جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ فَاَجۡرُہٗ عَلَی اللّٰہِ (الشورٰی: ۴۱) یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن اگر کوئی عفو کرے مگر وہ عفو بے محل نہ ہو بلکہ اس عفو سے اصلاح مقصود ہو تواس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔مثلاً اگر چور کو چھوڑ دیا جائے تو وہ دلیر ہو کر ڈاکہ زنی کرے گا اس کو سزا ہی دینی چاہیے۔لیکن اگر دو نوکر ہوں اور ایک ان میں سے ایسا ہو کہ ذرا سی چشم نمائی ہی اس کو شرمندہ کر دیتی ہے اور اس کی اصلاح کا موجب ہوتی ہے تو اس کو سخت سزا مناسب نہیں مگر دوسرا عمداً شرارت کرتا ہے اس کو عفو کریں تو بگڑتا ہے اس کو سزا ہی دی جاوے تو بتاؤ کہ مناسب حکم وہ ہے جو قرآن حکیم نے دیا ہے یا وہ جو انجیل پیش کرتی ہے؟قانون قدرت کیا چاہتا ہے؟ وہ تقسیم اور رویت محل چاہتا ہے۔یہ تعلیم کہ عفو سے اصلاح مد نظر ہو ایسی تعلیم ہے جس کی نظیر نہیں اور اسی پر آخر متمدّن انسان کو چلنا پڑتا ہے اور یہی تعلیم ہے جس پر عمل کرنے سے انسان میں قوت اجتہاد اور تدبر اور فراست بڑھتی ہے۔گویا یوں کہا گیا ہے کہ ہر طرح کی شہادت سے دیکھو اور فراست سے غور کرو۔اگر عفو سے فائدہ ہو تو معاف کرو لیکن اگر خبیث اور شریر ہے تو پھر جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا پر عمل کرو۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ ۴۵۰، ۴۵۱، ایڈیشن ۲۰۲۲ء) بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جو کی گئی لیکن جو شخص عفو کرے اور گناہ بخش دے اور اس عفو سے کوئی اصلاح پیدا ہوتی ہو نہ کوئی خرابی تو خدا اس سے راضی ہے اور اُسے اُس کا بدلہ دے گا۔ پس قرآن کے رُو سے نہ ہریک جگہ انتقام محمود ہے اور نہ ہر یک جگہ عفو قابل تعریف ہے بلکہ محل شناسی کرنی چاہیے اور چاہیے کہ انتقام اور عفو کی سیرت بپابندی محل اور مصلحت ہو نہ بے قیدی کے رنگ میں یہی قرآن کا مطلب ہے۔ (کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۰) مزید پڑھیں: کامل متقیوں اور کامل مومنوں کی چار علامتیں