھی میں پیالے سے منہ ہٹاتا تو آپؐ فرماتے ابوہریرہ اور پیئو۔ جب اچھی طرح سیر ہو گیا تو عرض کیا۔ جس ذات نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اس کی قسم اب تو بالکل گنجائش نہیں چنانچہ میں نے پیالہ آپ کو دے دیاآپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پھر بسم اللہ پڑھ کر دودھ نوش فرمایا۔(صحیح بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی حدیث نمبر۵۹۷۱) اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ایثار غیر معمولی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے۔ آپؐ نے ابوہریرہ کو بھی ایثار کا سبق سکھایا اور خود سب سے آخر میں پی کر بتایا کہ آپؐ کو سب سے زیادہ بھوک تھی۔ حضرت مقدادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت وبصارت بھی متاثر ہو گئی۔ ہم نے محتاجی کے اس عالم میں صحابہ رسول سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بنا کر پاس نہ رکھ سکا۔ بالآخر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ آپ کے گھر میں تین بکریاں تھیں آپ نے ہمیں فرمایا ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو۔ ہم چاروں پی لیا کریں گے چنانچہ یوں گزارہ ہونے لگا ہم تینوں دودھ کا اپنا حصہ پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ بچا کر رکھ لیتے تھے آپ رات کو تشریف لاتے۔ پہلے ہلکی آواز میں سلام کرتے کہ سونے والے جاگ نہ جائیں اور جاگنے والا سن لے۔ پھر اپنی جائے نماز پر نماز پڑھ کر اس جگہ آتے جہاں آپ کے حصہ کا دودھ رکھا ہوتا تھا اور دودھ پی لیتے تھے۔ ایک رات شیطان نے میرے دل میں خیال ڈالا کہ دودھ کا اپنا حصہ پی کر میں سو چنے لگا کہ یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھوڑا سا دودھ بچاکر رکھا ہے اس کی آپ کو ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ کی خدمت میں تو انصار تحفے پیش کرتے رہتے ہیں۔ اور آپ ان میں سے کھا پی لیتے ہوں گے یہ سوچ کر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا جب اس سے پیٹ خوب بھر چکا اور یقین ہو گیا کہ اب رسول کریمؐ کے لیے کوئی دودھ باقی نہیں رہا تو اپنے کیے پر سخت ندامت کا احساس ہونے لگا کہ تیرا برا ہو تو نے کیا کیا کہ رسول کریمؐ کا حصہ بھی ہڑپ کر گیا۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور حسب معمول جب دودھ اس جگہ نہیں ملے گا تو ضرور تمہارے خلاف کوئی بددعا کریں گے اور تو ایسا ہلاک ہو گا کہ دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی۔ مقداد اپنی اس وقت کی مالی تنگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک اوڑھنے کی چادر تھی وہ بھی اتنی مختصر کہ سر ڈھانپتاتو پائوں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانکتا تو سر ننگا رہتا تھا۔ اب اسی مخمصے اور بے چینی میں میری نیند اڑ گئی تھی جبکہ میرے دونوں ساتھی میٹھی نیند سو رہے تھے کیونکہ وہ میری حرکت میں شامل نہیں تھے۔اسی اثناء میں رسول کریمؐ تشریف لائے آپ نے حسب عادت پہلے سلام کیاپھر اپنی جائے نماز پر جاکر نماز پڑھتے رہے پھر اپنے دودھ والے برتن کے پاس آ کر ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ نہ پایا۔ ادھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور ادھر مجھے یہ خوف کہ لو اب میرے خلاف بددعا ہوئی اور میں مارا گیا مگر آپ نے جو دعا کی وہ یہ تھی اے اللہ! جو مجھے کھلائے تو اس کو کھلا، جو مجھے پلائے تو خود اس کو پلا… یہ سننا تھا کہ میں فوراً اٹھا چادر اوپر باندھی اور چھری لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ذبح کر کے حضور کو کھلا کر آپ کی دعا کا وارث بنوں۔ جب میں سب سے موٹی بکری کو ذبح کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے تھنوں میں دودھ اترا ہوا ہے۔ حالانکہ شام کو دودھ نکالا تھا اور جب باقی بکریوں پہ نظر کی تو سب کا یہی حال دیکھا چنانچہ میں نے ان کو ذبح کرنے کا ارادہ ترک کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا دودھ کا برتن لیا اور بکریاں دوبارہ دوہ کر بھر لیا اور لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے جب تازہ دودھ دوہا ہوا دیکھا تو خیال ہوا کہ ان بیچاروں نے بھی ابھی تک دودھ نہیں پیا اور پوچھنے لگے کیا تم لوگوں نے آج رات دودھ نہیں پیا؟ میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ بس آپ پیئیں۔ رسول اللہ نے کچھ دودھ پی کر باقی مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پی لو۔ میں نے کہا کہ آپ اور پیئیں رسول اللہ نے اور پیا اور پھر مجھے دے دیا۔ اب دل کو تسلی ہوئی کہ رسول اللہؐ بھوکے نہیں رہے خوب سیر ہو چکے ہیں اور یہ خوشی بھی کہ آپ کی دعا کہ اے اللہ! جو مجھے پلائے تو اسے پلا بھی میرے حق میں قبول ہو چکی ہے۔ تورسول اللہؐ کا حصہ پینے کی اپنی حرکت کو یاد کرکے مجھے اچانک ہنسی چھوٹ گئی اتنی کہ میں لوٹ پوٹ ہو کر زمین پر گر پڑا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا اے مقداد!تجھے کون سی اپنی عجیب حرکت یاد آئی ہے جس پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہو تب میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ اس طرح آپ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا دعا کا حصہ دار بھی بنا اور دوبارہ دودھ پی لیا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے (قبولیت دعا کے نتیجہ میں ) خاص رحمت کا نزول تھا تم نے اپنے ساتھی کو جگا کر کیوں نہ اس دودھ میں سے پلا کر ان کے حق میں یہ دعا پوری کروائی۔ میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اب مجھے جب اس برکت سے حصہ مل گیا تو مجھے کوئی پرواہ نہ رہی تھی کہ کوئی اور اس میں حصہ دار بنتا ہے کہ نہیں۔ (مسلم کتاب الاشربہ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ حدیث نمبر۳۸۳۱) ۳۳۔رضاکارانہ بھوک کا ابتلا وہ رضا کارانہ بھوک جو آپ نے انفاق فی سبیل اللہ اور ایثار کرتے ہوئے اختیار کی۔ یعنی سب کچھ راہ خدا میں دے کر خود بھوکے رہے۔حضرت ابوبصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؐ نے میرے لیے بکری کا دودھ پیش کیا جوآپ کے اہل خانہ کے لیے تھا۔ آپ نے مجھے سیر ہو کر وہ دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کرلیا۔بعد میں مجھے پتا لگا کہ آنحضرتؐ کے اہل خانہ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے گزاری تھی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد۶صفحہ ۳۹۷ حدیث نمبر۲۷۲۶۹)جنگ خندق میں جب بعض صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باند ھ رکھے ہیں تو رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر دکھایا کہ اگر تم نے ایک ایک پتھر باندھا ہے تو میں نے دو پتھر باندھ رکھے ہیں۔ (جامع ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشة اصحاب النبی حدیث نمبر۲۲۹۳) ۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر سے باہر نکلے تو ابوبکرؓ اور عمر ؓسے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے عرض کیاکہ بھوک کی وجہ سے باہر نکلے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی اسی وجہ سے نکلا ہوں۔ پھر یہ سب ایک انصاری ابو الھیثم بن تیھان کے ہاں گئے۔ انہوں نے بزرگ ترین مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا۔ (جامع ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشة اصحاب النبی حدیث نمبر۲۲۹۲) حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ بعض اوقات رسول اللہؐ فجر کے بعد گھر تشریف لاتے اور پوچھتے کھانے کو کچھ ہے؟ اگر جواب نہ میں ملتا تو فرماتے اچھا پھر آج روزہ ہی رکھ لیتے ہیں(یعنی بھوکا تو رہنا ہی ہے کیوں نہ اپنی نیت کو خدا کی خاطر مخصوص کرکے ثواب حاصل کر لیں ) (صحیح مسلم کتاب الصیام باب جواز صوم النافلة حدیث نمبر۱۹۵۰) کئی دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پکانے والی کوئی چیز نہ ہوتی جس کی وجہ سے کئی کئی دن آگ نہ جلتی تھی۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ نے ایک دن میں کبھی ایک دفعہ سے زیادہ گوشت روٹی نہیں کھائی۔ ایک روایت میں ہے کہ کبھی آپ کو مسلسل دو دن گندم کی روٹی میسر نہیں ہوئی۔