https://youtu.be/3CsxdstUFJ8 (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۵؍اگست ۲۰۰۳ء) وَ اِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَہَا وَ تَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (الانفال: ۶۲) دنیا میں سب سے زیادہ توکل اللہ تعالیٰ انبیاء میں پیدا کرتاہے اور ان کو خود تسلی دیتاہے کہ تم فکر نہ کرو مَیں ہر معاملے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ کوئی دشمن تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔مَیں سننے اور دیکھنے والاہوں اگر دشمن نے غلط نظر سے دیکھنے کی کوشش کی یا کوئی سازش کرنے کی کوشش کی تو مَیں جو ہر بات کا علم رکھنے والا اور تیری دعاؤں کو سننے والاہو ں خوداس کا علاج کرلوں گا۔ اور اس طرح باقی روزمرہ کے معاملات میں بھی انبیاء کا توکل بہت بڑھا ہوا ہوتاہے کیونکہ وہ اس یقین پر قائم ہوتے ہیں کہ خدا ہر قدم پر ان کے ساتھ ہے، ہر معاملے میں ان کے ساتھ ہے اور پھر اسی طرح روحانی مدارج اور مقام کے لحاظ سے توکل کے معیار آگے مومنین میں قائم ہو تے چلے جاتے ہیں تو جو آیت ابھی مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے : اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائیں تو تُو بھی اُس کے لئے جُھک جا اور اللہ پر توکل کر۔ یقیناً وہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔ تفسیر روح المعانی میں علامہ شہاب الدین آلوسی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ’’ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ سے یہ مرادہے کہ اپنا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپردکردے اور اس امر سے خائف نہ ہو۔اگر وہ تیرے لئے اپنے بازو سلامتی کے لئے جھکائیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے بازو مکراور سازشوں سے لپٹے ہوئے ہوں ۔ اِنَّہٗ سے مراد اللہ جل شانہ ہے۔ ھُوَالسَّمِیْعُ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دھوکہ دہی کی ان تمام باتوں کو جو وہ علیحدگیوں میں کرتے ہیں سنتاہے۔ الْعَلِیْمُ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں کو بھی جانتاہے۔پس وہ ان سے ایسا مواخذہ کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور ان کی تدابیر کو ان پر الٹا دے گا۔ (تفسیر روح المعانی جلد ۶ صفحہ ۲۷) تو یہاں اس سے ایک بات تو یہ بھی واضح ہوگئی کہ اسلام پر جو یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ یہ جنگجو قسم کا مذہب ہے، اس اعتراض کو بھی یہاں دُور کردیا گیاہے۔کہ اگر دشمن اپنی کمزوری کی وجہ سے یا کسی چال کی وجہ سے صلح کرنا چاہے تو تم بھی اللہ کی خاطر صلح کرلو۔ کیونکہ اسلام کا تو مقصد ہی امن قائم کرنا ہے۔پھر یہ نہیں ہوگا کہ ان کو مفتوح کرکے یا مسلمان بنانے کے بعد ہی صلح کی بنیاد ڈالنی ہے بلکہ اگر ان کی طرف سے صلح کا ہاتھ بڑھتاہے تُو بھی صلح کا ہاتھ بڑھا، مسلمانوں کو یہی حکم ہے۔ پھر یہ نہیں سوچنا کہ دشمن چال چل رہاہے اوراس وقت چاہتاہے تاکہ اپنی طاقت اکٹھی کرے اور پھر جنگ کے سامان میسر آئیں اورپھر حملہ کرے۔تو یہ بات اس سے واضح ہوگئی، ظاہر ہوگیا کہ مسلمان اس زمانہ میں بھی صرف اپنے آپ کو بچانے کے لئے جنگ لڑ رہے تھے۔تو اب جب دشمن صلح کی طرف ہاتھ بڑھاتاہے تو قطع نظر اس کے کہ اس کا اپنا طاقت جمع کرکے دوبارہ حملہ کرنے کا امکان پیدا ہو سکتاہے تم صلح کرو اور اللہ پر توکّل کرو خدا خود سنبھال لے گا۔ تو ایک تو یہ بھی اس سے ردّ ہوا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیت کے پہلے حصے کی تشریح کرتے ہوئے یعنی اگر وہ صلح کریں تو تم بھی صلح کرلو۔ فرماتے ہیں کہ اصل میں مومن کو بھی تبلیغ دین میں حفظ مراتب کا خیال رکھناچاہئے۔جہا ں نرمی کا موقع ہو وہاں سختی اور درشتی نہ کرے اور جہاں بجز سختی کرنے کے کام ہوتا نظر نہ آوے وہاں نرمی کرنا بھی گناہ ہے۔ ایک جگہ اس ضمن میں آپ نے فرمایا ہے کہ باوجود فرعون کے سخت کفر کے حضرت موسیٰؑ کو اس سے نرمی سے بات کرنے کا حکم تھا۔ تو دعوت الی اللہ میں بھی یہ اصول ہر احمدی کو مدنظر رکھناچاہئے۔