٭…کیا ٹیٹو بنوانا حرام ہے؟نیز کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر ایسی ویڈیوز میں ڈال سکتے ہیں، جن کے ساتھ گانے بھی ہوں؟٭…میرے ایک بیٹے کا گھر دوسرے شہر میں ہے۔ جب میں اس بیٹے کے گھر جاؤں تو کیا میں نماز قصر کروں گا اور جب میرا بیٹا میرے گھر آئے تو کیا وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟٭… Marital rape کے بارے میں اسلامی فقہ اور قانون کیا کہتا ہے؟٭…قرآن کریم میں زنا کی جو سزا بیان ہوئی ہے، کیا یہ سزا صرف شادی سے پہلے کے لیے ہے یا شادی کے دوران بھی؟ نیز جس نے زنا کیا ہو اگر اسے اپنے گناہ کا احساس ہو گیا ہو تو کیا وہ یہ امید رکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا؟ سوال: ترکیہ سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ کیا ٹیٹو بنوانا حرام ہے؟نیز کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر ایسی ویڈیوز میں ڈال سکتے ہیں، جن کے ساتھ گانے بھی ہوں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات عطا فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا: جواب:۔ٹیٹو بنانا اور بنوانا تو جائز نہیں ہے۔ احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہےکہ اللہ تعالیٰ نے حسن کے حصول کی خاطرجسموں کو گودنے والیوں اور گودوانے والیوں کو بڑے سخت الفاظ میں منع فرمایا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب اللباس بَاب الْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ) ٹیٹو بنوانے کے پیچھے یہ مقصد ہوتا ہے کہ اس کی نمائش کی جائے اور اپنی مخالف جنس کا ناجائز طور پر اپنی طرف میلان پید اکیا جائے۔ اسی لیے لوگ عموماً ٹیٹو جسم کے ایسے حصوں پر بنواتے ہیں جنہیں وہ عام لوگوں میں کھلا رکھ کر اس کی نمائش کرسکیں۔ لیکن اگر کوئی ٹیٹو جسم کے ستر والے حصہ پر بنواتا ہے تو اس کے پیچھے بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ تا بُرائی اور افعال بد کے ارتکاب کے وقت اپنی مخالف جنس کے سامنے ان پوشیدہ اعضاء پر بنے ٹیٹو کی نمائش کی جا سکے۔ یہ دونوں طریق ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔ پھر ٹیٹو کے کئی ظاہری اور میڈیکل نقصانات بھی ہیں۔ چنانچہ جسم کے جن حصوں پر ٹیٹو بنوایا جاتا ہے، اس جگہ جلد کے نیچے پسینہ لانے والے گلینڈ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ٹیٹو بنوانے کے بعد جسم کے ان حصوں پر پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے، جو طبی لحاظ سے نقصان دہ ہے۔ اسی طرح ٹیٹو چونکہ مستقل طور پر جسم کا حصہ بن جاتا ہے، اس لیے جسم کے بڑھنے یا سکڑنے کے ساتھ ٹیٹو کی شکل میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے، جس سے ٹیٹوبظاہر خوبصورت لگنے کی بجائے بد صورت لگنے لگتا ہے اور کئی لوگ پھر اسے وبال جان سمجھنے لگتے ہیں لیکن اس سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر بھی ٹیٹو بنوانا ایک لغو کام ہے۔ آپ کے دوسرے سوال کا جواب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کی تصاویر کو ایسی ویڈیوز میں ڈالنے کی بالکل اجازت نہیں ہے، جن میں گانے وغیرہ چل رہے ہوں۔ گانے لغویات میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں مومنوں کی ایک نشانی یہ بتاتا ہے کہ وہ لغوکاموں اور لغوباتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔(المومنون:۴) پس ایک اچھی چیز کو لغو چیز کے ساتھ ملانے کی کس طرح اجازت ہو سکتی ہے۔ سوال: جرمنی سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ میں ویز بادن میں رہتا ہوں اور میرے ایک بیٹے کا گھر دوسرے شہر میں ہے۔ جب میں اس بیٹے کے گھر جاؤں تو کیا میں نماز قصر کروں گا اور جب میرا بیٹا میرے گھر آئے تو کیا وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۴؍اکتوبر ۲۰۲۳ء میں اس سوال کے جواب میں فرمایا: جواب: میرے نزدیک تو یہ اپنے ہی گھر ہیں، ان میں قصر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے لکھا ہے کہ آپ کا گھر الگ ہے اور بیٹے کا بھی الگ گھر ہے۔ ایسی صورت میں بعض فقہاء کے نزدیک انسان مسافر شمار ہو گا اور نماز قصر کرے گا۔جبکہ فقہ احمدیہ کے مطابق ایسی صورت میں انسان کو اختیار ہے کہ چاہے تو قصر کرے اور چاہے تو پوری نماز پڑھ لے۔ چنانچہ فقہ احمدیہ میں لکھا ہے کہ اگر انسان کسی ایسے عزیز کے گھر میں مقیم ہو جسے وہ اپنا ہی گھر سمجھتا ہے، جیسے والدین کا گھر، سسرال کا گھر یا مذہبی مرکز مثلاً مکہ، مدینہ ، قادیان، ربوہ وغیرہ تو پندرہ دن سے کم قیام کے دوران میں چاہے تو اس رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو رکعت پڑھے اور چاہے تو پوری نماز یعنی چار رکعت پڑھے۔ (فقہ احمدیہ عبادات صفحہ ۱۸۹) سوال: اٹلی سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ Marital rape کے بارے میں اسلامی فقہ اور قانون کیا کہتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۴؍اکتوبر۲۰۲۳ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: شادی کے بعد میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات میں Marital rape کا ہر گز کوئی تصور نہیں ہے۔ اس قسم کا لغو تصور اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے کیونکہ اسلام نے تو شادی کا ایک مقصد افزائش نسل بھی قرار دیا ہے، جس کے لیے تعلقات زوجیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس قسم کی حرکات اور اس قسم کے بیہودہ خیالات مغربی دنیا کے شاخسانے ہیں، جو گھروں کو تباہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں اورجن کے ذریعہ بیوی اپنے خاوند پر غلط الزام لگا کر کچھ دنیاوی فوائد حاصل کرتی ہے، جس کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو شادی کے بعد میاں بیوی کے ان تعلقات کو مستحسن قرار دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے اور اسی کی قسم سے اس کا جوڑا بنایا ہے تا کہ وہ اس کی طرف رغبت کرکے سکون پائے۔ پس جب وہ اسے ڈھانپ لیتا ہے تو وہ خفیف سا بوجھ اٹھا لیتی ہے اور اسے لیے پھرتی ہے پھر جب وہ (کچھ) بوجھل ہو جاتی ہے دونوں (مرد و عورت) اپنے اللہ سے جو ان کا رب ہے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو ہم کو ایک تندرست بچہ دے گا تو ہم شکرگزار بندے بن جائیں گے۔(الاعراف:۱۹۰) پھر فرمایا:اور اس کے نشانوں میں سے (ایک) یہ (نشان) بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس میں سے تمہارے لیے جوڑے بنائے ہیں تاکہ تم ان کی طرف (مائل ہو کر) تسکین حاصل کرو۔ اور تمہارے درمیان پیار اور رحم کا رشتہ پیدا کیا ہے اس میں فکر کرنے والی قوم کے لیے بڑے نشان ہیں۔ (الروم:۲۲) پس نکاح کی بنیاد ہی پیا ر اور محبت پر ہے۔ یہ ایک معاہدہ ہے جس میں فریقین پر ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنا واجب ہے۔ اس میں مرد کے ذمہ عورت کا نان و نفقہ ہے اور عورت کے ذمہ امور خانہ داری ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کی جنسی ضرورت کو پورا کرنا بھی اس معاہدہ کا حصہ ہے۔ میں نے اپنے خطبات نکاح میں بھی متعدد مرتبہ افراد جماعت کو ان امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ نکاح اور شادی کو انسانی نسل کے بڑھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے، جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ بعض صحابہؓ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے۔ تجرد کی زندگی گزاریں گے، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ جو میری سنت پہ عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سےشمار نہیں ہو گا۔ میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں۔ کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں۔ تو نکاح جو ایک بنیادی حکم ہے یہ صرف معاشرہ اور نسل کو چلانے کے لیے نہیں بلکہ بہت ساری برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے اور ایک نیک نسل چلانے کے لیے ہے۔ پس نئے جوڑوں کو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ شادیاں جو کسی مذہب کو ماننے والوں میں اور خاص طور پر اسلام کو ماننے والوں میں ہوتی ہیں، ایک مسلمان کے گھر میں جو شادی ہے یہ صرف دنیاوی سکون کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے، اس پر عمل کیا جائے اور آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہوئے نیک نسل پیدا ہونے کا آغاز کیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جہاں خاوندوں کو ان کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی بہت زیادہ تلقین فرمائی ہے، وہاں عورتوں کو بھی اپنے خاوندوں کا مطیع اور فرمانبردار ہونے کی باربار نصیحت فرمائی ہے۔ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات کی بابت حدیث میں بھی آیا ہے کہ جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے انکار کر دے تو فرشتے اس پر ساری رات لعنت بھیجتے ہیں۔