اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرقان حمیدمیں فرماتاہے: اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌحُرُمٌ ؕذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ۬ۙ (سورة التوبہ: ۳۶)یقیناًاللہ کےنزدیک،جب سےاس نےآسمانوں اورزمین کوپیداکیاہے،اللہ کی کتاب میں مہینوں کی گنتی بارہ مہینےہی ہے۔اُن میں سےچارحرمت والےہیں۔یہی قائم رہنے والا اور قائم رکھنے والا دین ہے۔قمری کیلنڈر،جیساکہ اس کےنام سے ظاہرہے اس کاآغازنئےچاندکی رویت سےہوتاہے۔قمری مہینےانتیس یا تیس دن کے ہوتے ہیں اس حساب سےقمری سال تین سو چوّن دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس نظام کا انحصارچونکہ چاند پر ہوتا ہےاسی لیے اسے قمری نظام تقویم کہا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ نےاس کائنات کوایک بہترین اندازےکےتحت،حق کےساتھ تخلیق کیاہے،جس کاحساب سےخاص تعلق ہے۔زمانہ قدیم میں لوگ اپنےسفروں کاآغازاورسمتوں کاتعیین چاند،سورج،سیاروں اورستاروں کی مددسےکیاکرتےتھے۔قرآن کریم میں مختلف مقامات پرچاند کےحوالےسے وقت کی تَعیُّن کاذکرفرمایاہےمثلاً: یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَالۡحَجِّ ؕ (البقرۃ:۱۹۰)وہ تجھ سے پہلی تین رات کے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ یہ لوگوں کے لیے اوقات کی تعیین کا ذریعہ ہیں اور حج (کی تعیین) کا بھی۔ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الشَّمۡسَ ضِیَآءً وَّالۡقَمَرَ نُوۡرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعۡلَمُوۡا عَدَدَ السِّنِیۡنَ وَالۡحِسَابَ ؕ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَاِلَّا بِالۡحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ(یونس:۶)وہی ہے جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ بنایا اور چاند کو نور، اور اس کے لیے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب سیکھ لو۔ اللہ نے یہ (سب کچھ) پیدا نہیں کیا مگر حق کے ساتھ۔ وہ آیات کو ایک ایسی قوم کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ہمارےمذہب اسلام نےہمیں ہرہرموقعہ کی مناسبت سےدعائیں سکھائی ہے تاکہ ہمارےکاموں میں برکت پڑےاورہمارے کاموں کا خداکےفضل سےآغازاورانجام بخیر ہو۔اللہ تعالیٰ نےہمیں کسی نئی جگہ یانئےدَورمیں داخل ہونےپر یہ دعاسکھائی ہے: رَبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّاَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّاجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا (بنی اسرائیل:۸۱)اے میرے ربّ! مجھے اس طرح داخل کر کہ میرا داخل ہونا سچائی کے ساتھ ہو اور مجھے اس طرح نکال کہ میرا نکلنا سچائی کے ساتھ ہو اور اپنی جناب سے میرے لیے طاقتور مددگار عطا کر۔آنحضرتﷺنےاس دعاکوخاص نصرت الٰہی کی دعاکےنام سےیادفرمایاہے۔ نئےسال میں داخل ہونےکی دعاکےبارےمیں حضرت عبداللہ بن ہشام ؓسےروایت ہےکہ نئے سال یامہینہ کی آمدپرصحابہ کرام ؓایک دوسرےکویہ دعاسکھاتےتھے: اللَّهُمَّ اَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْاِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمَنِ، وَجِوَارٍ مِّنَ الشَّيْطَانِ۔ (طبرانی،المعجم الاوسط)اےاللہ اس (نئےسال) کو ہمارے لیے امن وایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ اور رحمٰن کی رضامندی اور شیطان کےبچاؤ کے ساتھ داخل فرما۔اسلامی کیلنڈریاقمری سال جیساکہ اس کےنام سےہی ظاہرہے،کاآغازنئے چاندسےہوتاہےاس لیےنئےچاندکودیکھ کریہ دعاپڑھنی چاہیے: اللَّهُمَّ اَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْاِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللّٰهُاے اللہ ! اس چاند کو امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ ہم پر طلوع فرما، (اے چاند) میرااورتیرا رب اللہ ہے۔(الجامع الترمذی، باب ما یقول عند رؤیۃ الھلال، رقم الحدیث3451)محرم: محرم الحرام میں جنگ و جدل کوحرام قرار دیا گیا ہے اس لیے اس کو محرم کہتے ہیں۔ محرم اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے کیونکہ اللہ نے ہی ان مہینوں کے نام اور دنوں کا تعین کیا اور یہ ابتدائے تخلیق سے شروع ہوئے۔ محرم کامہینہ قرآن کریم میں بیان فرمودہ حرمت و تعظیم والے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے اس کی حرمت کوقائم فرمایاہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا : سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے اور اس میں چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم جبکہ چوتھا رجب ہے جو جمادی اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب التفسیر باب قولہ ان عدة الشھور)عاشورہ کےدن روزہ رکھنےکابیانحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےروایت ہےآپؓ بیان فرماتی ہیں کہ قریش جاہلیت میں عاشورہ(دسویں محرم) کاروزہ رکھتے تھےاوررسول اللہ ﷺبھی یہ روزہ رکھتےتھےاورجب آپؐ نےمدینہ کی طرف ہجرت فرمائی توآپؐ نےاس دن کاروزہ رکھااوراس روزےکےرکھنےکاحکم دیا۔جب رمضان کامہینہ فرض ہواتوآپؐ نےفرمایاجوچاہےیہ روزہ رکھےجوچاہےنہ رکھے۔ایک اورروایت کےشروع میں یہ ذکرنہیں کہ رسول اللہ ﷺیہ روزہ رکھاکرتےتھےاوراس روایت کےآخرمیں ہےکہ آپؐ نےعاشورہ(کاروزہ)رکھناچھوڑدیا۔جبکہ اس روایت میں فَمَنْ شَاءَصَامَہُ وَمَنْ شَاءَتَرَکَہُ کےالفاظ کوجریر کی روایت کی طرح نبی ﷺ کاقول قرارنہیں دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الصیام،حدیث:۱۸۸۳)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسےہی ایک اورروایت ہےکہ عاشورہ کےدن جاہلیت میں روزہ رکھاجاتاتھا۔پھرجب اسلام آگیاتوجوچاہتایہ روزہ رکھتااورجوچاہتااِسے چھوڑدیتا۔(صحیح مسلم، کتاب الصیام، حدیث:۱۸۸۴)حضرت مسیح موعودؑفرماتےہیں :”یہ محرم کا مہینہ بڑا مبارک مہینہ ہے۔ ترمذی میں اس کی فضیلت کی نسبت آنحضرت ﷺ سے یہ حدیث لکھی ہےکہ فيه یَوْمٌ تَابَ اللّٰہ فيه عَلیٰ قومٍ ويتوبُ فيه عَلیٰ قومٍ اٰخرين یعنی محرم میں ایک ایسا دن ہے جس میں خدا نے گذشتہ زمانے میں ایک قوم کو بلا سے نجات دی تھی اور مقدر ہے کہ ایسا ہی اس مہینہ میں ایک بلا سے ایک اور قوم کو نجات ملے گی۔ کیا تعجب کہ اس بلا سے طاعون مراد ہو اور خدا کے مامور کی اطاعت کرکے وہ بلا ملک سے جاتی رہے۔ (دافع البلا ء،روحانی خزائن جلد ۱۸،صفحہ ۲۲۳،حاشیہ)ماہ محرم کےاہم تاریخی واقعات میں عام الفیل کا مشہور واقعہ بھی شامل ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ابا بیلوں کے لشکر سے خانہ کعبہ پر حملہ کر نےوالوں کو تباہ کر دیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر سورة الفیل میں آیا ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتےہیں:”درحقیقت یہ اسی سال کاواقعہ ہےجس سال رسول کریم ﷺپیداہوئےتھے(مجمع البیان زیرآیت ھذا)…یہ واقعہ محرم میں ہواتھاجواسلامی سال کاپہلامہینہ ہےاوررسول کریم ﷺکی پیدائش اسی سال ربیع الاوّل میں ہوئی تھی(شرح مواھب اللدنیۃالزرقانی،عام الفیل وقصۃ ابرھۃ)آگےکچھ پیدائش کی تاریخوں کےمتعلق اختلاف ہےاورکچھ محرم کی تاریخوں کےمتعلق اختلاف ہے۔“ (تفسیر کبیرجلد۱۴،صفحہ ۳۰۲-۳۰۱)محرم اورحضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دلخراش والمناک واقعہمحرم ۶۱ ہجری میں سانحہ کربلا ہوا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اَنْدوہ ناک سانحہ پیش آیا۔حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارےنبی کریم ﷺکےنواسےتھےاورآپﷺ کوبہت عزیزتھے۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مَنْ اَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ اَحَبَّنِي، وَمَنْ اَبْغَضَهُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِي۔ جس نے حسن اور حسین سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمة، باب فضل الحسن و الحسین، حدیث نمبر۱۴۳)حضرت امام حسنؓ اور امام حسین ؓ کےبارےمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جنت کے جوانوں کے سردار ہوں گے۔ (المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ و من مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول اللّٰہﷺ حدیث:۴۸۴۰) اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کےلیے یہ دعا بھی اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مَیں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔(سنن الترمذی،کتاب المناقب، باب ۱۰۴حدیث:۳۷۸۲)عراق کےشہرکوفہ میں جیسےحضرت علیؓ نےدارالخلافہ بنایاتھا امیرمعاویہ کی وفات کےبعدیزیدنےلوگوں سےزبردستی بیعت لینی شروع کی اورحضرت امام حسینؓ سےبھی کہا کہ یزید کی بیعت کریں۔آپؓ نےحق کاساتھ دیتے ہوئےایساکرنےسےانکارکیا۔جس پریزیدکےساتھیوں (کوفیوں) نےحضرت امام حسین ؓ اورآپؓ کےساتھیوں پربےانتہامظالم ڈھائے اورآپ رضی اللہ عنہ کو۱۰/محرم کومیدان ِکربلامیں نہایت بےدردی سےشہیدکردیا۔حضورانورایدہ ا للہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےنواسہرسولﷺ کی شہادت کےدردناک واقعہ کاذکرخطبہ جمعہ ۱۰/دسمبر۲۰۱۰ءمیں کرتے ہوئے فرمایا:”یہ مہینہ یعنی محرّم کا مہینہ جس کے پہلے عشرے سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں آج سے چودہ سوسال پہلے دس تاریخ کو ظالموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیارے کو شہید کیا تھا جس کی داستان سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان ظالموں کو یہ خیال نہ آیا کہ کس ہستی پر ہم تلوار اٹھانے جا رہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا جب ایمان مفقود ہو جائے تو پھر سب جذبات اور احساسات مٹ جاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا خوف ختم ہو جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس بندے کا خدا تعالیٰ کی نظر میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کیا مقام ہے؟ حضرت امام حسین ؓرضی اللہ عنہ شہادت کس طرح ہوئی اور اس کے بعد آپ کی نعشِ مبارک سے کیا سلوک کیا گیا؟ یہ واقعہ سُن کر انسان اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ شاید ظاہر میں تو وہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوں لیکن حقیقت میں انہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسانی قدروں کو قائم فرمانے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگوں کے بھی کچھ اصول و ضوابط بتائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآنِ کریم میں دشمنوں کے لیے انصاف اور حد اعتدال میں رہنے کی تلقین فرمائی۔ اور دشمن بھی ایسے دشمن جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ ان سے بھی جنگ کی صورت میں ان کے قتل ہوجانے پر عربوں کے رواج کے مطابق جو مُثلہ اور لاشوں کی بے حرمتی کا رواج تھا، اس سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم،کتاب الجہاد و السیر باب تامیر الامام الامراء علی البعوث…حدیث نمبر۴۵۲۲)…آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان تمام بد عادات اور روایات کو ختم کرنے آئے تھے جن سے انسانی قدریں پامال ہوتی ہیں۔ آپؐ نے تو کفار سے بھی عفو اور نرمی کا سلوک فرمایا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول کے پیارے نواسے جس کے لیے آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تُو بھی اس سے محبت کرنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو میرے ان نواسوں سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے جنت میں جائے گا اور اسی طرح ناپسندیدگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے گا۔(ماخوذ ازالمستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ و من مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول اللّٰہﷺ حدیث:۴۸۳۸)…روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے لشکر پر دشمنوں نے غلبہ پا لیا تو آپؓ نے (حضرت امام حسین نے) اپنے گھوڑے کا رُخ فرات کی طرف (دریا کی طرف) کیا۔ ایک شخص نے کہا کہ ندی اور ان کے درمیان حائل ہو جاؤ۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور دریا تک نہ جانے دیا۔ اُس شخص نے آپ کو ایک تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے نیچے پیوست ہو گیا۔ راوی آپ کی جنگ کی حالت کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ عمامہ باندھے، وسمہ لگائے ہوئے پیدل اس طرح قتال کر رہے تھے، جنگ کر رہے تھے جیسے کوئی غضب کا شہسوار تیروں سے بچتے ہوئے حملہ کرتا ہے۔ مَیں نے شہادت سے قبل آپؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! میرے بعد بندگانِ خدا میں سے تم کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کرو گے جس کے قتل پر میرے قتل سے زیادہ خدا تم سے ناراض ہو۔ واللہ مجھے تو یہ امید ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کر کے مجھ پر کرم کرے گا۔ پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران ہو جاؤ گے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان جنگ کے سامان پیدا کر دے گا اور تمہارا خون بہایا جائے گا اور اللہ اس پر بھی راضی نہیں ہو گا یہاں تک کہ تمہارے لیے عذابِ الیم کو کئی گنا بڑھا دے۔یہ مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آپؑ کو شہید کرنے کے بعد کس طرح سلوک کیا؟ کوفیوں نے خیموں کو لوٹنا شروع کر دیاحتیٰ کہ عورتوں کے سروں سے چادریں تک اتارنا شروع کر دیں۔ عمرو بن سعدنے منادی کی کہ کون کون اپنے گھوڑوں سے حضرت امام حسین کو پامال کرے گا؟ یہ سن کر دس سوار نکلے جنہوں نے اپنے گھوڑوں سے آپؓ کی نعش کو پامال کیایہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چُور چُور کر دیا۔ اس لڑائی میں حضرت امام حسینؓ کے جسم پر تیروں کے 45زخم تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق تینتیس زخم نیزے کے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے۔ اور پھر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ حضرت امام حسینؓ کا سر کاٹ کر، جسم سے علیحدہ کر کے اگلے روز عبید اللہ بن زیاد گورنر کوفہ کے پاس بھیجا گیا اور گورنر نے حضرت امام حسینؓ کا سر کوفہ میں نصب کر دیا۔ اس کے بعد زہر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا۔ (ماخوذ از تاریخ الطبری جلد ۶صفحہ ۲۴۳- ۲۵۰ خلافۃ یزید بن معاویہ۔ دارالفکر بیروت ۲۰۰۲ء) (ماخوذ ازتاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ صفحہ ۵۱- ۷۸ نفیس اکیڈمی کراچی،ایڈیشن ۱۹۹۸ء)تو یہ سلوک تھا جو آپؓ کے شہید کرنے کے بعد آپؓ کی نعش سے کیا گیا۔ اس سے ظالمانہ سلوک اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کی لاش کو کُچلا گیا۔ سر تن سے جدا کیا گیا۔ اس طرح لاش کی بے حرمتی شائد ہی کوئی خبیث ترین دشمن کسی دوسرے دشمن کی کر سکتا ہو، نہ کہ ایک کلمہ پڑھنے والا، اپنے آپ کو اس رسول سے منسوب کرنے والا جس نے انسانی قدروں کے قائم رکھنے کی اپنے ماننے والوں کو بڑی سختی سے تلقین فرمائی ہے۔ پس یقیناً اس عمل سے ایسا فعل کرنے والوں کی ہوس باطنی کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ لوگ دنیا دار تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تمام حدیں پھلانگ سکتے تھے اور انہوں نے پھلانگیں۔ دین سے اُن کا ذرہ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی دنیا داری کو ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس کر کے یزید کی بیعت سے انکار کیا تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت امام حسینؓ نے پسندنہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ580مطبوعہ ربوہ)پھر فرمایا ’’یزید پلید کی بیعت پر اکثر لوگوں کا اجماع ہو گیا تھا مگر امام حسین نے اور ان کی جماعت نے ایسے اجماع کو قبول نہیں کیا اور اس سے باہر رہے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۷۸،خط بنام مولوی عبد الجبار مطبوعہ ربوہ)لیکن بیعت نہ کرنے کے باوجود حضرت امام حسین نے صلح کی کوشش کی تھی اور جب آپ ؓنے دیکھا کہ مسلمانوں کا خون بہنے کا خطرہ ہے تو اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا۔ انہوں نے کہا تم جو جا سکتے ہو مجھے چھوڑ کر جاؤ۔ اب یہ اور حالات ہیں۔ جو چند ایک آپ کے ساتھ رہنے پر مصر تھے وہ تقریباً تیس چالیس کے قریب تھے یا آپؓ کے خاندان کے افراد تھے جو ساتھ رہے۔ پھر آپؓ نے یزید کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ مَیں جنگ نہیں چاہتا۔ مجھے واپس جانے دو تا کہ میں جا کر اللہ کی عبادت کروں۔ یا کسی سرحد کی طرف جانے دو تا کہ میں اسلام کی خاطر لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔ یا پھر مجھے اسی طرح یزید کے پاس لے جاؤ تا کہ مَیں اسے سمجھا سکوں کہ کیا حقیقت ہے۔ لیکن نمائندوں نے کوئی بات نہ مانی۔ (تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ جلد ۲ صفحہ ۶۸ نفیس اکیڈمی کراچی ایڈیشن ۱۹۹۸ء)آخر جب جنگ ٹھونسی گئی تو پھر اس کے سوا آپؓ کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں تھا کہ مردِ میدان کی طرح مقابلہ کرتے۔ بہر حال یہ لوگ معمولی تعداد میں تھے جیسا کہ مَیں نے کہا، کل ستّر بہتّر افراد تھے اور ان کے مقابلے پر ایک بہت بڑی فوج تھی۔ یہ کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے تھے؟ بہر حال انہوں نے ایک صحیح مقصد کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے، اپنی جانیں قربان کر دیں اور ایک ایک کر کے شہید ہوتے گئے۔اللہ تعالیٰ کے بدلے لینے کے بھی اپنے طریقے ہیں جیسا کہ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ میرا انتقام لے گا، اللہ تعالیٰ نے لیا۔ یزید کو عارضی کامیابی بظاہر حاصل ہوئی لیکن کیا آج کوئی یزید کو اس کی نیک نامی کی وجہ سے یاد رکھتا ہے؟ اگر نیک نامی کی وجہ سے جانا جاتا تو مسلمان اپنے نام بھی اس کے نام پر رکھتے لیکن آج کل کوئی اپنے بچے کا نام یزیدنہیں رکھتا۔ وہ اگر جانا جاتا ہے تو اس نام سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعمال فرمایا کہ ’’یزید پلید‘‘ (خطبہ جمعہ؍۱۰دسمبر۲۰۱۰ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍دسمبر۲۰۱۰ء)محرم میں کثرت سے درودشریف پڑھیںحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےمحرم کےایّام میں درُود پڑھنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:’’محرم کےدن شروع ہوچکےہیں اوراس عرصےمیں آنحضرت ﷺاورآپؐ کی آل پرکثرت سےدرودپڑھناچاہیے۔مسلسل درود پڑھناتوانسان کی فطرت ثانیہ ہوجاناچاہیےمگرمحرم کےدردناک ایّام کےتصورسےدرُودمیں زیادہ دردپیداہوجاتاہے۔پس اس بات کونہ بھولیں۔سفرمیں،حضرمیں،جب توفیق ملے،جب ذہن اس طرف فارغ ہو جائےیعنی درودپڑھنے کےلیے مرکوزہوسکےاس وقت دل کی گہرائی سےاورمحرم کےتصورسےدل کےدردکےساتھ آنحضرت ﷺ اورآپؐ کی آل پردرود بھیجاکریں۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل۱۰؍دسمبر۲۰۱۰ء)حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ محرم کےمہینہ میں درودشریف پڑھنےکی طرف توجہ دلاتےہوئے فرماتے ہیں :’’ہمیں عموماً درود کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اس مہینے میں خاص طور پر اس طرف توجہ رکھنی چاہیے۔ جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی اس کی خاص تحریک فرمائی تھی تو میں بھی اس کا اعادہ کرتے ہوئے یاددہانی کرواتا ہوں کہ اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کاسب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لیے ہو سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے۔ اور اس زمانے میں آپ ؐکے عاشقِ صادق مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقاصد کی تکمیل میں بھی یہ درود بے انتہا برکتوں کے سامان لے کر آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دنوں میں خاص طور پر درود پڑھنے کی، زیادہ سے زیادہ درود پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۰ء،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳۱؍دسمبر۲۰۱۰ء) مزید پڑھیں:محرم میں شور اور شغب