https://youtu.be/SQg1FmClHvg اردو شاعر ی کے اساتذہ میں سے ایک میر تقی میر ؔنے تو ’’صحبتِ میر‘‘ کی افادیت کو شعری ذوق رکھنے والوں کے لیے مذکورہ بالا مصرع میں امر کردیا ہے لیکن مجھ خوش نصیب کو ایک ربع صدی تک صرف ’’صحبتِ میر ‘‘ ہی نہیں، بلکہ ’’محبت ِمیر‘‘ بھی نصیب رہی۔ اس بے مثال وجود کو قریب سے دیکھنے، ان سے سیکھنے اور بہت کچھ سمیٹنے کا موقع ملا، ان بیش بہا لمحات میں سے کچھ یادیں میرصاحب کی محبت میں سپرد قلم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ (تصویر: نومبر ۲۰۱۸) ۱۹۹۰ء کی دہائی کے وسط میں مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں داخلہ ملا تو اپنے گھر واقع دارالرحمت سے سکول جاتے اور واپس آتے ہوئے جامعہ احمدیہ کے سامنے سے گزرنا روزمرہ کا معمول بن گیا، تب جامعہ کی بیرونی دیوار شائد محض چار فٹ بلندہوا کرتی تھی۔ ایک اوسط درجہ کا طالب علم راہ چلتے گرد وپیش کا کتنا گہرا مشاہدہ کرسکتا ہے، لیکن پھر بھی احاطہ جامعہ کا منظر، ماحول اور فضا میں ایک غیر محسوس اثر تھا جو دل کو بے اختیار اپنی طرف کھینچنے لگا،مثلا ًکبھی یہ دیکھنا کہ طلبہ جامعہ صبح سویرے ٹولیوں کی صورت میں مگر منظم اندازمیں ایک عمارت سے نکل کر دوسری کی طرف جارہے ہیں، ان کا سفید یونیفارم اور ہاتھ میں اٹھائی ہوئی ضخیم نصابی کتب۔ جو برسوں بعد پتا چلا کہ وہ بڑی تقطیع والی کتب حدیث تھیں۔ انہی انوکھے نظاروں کے پیدا کردہ سحراور لگاؤ اور تجسّس میں پانچ سال گزرے، لاشعوری طور پر دل و دماغ میں جامعہ کی محبت جاگزین ہوئی اور پھر ۱۹۹۹ء میں قسمت کی دیوی مہربان ہوئی، میری خاموش محبت رنگ لائی اور مجھ جیسے نالائق کو بھی اس مادر علمی نے اپنی آغوش میں لینا قبول کرلیا۔ انٹرویو کے لیے جامعہ کی عمارت میں قدم رکھا تو ایک ایسے بزرگ کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جنہیں اس سے پہلے یا تو ربوہ کی سڑکوں پر سائیکل کی ’’شہ سواری‘‘ کرتے دیکھا تھا۔وہی سائیکل جس کے سامنے نصب سبز رنگ کی بڑی سی مضبوط ٹوکری میں چھوٹی بڑی مجلد کتب اور رسالے دکھائی دیتے یا پھر ان بزرگ کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں نہایت رقت اور عاجزی سے جمعہ اداکرتے دیکھا تھا اورجو شخص بھی ان کے بالکل قریب نماز پڑھتا، وہ حدیث میں مذکور’’ہانڈی ابلنے کی آواز ‘‘کی کیفیت کو بآسانی سمجھ سکتا تھا۔ یہ وہی بزرگ شخصیت تھی جنہوں نے بعد ازاں ہمارے استاد، راہنما اور مربی بن کرہماری شخصیت سازی کا کٹھن مگر حسین فریضہ سرانجام دینا تھا۔ جب داخلہ کے مراحل مکمل ہوگئے تو پھر وہ سفر شروع ہوا جو ستمبر ۱۹۹۹ء سے اپریل ۲۰۲۵ء تک بخیریت جاری رہا۔میر صاحب نے صرف زبانی کلامی ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے دکھایا اور بتایا اور سکھایا کہ روزمرہ کے بنیادی ادب آداب سے لے کر اعلیٰ معیار کے حفظ مراتب کا پاس کتنا اہم ہے۔