https://youtu.be/0mSysD3mKP8 اس دور میں یورپی علماء جن میں مذہبی علماء کی ایک تعداد بھی شامل تھی، نے وسیع پیمانے پر اسلامی کتب کے تراجم کیے اور اسلام پر شدید پُر تعصب مگر علمی حملے کیے جن کی بنیاد خود اسلامی روایات، منطق، فلسفہ، نفسیات اور اخلاقیات پر رکھی۔ مثلاً پردہ پر عورت کی آزادی کے حوالہ سے اعتراض ہوا اور یہ اعتراض جزوی طور پر درست تھا کیونکہ مسلمانوں کا پردے کا تصور ہی غلط تھا۔ اسی طرح جہاد کو آزادیٔ ضمیر کے خلاف قرار دے کر اس پر اعتراض کیا گیا، جو جزوی طور پر درست تھاکیونکہ مسلمانوں کا جہاد کا تصور بھی غلط تھا۔ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی، حقیقی اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت اور غلط عقائد کی وجہ سے ان حملوں کا جواب دینے کی سکت نہ تھی۔ یہی وہ اندھیری رات ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کا سورج طلوع ہوا اور آپؑ نے ایک نئے علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ آپؑ نے مسلمانوں کے غلط عقائد کی اصلاح فرمائی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ذاتی تجربہ سے اسلامی تعلیم کی روحانی برتری اور برکت اور اس کا زندہ ہونا ثابت فرمایا جب بھی اللہ تعالیٰ کوئی نبی بھیجتا ہے تو ضرور اس کی مخالفت ہوتی ہے۔ اسی ازلی قاعدہ کے مطابق آنحضور ﷺ کی بعثت پر آپؐ کی بھی مخالفت ہوئی۔ چونکہ آپؐ تمام اقوام عالم کی طرف بھیجے گئے تھے، اس لیے سب اقوام کی طرف سے اور سب انبیاء سے زیادہ آپ ﷺ کی مخالفت ہوئی اور مختلف ادوار سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ قرآن کریم اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے: قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ أَكْبَرُ۔(آل عمران: ۱۱۹) اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ان کا بغض و عناد ان کی باتوں سے تو ظاہر ہی ہے، لیکن ان کے دل میں اسلام کے خلاف جو بغض ہے وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے۔ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ مشرکین، یہود اور مسیحیوں کی جانب سے اسلام کی مخالفت کے اسباب اور تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ مخالفت ایک مرتبہ پھر زور پکڑ رہی ہے اور اس میں مزید تیزی اور سختی آئے گی۔ انبیاء کی مخالفت کی وجوہات انبیاء کا پیغام سراسر محبت، نرمی، امن اور صلح کا پیغام ہوتا ہے۔ کسی نبی نے ظلم و زیادتی کرنے کا حکم نہیں دیا۔ نہ ہی کسی نبی نے کوئی اجر مانگا ہے۔ پھر ان کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟ قرآن کریم اس کی تین بڑی وجوہات بیان فرماتا ہے: ۱۔ تکبر: اس میں خاندان، قوم، مال، طاقت، رسوخ، علم، ترقی، تمدن کا تکبر سب شامل ہیں: مَا نَرٰٮکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۚ وَمَا نَرٰی لَکُمۡ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضۡلٍ (ھود: ۲۸) قَالُوۡۤا اَنُؤۡمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الۡاَرۡذَلُوۡنَ۔(الشعراء:۱۱۲)۔ نوحؑ کی قوم کے سرداروں نے ان سے کہا: جو لوگ تیری پیروی کر رہے ہیں وہ ہماری نگاہ میں ذلیل لوگ ہیں اور خود تجھے بھی ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، پھر ہم تیری بات کیوں مانیں؟ کیا تجھ پر ایمان لا کر ان ذلیل، پسماندہ لوگوں کی پیروی کریں؟ چونکہ آپ ﷺ غریب، ناخواندہ اور قریش کے دینی، سیاسی، فوجی، ادبی سرداران میں سے نہ تھے، اس لیے یہ تکبر بھی ان کی راہ میں حائل ہو گیا اور انہوں نے کہا: ءَاُنۡزِلَ عَلَیۡہِ الذِّکۡرُ مِنۡۢ بَیۡنِنَا۔(ص:۹)کیا ہم میں سے اسی پر ذکر نازل ہونا تھا؟وَقَالُوۡا لَوۡلَا نُزِّلَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الۡقَرۡیَتَیۡنِ عَظِیۡمٍ۔(الزخرف:۳۲)انہوں نے کہا کہ یہ قرآن دونوں اہم شہروں کے کسی عظیم شخص پر کیوں نہ اتارا گیا؟ ۲۔ کورانہ تقلید: اپنے آباء و اجداد اور بزرگوں کی روایات اور عقائد کی اندھی پیروی: قَالُوۡۤا اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا بَشَرٌ مِّثۡلُنَا ؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا۔(ابراھیم:۱۱) اَتَنۡہٰنَاۤ اَنۡ نَّعۡبُدَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَا۔(ھود:۶۳) انہوں نے کہا کہ تم چاہتے ہو کہ ہمارے بزرگ جن کی عبادت کیا کرتے تھے، ان سے ہمیں پھیر دو جبکہ تم ہماری ہی طرح کے بندے ہو، نہ تو کوئی خدائی مخلوق ہو اور نہ ہی ہم سے افضل ہو کہ تمہارا کہنا مان لیا جائے۔ صالحؑ کو بھی کہا گیا: کیا تو چاہتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے عقائد سے پھر جائیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے ان کو چھوڑ دیں؟ ۳۔ مالی مفادات، آزادی: یٰشُعَیۡبُ اَصَلٰوتُکَ تَاۡمُرُکَ اَنۡ نَّتۡرُکَ مَا یَعۡبُدُ اٰبَآؤُنَاۤ اَوۡ اَنۡ نَّفۡعَلَ فِیۡۤ اَمۡوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا۔(ھود:۸۸)اے شعیب! کیا تیری نمازیں تجھے یہ حکم دیتی ہیں کہ ہم اپنے بزرگوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور اپنے ہی مال میں اپنی مرضی سے تصرف نہ کریں؟ جب مال ہمارا ہے تو ہم جو چاہیں کریں خواہ ناپ تول میں کمی بیشی کریں، خواہ کسی کو مفت میں دیں، تم اس میں روک ٹوک کرنے والے کون ہوتے ہو؟ صرف مال میں ہی نہیں، جنسی تعلقات، کھانے پینے وغیرہ ہر بات میں آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص کچھ کھانا پینا چاہتا ہے یا کسی مرد و عورت سے کسی قسم کا تعلق رکھنا چاہتا ہے تو کسی کو اسے روکنے کا حق نہیں۔ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ انبیاءؑ کو تو دخل اندازی سے منع کرتے ہیں لیکن خود دخل اندازی بلکہ زبردستی پر اتر آتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جب کسی نبی کو بزرگوں کا مخالف، بیوقوف، خود فریبی کا شکار، پاگل وغیرہ کہتے ہیں تو پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے۔ کیا کبھی کسی پاگل یا بیوقوف کی بات بھی مانی گئی ؟ لیکن انبیاء ؑکی بات مانی جاتی ہے اور سعید فطرت لوگ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ مومن اپنی ایمانی قوت میں اتنے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اکابرین محسوس کرلیتے ہیں کہ یہ غالب آ جائیں گے۔ کوئی مضبوط دلیل پاس نہ ہونے کی وجہ سے ظلم شروع کر دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تو قوم میں پیدا ہونے والے اختلاف اور فتنہ کی سرکوبی کررہے ہیں۔ جبکہ انبیاءؑ نے کبھی فساد کی تعلیم نہیں دی، کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے یا تشدد پر نہیں اکسایا۔ اس کے برعکس ہمیشہ انبیاء ؑکی جماعتوں پر ہی تشدد اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ جبکہ ان کے مخالفین کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کو ملک سے ختم کر دیا جائے۔ خواہ نکال کر خواہ قتل کر کے: وَقَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِرُسُلِہِمۡ لَنُخۡرِجَنَّکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا(ابراھیم: ۱۴) منکرین نے اپنے نبیوں کو کہا کہ یا تو تم ہمارے مذہب میں واپس آ جاؤ یا ہم تمہیں اپنے علاقہ سے نکال دیں گے۔ یہاں رہتے ہوئے بہرحال تمہیں مذہبی اختلاف کی اجازت نہیں دی جائے گی۔قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ تَنۡتَہِ یٰنُوۡحُ لَتَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمَرۡجُوۡمِیۡنَ۔(الشعراء:۱۱۷) انہوں نے کہا: اے نوحؑ اگر تُو باز نہ آیا تو، تو سنگسار کر دیا جائے گا۔ قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَانْصُرُوْا اٰلِهَتَكُمْ (الانبیاء :۶۹) انہوں نے کہا، ابراھیمؑ کو آگ میں جلا کر اپنے معبودوں کی مدد کرو! کیسے بیوقوف لوگ ہوتے ہیں جو ان کو معبود بناتے ہیں جن کی مدد کی انہیں ضرورت پڑتی ہے۔جبکہ خدا وہ ہے جسے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ وہ سب کو مدد دینے والا ہے۔ اُس نے بڑے زور سے اعلان کیا : وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ(المائدۃ: ۶۸) اللہ تجھے لوگوں سے محفوظ رکھے گا اور مخالفین کے ایڑی چوٹی کا زور لگانے اور آپؐ کو چاروں طرف سے گھیرے ہونے کے باوجود دکھا دیا کہ وہ مدد کرنے پر قادر ہے اور وہی ہے جو مدد کرتا ہے۔ کفار مکہ کی اسلام سے عداوت آنحضورؐ کو سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو مخاطب ہونے کا حکم دیا گیا تھا: وَاَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ۔(الشعراء:۲۱۵) اس لیے ان ہی کی طرف سے سب سے پہلے مخالفت شروع ہوئی۔ آغاز میں آپؐ کو ساحر و مجنون کہہ کر بات استہزا اور لعن طعن تک محدود تھی۔(یونس:۳، الحجر:۷) تاہم جب سعید فطرت لوگوں نے یکے بعد دیگرے اسلام قبول کرنا شروع کیا تو سخت مخالفت اور نفرت شروع ہو گئی: وَلَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِیَذَّکَّرُوۡا ؕ وَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا نُفُوۡرًا۔ وَاِذَا ذَکَرۡتَ رَبَّکَ فِی الۡقُرۡاٰنِ وَحۡدَہٗ وَلَّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ نُفُوۡرًا۔ قَالُوۡا وَمَا الرَّحۡمٰنُ ٭ اَنَسۡجُدُ لِمَا تَاۡمُرُنَا وَزَادَہُمۡ نُفُوۡرًا۔فَلَمَّا جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ مَّا زَادَہُمۡ اِلَّا نُفُوۡرَا۔(بنی اسرائیل:۴۲ و ۴۷، الفرقان:۶۱، فاطر:۴۳) ہم نے اس قرآن میں امور مختلف پہلو سے بیان کیے ہیں کہ کسی طور ان کو سمجھ آ جائے، لیکن یہ لوگ ہیں کہ نفرت میں بڑھتے جاتے ہیں۔ جب بھی قرآن کریم میں تیرے رب کی وحدانیت کا ذکر آتا ہے تو منہ موڑ لیتے اور نفرت میں بڑھ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رحمٰن کون ہوتا ہے؟ کیا ہم تمہارے کہنے پر کسی کے سامنے جھک جائیں ؟ اور نفرت میں مزید بڑھ جاتے ہیں۔ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر ہماری طرف کوئی پیغمبر آیا تو ہم اس کو مانیں گے۔ اب، جبکہ وہ آ چکا ہے، تو یہی لوگ نفرت میں بڑھتے جاتے ہیں۔ استہزا مخالفت میں بدلا، مخالفت عداوت میں اور عداوت نفرت میں۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے، ان کی تفصیل دل خراش ہے۔ حقیقی معنوں میں عرصہ حیات ان پر تنگ کر دیا گیا۔ چند واقعات تو مشہور ہیں جیسے حضرت بلالؓ کو ننگے بدن گرم ریت پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھنا، حضرت خبابؓ کو گرم کوئلوں پر لٹانا، حضرت عمار بن یاسرؓ اور ان کے والدین کی تکالیف اور ان کی والدہ حضرت سمیہؓ کا قتل، لیکن اس کے علاوہ بے شمار روز مرہ کے واقعات ہیں۔ مسلمانوں کو مکہ کیےگلی کوچوں میں مارا جاتا، ان سے مال و دولت چھین لیے جاتے۔ کسی کے بیوی بچے اس سے الگ ہو گئے، کسی کے کردیے گئے۔ انہیں گالیاں دی جاتیں۔ ساری معاشرتی عزت و وقعت جاتی رہی۔ اللہ کی عبادت، جس کی خاطر وہ مسلمان ہوئے تھے، انہیں نہ کرنے دی جاتی۔ اذان ان کی بند کی گئی، قرآن پڑھنے کی انہیں اجازت نہ تھی۔ یہ سلوک تیرہ سال پر پھیلی ایک طویل داستان ہے۔ آخر آپؐ کو بنو ہاشم سمیت شعب ابی طالب میں جلا وطن کر دیا گیا۔ اور ساتھ ہی مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا کہ ان لوگوں کے ساتھ شادی بیاہ، تجارت، ہر قسم کی خرید و فروخت ممنوع ہے۔ جب مکہ میں کچھ نہ ملا تو مسلمانوں نے مجبوراً باہر کے بازاروں کا رُخ اختیار کیا۔ اس پر اہل مکہ نے وہاں چیزوں کی قیمت بڑھا دی۔ اگر مسلمان وہاں کچھ خریدنا چاہتا تو زیادہ قیمت دے کر وہ چیز لے لیتے تاکہ مسلمان کو نہ مل سکے۔(ابن اسحاق، سیرت، جلد ۳، ۱۵۴۔۱۶۷، ابن ہشام)دشمنی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب مسلمانوں نے سب کچھ چھوڑ کر حبشہ ہجرت کی تو ان کا وہاں تک پیچھا کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ ان کو وہاں سے نکال کر واپس اہل مکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ (ابن ہشام، جلد ۱،ارسال قریش الیٰ الحبشہ) آخر آنحضورؐ کے متعلق حتمی فیصلہ کر لیا گیا: وَاِذۡ یَمۡکُرُ بِکَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِیُثۡبِتُوۡکَ اَوۡ یَقۡتُلُوۡکَ اَوۡ یُخۡرِجُوۡکَ ؕ وَیَمۡکُرُوۡنَ وَیَمۡکُرُ اللّٰہُ ؕ وَاللّٰہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ۔(الانفال:۳۱) جب کافر تیرے متعلق منصوبہ بنا رہے تھے کہ تجھے پکڑ لیں یا قتل کر دیں یا ملک سے نکال دیں۔ وہ بھی منصوبہ بنا رہے تھے اور اللہ بھی۔ اور یقیناً اللہ منصوبہ بنانے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا منصوبہ ہی کامیاب ہوا اور آپؐ عین وقت پر مکہ سے نکل گئے۔ اور یہی ہجرت اسلام کی فتح کی بنیاد بنی۔ یہود کی اسلام سے عداوت مشرکین مکہ کے بعد دوسرا مذہبی گروہ جس کے ساتھ اسلام کو آغاز ہی میں واسطہ پڑا یہود کا تھا۔ قرآن کریم فرماتا ہے:لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ اٰمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِيْنَ أَشْرَكُوْا (المائدۃ :۸۳) تو تمام لوگوں میں سے مومنین کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والا ان کو پائے گا جو یہودی کہلاتے ہیں یا پھر مشرک ہیں۔ یہود کی مخالفت مشرکین سے زیادہ خطرناک تھی کیونکہ یہ زیادہ منظم اور ترقی یافتہ تھے۔ اسی لیے آیت میں ان کا ذکر پہلے ہے۔ مشرکین کے یہود کے ساتھ قدیم سے خاندانی تعلقات تھے اور قریش میں بھی یہود سے شادیوں کی متعدد مثالیں موجود تھیں۔(Lecker, A Note on Early Marriage Links, P17-39) ہجرت کے بعد اسلام کا مدینہ کے یہود کے ساتھ تعلق ایک نئی سطح پر قائم ہوا۔ میثاق مدینہ میں یہود کے حقوق کی حفاظت کی گئی اور انہیں مسلمانوں کے ساتھ برابر کے شہری حقوق کی ضمانت دی گئی۔ اس معاہدے کی پہلی ہی شق میں ذکر ہے کہ قریشی مسلمان اور یثرب کے مسلمان اور ان کے حلیف، جن میں یہود شامل تھے، دوسروں کے مقابل پر امت واحدہ ہوں گے:انھم امۃ واحدۃ من دون الناس۔ پھر شق ۲۵ میں وضاحت کی گئی ہے کہ بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک امت ہوں گے: و ان الیہود بنی عوف امۃ مع المومنین۔ اس جگہ ’’امت واحدہ ‘‘سے مراد سیاسی وحدت ہے نہ کہ مذہبی وحدت کیونکہ مذہبی طور پر تو سب کا اپنا مذہب تھا اور رہا بلکہ اسی شق میں آگے لکھا ہے : للیہود دینھم و للمسلمین دینھم۔ یہود کے لیے ان کا دین ہے اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین۔ پس مکہ سے آئے قریشی مہاجرین، مدینہ میں پہلے سے رہائش پذیر انصار اوس و خزرج اور ان کے مدینہ میں موجود حلیف یہودی، سب ریاست مدینہ کے مساوی شہری اور برابر کے حقوق و فرائض رکھنے والے قرار پائے۔ مدینہ کے یہود کو مقامی عربوں پر مالی، عسکری اور تمدنی فوقیت حاصل تھی۔ ان کے اپنے محلے اور قلعے تھے۔ جب اسلام مدینہ پہنچا تو اوس و خزرج کے درمیان اتفاق اور آپؐ کی پیروی کی وجہ سے ان کے اثر و رسوخ کا زوال شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسلام کی مخالفت شروع کردی۔ مدینہ میں بازار بنو قینقاع کے محلہ میں واقع تھا، وہ اس کے منتظم تھے اور خرید و فروخت پر اپنی مرضی کا ٹیکس لگا سکتے تھے۔ آپؐ نے ایک نیا بازار قائم فرمایا جہاں کوئی ٹیکس نہیں تھا۔ یہ بنو قینقاع کی مخالفت کا ایک باعث تھا۔ مجموعی صورتحال یہ تھی کہ اسلام کی آمد سے ایک صدی قبل حجاز میں ایک وسیع یہودی سلطنت کا قیام ممکن نظر آ رہا تھا جو کہ آنحضورؐ کے ذریعہ اسلام کے پھیلنے، عربوں میں اتحاد قائم ہونے اور یہود کی طاقت ٹوٹنے کی وجہ سے آپؐ کی وفات تک چکنا چور ہو چکا تھا۔ (Newby, A History of The Jews of Arabia, P76,96) چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال ہی، جنگ بدر کے معاًبعد، جب ابو سفیان نے مدینہ پر شب خون مارنا چاہا، تو اس کو یہود بنو نضیر کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ سلام بن مشکم، جو کہ ان کے سرداروں میں سے ایک تھا اور ان کے خزانہ کا رکھوالا تھا، نے ابو سفیان کو اس وقت اپنے گھر ٹھہرایا تاکہ وہ حالات کا جائزہ لے کر اور جاسوسی کر کے حملہ کر سکے۔ اس نے کچھ کھیتوں کو آگ لگائی اور دو مسلمانوں کو قتل کر کے واپس لوٹ گیا۔(سیرت ابن ہشام، جلد ۲، صفحہ ۴۴) دیگر کوششوں کے علاوہ کم از کم دو مرتبہ یہود نے براہ راست آنحضورؐ کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ ایک مرتبہ پتھر کی سل آپؐ پر گرانے کا منصوبہ بنایا اور ایک مرتبہ زہر آلود گوشت کی دعوت کرکے۔(ابن ہشام، خروج الرسول الیٰ بنی النضیر اور ذکر شاۃ المسمومۃ) مدینہ کے یہود نہ صرف خود بغاوت اور سازشوں میں ملوث رہے بلکہ انہوں نے متعدد بار دیگر قبائل کو بھی بھڑکایا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کریں۔ چنانچہ غزوہ خندق سے پہلے ان کے سرداروں نے مختلف عرب قبائل، بشمول قریش اور بنو غطفان، کا دورہ کر کے ان کو متحد ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے پر آمادہ کیا۔(سیرت ابن ہشام، جلد ۲، صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵) اسی لیے ان کے متعلق فرمایا: وَلَیَزِیۡدَنَّ کَثِیۡرًا مِّنۡہُمۡ مَّاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ طُغۡیَانًا وَّکُفۡرًا… کُلَّمَاۤ اَوۡقَدُوۡا نَارًا لِّلۡحَرۡبِ اَطۡفَاَہَا اللّٰہُ (المائدہ:۶۵) ان میں سے اکثر تیرے پر اترنے والی تعلیم کو سن کر بغاوت اور انکار میں بڑھ جاتے ہیں۔…جب بھی یہ جنگ کے لیے آگ بھڑکاتے ہیں، اللہ اسے بجھا دیتا ہے۔ یعنی جس طرح یہ چاہتے ہیں اس طرح کی جنگ کروانے میں ناکام رہیں گے۔ جنگ خندق کے موقع پر عرب قبائل اکٹھے ہو گئے، لیکن کھلے عام جنگ نہیں ہوئی بلکہ ظاہری طور پر بھی آگ بجھا دی گئی اور معنوی طور پر بھی اور ان کو ناکام لوٹنا پڑا۔ مدینہ کے بعد خیبر ان کی سازشوں کا مرکز بنا اور بالآخر وہاں سے بھی ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ تاہم یہ خیال غلط ہے کہ تمام عرب سے یہود کو جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ بنو عباس کے زمانہ تک بھی عرب میں یہودی آباد تھے۔ (Friedlaender, The Jews of Arabia…, P250) اس پس منظر میں اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ اسلام یہودیت سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ بازنطینی سلطنت میں آباد یہودی مسلمانوں کو ’’نجات دہندہ‘‘ اور ’’خدا کی رحمت ‘‘کہتے تھے۔ رومی سلطنت میں جب مسیحیت برسراقتدار آئی تو یہود پر مظالم کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ قیصر تھیوڈوسیوس ثانی نے ۴۰۴ء میں یہودیت اپنانے کی سزا موت اور یہود کے ساتھ شادی بیاہ کو ممنوع قرار دیا۔ اس نے یہود کے مذہبی امور کو مسیحی سلطنت کے ماتحت کر دیا۔ قیصر ہرقل نے ۶۲۹ء میں یہود کو زبردستی بپتسمہ لینے، یعنی مسیحیت اختیار کرنے کا حکم دیا۔ سپین کے بادشاہ نے یہود کو ۶۱۳ء میں اسی طرح بپتسمہ لینے کا حکم دیا۔ پھر ۶۹۴ء میں سپین کے یہود کو غلام، ان کے سات سال سے زائد عمر کے بچوں کو مسیحی خاندانوں کے سپرد کرنے اور ان کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا۔(Mason, Reflections on Middle East Crisis, P17-19) فرانس کے بادشاہ نے ۶۲۹ء میں یہود کو بپتسمہ لینے کا حکم دیا۔(Starr, Note on the crisis of the seventh century, P97) اس لیے یہود نے مسلمان افواج کا بھر پور خیر مقدم کیا: “Jews in one region after the other began throwing their support behind the advancing Arab armies. The sources are replete with moving accounts of the assistance rendered by these Jewish communities. In many areas the Arab armies were openly and enthusiastically welcomed as «liberators» from the oppressive rule of Christian over-lords … R. Simon bar Yohai, writing during the period of the Arab conquest, described Umar (the one primarily responsible for launching the conquest) as «a lover of Israel who repaired their breaches.» «The Holy One», he went on to insist, «is only bringing the kingdom of Ishmael in order to help you from the wicked one (Christians).» A Jewish document widely circulated during the first century of Arab rule described Islam as ‘‘an act of God’s mercy.’’’’ (Mason, P20) مدینہ، خیبر اور فدک کے یہود کی حرکتوں کے باوجود آنحضورؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کا ان کے ساتھ سلوک کامل انصاف پر مبنی تھا۔ خیبر میں یہود کے ساتھ کھجوروں کی نصف پیداوار پر معاہدہ ہوا تو آپؐ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو بھیجا۔ انہوں نے کھجوروں کی مقدار کا اندازہ لگا کر یہود سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اس مقدار کا نصف کھجوریں رکھ لو اور چاہو تو نصف کے پیسے لے لو۔ مراد یہ تھی کہ اگر وہ سمجھتے کہ اندازہ کم لگایا ہے جبکہ فصل زیادہ ہے تو اس کم اندازے کے مطابق پیسے لے لیتے اور اگر سمجھتے کہ اندازہ زیادہ لگایا ہے فصل اتنی نہیں تو زیادہ اندازے کے مطابق کھجوریں لے لیتے۔ جو بھی بات ان کو اپنے فائدہ میں نظر آتی وہ کرتے۔ پھر فرمایا کہ خدا کی قسم تمام مخلوق میں سے مجھے تم سے سب سے زیادہ نفرت ہے (کیونکہ انہوں نے مسلسل آنحضورؐ اور اسلام کے خلاف جنگیں کیں اور دوسروں کو بھڑکایا تھا)، لیکن پھر بھی میں تمہارے ساتھ ہرگز ناانصافی نہیں کروں گا۔ ان کے اس منصفانہ سلوک پر یہود نے کہا کہ ایسے کامل انصاف کی وجہ سے ہی زمین و آسمان قائم ہیں۔(المقریزی، امتاع الاسماء، جلد ۹، صفحہ ۳۸۵) اسلامی فتوحات کے زمانے کے بعد بھی عمومی طور پر یہود کو اسلامی ممالک میں امن نصیب رہا اور ان پر کہیں بھی وہ مظالم نہیں ہوئے جو کہ یورپ کی مسیحی حکومتوں نے صدیوں تک ان پر ڈھائے۔ اندلس میں ان کو جو آزادی حاصل تھی اس کی وجہ سے اس زمانہ کو یہود کے لیے ’’سنہری دور‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یورپ کی اسلام دشمنی کا آغاز عرب اور پھر ترک مسلمانوں کے مسیحی یورپ کے ساتھ تعلق کی ابتدا آنحضور ﷺ کی جانب سے بازنطینی سلطنت کے قیصر ہرقل کو تبلیغی خط سے ہوئی، لیکن بہت جلد یہ تعلق جنگوں میں بدل گیا اور آپؐ ہی کے زمانہ میں تمام اخلاقی و سفارتی قوانین کے برخلاف آپؐ کے سفیر حضرت شرحبیلؓ کے قتل کے نتیجے میں جنگ موتہ میں مسلمانوں کو بازنطینی فوج سے لڑنا پڑا۔ مسلمانوں نے شام، عراق، مصر، آذربائیجان، آرمینیا، اور افریقہ کے بازنطینی علاقے فتح کر لیے۔ مسیحی یورپ نے ۱۰۹۶ء میں خالصتاً مذہبی صلیبی جنگوں کا آغاز کیا مگر ۱۱۸۷ء میں صلاح الدین ایوبیؒ کے ہاتھوں سخت شکست کھائی۔ آخر ۱۴۵۳ء میں ترک مسلمانوں نے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر کے یونان، بلغاریہ، بلقان کے علاقے فتح کر لیے۔ بلکہ ۱۶۸۳ء میں یورپ کے عین وسط میں واقع آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا محاصرہ کر لیا۔ انیسویں صدی میں یورپی طاقتوں نے کم و بیش تمام مسلمان ممالک پر قبضہ کر لیا جو کہ قریباً ایک صدی پر محیط رہا۔ مسیحی یورپ کے اسلام کے متعلق خیالات مذہبی و سیاسی جنگوں کے اس ماحول میں پروان چڑھے ہیں اور اسی کے موافق ان میں سختی، جہالت اور عداوت پائی جاتی ہے۔ اسلام پر اوّلین بازنطینی تحریر میں ہی آنحضورؐ کو نعوذ باللہ ’’جھوٹا نبی‘‘ بیان کیا گیا اور اس کی یہ دلیل دی گئی کہ انبیاء تلوار لے کر نہیں آتے۔(Hoyland, Seeing Islam, P57) یہ تحریر ۶۳۴ء کی ہے یعنی آنحضورؐ کی وفات کے محض دو سال بعد کی۔ یہ بات تینوں طرح غلط ہے: اوّل تو آنحضورؐ تلوار لے کر نہیں آئے بلکہ محض دفاع میں تلوار کے جواب میں تلوار اٹھانے کی اجازت دی اور دوم بائبل میں موجود متعدد انبیاء نے تلوار اٹھائی، اس لیے یہ خیال بھی غلط ہے کہ انبیاء جنگ نہیں کرتے اور سوم خود مسیحیت نے اس زمانہ میں تلوار اٹھا رکھی تھی۔ اس وقت پادری حضرات اسلام کو خدا کی طرف سے آنے والی سزا بتلاتے تھے۔ مثلاً یروشلم کے بڑے پادری زوفرونیوس، جس نے یروشلم کی چابیاں حضرت عمرؓ کے سپرد کی تھیں، نے اپنے ۶۳۴ء کے محررہ خط میں لکھا ہے کہ مسیحیوں کے بے شمار گناہوں اور غلطیوں کی وجہ سے خدا نے انہیں کرسمس کے موقع پر بیت لحم جانے سے روک دیا ہے (کیونکہ یروشلم اور بیت لحم کے درمیان کسی جگہ پر اس وقت مسلمان افواج تھیں)۔ اس نے مسلمانوں کو ’’ملحد‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک اور خط میں وہ لکھتا ہے کہ مسلمان خدا کے خلاف توہین آمیز باتیں کہتے ہیں۔ انہوں نے کھیتوں کو جلا دیا، گرجے تباہ کر دیے اور شہر لوٹ لیے ہیں۔ اس اسقف زوفرونیوس کے متعلق یہ کہانی گھڑی گئی کہ اسے مسلمانوں نے قتل کر دیا تھا۔(Woods, The 60 Martyrs of Gaza)ایک اور مشہور پادری، ماکسیموس ۶۶۲ء میں لکھتا ہے کہ مسلمان ایک بربریت بھری قوم ہیں جو تہذیب و تمدن کو تاراج کر رہے ہیں اور جنگلی جانوروں کی طرح ہیں، ان کی محض شکل ہی انسانوں والی ہے۔ (Hoyland, P70-78) پادریوں کے جھوٹ بولنے کی ایک مثال چرچ کے آباء میں شامل یوحنا دمشقی کی ہے۔ ان صاحب کے والد حضرت معاویہؓ کے وزیر خزانہ تھے۔ خود یوحنا دمشقی امیر معاویہؓ کے بیٹے یزید کے ساتھ کھیلتے بڑے ہوئے یعنی ان کا مسلمانوں کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ اس کے باوجود وہ لکھتے ہیں کہ آنحضورؐ نے عورتوں کے ختنے کرنے کا حکم دیا۔(یوحنا دمشقی، ینبوع المعرفۃ، حصہ ۲، باب ۷) چونکہ یورپ میں اس وقت صرف پادریوں یا چند امراء میں ہی تعلیم رائج تھی، اس لیے اہل مغرب کا اسلام کے متعلق تصور انہی خیالات پر مبنی رہا۔ پادری حضرات نے بےشمار جھوٹی کہانیاں گھڑ رکھی تھیں جن کا مقصد مسلمانوں کو جنگلی اور بد تہذیب اور یسوع کا دشمن ثابت کرنا تھا۔ مثلاً تھیوفانس لکھتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ یروشلم تشریف لائے تو آپؓ نے اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے موٹے اور پرانے کپڑے پہن رکھے تھے۔ یروشلم کے بطریق زوفرونیوس نے صاف اور ملائم کپڑے پیش کیے تو انہیں ٹھکرا دیا۔ آخر پادری صاحب نے آپؓ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ جب تک آپؓ کے اپنے کپڑے دھل نہیں جاتے اس وقت تک اس کا پیش کردہ صاف لباس پہن لیں۔ پھر کہتا ہے مسلمانوں نے یہود کے کہنے میں آ کر بہت سے چرچوں پر نصب صلیبیں توڑ دیں۔(Theophanes, P6127, 6135)ان باتوں کا جھوٹا ہونا اس بات سے ظاہر ہے کہ ۱۴۵۰ء سال کی اسلامی حکومت کے بعد آج بھی عراق، شام، لبنان، فلسطین، مصر میں چرچ اور قابل ذکر مسیحی جماعتیں موجود ہیں۔ یورپ کی اسلام دشمنی: صلیبی جنگیں پادریوں کی جانب سے اسلام سے نفرت باقاعدہ پروان چڑھائی گئی تاکہ عوام کے جذبات بھڑکا کر مختلف مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ صلیبی جنگیں اس کی ایک مثال ہیں۔ یہ جنگیں خالصتاً مذہب کے نام پر لڑی گئیں اور اس وقت کے مسیحیت کے سب سے بڑے راہنما، پوپ اُربان ثانی، ان کے بانی تھے۔ ان پوپ صاحب نے ۲۷؍نومبر ۱۰۹۷ء کو پادریوں اور شہزادوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے بیان کیا کہ مسلمانوں نے ارض مقدس اور بازنطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، مسیحیوں کے زبردستی ختنے کیے ہیں’ ان کا قتل عام کیا اور چرچوں کو لوٹ لیا ہے۔ مسلمان مسیحیوں پر مشق کرتے ہیں کہ کون تلوار کی ایک ہی ضرب سے ان کی گردن کاٹ سکتا ہے۔ ان کو کھمبوں سے باندھ کر ان پر تیر چلاتے ہیں۔ پوپ صاحب نے مسیح کی قبر کو آزاد کروانے پر بھی اکسایا۔ (Sweetenham, Robert The Monk, P79- 81) ان کا کہنا تھا کہ مقدس مقامات میں کتے گھس آئے ہیں۔ (Deschner, Kriminalgeschichte, V6, P350-351) ان جنگوں میں صلیبیوں نے مسلمانوں پر جو مظالم کیے اور جس طرح اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائیں وہ تو ایک افسوسناک داستان ہے ہی، انہوں نے دیگر فرقوں کے مسیحیوں اور یہودیوں پر جو مظالم کیے وہ بھی رونگٹے کھڑے کرنے والے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے اسلام کی تیز اور وسیع پیمانے پر کامیابی کا کوئی معقول جواب نہ ہونے کی وجہ سے یورپی پادریوں نے ہمیشہ آنحضورﷺ کی ذات کو تنقید کا ہدف بنایا : “Muhammad has always been at the center of European discourse on Islam. For medieval crusade chroniclers, he was either a golden idol that the “Saracens” adored or a shrewd heresiarch who had worked false miracles to seduce the Arabs away from Christianity” (Tolan, Faces of Muhammad, P2) صلیبی جنگوں کے زمانے میں ہی اندلس کے ایک عالم پطرس الفونسو نے اسلام پر تنقید کی۔ پطرس پہلے یہودی تھا لیکن ۱۱۰۶ء میں مسیحی ہو گیا۔ اس نے یہودیت کے خلاف ایک کتاب لکھی جو بہت مقبول ہوئی۔اس کتاب میں ایک باب اسلام پر بھی ہے جس میں آنحضور ﷺ کی ذات پر حملے کیے ہیں۔ عربی سے واقفیت کی وجہ سے اسے اسلامی تاریخ اور تعلیم کا اچھا علم تھا۔ بحیرا راہب سے تعلیم، حضرت زینبؓ سے شادی، احد میں نقصان، جنت کے تصور، حوروں پر اعتراضات کیے ہیں۔( Tolan, P55 -60) پطرس کے قارئین نے آگے ان اعتراضات کو یورپ میں پھیلایا اور ان میں جاہلانہ اضافے بھی کیے۔ فرانس کے شاہی دربار سے وابستہ ایک عالم نے ۱۴۰۹ء میں آپؐ کو کفار مکہ ہی کی طرح ’’ساحر‘‘، ’’شعبدہ باز‘‘، ’’غدار‘‘، ’’دھوکاباز‘‘ وغیرہ کہا۔ ان لوگوں کی جہالت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اس نے لکھا ہے کہ آپؐ نے ایک کبوتر کو سدھایا ہوا تھا جو کندھے پر بیٹھ کر کان میں پہلے سے ڈالے ہوئے چاول کھاتا تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ روح القدس نازل ہو کر آپؐ کو باتیں بتا رہا ہے۔ اسی طرح آپؐ نے ایک بیل کو سکھا کر اس کے سینگوں کے ساتھ کتاب لکھ کر باندھ دی اور وہ عین خطبہ کے درمیان آپؐ کے پاس آیا تو لوگ سمجھے کہ یہ کتاب خدا نے بھیجی ہے۔ (Tolan, P44-46) مسیحی یورپ کی اسلام دشمنی کی وجہ اس حد سے بڑھی دشمنی کی وجہ کیا تھی؟ اگر پادری صاحبان چاہتے تو ۱۴۰۰ء میں اسلام کے متعلق درست علم حاصل کرنا ان کے لیے ممکن تھا بلکہ علم تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے اسلام کا غلط تصور کیوں پیدا کیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اسلام سے جو خطرہ محسوس کر رہے تھے، اس کا توڑ عوام میں اسلام کے خلاف نفرت پھیلا کر کرنا چاہتے تھے۔ اور اس کے لیے اسلام کی غلط تصویر کشی ضروری سمجھتے تھے۔ ‘‘It was the perceived threat of Islam to Christianity that produced the denial or the radical distortion of what Islam really was’’ (Blanks & Frassetto, Western Views, P208) یورپ مسلمانوں کے اس وقت کی برتر تہذیب اور علمی ترقی سے اسی طرح مرعوب تھا جس طرح آج کل مسلمان یورپ کی علمی اور تہذیبی ترقی سے مرعوب ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک مشہور مستشرق لکھتے ہیں: “It would therefore seem probable that the creation of the distorted image of Islam was largely a response to the cultural superiority of the Muslims, especially those of al-Andalus” (Watt, Muslim-Christian Encounters, P88) اسی طرح عسکری میدان میں بھی یورپ نہ صرف مسلمانوں سے شکست خوردہ تھا بلکہ ترک مسلمانوں کے عروج، خصوصاً قسطنطنیہ پر قبضہ اور بازنطینی سلطنت کے خاتمہ کے ساتھ اس میں احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور مسلمانوں کا خوف ایک مرتبہ پھر پھیل گیا تھا: “The Christian West’s inferiority complex, which originated in the trauma of the early Caliphate’s conquests, was renewed and reinforced by the emergence of a new Islamic power, the Ottoman Turks, who achieved in 1453 what the Ummayad armies had failed to accomplish in 669 and 674—the capture of Constantinople” (Blanks & Frassetto, Western Views, P210) جب یورپ کے مسیحی مسلمانوں کی بہتر تہذیب، فوجی قوت، مذہبی اخلاص، اخلاقی برتری، علمی بالا دستی اور روحانیت کے مقابل پر ناکام ہو گئے تو اسلام اور مسلمانوں، خصوصاً آنحضورؐ کا ایک بناوٹی اور غلط تصور پیدا کر کے اس پر حملے شروع کر دیے۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج کل ہمارے متعلق مولویوں نے ایک غلط تصور بنایا ہوا ہے کہ یہ آنحضورؐ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، انبیاءؑ پر الزام لگاتے ہیں، غیر طاقتوں کے آلہ کار ہیں، مسلمانوں میں تفریق پیدا کرتے ہیں وغیرہ اور پھر اس مصنوعی تصور پر حملے کرتے اور عوام کو اکساتے ہیں۔ اسلام اور مسیحی یورپ: نوآبادیاتی دور مسیحی یورپ نے پہلے یورپ سے مسلمانوں کی حکومتیں ختم کیں، پھر بعض مسلمان ممالک میں اپنی نوآبادیات قائم کیں اور آخر کار انیسویں صدی میں کم و بیش تمام مسلمان ممالک پر قبضہ کرلیا۔ البتہ ان جنگوں کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ سیاسی اور تجارتی تھی۔ اس کے باوجود طبعاً مسیحیت اور اسلام کے درمیان صدیوں پر پھیلی چپقلش کا اثر موجود رہا : “The demonization of the Islamic East is a long and deeply rooted tradition in the West—spanning the centuries, from the early medieval period to the end of the twentieth century” (Blanks & Frassetto, P208) اس دور میں یورپی علماء جن میں مذہبی علماء کی ایک تعداد بھی شامل تھی، نے وسیع پیمانے پر اسلامی کتب کے تراجم کیے اور اسلام پر شدید پُر تعصب مگر علمی حملے کیے جن کی بنیاد خود اسلامی روایات، منطق، فلسفہ، نفسیات اور اخلاقیات پر رکھی۔ مثلاً پردہ پر عورت کی آزادی کے حوالے سے اعتراض ہوا اور یہ اعتراض جزوی طور پر درست تھا کیونکہ مسلمانوں کا پردے کا تصور ہی غلط تھا۔ اسی طرح جہاد کو آزادیٔ ضمیر کے خلاف قرار دے کر اس پر اعتراض کیا گیا جو جزوی طور پر درست تھاکیونکہ مسلمانوں کا جہاد کا تصور بھی غلط تھا۔ مسلمانوں میں تعلیم کی کمی، حقیقی اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت اور غلط عقائد کی وجہ سے ان حملوں کا جواب دینے کی سکت نہ تھی۔ یہی وہ اندھیری رات ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ کا سورج طلوع ہوا اور آپؑ نے ایک نئے علم الکلام کی بنیاد رکھی۔ آپؑ نے مسلمانوں کے غلط عقائد کی اصلاح فرمائی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے ذاتی تجربہ سے اسلامی تعلیم کی روحانی برتری اور برکت اور اس کا زندہ ہونا ثابت فرمایا۔ مغرب میں مسیحیت کا زوال اور نئی جنگ بیسویں صدی میں مغرب میں مسیحیت زوال پذیر ہو کر چرچ کا معاشرے پر علمی، سیاسی، اخلاقی اثر نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ اسی صدی میں کروڑوں مسلمان مغرب جاکر آباد ہوئے۔ یوں اہل مغرب کو وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے ساتھ تعلق بنانے کا موقع ملا۔ چنانچہ مغربی علماء نے اسلام کے متعلق مثبت رویہ اپنانا شروع کیا۔ گو اس دوران چند انتہائی اسلام مخالف لوگ بھی سرگرم عمل رہے تاہم مجموعی طور پر اسلام کے متعلق تحقیق غیر جانبدارانہ اور مثبت ہوتی گئی۔ علمی تنقید میں سے طنز اور جھوٹ اور الزامات کم و بیش ختم ہو گئے۔ البتہ غیر علمی الزامات میں اسی قدر اضافہ ہوا۔ خصوصاً سیاسی میدان میں اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر انتہائی اسلام مخالف پراپیگنڈا جاری ہے۔ وہ لوگ جو مختلف مقاصد کی خاطر مسیحیت اور اسلام کے درمیان امن و صلح نہیں چاہتے، مختلف طریقوں سے مغرب میں اسلام کے خلاف نفرت کو ہوا دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں مغرب میں اسلام کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن بطور مذہب نہیں بلکہ بطور تہذیب و قومیت۔ یہ جنگ پادریوں کی طرف سے نہیں بلکہ ان حلقوں کی طرف سے ہے جو اسلام کو مغربی ثقافت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور مسیحیت کو مذہب کم اور مغربی ثقافت کا حصہ زیادہ سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان میں چرچ کی طرف رجوع بھی بڑھ رہا ہے۔ لیکن خدا سے تعلق یا مذہبی تعلیمات پر عمل یا روحانیت میں ترقی ان کا مقصد نہیں۔ بلکہ محض اسلام سے نفرت، مغربی ثقافت پر ناز اور تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں۔ اسی لیے ایک طرف تو مسیحیت پر زور دیتے ہیں مگر دوسری طرف ہر قسم کی اخلاقی اقدار کا ذکر ان کے ہاں مفقود ہے۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: محرم ۔ قمری سال کاپہلامہینہ