یہ تو مختصراً مَیں نے ذکرکیا توکل کے بارہ میں اور اس آیت کی مختصر تفسیر میں کہ دشمن کے ساتھ اگر معاملہ پڑے تو کیا طریق اختیار کرنا چاہئے اور پھرمعاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑنا چاہئے اور اسی پر توکّل کرنا چاہئے۔ لیکن روز مرہ کے معاملات میں بھی توکّل علی اللہ کی بہت ضرورت ہے۔اور اللہ تعالیٰ پر توکّل تبھی پیدا ہوتاہے جب خدا کی ذات پر اس کی طاقتوں پر کامل یقین پیدا ہو۔ جیساکہ اس آیت میں جو مَیں ابھی پڑھتاہوں اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ (سورۃ الانفال :۳)ترجمہ اس کا یہ ہے کہ مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اُس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر ہی توکل کرتے ہیں ۔ توکّل کی اعلیٰ ترین مثالیں توحضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے ہی رقم فرمائی ہیں اورکیوں نہ ہو،آپ ہی تو انسان کامل تھے۔ اور ساتھ ہی امت کو بھی سبق دے دیا کہ میری پیروی کرو گے، خداسے دل لگاؤ گے، اس کی ذات پر ایمان اور یقین پیدا کرو گے تو تمہیں بھی ضائع نہیں کرے گا۔ اور اپنے پر توکّل کرنے کے نتیجہ میں وہ تمہیں بھی اپنے حصار عافیت میں لے لے گا۔ آنحضرت ﷺ کے توکل کے بارہ میں بعض احادیث میں یہاں بیان کرتاہوں ۔ یہ بچپن سے ہم سنتے آرہے ہیں لیکن جب بھی پڑھیں ایمان میں ایک نئی تازگی پیدا ہوتی ہے اور ایمان مزید بڑھتاہے۔ وہ واقعہ یاد کریں جب سفر طائف سے واپسی پر رسول اللہ نے کچھ روز نخلہ میں قیام فرمایا۔ زید بن حارثہؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اب آپ مکہ میں کیسے داخل ہوں گے جبکہ وہ آپ کو نکال چکے ہیں ۔ رسول اللہﷺنے کس شان سے، توکل سے جواب دیا کہ اے زید !تم دیکھوگے کہ اللہ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ اپنے دین کا مدد گارہے۔وہ اپنے نبی کو غالب کرکے رہے گا۔ چنانچہ نبی کریم ؐنے سرداران قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپ کواپنی پناہ میں لے کر مکہ میں داخل کرنے کا انتظام کریں ۔ کئی سرداروں نے انکار کردیا بالآخر مکہ کے ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا۔ پھر آخر کار جب مظالم حد سے زیادہ بڑھ گئے اورمکہ سے ہجرت کا وقت آیا تو کمال وقار سے آپ ؐنے وہاں سے ہجرت فرمائی۔ غار میں پناہ کے وقت دشمن جب سر پر آ ن پہنچاتو پھربھی کس شان سے اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے اس کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے آ پ نے فرمایا۔حضرت ابوبکر ؓاس بارہ میں روایت کرتے ہیں کہ مَیں رسول کریم ﷺکے ساتھ غار میں تھا۔مَیں نے اپنا سراٹھا کر نظر کی توتعاقب کرنے والوں کے پاؤں دیکھے۔اس پر مَیں نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اگر کوئی نظر نیچے کرے گا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپؐ نے فرمایا : چپ اے ابوبکر!ہم دو ہیں اور ہمارے ساتھ تیسرا خداہے۔ تو یہ ہے وہ توکل کا اعلیٰ معیار جو صر ف اور صرف رسول کریم ﷺکی زندگی میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ اور پھر آپ دیکھیں جب غار سے نکل کر سفر شروع کیا توکیا شان استغناتھی اورکس قدر اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل تھا۔ حضرت ابوبکر ؓکی روایت ہے کہ سفر ہجرت کے دوران جب سراقہ گھوڑے پر سوار تعاقب کرتے ہوئے ہمارے قریب پہنچ گیا تو مَیں نے عرض کیا یارسول اللہ !اب تو پکڑنے والے بالکل سر پر آ پہنچے اور مَیں اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کی خاطر فکر مند ہوں ۔ آپ ؐنے فرمایا !لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔چنانچہ اسی وقت آپ کی دعاسے سراقہ کا گھوڑا زمین میں دھنس گیااور وہ آپ کی خدمت میں امان کا طالب ہوا۔ اس وقت آپ ؐنے سراقہ کے حق میں یہ عظیم الشان پیشگوئی فرمائی کہ سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔ اور یہ پیشگوئی بھی بڑی شان سے بعد میں پوری ہوئی۔ مزید پڑھیں: جھوٹ سے بچنے کی تلقین