دینی و دنیاوی اخلاقیات، روحانیت کے زینے، کتب بینی کے قرینے، مفید علم کے ماخذوں تک رسائی اور مسلسل و اَن تھک کوشش کرتے چلے جانا کتنا ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہ ہی وہ سب خزانے ہیں جو ایک حقیقی استاد اپنے شاگردوں میں خاموشی اور مسلسل محنت و کوشش سے منتقل کرتا ہے۔ الغرض اس تعلیمی و تربیتی سفر میں ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ ہمارے میر صاحب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اچانک جھک کر، بے اختیار قرآن کریم کے اوراق میں کسی خاص آیت یا سطر کو چوم لیتے۔ تب وہ نکتہ معرفت سمجھ آیا کہ جو اولیاء نے لکھا ہے کہ محبت قرآن میں بعض اوقات قرآن کریم کے حروف کے گول گول دوائر انہیں زلف محبوب نظر آتے ہیں۔ دو دہائیوں کا طویل عرصہ میر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی، وہ ملاقات مسکراہٹ سے مزین ہوتی،خواہ سردی کا موسم تھا یا گرمی کی تپش، ان کی پیشانی پر بشاشت ہی دیکھی۔ تب جا کر صحیح معنوں میں سمجھ آیا کہ احادیث میں مذکوراپنے مسلمان بھائی سے مسکرا کر ملنے کا ارشاد کیسا قیمتی اور بالکل قابل عمل ہے۔ یوں ہمیں احادیث کی عملی تفسیراور مکمل اتباع اس مہربان استاد کی صورت میں دیکھنے کو ملی۔ ہمارے میر صاحب کی شفقت اور حقیقی عاجزی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ میرے غیر معمولی سادہ اور دیہاتی پس منظر کے باوجود مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کی ایک سمت اور طرزعمل دینے کے لیے اعتماد دیا، راہنمائی کی اور انگلی پکڑ کر چلایا۔ مثلاً موسمی اور دیگر تعطیلات کے دوران جب جامعہ کے اساتذہ اور طلبہ تو احاطہ جامعہ میں نہ ہوتے تھے مگر محترم میر صاحب اگر پاکستان میں ہی ہوتے تو اپنے وقت مقرر ہ پردفتر آکر کام شروع کردیتے۔ خاکسار کوجامعہ کی تعلیم کے قریباً سات سال ہی شعبہ سمعی بصری میں بھی خدمت کرنے کا موقع ملا، اس سلسلہ میں ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے پروگراموں کی ریکارڈنگ کے لیے وقت بے وقت احاطہ جامعہ جانا ہوتاتھا، ایسے کئی مواقع آئے کہ میں نے میر صاحب کو اکیلے کام میں منہمک دیکھا، قریب جا کر سلام کیا، تو انہوں نے نہ صرف اپنی میز پر موجود کسی کھانے کی چیز میں شامل کیا، بلکہ فرمانے لگے کہ تم مصروف تو ہوگے لیکن مجھے فلاں حدیث تلاش کردو، یا فلاں حوالہ اصل کتاب سے نکال دو۔ اب بھلا میر صاحب جو حیران کن یادداشت کے مالک شخص تھے چلتے پھرتے انسائیکلو پیڈیااور لغت دان تھے، ان کو مجھ سے حوالہ تلاش کروانے کی اس کے علاوہ اور کیا غرض یا فکرمندی ہوگی کہ میرا یہ نالائق شاگرد بھی حوالوں کے اصل ماخذوں تک رسائی کا عادی ہوجائے۔ علمی لحاظ سے میری پرورش اور حفاظت کے لیے فکرمند میرے میر صاحب نے ایک دفعہ مجھے سردی سے بچاؤ کے لیے نئی جرسی خرید کر دی۔سرما کے ساتھ ایک موسم گرما کی بات بھی یاد آگئی۔ درجہ ممہدہ کی بات ہے کہ ہوسٹل میں ایک رات ہمارے کمرے کا چھت کا پنکھا خراب ہوگیا۔