منظوم کلام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دشمن کو ظلم کی برچھی سے تم سینہ و دل بَرمانے دویہ درد رہے گا بن کے دوا تم صبر کرو وقت آنے دو یہ عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پنپیں گےاس راہ میں جان کی کیا پروا جاتی ہے اگر تو جانے دو تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطراتِ محبت ٹپکیں گےبادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہر خواہش کیہی جنسِ وفا کے ماپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہےپھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو عاقل کا یہاں پر کام نہیں وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیںمقصود مرا پورا ہو اگر مل جائیں مجھے دیوانے دو وہ اپنا سر ہی پھوڑے گا وہ اپنا خون ہی بِیٹے گادشمن حق کے پہاڑ سے گر ٹکراتا ہے ٹکرانے دو یہ زخم تمہارے سینوں کے بن جائیں گے رشکِ چمن اس دنہے قادرِ مطلق یار مرا، تم میرے یار کو آنے دو جو سچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی ان سے ڈرتی ہےتم سچے مومن بن جاؤ اور خوف کو پاس نہ آنے دو یا صدقِ محمدِؐ عربی ہے یا احمدِ ہندی کی ہے وفاباقی تو پرانے قصے ہیں زندہ ہیں یہی افسانے دو وہ تم کو حسینؓ بناتے ہیں اور آپ یزیدی بنتے ہیںیہ کیا ہی سستا سودا ہے دشمن کو تیر چلانے دو میخانہ وہی، ساقی بھی وہی پھر اس میں کہاں غیرت کا محلہے دشمن خود بھینگا جس کو آتے ہیں نظر خمخانے دو محمود اگر منزل ہے کٹھن تو راہ نما بھی کامل ہےتم اس پہ توکّل کر کے چلو، آفات کا خیال ہی جانے دو (اخبار الفضل جلد ۲۳۔ ۱۴؍ جولائی ۱۹۳۵ء بحوالہ کلام محمود صفحہ۱۵۴) مزید پڑھیں: ہوتا تھا کبھی میں بھی کسی آنکھ کا تارا