(جامع ترمذی کتاب الزھد باب فی معیشة النبی حدیث نمبر۲۲۷۹۔۲۲۸۰) ۳۴۔خوف کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کے خوفوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر کوئی خوف آپؐ کو خوفزدہ اور کوئی حزن محزون نہ کر سکا۔ قرآن کریم جنگ احزاب کے ذکر میں خود ان خوفوں کا نقشہ یوں کھینچتا ہے۔ جب وہ تمہارے پاس تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور تمہارے نشیب کی طرف سے بھی آئے اور جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل اچھلتے ہوئے ہنسلیوں تک پہنچے اور تم لوگ اللہ پر طرح طرح کے گمان کر رہے تھے۔ یہاںمومن ابتلا میں ڈالے گئے اور سخت آزمائش کے جھٹکے دئیے گئے۔ اِذۡ جَآءَتۡکُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِیۡحًا وَّجُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا ؕ وَکَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۔اِذۡ جَآءُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوۡقِکُمۡ وَمِنۡ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ وَاِذۡ زَاغَتِ الۡاَبۡصَارُ وَبَلَغَتِ الۡقُلُوۡبُ الۡحَنَاجِرَ وَتَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوۡنَ۔(الاحزاب: ۱۰، ۱۱) اس سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اہل مکہ نے انصار مدینہ کو دھمکیاں دینی شروع کر دی تھیں اور گو ان کو خدا کے وعدوں پر پورا بھروسہ تھا، لیکن فطرتاًوہ سخت خوفزدہ اور پریشان بھی تھے کہ دیکھئے ہمیں کن کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خطرات طبعاً دوسرے مسلمانوں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زیادہ تھے اور چونکہ ویسے بھی آپ کو سب کی نسبت مسلمانوں کی حفاظت کا زیادہ فکر تھا۔ اس لیے آپ سب سے زیادہ محتاط رہتے تھے۔ چنانچہ ایک روایت آتی ہے کہ کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اول ما قدم المدینة یسھرمن الیل۔’’یعنی جب شروع شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لاتے تو آپ عموماً راتوں کو جاگتے رہتے تھے۔‘‘(فتح الباری شرح بخاری جلد۶ صفحہ۸۲) صحیح بخاری میں ہے کہ ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک جاگتے رہے اور پھر فرمایا کہ اگر اس وقت ہمارے دوستوںمیں سے کوئی مناسب آدمی پہرہ دیتا تو میں ذرا سو لیتا۔ اتنے میں ہم نے ہتھیاروں کی جھنکارسنی۔ آپ نے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی۔ یا رسول اللہ ! میں سعد بن ابی وقاص ہوں۔ میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ پہرہ دوں۔ اس اطمینان کے بعد آپ تھوڑی دیر کے لیے سو گئے۔ (صحیح بخاری کتاب التمنی باب قولہ لیت کذا وکذا حدیث نمبر۶۶۹۰) صحیح مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ابتدائے ہجرت کا ہے (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب فضل سعد) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ان روایات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فکر اپنی ذات کے متعلق نہ تھابلکہ اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کا فکر تھا اور ان خوف کے ایام میں یہ ضروری خیال فرماتے تھے کہ مدینہ میں رات کے وقت پہرہ کا انتظام رہے چنانچہ اس غرض سے بسااوقات آپ خود رات کو جاگا کرتے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ہوشیار و چوکس رہنے کی تاکید فرماتے تھے اور آپ کا یہ فکر ڈرنا یا بزدلی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ احتیاط اور بیدار مغزی کی بناء پر تھاورنہ آپ کی ذاتی شجاعت او ر مردانگی تو دوست و دشمن میں مسلم ہے چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک رات مدینہ میں کچھ شور ہوا اور لوگ گھبرا کر گھروں سے نکل آئے اور جس طرف سے شور کی آواز آئی تھی ادھر کا رخ کیا۔ ابھی وہ تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تلوار حمائل کئے ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار واپس تشریف لا رہے تھے۔ جب آپ قریب آئے تو آپؐ نے صحابہ سے فرمایا۔’’