https://youtu.be/Swn7la_HSws شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا (راسخ عظیم آبادی) عظیم خانوادے اورعظیم باپ کا عظیم بیٹا،بے مثل مفکّرومدبر، مجتہد، محدث،اہل کتاب کے عقائد وتعلیمات کاگہرا علم رکھنے والا،رسول اللہؐ کاشیدائی، قرآن کاعاشق، عالم با عمل، نرم گفتار، مدلل اور شیریں بیان مدرس و مقرر۔ یہ اس خوبصورت اور خوب سیرت شخصیت کا ایک مختصر سا خاکہ ہے جس کا نام نامی سیّد میر محمود احمد ناصر ہے۔ محترم میر محمود صاحب کو طویل عرصہ تک اس گلشن کی نگہبانی وآبیاری کرنے اوراسے اپنے علم و عمل سے سینچنے کا موقع ملا جس میں چمن احمدیت کے مالی اور خدمت گذار تیار ہوتے ہیں۔ مبشرین ۱۹۹۴ء معلّم جہاںﷺ کا پاکیزہ فرمان ہے کہ إِنِ اسْتَطَعْتَ فَكُنْ عَالِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَكُنْ مُتَعَلِّمًا، وَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَأَحِبَّهُمْ۔(كتاب الجامع في بيان العلم و فضله لابن عبد البر بَابُ قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَالِمُ وَالْمُتَعَلِّمُ شَرِيكَانِ۔ رقم الحديث ۱۴۳۔ مکتبہ شاملہ) یعنی اگر تم استطاعت رکھتے ہوتو عالم بنو یا پھر طالب علم بنو اور اگر ان دونوں کاموں کی استطاعت نہ ہوتو کم از کم ان سے محبت رکھنے والے ضرور بنو۔ اکناف عالم میں پھیلی ہوئی مسیح محمدیؐ اور امام آخرالزمانؑ کی جماعت میں ہزاروں ایسے مبلغین، مربیان کرام اور واقفین موجود ہیں جنہیں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے اور آپ کے حلقۂ درس میں بیٹھنے کی سعادت ملی اور سینکڑوں ایسے ہوں گے جو آنے والے ماہ و سال میں آپ کی سیرت پر لکھنا اپنے لیے باعث سعادت و افتخار سمجھیں گے۔ انہی خوش نصیبوں میں ایک یہ عاجز بھی ہے جو ان کی رحلت کے بعد چند الفاظ قلم بند کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔ محترم میر صاحب کی جانفشانی،محنت،لگن،نظم وضبط، حوصلہ افزائی،تعریف و توصیف،مشفقانہ رویّہ اور ہمہ وقت سرگرم عمل رہنا ذہن پر نقش ہے اور آج جب ہم اپنے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو دل و دماغ احسان مندانہ انداز میں اپنی حقیر کامیابیوں کا سہرا اپنے ان اساتذہ کو پہنانے کےلیے بےتاب ہوجاتا ہے۔ مولاکریم نے آپ کو تعلیم و تربیت کے انمول اصولوں سے نوازاہوا تھا۔جیسے مخاطب کی نفسیات کو سمجھنا،اس کی ذہنی استعداد و صلاحیت کے مطابق مناسب محل و موقع پر تربیت کرنا، اپنے مخاطبین کو سیکھتے وقت آسانیاں فراہم کرنا اور مثالوں کے ذریعہ ذہن نشین کروانا محترم میر صاحب کا خاص طریقہ ٔتربیت رہا۔ ایک ذمہ دار معلم یہ بات بخوبی جانتا ہےکہ اس کی تدریس ایک امانت کے سوا کچھ نہیں۔ایسی امانت جس کی پاسداری کے ذریعہ وہ ملت کی کشتی کا ملاح بن کر اس کو کنارے پہنچانے والا ایک ذمہ دار شخص ہے جواپنی کشتی کے سارے مسافروں کو منزل تک پہنچانے کےلیے بےچین اور فکر مند رہتا ہے۔ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے ابھی چند دن ہوئے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا خاکسار نے شیو کروائی ہوئی تھی، محترم میر صاحب کی نظر پڑی تو طلب فرمایا۔ داڑھی کدھر ہے؟ عرض کی ابھی پوری نہیں آئی۔ فرمانے لگے ایک بال بھی ہوتو داڑھی رکھنی ہے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خاکسار نے کبھی شیو نہیں کروائی۔ ہمیشہ فرماتے تھے ایک واقف زندگی کا وقت اور صحت دونوں جماعت کی امانت ہیں اس لیے وقت کابہترین استعمال اور اپنی صحت کی حفاظت دونوں آپ کا فرض ہیں۔ جامعہ کے پہلے سال جب موسم خنک ہوا تو ایک صبح اسمبلی کے بعد خاکسار سے پوچھا سویٹر کیوں نہیں پہنا؟ عرض کی کہ گرم کپڑے گھر سے لانے والے ہیں۔ فرمانے لگے چھٹی کے بعد دفتر آنا۔ حسب ہدایت جب خاکسار دفتر میں داخل ہوا تو ایک لفافہ دیا اور کہنے لگے فوراً سویٹر خرید کر پہنو۔ ایک بار ہماری کلاس میں تشریف لائے اور طلبہ سے مختلف سوالات کیے۔ ایک دوست کا طرز عمل دیکھ کر اسے نصیحتاً فرمایا: إذا كان الغراب دليل قوم سيهديهم الي سبيل الهالكين۔ اس ساتھی نے اس بات کو دل پر لیا اور شدید صدمے کا شکار ہو گیا، اور اسی حالت میں اسے بخار بھی ہوگیا۔ اگلے دن خاکسار نے دفتر میں جا کر ساری صورتحال محترم میر صاحب کے گوش گذار کی۔ فوراً کاغذ لے کر اس پر لکھا کہ ’’اس طرح کی بات میں اپنے بیٹوں سے بھی کر لیتا ہوں اور آپ کو بھی اپنا بچہ سمجھ کر میں نے یہ الفاظ کہے تھے۔ ‘‘ ساتھ فرمایا اسے فوراً ہسپتال لے کر جاؤ، چیک کرواکے دوائی لے کر دو اور واپس آکر مجھے بتاؤ۔چنانچہ خاکسار نے من و عن ارشاد کی تعمیل کی۔ اسی طرح ایک دفعہ اچانک کلاس میں تشریف لائےاور مختلف علمی سوالات کیے۔ خاکسار کو کھڑا کرکے پوچھا کہ وَلَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ (اور زیادہ لینے کی خاطر احسان نہ کیا کر۔) کا لفظی ترجمہ بتائیں جو بفضلہ خدا خاکسار نے درست بتانے کی توفیق پائی۔ایک دفعہ خاکسار کو خلافت لائبریری جاکر انجیل برنباس کے کچھ حوالے لانے کا ارشاد فرمایا تو میں نے عرض کی کہ مشکل کام ہے، فوراً کہنے لگے مربی کے لیے کوئی کام مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنے کام سے عشق تھا۔ اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کے لیے جُہد مسلسل میں مصروف رہتے۔ علم کی محبت اور تحقیق کی جستجو آپ کے اوصاف کا حصہ تھی۔ موسم کا چاہے کوئی مزاج ہو آپ بلا ناغہ وقت پر اپنی سائیکل پر سوار فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیے پہنچ جاتے۔اکثر شام کو بھی دفتر تشریف لاتے۔ ایک دن فرمانے لگے کہ کئی دن سے پانی کا ذائقہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا، میرا خیال تھا کہ پانی کی ٹینکی کی صفائی ہونے والی ہے۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ مجھے بخار ہے اور میری زبان کا ذائقہ ٹھیک نہیں۔ انتہائی وسیع القلب انسان تھے۔ جامعہ احمدیہ کی سالانہ پکنک کے موقعہ پر طلبہ کی طرف سے کی گئی باتوں کو بہت پیار سے سنتے اورلطف اندوز ہوتے۔ کبھی کسی قسم کی خفگی کا اظہار نہیں کیا۔ ۱۹۹۲ء کی سالانہ پکنک ربوہ کے قریب یکو والی نہر پر منائی گئی۔ اس دن ہمیں محترم میر صاحب کے ساتھ ساتھ سائیکل پر وہاں جانے کا موقع ملا۔ خاکسار سائیکل چلا رہا تھا اور عزیز دوست کاشف عمران صاحب پیچھے براجمان تھے، انہوں نے چلتے سائیکل پر میر صاحب کی تصویر بنائی جو آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔ کچھ طلبہ نہر میں نہانے اور کھیل کود میں مصروف تھے باقی ادھراُدھر خوش گپیوں میں وقت گزار رہے تھے۔چند لڑکوں نے ان ساتھیوں کو جو ابھی تک پانی میں نہیں گئے تھے پکڑ پکڑ کر نہر میں پھینکے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اساتذہ کرام اور پرنسپل صاحب ایک طرف دریوں پر بیٹھے تھے۔ ایک طالب علم کو میں نے دیکھا کہ وہ پانی سے بچنے کے لیے اساتذہ کرام کے قریب جاکر بیٹھ گیا، مگر ’’تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘‘۔ کچھ دیر بعد وہ لڑکے اس طالب علم تک پہنچ گئے۔ موصوف نے ان کی دسترس سے بچنے کے لیے فوراً میر صاحب سے مدد کی درخواست کی مگر آپ نے فرمایا، نہیں آج تو ان کا دن ہے۔ مادرعلمی میں ہمارا آخری امتحان شروع ہونے والا تھا۔ پہلی صبح تمام طلبہ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے، محترم میر صاحب کمرہ امتحان میں داخل ہوئے اور کلام ربانی سے یہ آیت تلاوت کی:وَلَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا۔(النحل:۹۳) اور اس عورت کی طرح مت بنو جس نے اپنے کاتے ہوئے سُوت کو مضبوط ہوجانے کے بعد پارہ پارہ کر دیا) ۔پھر گویا ہوئے کہ اس مقام پر پہنچ کر کوئی ایسی حرکت یا عمل نہ کرنا جس سے آپ کی تمام محنت اکارت جائے۔ ان کی یہ نصیحت آج بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ مبشر کے امتحان کے بعد ہماری کلاس جامعہ کی دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف تھی۔مگر روزانہ ایک پیریڈ ہم محترم میر صاحب کے دفتر جاکر انہیں ترجمہ قرآن سناتے۔استاذی المکرم خلیل احمد تنویر صاحب(مولاکریم انہیں ہمیشہ شاد آباد رکھے) نے ہمیں بہت توجہ اور محنت سے ترجمہ قرآن سکھا یا تھا، جس کے زیر اثر تمام ساتھی بہت عمدہ طریق سے ایک ایک رکوع پڑھتے جاتے اور کبھی لفظی اور کبھی بامحاورہ ترجمہ کرتے جاتے۔ محترم پرنسپل صاحب نے متعدد بار جو فقرہ دہرایا وہ آج بھی سرمایہ حیات ہے کہ ’’آپ کی کلاس سے ترجمہ قرآن سن کر مجھے بہت بشاشت ہوتی ہے۔آپ کی کلاس کا ترجمہ قرآن بہت عمدہ ہے۔ ‘‘ ہر صبح اسمبلی میں ایک طالب علم قرآن مجید کا ایک رکوع تلاوت کرکے اس کا ترجمہ پیش کرتا۔ ایک دن ہمارا ایک ساتھی تلاوت میں مصروف تھا کہ محترم پرنسپل صاحب تشریف لے آئے۔ اس نے ترجمہ ختم کیا تو میر صاحب نے شاباش دی،ساتھ ہی از راہ تفنن کہا کہ ترجمہ دیکھ کر تو نہیں پڑھا۔ اس نے جواباً کہا آپ کے آنے کے بعد مجھے عربی عبارت ہی نظر نہیں آرہی تھی ترجمہ کیا دیکھنا تھا۔ جامعہ کے آخری ایام میں ہماری کلاس نے ہائیکنگ کا پروگرام بنایا اور ہم اجازت کے حصول کے لیے پرنسپل صاحب کے دفتر کی جانب چلے۔ جانے سے پہلے ساتھیوں نے مجھے کہا کہ آپ نے بات شروع کرنی ہے۔ ہم اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے تو آنے کا مقصد پوچھا۔ میں نے عرض کی کہ پہلی گذارش تو یہ ہے کہ ہمیں دودھ پلائیں۔ بلا تأ مل فرمانے لگے ضرور۔ فوراً کاغذ پکڑا اور امیر علی صاحب کے نام لکھا کہ انہیں حسب ضرورت دودھ دے دیں۔ پھر ہم نے اپنا مدعا بیان کیا اور آپ نے نہ صرف اس کی اجازت عنایت فرمائی بلکہ سفر کے لیے کچھ خرچ کا بھی انتظام کروایا، اور اس مہربانی کے طفیل ہم اس دن گرم گرم دودھ سے بھی لطف اندوز ہوئے اور بعد میں ہمیںکشمیر کی وادیٔ نیلم کی سیاحت کا موقع ملا۔ توفیق ایزدی سے خاکسار کو ۲۰۰۵ء میں پہلی بار جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت کی سعادت ملی۔ جلسہ کے بعد محمودہال میں محترم صابر ظفر صاحب کے ساتھ ایک شعری نشست کا اہتمام کیا گیا۔خا کسار کو اس تقریب میں سٹیج کے بالکل سامنے بیٹھنے کی توفیق ملی۔ محترم میر صاحب میرِ مجلس تھے۔آپ نے تعارفی کلمات میں فرمایا:’’اصلی اور حقیقی شاعری پرسوز جذبات کا لطیف، موزوں اور منظوم رنگ میں بیان ہے۔ اور احمدیہ شاعری ان معنوں میں حقیقی شاعری ہے۔‘‘ تقریباًنصف گھنٹے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس مجلس میں رونق افروز ہوئے۔ محترم میر صاحب فوراً سٹیج سے اتر کر حضور انور کے قدموں میں بیٹھ گئے، حضور نے ارشاد فرمایا،میر صاحب اوپر آجائیں۔ عرض کی حضور یہیں رہنے دیں۔ حضور نے پھر فرمایا اوپر بیٹھیں۔ میر صاحب نے پھر نہایت عقیدت سے کہا حضور میں یہیں ٹھیک ہوں۔ تیسری بار حکم ہونے پر آپ انتہائی احترام کے ساتھ سمٹ کر حضور انور کے دائیں جانب بیٹھ گئے۔ اس روز ہم سب کو نصف گھنٹے سے زائد امام ہمام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معیت میں بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ سالہا سال ہمیں مسجد مبارک میں محترم میر محمود صاحب کا درس حدیث سننے کی توفیق ملی۔ آپ کی زبان و بیان میں اتنی سلاست اورروانی تھی کہ سامعین ہمہ تن گوش ہوتے اور اس میں اتنا کھو جاتے کہ دنیا و مافیہا سے بےخبر ہوجاتے۔ رب کریم نے سلطان القلم کے اس عاشق کو تحریر کا بےپناہ ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اور آپ نے ٹھوس، حقیقی، مدلل ومفصّل علم و معرفت سے مزین سینکڑوں مضامین داعیان الی اللہ اور واقفین کے لیے یاد گار چھوڑے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر جب بھی کرتے اور اکثر کرتے تو کیف و سرور کی عجب کیفیت آپ پر طاری ہو جاتی۔ روحانی تعلق کے ساتھ ساتھ آپ کو ان کی دامادی کا شرف بھی حاصل تھا۔ اپنی اہلیہ محترمہ کا ذکر بہت احترم سے کرتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مصلح موعود کی بیٹی ہے۔ ایم ٹی اے پر موجود آپ کی بیسیوں ویڈیوز اور جماعت کے مختلف رسائل و جرائد میں شائع شدہ تحقیق و تدقیق سے مزین سینکڑوں صفحات پر مشتمل تحریرات عملی زندگی میں قدم رکھنے والے افراد، مسلسل غور و فکر کرنے والے اور علمی مذاق رکھنے والوں کے لیے ہمیشہ زاد راہ کا کام دیں گی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را مزید پڑھیں: محرم ۔ قمری سال کاپہلامہینہ