(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق بَاب ذِكْرِ الْمَلَائِكَةِ) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺنے بظاہر مرد کی جنسی خواہش کے لیے بے صبری کی وجہ سے بیوی کو کسی جائز عذر کے بغیر انکار کرنے پر تنبیہ فرمائی ہے۔ لیکن جس طرح بیوی پر لازم ہے کہ وہ خاوند کے دیگر حقوق کے ساتھ اس کی جنسی ضرورت کو بھی پورا کرے اسی طرح خاوند کا بھی فرض ہے کہ وہ بیوی کی دیگر ضروریات کے ساتھ اس کے جنسی حقوق بھی ادا کرے۔لہٰذا اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کی خواہش پر بغیر کسی مجبوری کے اس کے جنسی حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح قابل گرفت ہو گا جس طرح ایک بیوی بغیر کسی جائز عذر کے اپنے خاوند کی جنسی خواہش کی تکمیل سے انکار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی مستوجب ہو تی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان بن مظعونؓ کی بیوی حضور ﷺکی ازواج کے پاس آئی۔ازواج مطہرات نے اس کی بُری حالت دیکھ کر اس سے دریافت کیا کہ اسے کیا ہوا ہے کیونکہ قریش میں اس کے خاوند سے زیادہ امیر آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ اس پر اس نے کہا کہ ہمیں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ میرے خاوند کا دن روزہ سے اور رات نماز پڑھتے گزرتی ہے۔ پھر جب حضورﷺاپنی ازواج کے پاس تشریف لائے تو ازواج مطہرات نے اس بات کا ذکر حضورﷺسے کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضورﷺ حضرت عثمان بن مظعونؓ سے ملے اور ان سے (ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے) فرمایا کہ کیا تمہارے لیے میری ذات اسوہ نہیں ہے؟ اس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ نے عرض کی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں بات کیا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا کہ تم رات نماز پڑھتے ہوئے اور دن روزہ رکھ کر گزار دیتے ہو، جبکہ تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے اور تیرے جسم کا بھی تم پر حق ہے۔لہٰذا نماز پڑھا کرو لیکن سویا بھی کرو اور کبھی روزہ رکھو اور کبھی چھوڑدیا کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد یہی عورت دوبارہ ازواج مطہرات کے پاس آئی تو اس نے خوب خوشبو لگائی ہوئی تھی اور دلہن کی طرح سجی سنوری ہوئی تھی۔ ازواج مطہرات نے اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واہ کیا بات ہے! جس پر اس نے بتایا کہ اب ہمیں بھی وہ سب میسر ہے جو باقی لوگوں کے پاس ہے۔ (مجمع الزوائد کتاب النکاح باب حق المرأة على الزوج) پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جائز عذر یا مجبوری کی بنا پر اس فعل سے انکار کی صورت میں کوئی فریق اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد نہیں بنتا۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺجب غزوہ تبوک پر تشریف لے گئے تو ایک صحابی جو سفر پر گئے ہوئے تھے، اور حضورﷺکے غزوہ کے لیے کوچ کر جانے کے بعد مدینہ واپس آئے۔ اور اپنی بیوی کی طرف پیار کرنے کے لیے بڑھے، تو بیوی نے یہ کہتے ہوئے انہیں پیچھے دھکیل دیا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ حضورﷺتو اس قدر گرمی میں دشمن سے جنگ کے لیے تشریف لے گئے ہیں اور تمہیں پیار کرنے کی اور میرے پاس آنے کی پڑی ہوئی ہے۔ (بحوالہ دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ ۳۴۴،۳۴۳ مطبوعہ ۱۹۴۸ء) پس اگر کوئی فریق کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے انکار کرتا ہے تو وہ کسی سزا کا مستوجب نہیں ہو گا۔ لیکن اگر کوئی خاوند یا بیوی دوسرے فریق کے قریب آ کر اس کے جذبات بھڑکانے کے بعد اسے تنگ کرنے کی غرض سے اس سے دُور ہو جاتا ہے تو یقیناً ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد ہو گا۔ سوال: یوکے سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ قرآن کریم میں زنا کی جو سزا بیان ہوئی ہے، کیا یہ سزا صرف شادی سے پہلے کے لیے ہے یا شادی کے دوران بھی اگر کوئی مرد یا عورت اپنے جیون ساتھی کے علاوہ کسی اور کے ساتھ زنا کرتا ہے تو اس کے لیے بھی یہی سزا ہے۔ نیز جس نے زنا کیا ہو اگر اسے اپنے گناہ کا احساس ہو گیا ہو تو کیا وہ یہ امید رکھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍ا کتوبر ۲۰۲۳ء میں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل راہنمائی عطا فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا: جواب: قرآن کریم میں جہاں زنا کی سزا بیان ہوئی ہےوہاں ایسی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی کہ یہ سزا شادی سے پہلے والے زنا کی ہے یا شادی کے بعد کیے جانے والے زنا کی ہے، بلکہ وہاں عمومی طور پر زنا کی سزا بیان ہوئی ہے کہ زانی مرد ہو یا عورت جب اس کا گناہ اسلام کی مقرر کردہ گواہی کی شرائط کے مطابق چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو جائے تو اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ زنا کی سزا کے بارہ میں فرماتے ہیں:جب کسی مرد اور عورت پر زنا کا الزام ثابت ہو جائے تو ان کی سزا یہ ہے کہ مرد کو بھی سوکوڑے مارے جائیں اور عورت کو بھی سو کوڑے مارے جائیں۔ (حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ ۲۰۰) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ النور کی آیت نمبر۳ کے حوالہ سے فرماتے ہیں:قرآن کریم کی اس آیت سے بالبداہت ثابت ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت کی سزا ایک سو کوڑے ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد ۸ صفحہ ۴۲۳، ایڈیشن۲۰۲۳ء) پس شادی شدہ انسان ہو یا غیر شادی شدہ جب زنا جیسی قبیح حرکت کا مرتکب ہو گا تو ہر دو صورتوں میں اس کی سزا سو کوڑے ہی ہے۔ لیکن یہ سزا ایسے عادی مجرم کے لیے ہے جو اس بُرائی میں اس طرح ملوث ہو چکا ہے کہ اس کے خلاف ایسے گواہ موجود ہیں جن کی گواہی کے لیے اسلام نے نہایت کڑی شرائط رکھی ہیں۔(سنن ابی داؤد کتاب الحدود بَاب فِي رَجْمِ الْيَهُودِيَّيْنِ) اور یا وہ اس برائی کو اس طرح کھلے عام کر رہا ہے کہ معاشرہ میں اس برائی کی اشاعت ہو رہی ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ النور کی آیت نمبر ۳ کے حوالہ سے اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:پس اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِي سے کامل زانی مراد ہے جو یا تو زنا کا عادی ہو یا اتنا نڈر ہو گیا ہو کہ وہ کھلے بندوں اس فعل کا ارتکاب کرتا ہو۔یا محصن یعنی شادی شدہ ہو یا بڈھا ہو اور پھر بھی وہ زنا کرتا ہو۔ ایسے تمام لوگوں کے متعلق قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ اُن کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سو سو کوڑے لگاؤ۔(تفسیر کبیر جلد ۸ صفحہ ۴۳۵، ایڈیشن۲۰۲۳ء) آپ کے دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث نبویہﷺ میں خدا تعالیٰ کی صفات رحمٰن ، رحیم، عفو، غفور، غافر اور التواب وغیرہ کے حوالے سے خدا تعالیٰ کی رحمت کا کثرت سے ذکر موجود ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف خالص توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ بعید نہیں کہ تمہارا ربّ تم سے تمہاری برائیاں دُورکردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ (التحریم:۹) اسی طرح آنحضورﷺ نے فرمایا کہ گناہ کر کے اس سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الزھد بَاب ذِكْرِ التَّوْبَةِ) حضرت عبادہ بن صامت ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے اپنے گرد موجود صحابہ سے فرمایا کہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے،کسی پر ایسا بہتان نہیں باندھو گےجسے تم نے دیدہ و دانستہ گھڑا ہو اور کسی نیکی کی بات میں نافرمانی نہیں کرو گے۔ پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو) پورا کرے گا، تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور دنیا میں اس کی سزا اسے مل جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہوجائے گی اور جو ان (بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور اللہ اس کی اس دنیا میں پردہ پوشی کردے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے، چاہے تو اس سے درگذر کرے اور چاہے تو اسے عذاب دے۔ (حضرت عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ) پس ہم سب نے حضور ﷺ کی ان باتوں پر بیعت کی۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان بَاب عَلَامَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ) پس جب اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کا مالک ہے، اپنے کمزور بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا رہتا ہے، تو میاں بیوی میں سے اگر کوئی فریق اس قسم کی برائی کا شکار ہو کر بعد میں تائب ہو جائے اور اسے اس گناہ سے سچی توبہ نصیب ہو جائے ، جس کی وجہ سے وہ دوبارہ کبھی اس برائی کی طرف مڑکر نہ جائے تو دوسرے فریق کو بھی اس توبہ کرنے والے فریق سے درگزر کر کے معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ مزید پڑھیں: شادی بیاہ میں استخارہ کی ضرورت و اہمیت