میں دیکھ آیا ہوں کوئی فکر کی بات نہیں، کوئی فکر کی بات نہیں ‘‘ جس پر لوگ واپس آئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس رات بھی آپ جاگ رہے تھے اور جونہی آپ نے شور کی آواز سنی آپ جھٹ ابو طلحہ والے گھوڑے پر سوار ہو کر اس طرف نکل گئے اور لوگوں کے روانہ ہوتے ہوتے پتہ لے کر واپس بھی آ گئے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد باب اذا فزعوا۔ حدیث نمبر۲۸۱۳) قریش مکہ کے جن خونی ارادوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے وہ صرف انہی تک محدود نہ تھے بلکہ ہجرت کے بعد سے انہوں نے قبائل عرب میں مسلمانوں کے خلاف ایک باقاعدہ پراپیگنڈا جاری کر رکھا تھا اور چونکہ کعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے ان کا سارے عرب پر ایک گہرا اثر تھا، اس لیے ان کی اس انگیخت سے تمام عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا سخت دشمن ہو رہا تھا۔ قریش کے قافلوں نے تو گویا اپنا یہ فرض قرار دے رکھا تھا کہ جہاں بھی جاتے تھے راستہ میں قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ چنانچہ قرآن شریف میں قریش کے ان اشتعال انگیز دوروں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بیچارے مسلمان جو اس وقت تک صرف قریش کے خیال سے ہی سہمے جاتے تھے اب بالکل ہی سراسیمہ ہونے لگے۔ چنانچہ مندرجہ ذیل روایت ان کی اس وقت کی مضطربانہ حالت کا پتا دیتی ہے:۔مستدرک حاکم میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ہجرت کر کے مدینہ میں آئے اور انصار نے انہیں پناہ دی تو تمام عرب ایک جان ہو کر ان کے خلا ف اٹھ کھڑا ہوا۔اس وقت مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ رات کو بھی ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور دن کو بھی ہتھیار لگائے رہتے تھے کہ کہیں کوئی اچانک حملہ نہ ہو جاوے اور وہ ایک دوسرے سے کہا کرتے تھے کہ دیکھئے ہم اس وقت تک زندہ بھی رہتے ہیں یا نہیں جب ہم رات کو امن کی نیند سو سکیں گے اور سوائے خدا کے ہمیں اور کسی کا ڈر نہ ہوگا۔‘‘(مستدرک حاکم جلد۲صفحہ ۴۳۵حدیث نمبر : ۳۵۱۲ کتاب التفسیر سورة النور) قرآن شریف نے جو مخالفین اسلام کے نزدیک بھی اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ مستند ریکارڈ ہے۔ مسلمانوں کی اس حالت کا مندرجہ ذیل الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے: وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔(الانفال: ۲۷) یعنی اے مسلمانو! وہ وقت یاد رکھو جبکہ تم ملک میں بہت تھوڑے اور کمزور تھے اورتمہیں ہر وقت یہ خوف لگا رہتا تھا کہ لوگ تمہیںاُچک کر لے جائیں یعنی اچانک حملہ کر کے تمہیں تباہ نہ کردیں مگرخدا نے تمہیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری مدد فرمائی اور تمہارے لیے پاکیزہ نعمتوں کے دروازے کھولے۔ پس تمہیں اب شکر گزار بندے بن کر رہنا چاہیے اور یہ یقینی بات ہے کہ ان سارے بد ارادوں اور سازشوں کا پہلا اور آخری نشانہ حضرت اقدس محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر آپ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی پژمردہ اور مضمحل نہ ہوئے۔۱۱ھ میں آپ کی زندگی کے آخری دور میں مسیلمہ کذاب ایک لشکر کثیر کے ساتھ مدینہ پر چڑھ آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ مجھے اپنے بعد حاکم مقرر کر دیں تو میں آپ کا متبع ہو جاؤں گا۔ آپ کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی۔ آپؐ نے فرمایا اگر تو مجھ سے یہ بھی مانگے تو نہیں دوں گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائے گا تو خدا تیری کونچیں کاٹ دے گا۔ (صحیح بخاری کتاب المغاز ی باب قصہ اسود عنسی حدیث نمبر۴۰۲۸) ۳۵۔