تربیت کرتے وقت آپ کو بہت زیادہ درشتی اور سخت گیر ی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔اس سے لوگ جماعت سے دُور ہو جاتے ہیںکوشش کریں کہ انہیں جماعت کے قریب لائیں۔ نرم لہجے میں نصیحت کرنے کی کوشش کریں مورخہ۵؍جولائی ۲۰۲۵ء بروزہفتہ امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلسِ عاملہ برطانیہ اور ریجنل اُمراء کوبالمشافہ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد(ٹِلفورڈ) یو کے میں منعقد ہوئی ۔ جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نے السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔ ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا۔ جس کے بعد تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کی خدمت میں جماعتی خدمت کے حوالے سے اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ حضورِانور نے تمام اراکینِ مجلس عاملہ سے ان کی مفوّضہ ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو فرمائی نیز اس ضمن میں عہدیداران کی کارگزاری رپورٹ سے آگاہی حاصل کی اور مختلف امور پر انتہائی بیش قیمت اور بصیرت افروز راہنمائی سے نوازتے ہوئے ان کےمتعلقہ شعبہ جات کی بابت مختلف اہداف بھی متعیّن فرمائے۔ حضورِانور نے اظہارِ تبسم فرماتے ہوئے اکثر دیر تک کام کرنے والے ایک عاملہ ممبر سے ان کے کام کے اوقات کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس پر انہوں نے انتہائی ادب سےعرض کیا کہ وہ اب اپنے وقت کو بہتر طریقے سے منظم کر کے دن کے وقت زیادہ سے زیادہ کام مکمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت ایسے عاملہ ممبران کی صحت کے بارے میں بھی دریافت فرمایا کہ جو کچھ عرصہ سے علیل تھے۔ نائب امیر صاحب یوکے سے مخاطب ہوتے ہوئے حضورِانور نے ان کے سپرد جماعتی ذمہ داریوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔ تو اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ان کے ذمے شعبہ تربیت اور شعبہ امورِ خارجہ ہیں۔ شعبہ تربیت کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ گذشتہ سال یوکے بھر میں تربیت کے تحت Question and answer sessions کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جو کہ ان شاء اللہ رواں سال بھی جاری رکھا جائے گا۔ حضورِانور نے اس پر دریافت فرمایا کہ کیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہوا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا کہ اس کی فیڈ بیک بہت اچھا آیا ہے۔ جن لوگوں کے ذہن میں انٹرنیٹ پر دیکھ کے یا ویسے کچھ ایسے سوالات تھےجن کا اُن کو خیال تھا کہ جماعت کے پلیٹ فارم سے شاید جواب نہیں ملتا، تو امیر صاحب نے ان کے بالکل honest، صاف اور سیدھے جواب دیے، الحمد للہ۔ بہت سے سوال پوچھے گئے جن میں کچھ ایسے سوال بھی تھے کہ جو لوگوں کو لگتا تھا کہ شاید مناسب نہیں ہیں کہ پوچھے جائیں، لیکن امیر صاحب نے آپ کی ہدایت کے تحت تمام سوالوں کا تسلّی بخش جواب دیا اور جو مربیان ہمارے ساتھ تھے انہوں نے بھی اس سلسلے میں ہماری بہت مدد کی اور صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ بھی ساتھ شامل رہے۔ جنرل سیکرٹری سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی کتنی جماعتیں ہیں؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کے فضل سے اب جماعتوں کی تعداد ۱۵۱؍ ہو گئی ہے، جبکہ پچھلے سالوں میں یہ تعداد ۱۴۶؍تھی۔ حضورِانور نے جماعتوں کی سرگرمیوں کے بارے میں دریافت فرمایا کہ کتنیactive ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ الحمد لله! گذشتہ دو سال میں تمام جماعتیں رپورٹنگ کے اعتبار سے مکمل طور پر فعّال رہی ہیں۔ اس پرحضورانور نے مزید دریافت فرمایا کہ کام کرنے میں بھی یا صرف رپورٹنگ میں فعّال ہیں؟ اس پر عرض کیا گیا کہ جماعتیں اچھا کام بھی کر رہی ہیں اور گذشتہ سالوں میں سو فیصد رپورٹس موصول ہوتی رہی ہیں۔ حضورِانور کے اس سوال پر کہ کیا ان کوتبصرہ بھیجتے ہیں، موصوف نے عرض کیا کہ تقریباً نوّے فیصد کو فیڈبیک دیا جاتا ہے۔ نیز اب ان کی رپورٹس کی کوالٹی پر توجہ دی جارہی ہے کہ اسے بہتر بنایا جا سکے۔ حضورانور نے اس حوالے سے یہ بھی دریافت فرمایا کہ آپ نے کبھی اس کو چیک بھی کیا ہے کہ جو رپورٹیں آرہی ہیں آیا وہ صحیح بھی ہیں یا نہیں۔موصوف نے عرض کیا کہ اس مقصد کے لیے ہمارے پاسNRCS (National Reporting Communication System) الیکٹرانک سافٹ ویئر زیرِ استعمال ہے۔ اس پر حضورِانور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ یہ سافٹ ویئر ہے، اے آئی(Artificial Intelligence) کو کہو تو اپنے جھوٹے جواب دیتا رہے گا۔ اس میں کون سا بڑا مسئلہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خود جاکے دیکھنا چاہیے۔ سیکرٹری رشتہ ناطہ کو حضورِانور نےاس بات کی طرف توجہ دلائی کہ عموماً ایک غلط فہمی پائی جاتی ہےجس کے تحت یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ مربیان کو شادی سے متعلق کونسلنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ حضورِانور نے اس غلط تصور کی اصلاح کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ ان کے لیے بھی شادی سے متعلق کونسلنگ کا اہتمام ضروری ہے۔ نیشنل سیکرٹری صنعت و تجارت سے بات کرتے ہوئے حضورِانور نے احمدیوں کو تجارت کے شعبہ سے وابستہ ہونے میں مدد دینے کے حوالے سے راہنمائی عطا فرمائی۔ انہوں نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہم نے یوکے میں بے روز گار افراد کے لیے ایک سروے تیار کیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ کی ہدایت کے مطابق یہ سروے ان افراد کو کچھ نہ کچھ آمدنی حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ جس پرحضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کوچاہیے کہ زیادہ سے زیادہ احمدیوں کو تجارت کی طرف راغب کریں، بجائے اس کے کہ وہ ٹیکسی کا کاروبار کریں، ٹیکسی چلائیں یا اسی نوعیت کے کام کریں۔ سیکرٹری جائیداد سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ گذشتہ دہائی میں کتنی purpose-built مساجد تعمیر ہوئی ہیں؟ جس پر انہوں نے عرض کیا کہ ایسی مساجد کی تعداد چھ ہے۔ سیکرٹری تعلیم القرآن و وقفِ عارضی سے حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ وقفِ عارضی میں کتنے لوگ شامل ہوتے ہیں، جس پر انہوں نے عرض کیا کہ گذشتہ تین سالوں میں ایسے احباب کی تعداد ۴۶۳؍ رہی ہے۔ اس پر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ آپ کے سارے ملک کی عاملہ کی تعداد کتنی ہے؟ اس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کیا کہ ان کی کُل تعداد تقریباً ۲۵۰۰؍ کے قریب ہے۔یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے فرمایا کہ ابھی تو پھر one-fifth عاملہ بھی وقف عارضی نہیں کر رہی۔ نیز توجہ دلائی کہ مَیں نے کہا تھا کہ پہلے عاملہ کو وقف عارضی کروائیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ نیشنل عاملہ کا ایک راؤنڈ ہم نے مکمل کرلیا تھا اور اب دوبارہ شروع کیا ہوا ہے۔ اس پر حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ نیشنل عاملہ ہی نہیں بلکہ باقی جماعتوں کی عاملہ بھی ہیں۔آپ کا کم از کم ٹارگٹ ۲۵۰۰؍ ہوناچاہیے۔ مزید برآں حضورِانور نے موصوف سے انٹرنیشنل تعلیم القرآن اکیڈمی کے بارے میں بھی دریافت فرمایا جو دنیابھر کے احمدی مسلمانوں کو قرآنِ کریم سکھانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ اس ضمن میں جب حضورِانور نے مقامی اور بیرونِ ملک طلبہ کی تعداد کے بارے میں استفسار فرمایا تو عرض کیا گیا کہ یوکے سے چھ سو سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں جبکہ بیرونِ ملک انڈونیشیا، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور یورپ کے مختلف ممالک سے مجموعی طور پر تین ہزار سے زائد افراد فعّال طور پر شامل ہیں، جن میں لجنہ بھی شامل ہیں۔ اس پر حضورِانور نے مزید ہدایت فرمائی کہ آپ لوگ یہ ڈیٹا بھی اکٹھا کریں۔ تبشیر والے بھی یہ پتا کریں، کیونکہ بہت سارے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور یہ ذکر کرتے ہیں کہ وہ غیر احمدی مولویوں یا قاریوں سے قرآن پڑھوا رہے ہیں۔ حضورِانور نے یاد دہانی کروائی کہ جامعہ میں مَیں نے مربیان کو بھی کہا تھا کہ وہ پڑھایا کریں۔ اس حوالے سےحضورِانور نے خصوصی تاکید بھی فرمائی کہ ان کو اپنی ٹیم میں شامل کریں، ان سے رپورٹ لیں، مختلف جگہوں پر اپنی ٹیم خود بھی بنائیں اور پھرتبشیر کو بھیج دیں کہ باہر سے آپ کیا دیکھتے ہیں ا ور اندر سے کیا دیکھتے ہیں۔ [قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ حضورانور نےمورخہ ۴؍مئی ۲۰۲۵ء کو جامعہ احمدیہ یوکے، کینیڈا، جرمنی اور گھانا کی تقریب تقسیمِ اسناد سے خطاب کرتے ہوئےمربیان کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف تلقین فرمائی تھی۔ اس خطاب کے خلاصہ کے لیے ملاحظہ ہو روزنامہ الفضل انٹرنیشنل مطبوعہ مورخہ۸؍ مئی ۲۰۲۵ء] اس کے بعد ریجنل اُمراء کو بھی حضورِانور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا۔ بیت الفتوح ریجن کے امیر سے گفتگو کے دوران حضورِانور نے توجہ دلائی کہ مسجد بیت الفتوح میں جمعہ کی نماز میں حاضری کو بہتر ہونا چاہیے۔اس کے لیے ایک تجزیہ کیا جانا چاہیے تا کہ معلوم ہو سکے کہ کتنے افراد مسجد آسکتے ہیں مگر اس کے باوجود نہیں آتے تاکہ ان کو جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔ اس حوالے سے حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے ڈیٹا لیں کہ کتنے لوگ self-employed ہیں ، کتنے لوگ ہیں کہ جو مختلف جگہوں پر کام کرنے کے لیے جاتے ہیں اور وہاں جمعہ پڑھ رہے ہوتے ہیں یانہیں پڑھ رہے ہوتے اور جو self-employedہیں، ارد گرد رہتے ہیں اور وہ اس وقت میں چھٹی کر سکتے ہیں، سٹوڈنٹ وہاں کتنے ہیں؟ حضورِانور نے اسی سلسلے میں دریافت فرمایا کہ آپ کی بچوں سمیت چار ہزار سے اوپر تعداد ہے۔ اس کی تصدیق پر حضورِانور نے مزید ہدایت فرمائی کہ دیکھ لیں کہ کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں ایسے ہیں جو آ سکتے ہیں اور نہیں آتے۔