شادی بیاہ کا معاملہ انسانی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس ذریعہ سے ایک نسل کی ابتدا ہوتی ہے جس کا خاتمہ چند سال میں نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے اثرات نسل در نسل منتقل ہوتے جاتے ہیں۔ اس لیے اس معاملہ میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔دعاؤں اور استخارہ کی طرف خاص توجہ ہونی چاہیے۔ اگرتقویٰ پر قائم رہتے ہوئے تمام معاملات طے کیے جائیں اوراس رشتہ کے انجام بخیر ہونے کے لیے کثرت سے دعائیں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی نسلیں پروان چڑھیں گی جو ہدایت کی راہوں پر چلنے والی ہوں گی۔استخارہ کیا ہے؟ اِسْتِخَارَہ کسی ایسے اَمر کو کہا جاتا ہے جس کا تعلق اصول وعقائد کی بجائے زندگی کے عام معاملات سے ہو۔ایسے میں انسان نہایت تذلّل اور الحاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضورجھکتا اور اُس سے دعا ؤں کے ذریعہ مدد مانگتا ہے تاکہ پیش آمدہ اَمر کے بارہ میں صحیح فیصلے کی توفیق ملے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ استخارہ کے معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو مَیں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے …یہی استخارہ ہے۔ صرف نام کا فرق ہے۔ اسی کو سورۃ فاتحہ کہا جاتا ہے اور دوسرے وقت اسی کا نام استخارہ رکھا جاتا ہے۔ استخارہ کے معنی خیر مانگنا ہے اور اس خیر مانگنے کا طریق سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے۔ اس لیے استخارہ کرنا اور سورہ فاتحہ پڑھنا ایک ہی ہے۔فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے، مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔“ (خطبات محمود جلد۶صفحہ ۱۴-۱۵،فرمودہ ۱۸/جنوری ۱۹۱۸ء)استخارہ کی ضرورت واہمیت:حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الْاِسْتِخَارَۃَ فِی الْأُمُوْرِ کُلِّھَا کَالسُّوْرَۃِ مِنَ الْقُرْآنِ (صحیح البخاری کتاب الدعوات بَاب الدُّعَا عِنْدَ الْاِسْتِخَارَۃِ حدیث:۶۳۸۲) نبی ﷺ ہمیں تمام امور میں استخارہ اُسی طرح سکھایا کرتے تھے جیسا کہ قرآن کی سورت۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام استخارہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کردیاہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرمالیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا۔ چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم وفضل پر نازاں ہوکر کوئی کام شروع کرلیتے ہیں اور پھر نہاں در نہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اصل میں یہ استخارہ ان بدرسومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتداء سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اُسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقلِ سلیم عطا ہوتی ہے جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔“(ملفوظات جلد پنجم،صفحہ ۲۳۰،ایڈیشن ۲۰۰۳ء)استخارہ کیوں ضروری ہے؟حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”یہ بھی قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر انسان اسلام کے مطابق شادی کرے تو عام طور پر نتیجہ اچھا ہی نکلتا ہے۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسلام کے مطابق شادی کرنے کے بعد بھی کوئی خرابی پیدا ہوجائے یا وہ شادی جس کی بنیاد خراب ہو بعد میں اس کی اصلاح ہوجائے لیکن یہ ایسی مستثنیات ہیں جیسے بعض اوقات بیمار اچھے ہوجاتے ہیں اور تندرست مرجاتے ہیں۔ پس مسلمان کا فرض ہے کہ وہ صحیح راستہ پر چلنے کی کوشش کرے۔ شادی کے معاملہ میں اسلام نے جو چیز مقدم رکھی ہے وہ استخارہ ہے اور استخارہ اتنا کرنا چاہیے کہ کسی نہ کسی طرف دل فیصلہ کرلے اور پھر اس کے بعد بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے کیونکہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں شامل ہوجانے کے بعد بھی اَلْمغْضُوْبِ اور الضَّآلِّیْنَ میں مل جانے کا امکان ساتھ لگا رہتا ہے۔ اس لیے اس وقت تک دعائیں کرتے رہنا چاہئے جب تک یوم معلوم نہ آجائے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ مؤمن کے لیے ایک یوم معلوم ہوتا ہے جس دن اس کی بعثت روحانی ہوجاتی ہے اور اس پر شیطان کا تصرف بالکل نہیں رہتا لیکن جب تک وہ دن نہ آجائے متواتر دعاؤں میں لگا رہنا چاہئے۔“ (خطبہ نکاح فرمودہ ۱۶/جنوری ۱۹۳۰ء۔ خطبات محمود جلد سوم صفحہ۲۵۸)قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء سب سے بڑھ کر اُس کے حضورعاجزی اختیار کرنے والے، دعائیں مانگنے والے اور خیر کے طالب وجودتھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا قرآن کریم میں ان الفاظ میں مذکور ہے : رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص:۲۵) اے میرے ربّ! یقیناً مَیں ہر اچھی چیز کے لیے جو تُو میری طرف نازل کرے، ایک فقیر ہوں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:”چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے لیکن نہ صرف خشک ہونٹوں سے بلکہ چاہئے کہ تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہو کہ ہر ایک برکت آسمان سے ہی اُترتی ہے تم راست باز اُس وقت بنو گے جبکہ تم ایسے ہوجاؤ کہ ہر ایک کام کے وقت، ہر ایک مشکل کے وقت قبل اس کے جو تم کوئی تدبیر کرو اپنا دروازہ بند کرو اور خدا کے آستانہ پر گرو کہ ہمیں یہ مشکل پیش ہے اپنے فضل سے مشکل کشائی فرما تب روح القدس تمہاری مدد کرے گی اور غیب سے کوئی راہ تمہارے لئے کھولی جائے گی۔“(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۲۳)حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نکاح سے قبل دعا اور استخارہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”بڑے بڑے کاموں میں سے نکاح بھی ایک کام ہے۔ اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ بڑی قوم کا انسان ہو۔ حسب نسب میں اعلیٰ ہو۔ مال اس کے پاس بہت ہو۔ حکومت اور جلال ہو۔ خوبصورت اور جوان ہو۔ مگر ہمارے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ کوشش کیا کرو کہ دیندار انسان مل جاوے اور حقیقی علم،اخلاق، عادات اور دینداری سے آگاہ ہونا مشکل کام ہے،جلدی سے پتہ نہیں لگ سکتا اس لئے فرمایا کہ استخارہ ضرور کر لیا کرو۔“(خطبات نور صفحہ۲۵۴)کیا استخارہ کے بعد خواب کا آنا ضروری ہے؟ ایک مرتبہ حضور علیہ السلام کے ایک صحابی نے آپ سے مشورہ مانگا تو آپؑ نے فرمایا:”استخارہ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو وہ منظور کرلو۔“ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ۲۲۶۔ایڈیشن ۲۰۰۳ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”بعض لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خدا کی طرف سے انہیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو، لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد انہیں کوئی آواز آیا کرتی ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں ان سے روکا جاتا ہے۔ یہی بات استخارہ میں ہوتی ہے …اسی طرح وہ شخص جو لئے استخارہ کرتا ہے کہ مجھے خوابیں آئیں۔ وہ ایک بے ہودہ حرکت کرتا ہے اور ایسی خوابیں اس کے لیے کچھ بھی مفید نہیں ہوں گی … استخارہ کے لیے خوابوں کا آنا ضروری نہیں ہوتا بلکہ یہ تو دعا ہے۔ اس کے کرنے کے بعد جو خدا تعالیٰ دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہئیے۔ اگر خدا تعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کردے تو کرلیا جائے۔اور اگر قبض پیدا ہوتو نہ کیا جائے۔“ (خطبات محمود جلد ۶صفحہ ۱۵-۱۶فرمودہ ۱۸/جنوری ۱۹۱۸ء)بدقسمتی سے بعض لوگوں نے استخارہ جیسے اہم دینی مسئلہ کو کاروبار بنالیا ہے۔وہ استخارہ کرکے چند گھنٹوں میں اس کے بارہ میں بتا دیتے ہیں اور اپنی مرضی کی شادیاں بھی کروا دیتے ہیں حالانکہ خود اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں اور بار بار اُس کے سامنے جھکنا چاہیے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایسے لوگوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”بعض عورتیں اور مرد پانچ گھنٹے، چھ گھنٹے میں استخارہ کرکے جواب دے دیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے رشتے کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تمہارا قصور ہے ہمارا استخارہ ٹھیک تھا۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ خود دعائیں نہیں کرتے۔ خود توجہ نہیں۔ خود نمازوں کی پابندی نہیں اور ایسے لوگوں پر اندھا اعتقاد ہے جنہوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ احمدیوں کو اس قسم کی چیزوں سے خاص طور پر بچنا چاہیے۔“ (خطبات مسرور جلد۷صفحہ ۸۵خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳/فروری ۲۰۰۹ء)شادی بیاہ میں استخارہ کا طریق: رسول کریم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:اَلْأَرْوَاحُ جَنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْھَا ئَتَلَفَ وَمَا تَنَاکَرَ مِنْھَا اخْتَلَفَ (صحیح البخاری کتاب احادیث الأنبیاء بَاب۲:اَلْأَرْوَاحُ جَنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃحدیث:۳۳۳۶) روحیں بھی فوجیں ہیں جو الگ الگ دستہ بند ہیں۔ اس لیے ان میں سے جنہوں نے ایک دوسری کو پہچان لیا، ایک دوسری سے مانوس ہوگئیں۔ اس ارشاد کی روشنی میں رشتہ تلاش کرتے وقت شادی کی عمر کے بچوں بچیوں کو خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے خدا ہمیں ایسا جوڑا عطا فرمادے جو ہمارے لیے جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ ہوتاکہ اللہ تعالیٰ اس اہم معاملہ میں اُن کی مدداور راہنمائی فرمادے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ شادی بیاہ کے معاملے میں استخارہ کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”نکاح سے قبل استخارہ کرلینا چاہیے استخارہ دو قسم کا ہوتا ہے ایک استخارہ عام ہوتا ہے اور ایک استخارہ خاص۔ استخارہ عام پہلے کیا جاتا ہے اور استخارہ خاص بعد میں۔ مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پہلے ایک عورت کو پسند کرلیتے ہیں اور پھر استخارہ کرتے ہیں ایسے استخارہ میں عموماً خیال کا اثر پڑجاتا ہے اور وہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ استخارہ ٹھیک ہوا لیکن اگر ان کا رحجان نہ ہو تو وہ اپنے خیال کے ماتحت سمجھتے ہیں کہ استخارہ الٹ پڑ گیا حالانکہ استخارے سیدھے اور الٹ نہیں پڑتے بلکہ ان کا خیال سیدھا یا الٹ پڑتا ہے جس سے وہ غلط نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں۔ استخارہ عام یہ ہوتا ہے کہ قطع نظر کسی خاص شخصیت کے دعا کی جائے کہ اے خدا ہمارے لیے ایسا جوڑا مہیا فرما جوجُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ ہو۔دوسرا استخارہ خاص اس وقت کیا جائے جب اس کا موقع آئے اور نام لے کر استخارہ کیا جائے اس طرح استخارہ عام استخارہ خاص کا محافظ ہوجاتا ہے۔ بعض لوگ پہلا استخارہ کرلیتے ہیں مگر دوسرا نہیں کرتے اور بعض دوسرا کرتے ہیں اور پہلا نہیں کرتے۔ چاہیے کہ دونوں استخارے کئے جائیں اس صورت میں نتیجہ صحیح نکلتا ہے۔ اس طرح شادی کرنے سے سو میں سے ساٹھ فیصدی فائدہ ہوتو میرے نزدیک 90فیصدی کمی کو اولادیں پورا کردیں گی اور وہ دس فیصدی فائدہ نوے کی حفاظت کا ذریعہ ہوجائے گا۔“ (خطبات محمود جلد ۳صفحہ ۴۳۵۔خطبہ نکاح فرمودہ ۲۶/جولائی ۱۹۳۷ء)استخارہ کا طریق: طَلبِ خیر کی مناسبت سے یہ دعا ”صلوٰۃ الاستخارہ“ کہلاتی ہے۔دعاؤں کے بعد جب کسی رشتہ کی بات چل پڑے توخود بھی استخارہ کرنا چاہیے اورکسی بزرگ سے کروالیناچاہیے تاکہ انسان ہر شر اور نقصان سے محفوظ رہے۔استخارہ کا طریق یہ ہے کہ” رات سونے سے پہلے دو رکعت نفل پڑھے جائیں۔ سورہ فاتحہ کے علاوہ پہلی رکعت میں سورۃ کافرون اور دوسری میں سورہ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔ قعدہ میں تشہد،درود شریف اور ادعیہ مسنونہ کے بعد عجزوانکسار کے ساتھ مسنون دعا پڑھنی چاہیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ استخارے کا طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”مسلمان کا کوئی کام استخارہ کے بدوں نہیں ہونا چاہیے۔ کم ازکم بسم اللہ سے ضرور شروع ہو اور طریق استخارہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ پڑھی جائے۔ ایک دفعہ کم ازکم ورنہ سات دن تک عموماً صوفیاء نے چالیس دن رکھے ہیں۔ اس کی بہت برکات ہوتی ہیں جن کو ہر ایک شخص جس کو تجربہ نہ ہو نہیں سمجھ سکتا۔“ (خطبات محمود جلد سوم صفحہ ۹۲-۹۳خطبہ نکاح فرمودہ ۹/فروری ۱۹۲۱ء)خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ زندگی کے ہر معاملہ میں استخارے کی سنت جاری کرنی چاہیے لیکن شادی بیاہ جیسے اہم معاملے میں دعاؤں اور استخارے کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے تاکہ زندگی کے اس اہم موڑ پر اللہ تعالیٰ کی مدد اور استعانت شامل حال ہوجائے۔ ایک قدیم عربی محاورہ ہے:مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَہ، وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ، وَلَا عَالَ مَنِ اقْتَصد یعنی استخارہ کرنے والے کو ناکامی نہیں اور مشورہ کرنے والے کو ندامت نہیں اور جس نے میانہ روی اختیار کی اسے محتاجی نہیں۔ استخارہ ایسی بابرکت اور پاکیزہ راہ ہے جس میں خیر ہی خیر پنہاں ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے: مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا معاملہ سراسر خیر ہے اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لیے نہیں۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ (بھی) اس کے لیے خیر ہے۔(صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق بَاب: الْمُوْمِنُ اَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌحدیث:۵۳۰۴) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رضا کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ خیر ہی خیر ہمارا مقدر بنی رہے۔ آمین ثم آمین مزید پڑھیں:استخارہ کیا ہے؟