گرفتاری کا ابتلا ہجرت مدینہ کے موقع پر آپؐ کی گرفتاری کاباقاعدہ انعام ۱۰۰ اونٹ رکھا گیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ کو دعوت اسلام کا خط لکھا تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو پھاڑنے پر ہی اکتفا نہیں کی، بلکہ یہودی پراپیگنڈا کے گہرے اثرات کے ماتحت اس نے اپنے یمن کے گورنر کو جس کا نام باذان تھا ہدایت کی کہ حجاز میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کی طرف فوراًدو طاقتور آدمی بھجوا دو تاکہ وہ اسے گرفتار کر کے ہمارے سامنے حاضر کریں اور ایک روایت یہ ہے کہ دو آدمی بھجوا کر اس سے توبہ کراؤاور اگر وہ انکار کرے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ باذان نے اس غرض کے لیے اپنے ایک قہرمان یعنی سیکرٹری کو جس کا نام بانویہ تھا منتخب کیا اور اس کے ساتھ ایک مضبوط سوار مقرر کر کے مدینہ کی طرف بھجوا دیا اور ان کے ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ایک خط بھی بھجوایا کہ آپ فوراً ان لوگوں کے ساتھ کسریٰ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باذان کا خط دے کر بطریق نصیحت سمجھایا کہ بہتر ہے آپ ہمارے ساتھ چلے چلیں ورنہ کسریٰ آپ کے ملک اور قوم کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ آپؐ نے ان کی یہ بات سن کر تبسم فرمایا اور جواب میں اسلام کی تبلیغ کی اور پھر فرمایا کہ تم آج رات ٹھہرو میں ان شاء اللہ تمہیں کل جواب دوں گا۔ پھر جب وہ دوسرے دن آپ کے پاس آئے تو آپ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ابلغا صاحبکما ان ربی قتل ربہ فی ھذہ الیلة۔یعنی اپنے آقا (والی ٔیمن ) سے جا کر کہہ دو کہ میرے رب یعنی خدائے ذوالجلال نے اس کے رب (یعنی کسریٰ) کو آج رات قتل کر دیا ہے۔ چنانچہ بانویہ اور اس کا ساتھی واپس لوٹ گئے اور باذان کے پاس جا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔ باذان نے کہا جو بات یہ شخص کہتا ہے اگر وہ اسی طرح ہو جائے تو پھر وہ واقعی خدا کا نبی ہوگا۔ چنانچہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ باذان کو خسرو پرویز کے بیٹے شیرویہ کا ایک خط پہنچا جس میں لکھا تھا کہ ’’میں نے ملکی مفاد کے ماتحت اپنے باپ خسرو پرویز کو جس کا رویہ ظالمانہ تھا اور جو اپنے ملک کے شرفاءکو بےدریغ قتل کرتا جا رہا تھا قتل کردیا ہے۔ پس جب تمہیں میرا یہ خط پہنچے تومیرے نام پر اپنے علاقہ کے لوگوں سے اطاعت کا عہد لو اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے باپ نے تمہیں عرب کے ایک شخص کے متعلق ایک حکم بھیجا تھا اسے اب منسوخ سمجھو اورمیرے دوسرے حکم کا انتظار کرو۔‘‘ جب باذان کو نئے کسریٰ شیرویہ بن خسرو کا یہ فرمان پہنچا تو اس نے بے اختیار ہو کر کہا کہ پھر تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی نکلی۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدا کے برحق رسول ہیں اور میں ان پر ایمان لاتا ہوں چنانچہ اس نے اسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔ (تاریخ طبری جلد۲صفحہ ۲۹۶تاریخ الخمیس جلد۲صفحہ ۳۶) ۳۶۔سرحدوں پر بد امنی کا ابتلا رسول کریم ﷺ کو مدینہ کی سرحدوں پر کبھی بھی امن نصیب نہیں رہا قریش مکہ کے علاوہ آس پاس کے قبائل ہمیشہ مشکلات پیدا کرتے رہے۔اس لیے آپ کو مسلسل غزوات اور سرایا میں مصروف رہنا پڑا۔حتیٰ کہ جانوروں کی چراہ گاہیں بھی محفوظ نہیں تھیں اور لوٹ مار کا عمل جاری رہتا تھا۔(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذی قرد ) رو م کا بادشاہ بھی مسلسل بدامنی پھیلانے میں مصروف تھا۔ ۹ھ میں مدینہ میں یہ خبر پہنچی کہ روم کا قیصر ہرقل بھی ۴۰ہزار کی فوج لے کر عرب کی سرحد پر آ گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی لشکر لے کر تبوک کے مقام پر پہنچے مگربعدمیں معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ ۳۷۔صحابہؓ کی تربیت کا ابتلا رسول اللہؐ کے تمام صحابہ شروع سے اعلیٰ درجہ کے تربیت یافتہ نہ تھے۔کئی دفعہ آپ کسی کام کا حکم دیتے تو وہ عدم علم یا عدم تربیت کی وجہ سے اس کی کما حقہ اتباع نہ کرسکتے تو رسول کریم ﷺ اور مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑتا یا دوبارہ کرنا پڑتا۔مگرآپ نہایت حوصلہ اور ہمت سے اس کو برداشت فرماتے۔احد کی جنگ میں بعض صحابہ کا درہ چھوڑ دینا معمولی اورقابل برداشت بات نہ تھی مگر آپ نے کسی پر بھی ناراضی کا اظہار نہ فرمایاکیونکہ انہوں نے اپنے خون سے اس کا کفارہ ادا کر دیا تھا۔