اگلی صبح جامعہ جاکر درخواست جمع کروادی۔ اسی شام پنکھا بھی ٹھیک ہوگیا اور نگران صاحب شعبہ بجلی تسلی کرنے ہمارے کمرے تک تشریف بھی لائے۔ ان کو خلاف معمول ایسی فکرکرنے پر حیرت سے پوچھا تو بتانے لگے کہ محترم میر صاحب فکرمند تھے کہ میرے شاگرد کو بغیر پنکھے کے سونا پڑاہے، اس لیے میں بھی چیک کرنے خود چلا آیا ہوں۔ ہر چھوٹی بڑی چیز پرغیر محسوس طر یق پر نگاہ رکھنے والے میر صاحب درجہ رابعہ میں ایک دفعہ میرے سر کے بال مضحکہ خیز حد تک لمبے دیکھ کرنہایت شفقت سے قریب بلا کر رازداری سے فرمانے لگے کہ صرف نوجوانی کے شوق میں بال لمبے رکھے ہیں یا کوئی اور وجہ بھی ہے؟ میر صاحب نے اپنی قربت میں لانے کے لیے مجھے اپنی ذاتی گھڑی اور زیر استعمال قلم بھی دیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد سندھ سے آنے والے موسمی پھل کا تحفہ بھیجتے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے زیر استعمال برتنوں میں سے چائے کا ایک سیٹ دیا۔اللہ تعالیٰ میر صاحب کو بہت ہی جزادے۔ ایک دفعہ میں نے بیرون ملک سے واپسی پر ایک انگریزی اخباردوبارہ جاری کروانا تھا۔ میری درخواست پر دفتری عملہ نے اپنی مرضی کی رپورٹ پیش کردی مگرمیرے محترم میر صاحب کے یہ الفاظ ہمیشہ مجھے یاد رہیں گے کہ اخبار فوراً لگوادیں اگر دفتر کے بجٹ میں گنجائش نہ ہوتو میرے ذاتی خرچ سے جاری کروادیں۔ اللہ اللہ!خود بیماری اور کمزوری کی شدت سے بستر پرنیم دراز مگر مسلسل علم کی آبیاری کرنے والے اس بزرگ کی علم پروری محض دفتریت سے بہت آگے کی بات تھی۔ زمانہ طالب علمی کی بات ہے، ایک شام گرمیوں کی چھٹیوں میں مَیں احاطہ جامعہ میں موجود تھا تو گیٹ سے پیغام ملا کہ میر صاحب کے گھر ایک ہومیو دوائی فوری بھجوانی ہے۔ آپ چلے جائیں۔ میں سائیکل پر حاضر ہوگیا، تودوائی وصول کرکے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کا ارشاد فرمایا، چند منٹ بعد کہا کہ اب پانی پی لو، باہر گرمی ہے۔ جب میں جانے لگا تو فرمایا کہ یہ کرسی حضرت مصلح موعودؓ کے زیر استعمال رہی ہے، میں نے سوچا کہ اتنی گرمی میں آیا ہے، اس کو بھی تبرک سے حصہ مل جائے۔ میرصاحب کوکبھی اپنے مرتبہ اور عہدہ کو حجاب نہیں بناتے دیکھا، اس بے نفسی کی ایک جھلک تب دیکھنے کو ملی جب میری شادی کے موقع پر تشریف لائے۔ سٹیج پر ساتھ بیٹھے میرے والد صاحب سے اتنی محبت سے ملے اور پنجابی میں گفتگو کرتے رہے کہ والد صاحب خود حیران وپریشان ہوگئے، اوربعد میں دیر تک آبدیدہ رہے کہ میں ایک دیہاتی شخص اور عام کسان، اور میر صاحب جیسا انسان مجھ سے اتنی دیر باتیں کرتا رہا، کوئی فاصلہ نہ رکھا۔ ایک دفعہ میرے نانا جان میر صاحب سے ملنے جامعہ پہنچ گئے تو ان سے ابتدائی حال و احوال کے بعد ان کا واقعہ بیعت اور قادیان کے اسفار کے بارہ میں پوچھتے رہے، جزئیات کی تلاش میں بار بار پوچھا کہ آپ نے قادیان کا جلسہ تقسیم ملک سے پہلے کون کون سا دیکھا ہواہے۔ رہائش کہاں ہوتی تھی، وہاں کی یادیں، رہائش گاہیں، ماحول، موسم، سب پوچھتے چلے گئے اور گویا خوداپنی جنم بھومی ’’کرموں والی اُچی بستی‘‘کی اپنی یادوں کو تازہ کرنے لگے۔ ایک دفعہ بسلسلہ تعلیم خاکسار ملک سے باہر تھا۔ پاکستان میں میرے نومولود بیٹے کی وفات ہوگئی، اطلاع ملتے ہی محترم میر صاحب غم سے بھرے ہوئےناہموار اور کچی سڑک سے گزر کر مضافاتی محلہ میں واقع میرے گھر تشریف لے گئے، اہل خانہ کو تسلی دی، دعائیں الگ سے جاری رکھیں اور مجھے تشفی دینے والا ایک بہت ہی پیارا اور اپنائیت سے بھر پور خط بھیجا، اور قضاو قدر پر صبر کرنے کے غیرمعمولی اجر کا ذکر کیا۔ہمارے وہ میر صاحب جن کے بارہ میں مشہور رہا کہ وہ مصافحہ کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔بعد کے برسوں میں جب جب میں دیکھتا کہ وہ میرے معصوم بچوں کو بار ی باری کھینچ کر اپنے قریب کرکے ان کا منہ چوم رہےہیں تو یقین ہوگیا کہ میر صاحب کا ہر کام محض للہ تھا۔ میر صاحب اپنے دفتر میں کام کررہے ہوتے تو میں اجازت لے کر کبھی کبھی بچوں کو ملوا نے لے جاتا، مگر جب میں ملوا کر چلا آتا تو میرصاحب کے پاس بیٹھے ہوئے لوگ بتاتے کہ تمہارے جانے کے بعد بھی میر صاحب تمہارا ذکر کرتے رہے۔میری بیٹی نے قرآن کریم کا پہلا دور مکمل کیا تواپنے گھر بلا کر آمین کی تقریب کروائی۔ گذشتہ چند برسوں میں بیرون ملک جانے سے پہلے بھی میر صاحب سے مل کر روانہ ہوتا، اور واپس آکر بھی ملنے پہنچ جاتا تو پوچھتے کہ کتنے دن ہوئے ہیں واپس آئے ہوئے؟ اتنے دن سے ملنے نہیں آئے؟بچوں کے لیے کوئی تحفہ، پھل، بسکٹ حتٰی کہ کبھی اپنے میز پر موجود ٹافیاں ہی دے کر بھیجتے۔ ہمارے میر صاحب بظاہر کام سے کام رکھنے والے وجود تھے مگر اپنے ماحول سے یکسر غیر متعلق نہیں رہتے تھے۔ ایک دن صبح میں حسب عادت اسمبلی کے وقت سے کچھ پہلے جامعہ پہنچ گیا تو مجھے الگ بلا کر فرمایا کہ جاؤ اور فلاں گلی میں جاکر کھڑے ہوجانا۔وہاں تین نوجوان کھڑے ہیں اور ابھی لڑکیوں کے سکول جانے کا وقت ہور ہا ہے۔ دیکھنا کہ وہ بچیاں تنگ نہ ہوں۔ صرف وہاں موجود رہنا تا کہ لڑکے سمجھ جائیں اور راستہ چھوڑ دیں۔ اسی طرح ایک دفعہ صبح صبح بانو مارکیٹ میں ایک دکان میں اچانک آگ لگ گئی۔ میر صاحب خود سائیکل پر بروقت جامعہ پہنچ گئے مگر ہم طلبہ جامعہ میں سے جو جواسمبلی سے پہلے احاطہ میں نظر آتا اس کو فورا ً مدد کے لیے بھیجنے لگے۔ مجھے سفروں میں بھی میر صاحب کو بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سفر کے دوران آپ کی سب نمازیں وقت پرہوتی تھیں۔ موقع ہوتا تو کسی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرواکر نماز کا اہتمام کرتے۔ جتنی فکر اور مدد اپنے اہل خانہ کی کرتے، اسی طرح ڈرائیور کے بھی کھانے اور چائے کا اہتمام کرتے۔ مجھے کئی دفعہ ایسے میں نماز پڑھانے کا موقع ملا کہ میر صاحب مقتدی تھے۔ ایک دفعہ گھر میں بالجہر تلاوت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ تو امامت کا درست طریق سمجھایاکہ تلاوت کرتے ہوئے سورت فاتحہ میں ہر آیت کے بعد کتنا وقفہ کرنا مناسب ہوتا ہے کہ مقتدی بھی وہ آیت دہرا سکیں۔ میر صاحب کے ہر کام میں ترتیب، فکر، حکمت اور روحانیت کا پہلو غالب رہتا تھا اور نماز کی باجماعت ادائیگی کی فکر غیر معمولی طور پر زیادہ تھی، مثلاً: ایک دفعہ قادیان میں نماز عصر کے بعد محترمہ بی بی امۃالمتین صاحبہ کے ساتھ بہشتی مقبرہ جارہے تھے تو اپنا جائے نماز ساتھ اٹھایا ہوا تھا۔ ڈھاب کے پل کے پاس مجھے دیکھ کر پاس بلایا اور کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ ساتھ رہو، یہاں اچانک رش ہوجاتا ہے۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوگئی اور اندھیرا ہونے لگے تو تم بی بی صاحبہ کو واپس دارالمسیح میں ان کی رہائش گاہ تک چھوڑجانا اور میں سیدھا مسجد مبارک چلا جاؤں گا۔ کیونکہ اگر دیر ہوجائے تو ابتدائی صفوں میں جگہ نہیں ملتی۔ مجھے مذہبی علوم کے ماخذوں میں سے قرآن کریم کا ترجمہ اور تشریح مکمل اور متعدد بار جبکہ صحاح ستہ میں سے بعض کتب حدیث اور بائبل کے عہد نامہ قدیم اور جدید کی ایک کتاب محترم میر صاحب سے درساً اورسبقاً پڑھنےاور سمجھنے کا موقع ملا۔ اچھوتے اور بین السطور نکات کی کھوج لگانا، دوران مطالعہ فکر اور سوچ کی گہرائی کو بروئے کار لانا، تمام واجب الاحترام مذاہب، بزرگ ہستیوں اور صحائف کا کماحقہ ادب و احترام کرنا، ذاتی محبت و جوش سے مذہبی معرفت میں ترقی کرنا، ہر چھوٹے بڑے اعتراض کومضبوط دلیل سے رفع کرنا اور دینی امور میں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو اچھی طرح سمجھ کر حل کرنا میر صاحب کا خاصہ تھا۔ بلکہ ایک بات کو حل کرنے کے لیے دیگر زبانوں، علوم، دنیاوی معلومات کا کماحقہ استعمال میر صاحب کی پہچان تھی۔ وقت کی قدر کرنے والے ہمارے میر صاحب کہا کرتے تھے کہ پورا اور بڑا وقت تو نہیں بچتا، ہمیشہ وقت کے کونے بچالیا کرو۔ جن لوگوں نے میر صاحب کو دیکھا ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ لمبی لمبی دفتری چٹھیاں لکھنے کے عادی نہ تھے۔ کئی دفعہ دیکھا کہ لوگ میر صاحب کو ایک طویل سا نامہ بھیجتے، میر صاحب اسی ڈاک لانے والے کارکن کو روک لیتے، کھڑے کھڑے اس آمدہ خط کو کھول کر پڑھتے،اور اسی وقت قلم سے اسی کاغذ کے کسی خالی کونے میں اپنا جواب لکھ کر واپس روانہ کردیتے۔ جامعہ میں فون کی سہولت تھی، فون کی پہلی گھنٹی میر صاحب کے پاس دفتر میں بجتی، فوراً فون اٹھاتے۔ اگر کوئی معمول کی کال ہوتی جس نے دفتری عملہ سے با ت کرنی ہوتی تو زیر مطالعہ کتاب سے اپنی نظریں اٹھائے بغیرمیز پر نصب برقی گھنٹی بجادیتے تاکہ متعلقہ دفتری عملہ فون اٹھالے اورایک فون کال سننے کے باوجود میر صاحب کے مطالعہ میں خلل نہ آئے۔ میر صاحب کا طلبہ جامعہ کی نگرانی کا نظام بھی سب سے الگ،خاص اور حیران کن تھا۔ تب سارے شہر کا جمعہ مسجد اقصیٰ میں ہوا کرتا تھا، جہاں حاضری ہزاروں میں ہوتی تھی۔ ایک دفعہ شدید گرمی او رحبس کا بہانہ کرکے میں جمعہ کے لیے مسجد نہیں گیا اور ظہر پڑھ لی۔اگلی جمعرات کو ہی فرمانے لگے کہ تم نے جمعہ کی جگہ بدل لی ہے؟ جامعہ میں بیسیوں طلبہ اور اساتذہ کے معاملات دیکھنے، جامعہ کا انتظام، کلاسز کا جائزہ لینے سمیت کئی کام کرتے ہوئے میر صاحب کا مطالعہ جاری رہتا تھا۔ ایک دفعہ پوچھ ہی لیا کہ میرصاحب آپ عربی، انگریزی اور اردو کی مختلف موضوعات کی خشک بھی اور دلچسپ بھی، کتابیں اور رسالے ہر وقت زیر مطالعہ رکھتے ہیں، لیکن جب کوئی طالب علم درخواست لے کر آتا ہے تو آپ اس کی بات توجہ سے سنتے اور کوئی ہدایت لکھتے ہیں۔ اس سے مطالعہ میں خلل نہیں آتا؟ فرمانے لگے کہ یہ تو Blessing in Disguise ہے۔ اس طرح کسی کے آجانے سے مجھے کچھ آرام مل جاتا ہے اور تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں جب کہ راتیں کافی چھوٹی ہوتی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ میر صاحب چائے کے وقفہ کے دوران اپنی کرسی پر بیٹھے چائے نوشی کے ساتھ ساتھ اپنی متورم پنڈلیوں کو خود ہی سہلا رہے ہیں۔ میں نے پوچھ لیا کہ میر صاحب یہ کیا؟ مسکرا کر فرمانے لگے کہ خدا کی عبادت میں کھڑے ہوکر ایسی ہوئی ہیں مجھے اس درد میں بھی مزہ آتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں میر صاحب سے کلاس رومز میں قرآن کریم سے لے کر مختلف مذاہب اور زبانیں پڑھنے کی سعادت ملی۔ ہر مضمون کو پڑھانے کا میر صاحب کا انداز خاص تھا اور وسیع تجربہ کی روشنی میں تھا۔ مثلا ًاجنبی زبانوں کے حروف تہجی سکھاتے ہوئے بتایا کہ میں نے عبرانی اور یونانی سیکھتے ہوئے ہر حرف کا الگ الگ کارڈ بنا لیا تھا۔ اور ان کو میز پر بچھا کر ان کی شناسائی پختہ کرلی تھی۔ اسی طرح مختلف مشاہیر کے متعلق سب نے ہی پڑھ رکھا ہوگا کہ وہ اپنے دفتری خطوط اور مضامین مختلف کاتبوں کو بیک وقت لکھواتے تھے اور کسی ایک کا مضمون دوسرے سے گڈمڈ نہ ہوتا تھا۔ مثلاً حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ اپنے مطب کی اور دیگر تمام تر مصروفیات کے ساتھ ساتھ کاتب کو مضمون املا کرواتے جاتے تھے اور کچھ بھی متاثر نہ ہوتا تھا۔ میں نے خود مشاہدہ کیا کہ یہ صلاحیت بھی ہمارے میر صاحب میں حیران کن حد تک تھی۔ مثلاً درجہ ثالثہ میں ہمیں موازنہ مذاہب کے نوٹس لکھوا رہے تھے، تدوین بائبل کا موضوع تھااور صدیوں پر محیط واقعات تھے مگر ساتھ ساتھ جامعہ کا انتظام و انصرام، کارکنان کی آمد و رفت۔ محترم میر صاحب نے بغیر کوئی کاغذ سامنے رکھے،کئی دن تک مسلسل کلاس میں نوٹس لکھوائے اور کچھ بھی اِدھر اُدھر نہ ہوا۔ ہمارے میر صاحب ایک نہایت ہی بلند معیار شخص تھے، ایک دفعہ قرآن کریم کے لفظی ترجمہ میں سو میں سے ستانوے نمبرآنے پر مجھے خوش دیکھ کر فرمانے لگے کہ کل جب عملی زندگی میں جاؤ گے، تو کسی کویہ بتاپاؤ گے کہ میرے ترجمہ میں سو نمبر نہیں تھے؟ محترم میرصاحب کی دینی غیرت اور ایمانی جوش سے سب آگاہ ہیں۔ ایک دفعہ موسم سرما میں نصف شب کے قریب میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ دنیا کے ایک ملک میں ایک اخبار نے فلاں نامناسب امر شائع کیا ہے۔ اگلے دن میر صاحب سے ذکر کیا تو فرمانے لگے کہ یہ تو اس اخبار کی سخت غلطی اور ہتک ہے۔ اس کا مدلل ردّ بلاتاخیر بھیجا جانا چاہیے۔ تم فوراً اس کا مختصر جواب تیار کرنا شروع کرو بلکہ خود میر صاحب نے ہی جواب بتایا۔ اب جواب بھیجنے کا مرحلہ تھا۔ فرمانے لگے کہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ لاہورجاکر بھیجو۔ فورا ًچلے جاؤ اور جب جواب چلا جائے تو واپس آجانا۔ میں بس پر بیٹھ کر شام کے وقت لاہور پہنچا۔ جواب بھیجا اور واپسی کی بس تلاش کرنے لگا۔ خدا خدا کرکے نصف شب کے بعد شدید دھند میں ایک بس کے ذریعہ واپس پہنچ گیااور اگلی صبح رپورٹ پیش کردی کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر اعتراض کا جواب چلا گیا تھا۔ میری اس معمولی سی کارروائی پر خوش بھی ہوئے لیکن دنیاداروں کی طرف سے معزز ترین اور قابل احترام بزرگ ہستی کی ناقدر شناسی پر دل گرفتگی قائم تھی۔ میرصاحب کو طلبہ جامعہ کی فکری، عملی اور علمی تربیت کا اس درجہ احساس تھا کہ وہ کسی بھی صاحب علم و فن سے انہیں مستفید کروانے کا کوئی موقع کبھی ضائع نہ ہونے دیتے۔ میر صاحب کے غیر معمولی پس منظر کی وجہ سے دنیا بھر سے ڈاکٹرز، انجینئرز دیگر ماہرین فن اور بزرگان اور مبلغین ربوہ آتے تو میر صاحب سے بھی ملنا چاہتے، مگر میر صاحب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ایسے ذاتی مہمانوں کو جامعہ میں مدعو کریں تا کہ طلبہ کو فائدہ ہو۔ حضرت مرزاعبدالحق صاحب ایک دفعہ میرصاحب کے پاس ایک عزیز کی وفات پر تعزیت کرنے آئے تو ان کو بجائے اپنے دفتر میں اکیلے ملنے کے، جامعہ ہال میں انتظام کیا اور تمام طلبہ کو بھی بلا لیا تا مرزا عبدالحق صاحب کی قیمتی باتوں سے طلبہ جامعہ بھی فیض یاب ہوں۔ ابتدائی مبلغ سلسلہ مکرم مولوی محمد الدین صاحب جو ایک تبلیغی مہم پر جاتے ہوئے بحری حادثہ میں شہید ہوگئے تھے، ان کے صاحبزادے ایک دفعہ ہمارے میر صاحب سے ملنے آئے تومیر صاحب نہ صرف ان سے ملے بلکہ ہماری کلاس کو بھی اس مجلس میں شامل کرلیاتاکہ اس نڈرشہید مبلغ کی یادیں اور دعوت الی اللہ کے طریق اور کارنامے نئی نسل کے ذہنوں میں نقش ہو جائیں۔جاپان سے ایک احمدی دوست کی آمد پر بھی طلبہ کو سوال و جواب کا موقع دیا تاکہ اہلِ جاپان کی مثبت اقدار، سماجی اوصاف اور اخلاقی پہلوؤں سے واقفیت حاصل کی جا سکے۔ ایک اور موقع پر میر صاحب کے قریبی عزیز مصر کی سیاحت سے واپس آئے۔ انہوں نے سیناء کے پہاڑی سلسلے میں کوہ پیمائی کی تھی اوراپنے کیمرہ سے اس کی ایک ویڈیو بھی بنائی تھی۔ میر صاحب نے انہیں جامعہ میں مدعو کیا، لیکچر دلوایا، وہ ویڈیو دکھائی گئی اور پھر طلبہ کو سوال و جواب کا موقع بھی دیا تاکہ صرف کتابی علم ہی نہیں، مشاہدہ، تجسّس اور تجربہ بھی طلبہ کی سوچ کا حصہ بنے۔ ربع صدی پر مشتمل ان یادداشتوں کو سمیٹنا بھی ضروری ہے، کیونکہ صبح و شام یہ یادیں، باتیں اور قیمتی خزانے دل و دماغ میں اس شدت سے گردش کرتے ہیں کہ جیسے کوئی گراں بار امانت ہو، جسے لوٹانا اور بانٹنا لازم ہوچکا ہو۔ میر صاحب کی صحبت کو الفاظ میں بیان کرکے سمیٹنا آسان نہیں۔ ان کی زندگی گویا ایک چلتی پھرتی درس گاہ تھی۔ یقیناً ان کی براہ راست قربت میں وقت گزارنے والے اور بھی کئی خوش نصیب ہوں گے جو مجھ سے کہیں بہترانداز اور مقدار میں میر صاحب کا تذکرہ کریں گےاور ان کی عظمت کو دنیا کے سامنے لاسکیں گے۔ میں نے تو بس ایک نشست میں اس احسان کی نقشہ کشی کرنے کی کوشش کی ہے جو میر صاحب نے اپنے عمل، اپنے طرز زندگی، اپنے وقار اوراپنے حسین اور فطرتی انداز تربیت سےاپنے زیر اثر ماحول میں پیدا کیا اور پھیلایا۔ میرصاحب اُن باکمال انسانوں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف علم بانٹا بلکہ اپنے شاگردوں کے دلوں پر اپنے کردار کے نقوش بھی ثبت کیے۔ ان کے ساتھ بسر کیے گئے لمحات صرف یادیں نہیں، تربیت کے وہ نایاب خزانے ہیں جو زندگی بھر ساتھ رہیں گے۔ میر صاحب کا اپنے شاگردوں کو الگ بلا کر کسی امر کے لیے دعا کرنے کا کہنا بھی یقیناً میرے جیسے نالائق طالب علموں کو دعا کی حقیقت اور اہمیت بتانے اور سمجھانے کا ایک انداز تھا ورنہ دعا کا معنی و مفہوم، اس کی روح اور آداب ہمیں میر صاحب نے ہی خود سکھائے تھے۔ ایک موقع پرمجھے فرمانے لگے کہ دعا کرو کہ میں صحیح مسلم کا ترجمہ کررہا ہوں مجھے یہ مکمل کرنے کا موقع مل جائے۔ میں نے میر صاحب کی ہی دی ہوئی جرأت اور بےتکلفی کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ میر صاحب میں تو دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحاح ستّہ کا ترجمہ مکمل کرنے کی توفیق دے۔میری بات سن کر اپنے مخصوص انداز میں، بازوجھٹکتے ہوئے فرمانے لگے کہ جتنا کہا ہے اتنا کرو۔ میں نے کہا کہ میر صاحب! اب نہیں۔ ہم سب نے دیکھاہوا ہے کہ ہمارے میر صاحب کو موت کا تو شاید کوئی خوف تھا ہی نہیں بلکہ اگلے جہان حاضر ہوکر اپنے پیاروں کے قدموں میں حاضری کے لیے ہروقت تیار اور بےقرار رہتےتھے۔ یوں ۱۹۹۹ء میں سائیکل کی ’’شہ سواری‘‘ کرنے والےوہ بزرگ یعنی ہمارے میر صاحب جنہوں نے اپنی شاگردی میں لیا تھا، وہ اپریل ۲۰۲۵ء میں جب آخری دفعہ ملے تو وہیل چیئر پر تھے اور بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص میں اپنے پیاروں کے مزاروں پر بار ی باری، ہر ایک پر والہانہ انداز میں،دنیا و مافیہا سے ناطہ قریباً توڑے ہوئے، ایک خاص ربودگی کے عالم میں دعاؤں میں مصروف تھے۔ گرمی اور حبس سے بے پروا۔ عاجزی اور محبت کے پیکر۔ گویا اس آخری ملاقات اور کلاس میں بھی مجھ نالائق شاگرد کو ادب، اخلاص، دعا اور قرب الٰہی کا ایک آخری اور ضروری سبق دے کرمیرے میر صاحب وداع ہوگئے۔ افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی مزید پڑھیں: محرم ۔ قمری سال کاپہلامہینہ