پھر ان کا جائزہ لیں۔ مزید برآں حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں یہ بھی عرض کیا گیا کہ اس ریجن میں مسجد بیت الفتوح کے علاوہ پانچ سے چھ نماز سینٹرز بھی ہیں جہاں باقاعدگی سے نماز جمعہ ادا کی جاتی ہے۔ اس پر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ ان کی حاضری کا بھی مکمل جائزہ لے لیا کریں۔ حال ہی میں بننے والے ایک ریجنل امیر کو حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے ریجن کا تفصیلی اور جامع جائزہ لیں۔ سیکرٹری وقفِ جدید نے حضورِانور کی خدمت میں اپنے شعبہ کے حوالے سے رپورٹ پیش کی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سکیم میں شمولیت ہر سال بڑھ رہی ہے۔ اس پر حضورِانور نے تبصرہ فرمایا کہ بعض اوقات لجنہ اماءاللہ اس میں مردوں کی نسبت زیادہ مؤثر طور پر کام کرتی ہیں۔ سیکرٹری تحریکِ جدید کو حضورِانور کی جانب سے مسابقت فی الخیرات کی روشنی میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ گذشتہ سال کی نمایاں کارکردگی دکھانے والی جماعت ان سے کافی آگے ہے۔ ایک اَور نائب امیر یو کے سے گذشتہ سال جماعت احمدیہ یو کے کی جانب سے قائم کیے گئے ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حضورِانور نے فرمایا کہ انسٹیٹیوٹ ایک اہم اصطلاح ہے جس کے نام کو حقیقی معنوں میں درست ثابت کرنے کے لیے کافی محنت درکار ہوتی ہے۔ سیکرٹری تبلیغ نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ گذشتہ سال کے لیے مقرر کردہ بیعت کے ہدف کو حاصل کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح بتایاگیاکہ نومبائعین متنوع نسلی پسِ منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس پر حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ ہر داعی الی اللہ کو چاہیے کہ وہ کم ازکم ایک بیعت کا ہدف ضرور اپنے پیشِ نظر رکھے۔ سیکرٹری اشاعت نے اپنے شعبہ کی مساعی کے حوالے سے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ کتب کی فروخت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے، نیزآن لائن و آڈیو versions تک رسائی بڑھانے کے لیے لنکس اور بُک مارکس بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ حضورِانور کے نئے قرآنِ کریم کے پرنٹ کے متعلق استفسار پر انہوں نے عرض کیا کہ پچھلا ایڈیشن فروخت ہو چکا ہے اور بڑے سائز کے قرآن کریم کی نئی کھیپ موصول ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں قاعدہ یسّرنا القرآن کا نیا پرنٹ بھی تیار ہو گیا ہے۔ سیکرٹری امورِ عامہ سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ اس شعبہ نے کتنے افراد کو روزگار تلاش کرنے یا کاروبار میں مدد فراہم کی ہے؟ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ درجن بھر جاب لنکس جماعتوں کو بھیجے گئے ہیں۔ جب نتائج کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ مکمل ڈیٹا حاصل کرنا مشکل امر ہے۔ اس پر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ مقامی سیکرٹریان کو متحرک کریں تاکہ مؤثر انداز میں معلومات جمع کی جا سکیں۔ محاسب سے مخاطب ہوتے ہوئےحضورِ انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیکرٹری مال اور امیر صاحب کو tough timeدیا کریں۔ بایں ہمہ حضورِانور نے علیحدہ Procurement Committee کے قیام کی بھی ہدایت فرمائی۔ [قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ Procurement Committee (خریداری کمیٹی) ایک ایسی کمیٹی ہوتی ہے جو کسی ادارے، تنظیم یا جماعت کے لیے سامان یا دیگر اثاثہ جات کی خریداری کے عمل کی منصوبہ بندی، نگرانی اور منظوری کی ذمہ دار ہوتی ہے۔اس کمیٹی کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ خریداری کا عمل شفاف، منصفانہ، باقاعدہ اور مالی لحاظ سے مؤثر ہو تاکہ وسائل کا درست اور امانت دارانہ استعمال یقینی بنایا جا سکے۔] افسر جلسہ سالانہ سے حضورِانور نے آئندہ منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۵ء کی تیاریوں کے بارے میں دریافت فرمایا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ تیاریوں میں اچھی پیشرفت ہو رہی ہے اور عملی طور پر باضابطہ کام آئندہ پیر سے شروع ہو جائے گا۔ سیکرٹری سمعی و بصری نے بھی جلسہ سالانہ کے ساؤنڈ سسٹمز کی تیاریوں کو تسلّی بخش قرار دیا اور اپنی ٹیم کی جانب سے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عاجزانہ سلام کا تحفہ بھی پیش کیا۔ نَو منتخب سیکرٹری وقفِ نو کو حضورِانور نے جامع ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ وقفِ نَو کا ڈیٹا اکٹھا کریں کہ کُل کتنے واقفین ِنو ہیں، کتنے اس وقتjobs کر رہے ہیں، کتنے اس وقت جماعت کی خدمت کر رہے ہیں، کتنے اس وقت یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں، کتنے اس وقت A-Levelsکر رہے ہیں، کتنے GCSEsکر رہے ہیں اور کتنے پرائمری سکول جا رہے ہیں، کتنے infantsہیں اور کتنے سات سال سے نیچے ہیں۔ یہ ساری انفارمیشن ہونی چاہیے اور ان کےلیے پھر جو سلیبس بنایا ہوا ہے ، وہ ان کو دینا ہے اور پھر یہ دیکھنا ہے کہ کتنوں نے اس کو پڑھا ہے۔ کتنے parentsہیں جو صحیح طرح co-operateکرتے ہیں، کتنے parentsہیں جو نہیں کرتے اور کتنوں کی کیاdemandsہیں۔ مختلف جماعتوں کے کتنے سیکرٹریانِ وقفِ نَو ہیں جو تعاون کرنے والے ہیں اور واقعیactive ہیں، کتنے کام نہیں کر رہے تاکہ ان کو ہٹایا جائے۔ تو یہ ساری انفارمیشن لو۔ مزید برآں حضورِانور نے توجہ دلائی کہ تربیت کے لیے کیا طریقے اختیار کرنے ہیں، کس طرح ہم نے ان کو train کرنا ہے، ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق کس طرح جوڑنا ہے، قرآنِ کریم پڑھنے کی طرف توجہ کس طرح دلانی ہے، علاوہ سلیبس کے جماعت کے لٹریچر پڑھنے کی طرف توجہ دلانی ہے اور سلیبس آپ کا صرف اکیس سال کی عمر تک ہے اس کے اوپر آپ نے خود ان کے لیے prescribeکرنا ہے ۔ ایڈیشنل سیکرٹری مال نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ ان کو ابھی حال ہی میں یہ نئی ذمہ داری ملی ہے۔اس پر حضورِانور نے دریافت فرمایا کہ ایڈیشنل سیکرٹری مال کی کیا ذمہ داری ہے ؟جس پر انہوں نے عرض کیا کہ اس حوالے سےجو میری سمجھ ہےوہ یہ ہے کہ جو چندہ نہیں دے رہے یا شرح سے نہیں دے رہے، ان کی لسٹیں up-to-date رکھنااور ان کو motivate کرنا۔ حضورِانور نے مزید دریافت فرمایا کہ پھر پلان بنانا شروع کر دیا ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ ابھی ٹیم بنائی ہے، پلان بھی ان شاء اللہ بنے گا، ابھی جو امیر صاحب سے سرسری ہدایت ملی ہے وہ یہ ہے کہ جو نوجوان ہیں، جن کے کام شروع کرنے کی عمر بیس سے پچیس سال کے درمیان ہوتی ہے ان پر زیادہ توجہ کی جائے۔ اس پر حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ یہ تو آپ خود دیکھیں ۔ یہ تو آسانی کےلیے امیر صاحب نے آپ کو کہہ دیا ، اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے کے لیے، خود آپ نے پروگرام بنانا ہے۔ جوان آدمی ہو تو کچھ کریں۔ سیکرٹری نومبائعین کے حوالے سے حضورِانور نے اس تاکید کا اعادہ فرمایا کہ نومبائعین کی کلاسز کا انعقاد مربیان کی ذمہ داری ہے۔ حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ ان کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ سلسلہ باقاعدہ جاری ہے اور اگر ایسا نہ ہو رہا ہو تو مشنری انچارج صاحب سے تعاون حاصل کیا جائے۔ نظامِ وصیّت کے بارے میں حضورِانور نے فرمایا کہ اس کا مقصد صرف چندہ اکٹھا کرنا نہیں ہے بلکہ تربیت کے شعبہ کو چاہیے کہ موصیان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا بھی خاص اہتمام کرے۔ سیکرٹری وصایا کو حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ وصیّت کی درخواستیں غیر ضروری طور پر تاخیر کا شکار نہ ہوں اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اندر اندر نمٹائی جائیں۔ اگر مرکز سے تاخیر ہو رہی ہو تو متعلقہ مرکزی شعبہ کو یاد دہانی بھیجی جائے اور اس کی نقل وکالتِ مال کو بھی فراہم کی جائے۔ سیکرٹری زراعت کو حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ حدیقۃ المہدی میں سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جائے۔ ایک عاملہ ممبر سے جب بعض اعداد و شمار کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس معیّن اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، اس پر حضورِانور مسکرائے اور استفہامیہ انداز میں تبصرہ فرمایا کہ پھر ایسی صورت میں آپ ملاقات کے لیے کیوں تشریف لائےہیں؟ سیکرٹری تربیت کو حضورِانور نے فرمایا کہ تربیت کرتے وقت آپ کو بہت زیادہ درشتی اور سخت گیر ی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔اس سے لوگ جماعت سے دُور ہو جاتے ہیں۔ کوشش کریں کہ انہیں جماعت کے قریب لائیں۔ نرم لہجے میں نصیحت کرنے کی کوشش کریں۔جس پر انہوں نے مؤدبانہ انداز میں اس عزم کا اظہار کیا کہ جی ان شاء اللہ آئندہ مَیں ایسا ہی کروں گا۔ بعد ازاں حضورِانور نے ان سے دریافت فرمایا کہ مسجد میں باقاعدگی سے آنے والے لوگوں کی کیا تعداد ہے؟اس پر انہوں نے عرض کیا کہ اس معاملے میں بہت زیادہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے تبصرہ فرمایا کہ یہی چیز آپ کو بے چین کرتی ہے اور پھر آپ سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے عرض کیا کہ جی ہاں! آپ نے بالکل درست فرمایا ہےمَیں واقعی بہت زیادہ بے چین ہوں۔ اس پر حضورِانور نے نرمی اختیار کرنے کی تاکید کو دُہراتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ لیکن پھر بھی آپ کو نرم مزاج ہونا چاہیے۔کوشش کریں کہ نرمی سے سمجھائیں۔جس پر موصوف نے دوبارہ اس عزم کو اظہار کیا کہ جی ان شاء اللہ مَیں ایسا ہی کروں گا۔ ملاقات کے اختتام پر تمام شاملینِ مجلس کو حضورِانور کے ہمراہ گروپ فوٹو بنوانے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ ٭…٭…٭ مزید پڑھیں: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ ہالینڈ کی نیشنل مجلس عاملہ کی ملاقات