آپ نے ان کو اعلیٰ تربیت سے فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیا۔ ایک دنیا کا لیڈر جب اپنے ساتھیوں اور جاں نثاروں کی مدد سے کوئی فتح یا غلبہ پاتا ہے تو اس کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس موقع پر اپنے ان رفیقوں کے بھی جذبات کا خیال رکھے خواہ وہ اخلاق اور انسانیت سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں اور دنیا کی فتوحات کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے۔ ہمارے آقا و مولیٰ کا اسوہ اس میدان میں بھی بے مثال ہے۔ فتوحات حاصل کرنے کے بعد آپ نے بھی اپنے صحابہ اور جاںنثاروں کا خیال کیا مگر اس طور پر کہ کوئی ایسی معمولی سی حرکت بھی سرزد نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی منشا اور اس کی اعلیٰ تعلیمات کے خلاف ہو۔ آپ نے ایسے فتوحات کے مواقع کو ان کی تربیت کے لیے اتنے عمدہ رنگ میں استعمال کیا کہ ان کی خواہشات اور تمناؤں کو ارفع مقاصد کی طرف موڑ دیا اور وہ بھی اپنے آقا کے شانہ بشانہ ان ابتلاؤں کو بڑے حسن وخوبی کے ساتھ طے کر گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانی دشمنوں پر غلبہ پایا جنہوں نے آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کو دکھوں کے جنگلوں سے ننگے پائوں گزرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس موقع پر یہ طبعی بات تھی کہ کئی مظلوم صحابہ آج اپنے بدلے اتارنا چاہتے ہوں گے۔ چنانچہ مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے ایک صحابی نے کہا کہ آج جنگ و جدل کا دن ہے اور آج کعبہ کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دارالامن کے متعلق اس قسم کے کلمات ناپسندیدہ سنے اور فوراً اس صحابی حضرت سعد بن عبادہ کو لشکر کی کمان سے معزول کر دیا مگر دلجوئی اتنے لطیف طریق سے کی کہ اس کا دل راضی ہو گیا ہوگا۔ آپ نے اسی کے بیٹے قیس کو اس قافلہ کا سالار بنا دیا اور فرمایا آج تو رحمت عام کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی حدیث نمبر۳۹۴۴۔و شرح فتح الباری زیر حدیث مذکورہ) مکہ میں داخل ہوتے ہوئے مظلومین کے قافلہ میں ایک حضرت بلال ؓ تھے۔ جن کے اقارب ان کے سامنے سر جھکائے کھڑے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کے اس انتقام کو عفو ومغفرت کے دھاروں سے بدل دیا۔ آپ نے بلال کے مدنی بھائی ابو رویحہ ؓ کے ہاتھ میں جھنڈا دیا اور اعلان کروایا کہ جوشخص اس جھنڈے تلے آ جائے گا وہ بھی امن پائے گا۔ (السیرة الحلبیہ جلد۳صفحہ ۹۳) صلح حدیبیہ کے موقع پر ابو جندلؓ زنجیروں میں جکڑے ہوئے آ گئے۔ معاہدہ حتمی طور پر مکمل نہ ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صبر کرنے کا ارشاد فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس عاشق اور مظلوم صحابی سے کم محبت نہیں تھی مگر امن کے قیام اور دین کی اعلیٰ اقدار کی خاطر آپ نے سارے جذبات کی قربانی دے کر اخلا ق کا جھنڈاسر بلند رکھا۔(صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہادحدیث نمبر ۲۷۳۱ ) بعض مقامات سلوک ایسے سخت آئے جہاں صحابہ کی ہمتیں جواب دے گئیں اور اطاعت کے پتلے بشری تقاضوں کے آگے بے بس ہو گئے تب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بجھتی چنگاریوں میں نئی زندگی پیدا کی اور شعلۂ جوالہ بنادیا۔ ان میں سے ایک موقعہ وہ تھا جب حدیبیہ کی شرائط صلح نے صحابہ کے دماغوں کو مائوف کر دیا۔ یہ امتحان ان کی حد استعداد سے باہر تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور قربانیاں دو تو کسی بدن میں جنبش نہ ہوئی۔ آپ بڑی رنجیدگی کے ساتھ حضرت ام سلمہؓ کے خیمہ میں داخل ہوئے اور اس انہونی بات کا تذکرہ کیا۔ ان کے مشورہ پر آپ نے اپنی قربانی کے گلے پر چھری چلائی تو وہ میدان خفتگان ایک میدان حشر میں تبدیل ہو گیا۔ (بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد حدیث نمبر۲۷۳۱) ابتلا کی ان مہیب گھڑیوں میں بھی آپ کی زبان پر کوئی سختی اور مایوسی کا حکم نہ آیا بلکہ آپ نے خود آگے بڑھ کر اس کھوئی ہوئی بازی کو جیتا اور تنگ و تاریک راہوں کو کشادہ کیا۔ ۳۸۔سچائی کی نمائندگی کا ابتلا قومی راہنماؤں سے محبت کی وجہ سے لوگ ان کے مقام اور مرتبہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور لیڈر عام طور پر عوام الناس کی اس محبت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدق اور سچائی کے نمائندہ تھے اس لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو جو عظیم الشان مقام عطا فرمایا تھا اس سے سرِمو بھی ادھر ادھر ہونا آپ کے لیے ناممکن تھا۔ آپ نے فرمایا انا سید ولد آدم۔ میں بنی نوع آدم کا سردار ہوں۔ مگر ساتھ ہی فرماتے کہ میں تمہاری طرح کا ہی انسان ہوں اور اسی طرح بھولتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو۔ فرمایا انتم اعلم بامور دنیا کم تم اپنے دنیاوی معاملات مجھ سے بہتر سمجھتے ہو۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ حدیث نمبر۴۳۵۷) ایک شخص نے آپ سے کہا کہ شاہان فارس اور روم کو ان کی رعایا سجدہ کرتی ہے کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں تو آپ نے فرمایا اللہ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا روا نہیں۔ (بحوالہ فصل الخطاب از حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ جلدنمبر۱صفحہ ۱۸) ایک صحابی نے کہا کہ فلاں معاملہ میں اس طرح ہو گا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گایا آپؐ چاہیں گے تو آپؐ نے فرمایا تو نے تو مجھے خدا کا شریک بنا دیا ہے۔ یوں کہو کہ وہی ہوگا جو خدا چاہے گا۔ (تفسیر ابن کثیر جلد اول صفحہ ۹۹)آپ روحانی علوم کا دعویٰ رکھتے تھے اورنبوت کے منصب میں آئندہ کی خبریں دینا ایک لازمی امر ہے مگر جب بعض خواتین نے ایک دفعہ مبالغہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں ایک رسول موجود ہے جو کل ہونے والی باتیں جانتا ہے تو آپ نے ان کلمات میں جھوٹی عزت کی بو محسوس کی اور فرمایا ایسی باتیں مت کرو جو خلاف واقعہ ہیں ۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب شھود الملائکة بدراً حدیث نمبر۳۷۰۰) ۳۹۔وسائل کی کمی کا ابتلا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریاں بہت زیادہ اور سب نبیوں سے بڑھ کر وسیع اور جامع تھیں۔ مگر اس کے مقابل پر ظاہری وسائل بہت کم نظر آتے ہیں۔ بہت محدود وسائل کے ذریعہ اس قدر لاثانی انقلاب برپا کر دینا یقیناً ایک معجزہ ہے۔ان وسائل کی کمی ہر موقع پر نظر آتی ہے جنگ بدرمیں ایک ہزار کے مسلح لشکر جرار کے مقابلہ پر محض ۳۱۳۔افراد تھے جن میں بچے اور بوڑھے بھی تھے اور اسلحہ نہ ہونے کے برابر تھا۔جنگ احزاب میں وسائل کی کمی کو خندق کی کھدائی کے ذریعہ چھپایا گیا۔بعض دفعہ جنگ میں جانے والے صحابہ کے مطالبہ پر آپ کے پاس سواریاں یا جوتیاں تک نہیں تھیں اور وہ روتے ہوئے لوٹ گئے۔ قرآن کریم فرماتا ہے نہ ان لوگوں پر کوئی حرف ہے کہ جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تاکہ تو انہیں جہاد کے لیے ساتھ کسی سواری پر بٹھا لے تو تو انہیں جواب دیتا ہے کہ میں تو کچھ نہیں پاتا جس پر تمہیں سوار کر سکوں اس پر وہ اس حال میں واپس ہوتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں رکھتے جسے راہ مولیٰ میں خرچ کر سکیں۔ (سورة التوبہ آیت ۹۲:و تفسیر درمنثور زیر آیت ھذا جلد۴ صفحہ۲۶۳) ۴۰۔بیماری کا ابتلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ذمہ داریوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے بہت عمدہ صحت عطا فرمائی تھی اور آپ عام طور پر بیماریوں سے محفوظ رہے لیکن آپ کے عزیزوں، دوستوں اور پیاروں کو قسما قسم کی بیماریوں سے گزرنا پڑا اور ان میں سے بہت سے جان سے بھی گزر گئے۔ مگر رسول اللہﷺ نے اس ابتلا کو بھی باعث رحمت و برکت بنا دیا اور یہ تکالیف طب کے میدان میں آپ کی عالی شان راہنمائی کا موجب بن گئیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں علاج کے نئے باب کھولے عیادت کی حسین داستانیں رقم فرمائیں اور پھر رضابالقضاء کا اعلیٰ اسوہ چھوڑا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ بچپن میں آپ کو آشوب چشم کی تکلیف ہوئی(رسول اللہ کی سیاسی زندگی۔ڈاکٹر حمید اللہ۔صفحہ ۵۰) جنگوں میں زخموں کے علاوہ بعض دفعہ سردرد کی تکلیف ہوئی ایک بار پاؤں میں تکلیف ہوئی آپ کی آخری بیماری کم و بیش تیرہ دن پر محیط تھی جس میں سر درد، شدید بخار اور کمزوری کی شکایت تھی۔ خیبر کے موقع پر دیے جانے والے زہر کے اثرات بھی محسوس کر رہے تھے۔ (ابو داؤد کتاب الدیات باب فیمن سقی رجلا حدیث نمبر۳۹۱۲) مگر ان ایام میں بھی آپ اپنے رب کے کاموں پر ڈٹے رہے۔ تمام امور کی نگرانی فرماتے رہے۔ جب تک جسم نے اجازت دی نماز باجماعت پڑھاتے رہے اور قوم کی راہنمائی کرتے رہے اور توحید کا درس دیتے رہے۔ بیماری کے دوران کوئی واویلا کوئی شکوہ نہیں تھا اور موت کے سکرات کو بڑے تحمل اور صبر سے برداشت کرتے رہے۔ سیرت کے بعض ممتاز پہلو ان تمام ابتلاؤں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بے شمار پہلو ظاہر ہوئے مگر جو پہلو بہت ممتاز ہو کر نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں۔۱۔ صبر واستقامت۔ ۲۔ توکل علی اللہ۔ ۳۔ صحیح اصولی موقف پر قائم رہنا۔ ۴۔ شجاعت و عزم ۵۔ سختی قلب سے بچاؤ۔ ۶۔ عفو و کرم ۷۔ رضا بالقضاء۔ ۸۔ حسب حالات خلق عظیم کا اظہار۹۔صحابہ کی غیر معمولی تربیت۔ ۱۰۔اللہ کی طرف سے آپ کی غیر معمولی مدد و نصرت۔ ابتلاؤں اور فتوحات کے دوزمانے رسول اللہ ﷺ پر آنے والے دکھوں اور ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’خداتعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کو دو حصوں پرمنقسم کردیا۔ایک حصہ دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا اور دوسرا حصہ فتح یابی کا تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے۔ سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہوگئے۔ چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی ﷺ پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا۔ اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پرتوکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اپنے کام میں سست نہ ہونااور کسی کے رعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلادیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کرسکتا۔اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ، تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہی اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا۔ دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا۔ ان کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کردیا اور قابو پاکر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک خدا کی طرف سے اور حقیقتًا راستباز نہ ہو یہ اخلاق ہرگز دکھلا نہیں سکتا۔‘‘(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ۴۴۷) الغرض وہ سب سے بڑھ کر خدا کا پیارا تھا اور سب سے زیادہ ابتلاؤں میں وہ پیسا گیا۔سب سے زیادہ اس کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر سب سے زیادہ وہ پھولا پھلا۔سب سے زیادہ اس کو خدا سے دور کرنے کی کوشش کی گئی مگر سب سے زیادہ اس نے وفاداری دکھائی۔ سب سے بڑھ کر اس کی زبان بندی کی کوشش کی گئی مگر آج سب سے سچی اور بلند آواز اسی کی ہے۔ سب سے زیادہ اس کی شاخ تراشی کی گئی مگر سب سے زیادہ پھول اور پھل اسی کو لگے۔ سب سے زیادہ اسے بیخ و بن سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی مگر سب سے زیادہ دنیا میں اسی کی تخم ریزی ہوئی۔سب سے زیادہ اس کے نور کو بجھانے کی کوشش کی گئی مگر سب سے بڑھ کر اسی کا نور چمکا۔ سب سے زیادہ اسی کو بےعزت کرنے کی کارروائی کی گئی مگر سب سے زیادہ خدا نے اسی کو عزت اور دولت اور حکمت سے نوازا۔سب سے زیادہ اسی کو گمنام کرنے کی کوشش کی گئی مگر سب سے بڑھ کر خدا نے اسی کو شہرت دی۔ سب سے بڑھ کر اس کی تذلیل کی کوشش کی گئی مگر سب سے زیادہ خدا نے اسی کو حمد کا مستحق ٹھہرایا۔قیامت کے دن بھی لوائے حمد اسی کے ہاتھ میں ہوگا اور سارے جنتی اس کے پیچھے حمد کے ترانے گاتے ہوئے خدا کی جنتوں میں داخل ہوں گے۔ اللّٰھم صلّ علیٰ محمدٍ و آل محمدؐ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: دنیا کی موجودہ صورتحال کے امن عالم پر اثرات